Dure-Mansoor - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا آپ نے یہ خیال کیا ہے کہ کہف اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب چیز تھے
1:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الکھف “ سے مراد ہے وہ غار جو وادی میں ہوتی ہے۔ 2:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” والرقیم “ سے مراد ہے۔ 3:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” والرقیم “ ایک وادی ہے جو فلسطین اور ایلہ کے قریب ہے۔ 4:۔ ابن جریر نے ابن جریج کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ رقیم کیا ہے کتاب ہے یا عمارت ہے۔ رقیم کی مختلف تفسیریں : 5:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” والرقیم “ کے بارے میں ان میں بعض کہتے ہیں کہ یہ دو کتاب ہے جس میں ان کا واقعہ بیان ہوا اور بعض ان میں سے کہتے ہیں کہ یہ ایک وادی ہے۔ 6:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے ابوصالح (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” والرقیم “ ایک لکھی ہوئی تختی ہے۔ 7:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” والرقیم “ پتھر کی ایک تختی ہے کہ جس میں اصحاب کہف کا واقعہ اور ان کا معاملہ لکھا ہوا ہے اس کو غار کے دروازہ پر رکھ دیا گیا۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” والرقیم “ سے مراد ہے کہ جب ان کے نام ایک پتھر میں لکھے گئے بادشاہ نے اس میں ان کے نام لکھوائے تھے کہ یہ ریبوس بادشاہ کے زمانہ میں فوت ہوئے تھے پھر اس تختی کو شہر کی دیوار میں دروازہ پر لگا دیا جو شخص اس میں داخل ہوتا ہا باہر نکلتا اس کو پڑھتا (آیت) ” اصحب الکہف والرقیم “ سے یہی مراد ہے۔ 9:۔ سعید بن منصور، عبدالرزاق، فریابی، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور زجاجی نے امالی میں اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نہیں جانتا کہ رقیم کیا ہے ؟ اور میں نے کعب ؓ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ بستی کا نام ہے جس سے وہ نکلے تھے۔ 10:۔ عبدالرزاق نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سارے قرآن کو میں جانتا ہوں مگر چار کلمات کو نہیں جانتا غسلین حنانا لاواہ اور رقیم۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” والرقیم “ سے مراد ہے کتا۔ 12:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” ام حسبت ان اصحب الکہف والرقیم، کانوا من ایتنا عجبا “ کے بارے میں فرمایا کہ جو ہم نے آپ کو علم سنت اور کتاب دی ہے وہ افضل ہے اصحاب الکہف والرقیم کی شان ہے۔ 13:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ام حسبت ان اصحب الکہف والرقیم، کانوا من ایتنا عجبا “ یعنی وہ ان کو تعجب خیز نشانیوں میں سے سمجھتے تھے (حالانکہ) وہ تعجب خیز نشانیاں میں سے نہیں ہے۔ 14:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ام حسبت ان اصحب الکہف والرقیم، کانوا من ایتنا عجبا “ کہ وہ ہماری عجیب نشانیاں نہیں ہیں وہ تو بادشاہوں کے بیٹے تھے۔ 15:۔ ابن ابی حاتم نے ابوجعفر (رح) سے روایت کیا کہ اصحاب کہف نقدی کی تجارت کرنے والے لوگ تھے۔ اصحاب رقیم کی تفصیل : 16:۔ عبدبن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، اور ابن مردویہ نے نعمان بن بشیر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اصحاب الرقیم کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا کہ تین آدمی غار میں داخل ہوئے پہاڑ پر سے ایک پتھر غار پر واقع ہوا اور ان پر غار (کے منہ) کو بند کردیا ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ ہر ایک تم میں اپنے نیک عمل کو یاد کرے شاید اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائیں ان میں سے ایک نے کہا ہاں میں نے ایک مرتبہ نیکی کی تھی میرے بہت سے مزدور تھے میں نے ان کو اپنے کام کے لئے اجرت پر لیا تھا ان میں سے ہر ایک کی اجرت معلوم تھی ایک دن ایک آدمی میرے پاس آیا اور