Dure-Mansoor - Al-Baqara : 180
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا١ۖۚ اِ۟لْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ
كُتِبَ عَلَيْكُمْ : فرض کیا گیا تم پر اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تمہارا کوئی الْمَوْتُ : موت اِنْ : اگر تَرَكَ : چھوڑا خَيْرَۨا : مال الْوَصِيَّةُ : وصیت لِلْوَالِدَيْنِ : ماں باپ کے لیے وَالْاَقْرَبِيْنَ : اور رشتہ دار بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار
تم نے فرض کیا گیا کہ جب تم میں سے کسی کو موت حاضر ہوجائے ترو اپنے والدین اور قرابت داروں کے لئے وصیت کرے بشرطیکہ مال چھوڑا ہو۔ یہ حکم لازم ہے ان لوگوں پر جو خدا کا خوف رکھتے ہیں۔
(1) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان ترک خیرا “ میں خیر سے مراد مال ہے۔ (2) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان ترک خیرا “ میں خیر سے مراد مال کثیر ہے۔ (3) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ قرآن مجید میں ہر جگہ خیر سے مراد مال ہے جیسے لفظ آیت ” ان ترک خیرا “ (العادیات آیت 8) ۔ ” انی احببت حب الخیر “ (ص آیت 32) ۔ ” ان علمتم فیہم خیرا “ (النور آیت 23) ۔ (4) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان ترک خیرا، الوصیۃ “ سے مراد ہے جس شخص نے ساٹھ درہم نہ چھوڑے اس نے (گویا) مال نہ چھوڑا۔ (5) امام عبد الرزاق، الفریابی، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریہر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم اور بیہقی نے سنن میں عروہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت علی ؓ اپنے مولیٰ کے پاس تشریف لائے جو موت (کی حالت) میں تھے اور اس کے پاس سات سو یا چھ سو درہم تھے۔ اس نے علی ؓ سے پوچھا میں کیا وصیت نہ کروں ؟ فرمایا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ان ترک خیرا “ اور تم جو مال چھوڑ کر جا رہے ہو وہ مال کثیر نہیں ہے تو اپنے وارثوں کے لئے اپنے مال کو چھوڑ جاؤ۔ (6) سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابن المنذر اور بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا کہ میں وصیت کرنے کا ارادہ کرتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا تیرے پاس کتنا مال ہے ؟ اس نے کہا تین ہزار۔ فرمایا تیری کتنی اولاد ہے ؟ اس نے کہا چار عدد انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” ان ترک خیرا “ اور تیرا یہ مال تھوڑا ہے۔ اس کو اپنی اولاد کے لئے چھوڑ دو یہ افضل ہے (7) عبد الرزاق، سعید بن منصور اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اگر میت سات سو درہم چھوڑے تو وصیت نہ کرو۔ (8) عبد بن حمید ابو مجلز (رح) سے روایت کیا کہ وصیت اس شخص پر ہے جو زیادہ مال چھوڑ کر جائے۔ (9) عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے وصیت کو حق قرار دیا ہے (مال) تھورا ہے یا زیادہ ہے۔ ہر مسلمان پر وصیت نامہ لکھنا ضروری ہے (10) عبد بن حمید، بخاری اور مسلم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کس مسلمان آدمی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس پر تین راتیں گذر جائیں مگر اس کے پاس وصیت ہونی چاہئے ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ مجھ پر تین راتیں کبھی ایسی نہیں گزریں مگر وصیت میرے پاس (لکھی ہوتی) تھی۔ (11) عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! اپنی جانوں کو اپنے رب سے خریدو کسی انسان کے لئے یہ نہیں ہونا چاہئے۔ کہ وہ کسی معاملہ میں اللہ کے حق سے بخل کرتا ہے یہاں تک کہ جب موت اس کے سامنے حاضر ہو تو اپنے مال کو ادھر اور ادھر تقسیم کرنے لگے پھر قتادہ (رح) فرماتے ہیں اے ابن آدم تیرے لئے ہلاکت ہے اللہ تعالیٰ سے ڈر اور برائیوں کو جمع نہ کر تیرا مال برا ہے زندگی میں اور برا ہے موت کے وقت، اپنے قریبی رشتہ داروں کو دیکھ جو محتاج ہیں اور وارث بھی نہیں بنتے ان کے لئے اپنے مال میں اچھے طریقے سے وصیت کر دے۔ (12) عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے عبید اللہ بن عبد اللہ بن محمد قاضی البصرہ (رح) سے روایت کیا کہ جو آدمی وصیت کرے اور اس نے کچھ لوگ مقرر کئے تو ہم دیں گگے جو اس نے مقرر کئے اور اگر وہ اس طرح مقرر کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے تو ہم اس کو دیں گے اس کے قریبی رشتہ داروں کو۔ (13) عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ جس شخص نے قوم کے لئے وصیت کی اور ان کا نام لیا ہو اور محتاج قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ دیا تو میں ان سے وہ مال چھین کر قریبی رشتہ داروں کو دوں گا۔ (14) عبد الرزاق، عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ جب کسی نے غیر رشتہ داروں کے لئے ایک ثلث کی وصیت کی تو جائز ہے ان کے لئے ثلث کا ثلث (یعنی کل مال کے تہائی کا تہائی) ۔ اور باقی دو ثلث اس کے رشتہ داروں کو دیا جائے۔ (15) سعید بن منصور، احمد، عبد بن حمید، ابو داؤد نے الناسخ میں، ابن جریر، ابن المنذر، حاکم اور بیہقی نے سنن میں محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ نے خطبہ دیا اور سورة بقر پڑھی اور ان (احکام) کو بیان فرمایا جو کچھ اس (سورۃ) میں ہیں۔ یہاں تک کہ اس آیت پر گزرے لفظ آیت ” ان ترک خیرا، الوصیۃ للوالدین والاقربین “ (پھر) فرمایا یہ آیت منسوخ ہے۔ (16) ابو داؤد، النحاس نے الناسخ میں ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” للوالدین والاقربین “ کی وصیت کے بارے میں روایت کیا کہ آدمی کی اولاد باپ کی وارث ہوتی تھی اور والدین کے لیے وصیت ہوتی تھی اس (حکم) کو لفظ آیت ” للرجال نصیب مما ترک الولدان ولاقربون “ (الآیہ) نے منسوخ کردیا۔ (17) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ والدین کے ساتھ ان کے علاوہ کوئی وارث نہ ہوتا تھا مگر قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت ہوتی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے میراث کی آیت کو نازل فرمایا جس میں والدین کی میراث کو بیان فرمایا اور قریبی رشتہ داروں کے لئے ایک تہائی مال میں وصیت کو قائم رکھا۔ (18) ابو داؤد نے اپنی سنن میں اور ناسخ میں اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ان ترک خیرا الوصیۃ للوالدین والاقربین “ کے بارے میں روایت کیا کہ اسی طرح وصیت کا حکم قائم رہا یہاں تک کہ میراث کی آیت نے اس (حکم) کو منسوخ کردیا۔ (19) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا جو وارث تھے ان کے لئے آیت میراث نے وصیت کو منسوخ کردیا اور جو قریبی رشتہ دار نہیں تھے ان کے لئے وصیت کے حکم کو منسوخ نہیں کیا۔ (یعنی ان کے لئے وصیت کرنا باقی رہا) ۔ (20) امام وکیع، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان سے اس آیت لفظ آیت ” الوصیۃ للوالدین والاقربین “ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا آیت میراث نے اس کو منسوخ کردیا۔ (21) امام ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے انہوں نے شریح (رح) سے روایت کیا کہ آدمی اپنے سارے مال کے بارے میں وصیت کردیتا تھا یہاں تک میراث کی آیات نازل ہوگئیں۔ (22) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا فرماتے ہیں کہ میراث ہوتی تھی اولاد کے لئے اور وصیت والدین اور قربین کے لئے تھی اب وہ منسوخ ہوگئی۔ (23) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا فرماتے ہیں کہ خیر سے مراد مال ہے اور (مال) کا اطلاق ہزار یا اس سے زائد رقم پر ہوتا ہے۔ اور والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت کا حکم کیا گیا پھر والدین کے بارے میں وصیت کا حکم منسوخ کردیا گیا اور ہر میراث والے کا حصہ وصیت سے ختم کردیا جس کو میراث ملتی ہے اس کے لئے کوئی وصیت نہیں ہے سو اب وصیت ایسے رشتہ داروں کے لئے ہے جو وارث نہیں ہیں خواہ وہ قریبی ہوں یا نہ ہوں۔ وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں (24) امام احمد، عبد بن حمید، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی نے عمر و بن خارجہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی سواری پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لئے میراث میں اس کا حصہ تقسیم فرما دیا ہے اس لئے کسی وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔ (25) امام احمد، عبد بن حمید، بیہقی نے سنن میں أبو امامہ باہلی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (اس لئے) اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں۔ (26) عبد بن حمید نے حضرت حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں مگر یہ کہ دوسرے ورثاء اس کی اجازت دیں۔
Top