وہ آدھے دن میں آیا میں نے اسے باقی دن کی اجرت پر رکھ لیا اور بقیہ دن کی جو مزدوری دوسرے کام کرنے والے کو ملے گی اس کو بھی اتنی ہی ملے گی باقی افراد کو پورا دن کام کرنا تھا سوچا میں جتنی اجرت دوسرے پورا دن کام کرنے والوں کو دوں گا اس کے لئے میں اس میں سے کمی نہیں کروں گا پورا دن کام کرنے والوں میں سے ایک نے کہا تو اس کو بھی میری مثل دے رہا ہے حالانکہ اس نے آدھا دن کام کیا ہے میں نے اس سے کہا میں نے جو تیرے ساتھ شرط کر رکھی تھی اس میں کوئی کمی نہیں کروں گا میرا اپنا مال ہے جیسے چاہوں تصرف کروں وہ آدمی غصہ ہوگیا اور اپنی اجرت چھوڑ کر چلا گیا جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے اس کا حق گھرکے ایک جانب میں رکھ دیا جیسا اللہ نے چاہا پھر میرے پاس گائے ایک ریوڑ گذرا میں اس کے لئے گائے کے مادہ بچے کو خرید کرلیا یہاں تک (اس کا مال بڑھتے بڑھتے) پہنچ گیا جو اللہ نے چاہا پھر وہ آدمی ایک مدت کے بعد میرے پاس آیا اور وہ ایک کمزور بوڑھا آدمی تھا اور میں نے اس کو نہیں پہچانا اس نے مجھ سے کہا تیرے پاس میرا حق ہے وہ مجھے یاد دلاتا رہا یہاں تک کہ میں نے اس کو پہچان لیا میں نے اس کو کہا ہاں (تیرا حق موجود ہے) میں تیری تلاش میں تھا میں نے اس کو وہ سارا مال پیش کردیا جو اللہ تعالیٰ نے ان گائیوں میں پیدا کیا تھا میں نے اس سے کہا یہ گائیں (سارا) تیرا حق ہے اس نے مجھ سے کہا اے اللہ کے بندے میرے ساتھ مذاق نہ کر مجھ پر صدقہ نہ کر مجھے میرا حق دے دے میں نے اللہ کی قسم میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا یہ (سارا) تیرا حق ہے میں نے (سارا مال) اس کے حوالے کردیا اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں (اپنی بات میں) سچا ہوں اور میں نے یہ کام تیری ذات کے لئے کیا ہے تو ہم سے یہ پتھر ہٹادے پس پتھر تھوڑا سا کھل گیا یہاں تک کہ انہوں نے روشنی دیکھ لی اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے دوسرے آدمی نے کہا میں نے بھی ایک مرتبہ ایک نیک کام کیا میرے پاس اضافی مال تھا لوگوں کو شدت اور سختی کا سامنا ہوا ایک عورت میرے پاس آئی اس نے مجھ سے نیکی اور خیرات کا سوال کیا میں نے کہا اللہ کی قسم میں تجھ سے نیکی جب کروں گا جب تو اپنے آپ کو میرے حوالے کردے اس نے انکار کردیا پھر وہ دوبارہ لوٹ کر آئی اور مجھ کو اللہ کا واسطہ دیا میں نے انکار کردیا اور میں نے کہا تم اپنے آپ کو میرے حوالے کردو تو مال ملے گا ورنہ نہیں اس نے میری خواہش پوری کرنے سے انکار کردیا اور یہ بات اس نے اپنے خاوند سے کا کر کہی تو اس نے کہا اپنے آپ کو اس کے حوالے کردو اور اپنے بچوں کی مدد کر عورت آئی اور اپنے آپ کو میرے سپرد کردیا جب میں نے اس کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کیا کہنے لگی میں اس اللہ تعالیٰ سے ڈرتی ہوں جو سارے جہان والوں کا رب ہے میں نے اس سے کہا تو اس بھوک اور شدت کے عالم میں بھی اس سے ڈرتی ہے اور میں خوش حالی میں اس سے نہیں ڈرتا ؟ اور میں نے اس عورت کو اتنا مال دیا جو اس کو اور اس کی اولاد کو کافی تھا (اور میں بدکاری سے باز آگیا) اے اللہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لئے کیا تھا تو ہم سے یہ پتھر ہٹادے پس پتھر ہٹ گیا یہاں تک کہ انہوں نے روشنی دیکھ لی اور راستہ کھلنے کا یقین ہوگیا۔ پھر تیسرے نے کہا میں نے ایک مرتبہ نیک کام کیا تھا میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میرے پاس بکریاں تھیں میں ان کو چراتا تھا اپنی بکریوں اور والدین کے درمیان آتا جاتا رہتا تھا میں ان کو دودھ پلاتا اور سیر کراتا تھا اور اپنی بکریوں کی طرف لوٹ جاتا تھا ایک دن سخت بارش ہوئی تو میں رک گیا اور دیر سے واپس آیا میں اپنے گھروالوں کے پاس آیا میں اپنے کمرے میں داخل ہوا یہاں تک کہ میں نے اپنی بکریوں کا دودھ دوہا پھر اپنے والدین کی طرف گیا تاکہ ان کو دودھ پلاوں میں نے ان کو پایا کہ وہ سوچکے تھے مجھے ان کو بیدار کرنا اچھا نہ لگا اور یہ بھی مجھ کو اچھا نہ لگا کہ میں اپنی بکریوں کو اکیلا چھوڑ دوں میں اپنے ہاتھ میں دودھ لے برابر بیٹھا رہا یہاں تک کہ صبح کو وہ جاگے تو میں نے ان کو دودھ پلایا اے اللہ اگر میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لئے کیا ہے تو اس پتھر کو ہم سے ہٹا دے تو اللہ نے ان سے اس پتھر کو ہٹا اور وہ (وہاں) سے نکل کر اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹ گیا۔ عمل میں اخلاص کی برکت : 17:۔ احمد اور ابن منذر نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گذشتہ لوگوں میں تین آدمی تھے تو اپنے گھر والوں کے خوراک طلب کرتے تھے راستے میں بارش آگئی وہ ایک غار میں داخلہ ہوگئے ان پر ایک (بڑا) پتھر گرپڑا غار کا منہ بند ہوگیا یہاں تک کہ کہ انکو کچھ دکھائی نہ دیتا تھا ان میں سے بعض نے کہا پتھر بڑا ہے قدم کے نشان مٹ گئے ہیں اور ہمارے اس جگہ ہونے کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اللہ تعالیٰ سے اپنے کسی نیک کام کے ذریعہ دعا کرو ان میں سے ایک آدمی نے کہا اے اللہ تو جانتا ہے میرے والدین تھے میں ایک برتن میں ان کے لئے دودھ دوہ کر لاتا تھا جب میں ان کو سویا ہوا پاتا تھا تو میں ان کے سرہانے کھڑا رہتا تھا میں اس بات کو ناپسند کرتا تھا کہ میں ان کو نیند سے بیدار کرو یہاں تک کہ وہ خود جب چاہتے بیدار ہوجاتے اے اللہ۔ آپ جانتے ہیں کہ میں یہ کام تیری رحمت کی امید میں کیا تھا اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے کیا تھا اس پتھر کو ہم سے ہٹا دے تو ایک تہائی پتھر ہٹ گیا دوسرے نے کہا اے اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور کو ایک کام پر اجرت پر رکھا تھا وہ میرے پاس آیا اور اپنی اجرت طلب کررہا تھا میں (اس وقت) غصہ میں تھا میں نے اس کو جھڑک دیا وہ چلا گیا اور اپنی مزدوری چھوڑ گیا میں نے ( اس کی مزدوری) کو جمع رکھا اور اس کی تجارت کی یہاں تک کہ بہت سارا مال بن گیا (بعد مدت) وہ میرے پاس آیا اور اپنی مزدوری طلب کی میں نے اس کو سارا (مال) دے دیا اگر میں چاہتا تو اس کو پہلی والی مزدوری (جو طے تھے) اس کو دے دیتا اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رحمت کی امید اور تیرے عذاب کے خوف سے کیا تھا اس پتھر کو ہم سے ہٹا دے تو دوتہائی پتھر ہٹ گیا تیسرے نے کہا اے اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے کہ مجھے ایک عورت خوش (اچھی) لگی تو میں نے اس کے لئے پیسے مقرر کئے (تاکہ اس سے برا کام کروں) جب میں اس پر قادر ہوگیا (تو میں نے بدکاری نہ کی) اسے چھوڑ دیا (برے کام سے باز آگیا) اور اس کے مقرر کردہ پیسے میں نے اس کو دے دیئے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رحمت کی امید اور تیرے عذاب کے خوف سے کیا اس پتھر کو ہم سے ہٹا دے تو پتھر ہٹ گیا اور وہ باہر نکل آئے۔ 18۔ بخاری، مسلم اور ابن منذر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے لوگوں میں سے تین آدمی چل رہے تھے اچانک ان کو بارش پہنچی تو انہوں نے ایک غار میں ٹھکانہ پکڑا وہ غاران پر بند بند ہوگئی انہوں نے ایک دوسرے سے کہا اللہ کی قسم تم نجات نہیں پاسکتے مگر سچائی کے ساتھ ہر ایک آدمی تم میں سے دعا کرے اس عمل کے ساتھ جس میں اسے یقین ہو کہ وہ اس میں سچا ہے ان میں سے ایک آدمی نے کہا اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرا مزدور تھا جو ایک فرق (پیمانہ) چاول کے بدلے مزدوری کرتا تھا وہ چلا گیا اور اپنی مزدوری چھوڑ گیا میں نے اس فرق (چاول) کو کاشت کیا اس کی (قیمت) سے ایک گائے خریدلی (پھر عرصہ دراز کے بعد) وہ میرے پاس اپنی مزدوری لینے آیا میں نے اس سے کہا یہ تمام گائیں لے جاو اس نے مجھ سے کہا تیرے پاس میرا ایک فرق چاول ہے میں نے اس سے کہا یہ تمام گائیں لے جاؤ کیونکہ یہ تمام ایک فرق چاول سے بڑھی ہیں پس وہ تمام لے گیا (اے اللہ) تو جانتا ہے کہ میں یہ کام تیرے ڈر سے کیا ہم اس پتھر کو کھول دے تو ان سے تھوڑا ساپتھر دور ہوگیا، دوسرے نے کہا اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے بوڑھے ماں باپ تھے میں ہر رات ان کے پاس انکے پاس اپنی بکری کا دودھ لایا کرتا تھا ایک رات میں نے دیر لگائی میں آیا تو وہ سو چکے تھے اور میرے بچے بھوک سے بلکتے رہے (لیکن) میں نے ان کو (دودھ) نہ پلایا تھا جب تک میرے والدین نہ پی لیتے تھے میں نے ان کو جگانا ناپسند کیا تو میں انکے انتظار میں کھڑا رہا یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی (اے اللہ) تو یہ جانتا ہے میں نے یہ کام ڈر سے کیا تو ہم سے اس پتھر کو ہٹا دے تو پتھر تھوڑا سا اور ہٹ گیا یہاں تک کہ انہوں نے آسمان کی طرف دیکھ لیا تیسرے نے کہا اے اللہ تو جانتا ہے میری ایک چچا کی بیٹی تھی جو مجھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبوب تھی میں نے اسے مطلب براری کے لئے کہا کہ میں تجھے سودینار دوں گا میں نے اس کو طلب کیا یہاں تک میں (اس پر) قادر ہوگیا میں اس کے پاس آیا اور میں نے اس کو سو دینار دے دیئے تو اس نے مجھے اپنی جان پر قابو دے دیا جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو اس نے کہا اللہ سے ڈر اور میری مہر نہ توڑ مگر اس کے حق کے ساتھ (یعنی نکاح کے ساتھ) میں کھڑا ہوگیا اور میں نے سو دینار بھی اس کو دیئے گئے (اے اللہ) آپ جانتے ہیں کہ میں نے یہ کام تیرے ڈر سے کیا تو ہم سے اس پتھر کو ہٹا دے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے راستہ کھول دیا اور وہ باہر نکل آئے۔ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں ابن عباس ؓ کی حدیث سے اسی طرح روایت کیا۔ 19:۔ ابن ابی شیبہ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہم معاویہ ؓ کے ساتھ روم کی طرف مضیق کے غزوہ میں شریک ہوئے ہم اس غار کے پاس سے گذرے جس میں اصحاب کہف تھے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے معاویہ ؓ نے فرمایا کاش ہمارے لئے ان کا انکشاف ہوجاتا تو ہم ان کی طرف دیکھ لیتے ابن عباس ؓ نے ان سے فرمایا یہ آپ کے لئے ایسا نہیں ہوگا اس سے اللہ تعالیٰ نے اسے بھی روک دیا تھا ان لوگوں میں سے جو آپ سے بہتر تھے اور (اللہ تعالیٰ ) نے فرمایا (آیت) ” لواطلعت علیہم لولیت منہم فرارا ولملئت منہم رعبا “ معاویہ ؓ نے فرمایا میں باز نہیں آوں گا یہاں تک کہ میں اس کے متعلق جان لوں گا انہوں نے ان پر ہوا بھیج دی جس نے ان کو نکال دیا یہ بات ابن عباس ؓ کو پہنچی تو آپ نے ان کے متعلق بیان فرمایا کہ وہ لوگ ایک ایسے ملک میں تھے جس کا بادشاہ کافر جابر تھا اور بتوں کی عبادت کرتا تھا اور لوگوں کو بھی اس نے ان کی عبادت پر مجبور کر رکھا تھا اور یہ نوجوان شہر میں (رہتے) تھے جب انہوں نے بادشاہ کی طرف سے سختی دیکھی تو یہ اس شہر سے نکل گئے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی جگہ پر جمع کردیا جو مقرر نہ تھی ان کے بعض نے بعض سے کہنا شروع کیا تم کہاں کا ارادہ رکھتے ہو اور تم کہاں جا رہے ہو انہوں نے یہ بات ایک دوسرے سے چھپانا چاہی کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ دوسرا کس مقصد کے لئے باہر نکلا ہے پھر انہوں نے آپس میں پکا وعدہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کو خبر دیں گے (کہ وہ کس بات پر نکلے ہیں) اگر وہ ایک بات پر جمع ہوگئے (تو ٹھیک ہے) ورنہ وہ ایک دوسرے سے (اپنی بات) کو چھپائے رکھیں گے یہ سب ایک بات پر جمع ہوگئے اسی کو فرمایا ” فقالوا ربنا رب السموت والارض “ سے لے کر ” مرفقا تک (یہ سب نوجوان ایک جگہ) بیٹھ گئے اور ان کے گھر والے ان کو تلاش کر رہے تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ لوگ کہاں چلے گئے (گھر والے) ان کا معاملہ بادشاہ کی طرف لے گئے اور کہا البتہ ایک دن یہ نوجوان اپنی قوم کے لئے عزت وشان والے ہونگے کچھ لوگ ( ان کی تلاش) میں نکلے وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ (نوجوان) کہاں چلے گئے بادشاہ نے تانبے کی ایک تختی منگوائی اور اس میں ان کے نام لکھے اور پھر اس کو اپنے خزانہ میں ڈال دیا ان کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے ” ام حسبت ان اصحب الکھف والرقیم “ اور رقیم وہ تختی ہے جس پر ان کے نام نکلے یہ نوجوان چلے یہاں تک کہ ایک غار میں داخل ہوگئے اللہ تعالیٰ نے ان کے کانوں پر مہر لگا دی (یعنی بند کردیئے) اور ان کو سلا دیا اگر سورج ان پر طلوع ہوتا تو ان کو جلا دیتا اگر ان کی کروٹیں نہ بدلیں جاتیں تو ان کو زمین کھا جاتی اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت) ” وتری الشمس “ (الایہ) پھر بادشاہ چلا گیا اور دوسرا بادشاہ آیا جس نے اللہ کی عبادت کی اور بتوں کو چھوڑ دیا اور لوگوں میں انصاف (قائم) کیا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو بیدار کردیا جب ارادہ فرمایا (اسی کو فرمایا) (آیت) ” وقال قائل منھم کم لبستم “ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا تم یہاں کتنی مدت ٹھرے ایک کہنے والے نے کہا ایک دن اور بعض نے کہا دو دن اور بعض نے ان سے زیادہ کہا ان کے بڑے نے کہا اختلاف نہ کرو کیونکہ جو قوم اختلاف کرتی ہے وہ ہلاک ہوجاتی ہے انہوں نے اس میں سے ایک کو ایک سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجا اس نے (لوگوں کی) شکل و صورت کو دیکھا تو نہ پہچانا اور عمارتوں کو دیکھاتو نہ پہچانا پھر ایک روٹی پکانے والے کے قریب ہوا اس کو ایک درھم دیا اور ان کے دراھم اونٹنی کے بچے کی شکل کے بنے ہوے تھے روٹی پکانے والے نے درھم کو نہ پہچانا اور کہا یہ درھم تجھے کہاں سے ملاتو نے کوئی خزانہ پایا ہے مجھے بھی اس کے بارے میں بتادو یا میں تجھ کو بادشاہ کی طرف لے جاوں گا اس نے کہا کیا تو مجھ کو امیر سے ڈراتا ہے وہ روٹی پکانے والا اس کو امیر کے پاس لے آیا اس نے پوچھا تیرا باپ کون ہے ؟ اس نے کہا فلاں وہ اسے پہچان نہ سکا امیر نے پوچھا کس بادشاہ کے دور کا ہے اس نے کہا فلاں وہ بادشاہ کو بھی نہ پہچان سکا ان پر لوگ جمع ہوگئے اپنے عالم کی طرف اس کو لے گئے اس نے اس سے سوال کیا اس نے وہی جواب دئیے امیر نے کہا میرے پاس ایک تختی ہے اس کو لے آئے اس نے اپنے ساتھیوں کے نام لیے فلاں اور فلاں اور وہ تختی میں لکھے ہوئے تھے بادشاہ نے ان لوگوں سے کہا اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے بھائیوں کے بارے میں بتادیا ہے چلو اور سوار ہو جاویہاں تک یہ لوگ غار کی طرف آگئے جب غار کے قریب ہوئے تو اس نوجوان نے کہا ٹھہر جاؤ یہاں تک کے میں اپنے ساتھیوں کے پاس جاتا ہوں تم لوگ ہجوم نہ کرو کہ وہ لوگ تم سے ڈر جائیں گے اور وہ نہیں جانتے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول فرمالی ہے لوگوں نے کہا ہمارے پاس باہر آجاؤ گے نوجوان نے کہا ہاں اگر اللہ نے چاہا وہ اندر داخل ہوا ان لوگوں نے نہ جانا کہ وہ کہاں گیا وہ ان سے گم ہوگیا لوگوں نے اسے تلاش کرنے کی پوری کوشش کی اور لوگوں کو (تلاش کے لئے) ابھارا مگر ان پر داخل ہونے پر قادر نہ ہو سکے (آیت) ” فقال لنتخذن علیھم مسجدا “ تو انہوں نے ان پر مسجد بنوائی لوگ ان پر رحمت کی دعا کرتے تھے اور ان کے لئے استغفار کرتے تھے۔ شہزادوں کا اسلام قبول کرنا : 20:۔ عبدالرزاق اور ابن حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ اصحاب کہف بادشاہوں کے بیٹے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام کی دولت سے نوازا انہوں نے اپنے دین کے ساتھ پناہ لی اور اپنی قوم کو چھوڑا یہاں تک کہ غار پر پہنچ گئے اللہ تعالیٰ نے ان کے کان سننے سے بند کر دئیے وہ ایک طویل زمانہ تک (غار میں) رہے یہاں تک کے ان کی امت ہلاک ہوگئی اور مسلمان امت آگئی اور ان کا بادشاہ مسلمان تھا انہوں نے روح اور جسم کے بارے میں اختلاف کیا اور ایک کہنے والے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ روح اور جسم کو اکٹھے اٹھائیں گے اور ایک کہنے والے نے کہا روح کو اٹھایا جائے گا اور جسم کو زمین کھا جاتی ہے ان کا اختلاف ان کے بادشاہ پر بہت بھاری گزرا اس نے ٹاٹ کا لباس پہن لیا اور ریت پر بیٹھ گیا پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا اے میرے رب آپ نے ان لوگوں کا اختلاف دیکھ لیا ان کے لئے کوئی نشانی بھیج دیجئے جو ان کو مسئلہ واضح کر دے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اصحاب کہف کو اٹھایا اصحاب کہف نے اپنے ایک ساتھی کو بھیجا تاکہ وہ ان کے لئے دوپہر کا کھانا لے آئے وہ بازار میں داخل ہوا جب اس نے اجنبی چہروں کو دیکھا اور پہجاننے لگا راستوں کو اور ایمان کو شہر میں غالب دیکھا وہ خوف کرتے ہوے چل رہا تھا یہاں تک کہ وہ ایک آدمی کے پاس آیا تاکہ اس سے کھانا خریدے جب اس آدمی نے سکہ دیکھا تو اس کو بڑا عجیب لگا میرا گمان ہے کہ اس نے یوں کہا گویا کہ وہ چھوٹا اونٹ ہے نوجوان نے کہا کیا تمہارا فلاں بادشاہ نہیں ہے اس آدمی نے کہا بلکہ ہمارا بادشاہ فلاں ہے یہ معاملہ پھیلتے پھیلتے بادشاہ تک پہنچ گیا اس نے لوگوں کو بلایا اور اکٹھا کیا پھر بادشاہ نے کہا تم نے روح اور جسم کے بارے میں اختلاف کیا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک نشانی بھیج دی ہے یہ آدمی فلاں قوم میں سے ہے ان کا بادشاہ تھا جو پہلے گزر چکا اس نوجوان نے کہا میرے ساتھ میرے ساتھیوں کے پاس چلوبادشاہ سوار ہوا اور اس کے ساتھ لوگ بھی سوار ہوئے یہاں تک کہ ہو غار تک پہنچ گئے نوجوان نے کہا مجھے چھوڑ دو یہاں تک میں اپنے ساتھیوں کے پاس جاتا ہوں جب انہوں نے اس کو دیکھا اور اس نے ان کو دیکھا تو ان کے کانوں پر مہر لگا دی گئی (یعنی سننے سے بند کر دئیے گئے) جب انہوں نے باہر آنے میں دیر لگائی تو بادشاہ غار میں داخل ہوا اور لوگ بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے اچانک وہ جسم تروتازہ پڑے ہوئے تھے لیکن ان میں روح نہیں تھی بادشاہ نے کہا یہ نشانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجی ہے حضرت عباس ؓ نے حبیب بن مسلم کے ساتھ ایک جنگ میں شرکت کی یہ لوگ غار سے گذرے تو اس میں صرف ہڈیاں تھیں ایک آدمی نے کہا یہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ہیں ابن عباس ؓ نے فرمایا ان کی ہڈیوں کو تین سو سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے۔ 21:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اصحاب کہف اپنے شہر کے بڑے اور رئیس لوگوں کے بیٹے تھے وہ باہر نکلے اور ایک غیر مقررہ جگہ پر ٹھہرے اور جمع ہوئے ان میں سے ایک آدمی نے کہا وہ ان کے مشابہ تھا بلاشبہ میں اپنے دل میں ایک چیز کو پاتا ہوں دوسرے ساتھیوں نے پوچھا تو کیا پاتا ہے ؟ اس نوجوان نے کہا میں اپنے دل میں پاتا ہوں کہ میرا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے وہ سب کھڑے ہوئے اور کہا (آیت) ” فقالوا ربنا اللہ رب السموت والارض لن ندعوا من دونہ الھا لقد قلنا اذا شططا “ تو انہوں نے (اعلانیہ) طور پر یہ) یہ کہہ دیا ہمارا رب وہ ہے جو رب ہے آسمانوں اور زمین کا ہم ہرگز نہیں پکاریں گے اس کے سوا کسی کو اور کو اگر ہم ایسا کریں گے تو گویا ہم نے ایسی بات کہی جو حق سے دور ہے ان نوجوانوں کا واقعہ قرآن نے ذکر کیا ان سب نے اتفاق کرلیا کہ وہ غار میں داخل ہوں گے اس وقت ان کے شہر کا حکمران ایک جابر و ظالم آدمی تھا جس کو دقیوس کہا جاتا تھا اس کی حکومت تھی وہ لوگ غار میں جب تک اللہ نے چاہا سوتے رہے پھر اللہ نے ان کو اٹھادیا اور انہوں نے اپنے ایک آدمی کو بھیجا تاکہ وہ ان کے لئے کھانا خرید کرلے آئے جب وہ نکلا تو اچانک غار کے دروازہ پر ایک باڑ تھی اس نے کہا یہ یہاں کل شام کے وقت نہیں تھی اس نے مسلمانوں کے کلام میں سے ذکر الہی کو سنا اور لوگ ان کے بعد اسلام لے آئے اور ان پر ایک نیک آدمی بادشاہ تھا نوجوان نے گمان کیا کہ وہ راستہ بھول گیا اس نے شہر کو دیکھنا شروع کیا جس سے وہ نکلا تھا اور اس نے ان دو اور شہروں کو دیکھا جو اس کے سامنے تھے ان کے نام یہ تھے اقسوس ایدیوس شاموس وہ کہنے لگا کہ میں راستہ نہیں بھولا یہ شہر تو وہی ہے اقسوس ایدیوس اور شاموس ہے وہ اپنے شہر کی طرف گیا جس سے وہ نکلا تھا یہاں تک کہ وہ بازار آیا اور ایک آدمی کے ہاتھ میں وہ سکہ رکھ دیا اس نے دیکھا وہ سکہ لوگوں کے درمیان مروج سکہ نہیں تھا وہ اس کو بادشاہ کے پاس لے گئے اور وہ ڈرا ہوا تھا بادشاہ نے پوچھا اور کہا شاید ان جوانوں میں جو نکلے تھے دقیوس کے زمانہ میں بلاشبہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتا تھا کہ وہ ان کو دکھادے اور مجھ کو ان کی جگہ بتادے بادشاہ نے اس شہر کے بزرگ لوگوں کو بلایا تو ایک آدمی ان میں سے ایسا تھا کہ اس کے پاس ان کے نام اور ان کے نسب لکھے ہوئے تھے بادشاہ نے ان سے نام اور نسب پوچھے تو انہوں نے بتا دئیے پھر نوجوان کے ساتھ چلے تاکہ یہ ان کے اپنے ساتھیوں پر ان کی رہنمائی کردے یہاں تک کہ جب لوگ غار کے قریب ہوئے تو نوجوانوں نے ان لوگوں کی آہٹ کو سن لیا انہوں نے کہا لوگ آرہے ہیں اور ہمارے ساتھی کو شاید پکڑ لیا گیا ہے وہ نوجوان ایک دوسرے کے گلے ملے اور ایک دوسرے کو اپنے دین پر پکا رہنے کی وصیت کرنے لگا جب یہ نوجوان ان سے قریب ہوا تو انہوں نے اس کو (اندر) بھیج دیا جب یہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا وہ سب اس وقت حق کی موت مرچکے تھے جب بادشاہ نے ان کو مردہ حالت میں دیکھا اس کو بہت افسوس ہوا کہ وہ ان کو زندہ حالت میں نہ دیکھ سکا بادشاہ نے کہا میں ان کو دفن نہیں کروں گا میرے پاس سونے کے صندوق لے آؤ تو ان میں سے ایک بادشاہ کے خواب میں آیا اور کہا تو نے ارادہ کیا ہے کہ ہم کو سونے کے صندوق میں ڈال دے ایسا نہ کر اور ہم کو ہماری غار میں چھوڑ دے کہ ہم مٹی سے پیدا ہوئے اور مٹی میں ہم نے لوٹنا ہے تو بادشاہ نے ان کو ان کی غار میں چھوڑ دیا اور ان کی غار پر ایک مسجد بنادی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری اصحاب کہف کے شہر میں : 22:۔ عبدالرزاق اور ابن منذر نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ایک حواری اصحاب کہف کے شہر میں آیا شہر کے اندر داخل ہونے کا ارادہ کیا کسی نے کہا کہ شہر کے دروازہ پر ایک بت ہے پہلے اس بت کو سجدہ کرنا پڑتا ہے پھر شہر کے اندر داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے حواری نے اس حرکت کو پسند نہیں کیا اور شہر کے قریب ایک حمام تھا اور اس میں محنت مزدوری کرتا تھا اور حمام کے مالک سے اجرت لیتا تھا حمام کے مالک نے کہا حواری کے آنے سے رزق میں بڑی برکت اور وسعت محسوس کی اور شہر کے بعض نوجوان بھی اس حواری کے دوست بن گئے حواری ان کو آسمان اور زمین کی خبر سناتا تھا حتی کہ وہ مومن بن گئے اور اس کی تصدیق کی حواری نے حمام والے سے شرط کرلی تھی کہ رات کو میری نماز میں کوئی مداخلت نہ کرے حالات اسی طرح گذرتے رہے ایک دن بادشاہ کا بیٹا ایک عورت کو لے کر حمام میں داخل ہونے لگا حواری نے اس کو عار دلائی اور کہا تو بادشاہ کا بیٹا ہے اور اس عورت کو لے کر حمام میں داخل ہورہا ہے شہزادہ شرمایا اور چلا گیا ایک مرتبہ پھر شہزادہ ایک عورت کو لے کر آیا حواری نے پھر اسی طرح کہا تو شہزادے نے اس کو گالیاں دیں اور اسے ڈانٹ دیا اور حواری کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور حمام کے اندر داخل ہوگیا اسکے ساتھ عورت بھی داخل ہوگئی دونوں نے اکٹھے حمام میں رات گذاری اور دونوں اس میں مرگئے بادشاہ آیا اس سے کہا گیا تیرے بیٹے کو حمام والے نے قتل کیا ہے بادشاہ نے حواری کو تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکا وہ کہیں بھاگ کر چلا گیا تھا بادشاہ نے پوچھا اس کے ساتھ کون کون رہتے تھے ان نوجوانوں کو تلاش کیا گیا لیکن وہ بھی شہر سے باہر نکل گئے تھے راستے میں یہ نوجوان اپنے دوست کے پاس سے گذرے جو کھیتی میں رہتا تھا اور وہ بھی انہی کی طرح ایمان لا چکا تھا انہوں نے اس کو یاد دلایا کہ وہ ان کو ڈھونڈ رہے ہیں وہ بھی ان کے ساتھ چل پڑا اس کے ساتھ ایک کتا تھا وہ بھی ساتھ چل نکلا رات کے و قت سب غار میں داخل ہوگئے آپس میں کہنے لگے ہم رات یہاں گذاریں گے صبح ہوگی تو آئندہ کا پروگرام سوچیں گے اللہ تعالیٰ نے ان پر غنودگی طاری فرما دی بادشاہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے ان کی تلاش میں نکلا اسے پتہ کیا کہ وہ اس غار میں داخل ہوئے ہیں بادشاہ کے ساتھیوں میں سے ایک نے غار کے اندر داخل ہونے کا ارادہ کیا تو اس پر ایسی دہشت اور رعب طاری ہوا کہ اس کی حالت دیکھ کر کوئی دوسرا غار میں داخل نہ ہوا بادشاہ کو ایک ساتھی نے کہا کہ اگر تو نے ان پر قدرت حاصل کرلی تو ان کو قتل کردے بادشاہ نے کہا بلاشبہ یہی ارادہ ہے اس شخص نے کہا پھر غار کے دروازے پر دیوار بنا دو اور ان کو یہیں چھوڑ دو (اندر ہی اندر) بھوکے اور پیاسے مرجائیں گے اس نے ایسا ہی کیا اور غار کا منہ بند کروا دیا وھب فرماتے ہیں کہ غار کا منہ بند کئے ہوئے مدت گذر گئی پھر ایک بکریاں چرانے والے کو غار کے پاس بارش آگئی اس نے سوچا اگر میں اس غار کا منہ کھول دوں اور میں اپنی بکریوں کو اس میں داخل کردوں تو بارش سے بچ جائیں گے وہ برابر محنت کرتا رہا یہاں تک کہ وہ غار کھل گئی اور اس نے اس میں (بکریوں کو) داخل کردیا اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کی روحوں کو لوٹا دیا ان کے جسموں میں صبح کے و قت جب انہوں نے صبح کی تو اپنے میں سے ایک آدمی کو ایک سکہ دے کر بھیجا تاکہ ان کے لئے کھانا خرید لے جب وہ شہر کے دروازے پر آیا تو ان کے سکے کو جو بھی دیکھتا تو اس کو عجیب ہی دیکھتا یہاں تک کہ وہ ایک آدمی کے پاس آیا اور کہا مجھے ان دراھم کے عوض کھانا دے اس نے کہا یہ دراہم تجھے کہاں سے ملے ؟ اس نے کہا میں اور میرے ساتھی کل یہاں سے گئے تھے حتی کے ہم کو رات فلاں غار میں آگئ پھر صبح مجھے میرے ساتھیوں نے بھیجا کہ میں ان کے لئے کھانا خرید لاوں اس نے کہا یہ دراہم تو فلاں بادشاہ کے دور میں تھے تجھے یہ دراھم کہاں سے ملے ؟ یہ معاملہ بادشاہ کے پاس گیا اور وہ نیک آدمی تھا اس نے پوچھا تو یہ سکہ کہاں سے لایا ؟ اس نے کہا میں اور میرے ساتھی کل نکلے تھے یہاں تک کہ ہم کو رات نے پالیا غار میں اس طرح اور اس طرح پھر انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لئے کھانا لے آوں بادشاہ نے کہا تیرے ساتھی کہاں ہیں ؟ اس نے کہا غار میں وہ اس کے ساتھ چلے یہاں تک کہ کہف کے دروازے پر آئے نوجوان نے کہا مجھے چھوڑ دو میں اپنے ساتھیوں کی طرف داخل ہوں گا تم سے پہلے جب انہوں نے دیکھا اور وہ ان کے قریب ہوا تو مہر لگادی گئی ان کے کانوں پر (یعنی سب کے کان بند کردئیے گئے) دوسرے لوگوں نے ارادہ کیا کہ وہ غار میں داخل ہوجائیں جب بھی کوئی داخل ہونے لگتا تو اس پر رعب اور ہیبت طاری ہوجاتی تو وہ داخل ہونے میں قادر نہ ہوئے پھر انہوں نے ان کے پاس ایک مسجد بنوائی کہ جس میں لوگ نماز پڑھتے تھے۔ 23:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اصحاب کہف امام مہدی کے مددگار ہوں گے۔ 24:۔ زجاجی نے امالی میں ابن عباس ؓ سے فرمایا (آیت) ” ام حسبت ان اصحب الکہف والرقیم “ سے مراد ہے کچھ نوجوان جو اپنے گھروں سے بھاگے اپنے دین پر خوف کرتے ہوئے تو لوگوں نے ان کو گم پایا اور ان کی خبر بادشاہ کو دی اس نے سیسہ کی ایک تختی کا حکم دیا اس میں ان کے نام لکھے اور اس کو اپنے خزانے ڈال دیا اور کہا کہ عنقریب ان کے ایک شان ہوگی اور یہ تختی وہی رقیم ہے (واللہ اعلم) 25:۔ ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فضربناعلی اذانہم “ یعنی ہم نے ان کو سلادیا (آیت) ” ثم بعثنہم لنعلم ای الحزبین “ پھر ہم نے ان کو بیدار کیا کہ تاکہ ہم دیکھیں ان دونوں گروہوں میں سے یعنی قوم کے نوجوان ہدایت والے اور گمراہی والے (آیت) ” احصی لما لبثوا امدا ‘ کہ انہوں نے لکھا جس میں وہ نوجوان نکلے تھے اور اس دن مہینہ اور سال کو بھی لکھ لیا۔ 26:۔ ابن ابی شیبہ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ای الحزبین “ سے مراد ہے قوم میں سے نوجوان (آیت) ” احصی لما لبثوا امدا “ سے مراد ہے کہ ان کے ٹھہرنے کی مدت کو ٹھیک طرح شمار کرنے والا۔ 27:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لنعم ای ای الحزبین احصی لما لبثوا امدا “ یعنی کہ دونوں جماعتوں میں سے کسی کو علم بھی نہیں تھا نہ ان کے کافروں کو اور نہ ان کے ایمان والوں کو۔
Top