Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-Baqara : 187
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمْ١ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ١ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ١۪ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ١ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِی الْمَسٰجِدِ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
اُحِلَّ
: جائز کردیا گیا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
لَيْلَةَ
: رات
الصِّيَامِ
: روزہ
الرَّفَثُ
: بےپردہ ہونا
اِلٰى
: طرف (سے)
نِسَآئِكُمْ
: اپنی عورتوں سے بےپردہ ہونا
ھُنَّ
: وہ
لِبَاسٌ
: لباس
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَاَنْتُمْ
: اور تم
لِبَاسٌ
: لباس
لَّهُنَّ
: ان کے لیے
عَلِمَ
: جان لیا
اللّٰهُ
: اللہ
اَنَّكُمْ
: کہ تم
كُنْتُمْ
: تم تھے
تَخْتَانُوْنَ
: خیانت کرتے
اَنْفُسَكُمْ
: اپنے تئیں
فَتَابَ
: سو معاف کردیا
عَلَيْكُمْ
: تم کو
وَعَفَا
: اور در گزر کی
عَنْكُمْ
: تم سے
فَالْئٰنَ
: پس اب
بَاشِرُوْھُنَّ
: ان سے ملو
وَابْتَغُوْا
: اور طلب کرو
مَا كَتَبَ
: جو لکھ دیا
اللّٰهُ
: اللہ
لَكُمْ
: تمہارے لیے
وَكُلُوْا
: اور کھاؤ
وَاشْرَبُوْا
: اور پیو
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
يَتَبَيَّنَ
: واضح ہوجائے
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْخَيْطُ
: دھاری
الْاَبْيَضُ
: سفید
مِنَ
: سے
لْخَيْطِ
: دھاری
الْاَسْوَدِ
: سیاہ
مِنَ
: سے
الْفَجْرِ
: فجر
ثُمَّ
: پھر
اَتِمُّوا
: تم پورا کرو
الصِّيَامَ
: روزہ
اِلَى
: تک
الَّيْلِ
: رات
وَلَا
: اور نہ
تُبَاشِرُوْھُنَّ
: ان سے ملو
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
عٰكِفُوْنَ
: اعتکاف کرنیوالے
فِي الْمَسٰجِدِ
: مسجدوں میں
تِلْكَ
: یہ
حُدُوْدُ
: حدیں
اللّٰهِ
: اللہ
فَلَا
: پس نہ
تَقْرَبُوْھَا
: اس کے قریب جاؤ
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
يُبَيِّنُ
: واضح کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
اٰيٰتِهٖ
: اپنے حکم
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَتَّقُوْنَ
: پرہیزگار ہوجائیں
حلال کیا گیا تمہارے لئے روزوں کی رواتوں میں بیویوں میں مشغول ہونا، وہ لباس ہیں تمہارے لئے اور تم ان کا لباس ہو، اللہ نے جان لیا کہ بلاشبہ تم اپنے نفسوں کی خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہاری توبہ قبول فرمائی اور تم کو معاف فرما دیا، سو اب ان سے میل ملاپ کرو، اور تلاش کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے سفید تاگہ سیاہ تاگہ سے ممتاز ہو کر ظاہر ہوجائے، یعنی فجر کا تاگی، پھر تم روزے پورے کرو رات تک اور بیویوں سے ملاپ نہ کرو اس حال میں کہ تم اعتکاف کئے ہوئے ہو مسجدوں میں۔ یہ اللہ کی حد بندیاں ہیں لہٰذا ان کے پاس نہ بھٹکو اسی طرح اللہ بیان فرماتا ہے لوگوں کے لئے اپنی آیات تاکہ لوگ پرہیزگار بنیں
شروع میں رات کا روزہ بھی فرض تھا (1) امام وکیع، عبد بن حمید، بخاری، ابو داؤد، ترمذی النحاس (الناسخ میں) ابن جریر، ابن المنذر، بیہقی نے سنن میں حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے جب کوئی آدمی روزہ رکھتا پھر وہ افطاری کے وقت افطار کرنے سے پہلے سو جاتا تو پھر وہ نہ کھا سکتا تھا رات کو اور نہ دن کو یہاں تک کہ (دوسرے دن کی) شام ہوجاتی۔ قیس بن مردوہ انصاری ؓ روزہ سے تھے۔ دن بھر اپنی زمین میں کام کرتے رہے۔ جب افطار کا وقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور کہا کیا تیرے پاس کھانا ہے۔ اس نے کہا نہیں ہے لیکن میں تیرے لئے کھانا ابھی تلاش کرتی ہوں (اتنے میں) ان پر نیند کا غلبہ ہوا اور وہ سو گئے ان کی بیوی آئی اور جب ان کو نیند کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگی میرے لئے خسارہ ہوگیا تم سو گئے دوسرے دن جب آدھا دن گزرا تو (بھوک کی وجہ سے) ان پر غشی طاری ہوگئی یہ بات نبی اکرم ﷺ کو ذکر کی گئی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” احل لکم لیلۃ الصیام الرفث “ الی قولہ ” من الفجر “ تو صحابہ کرام ؓ اس سے بہت خوش ہوئے۔ (2) امام بخاری نے حضرت براء ؓ سے روایت کیا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تھا تو لوگ سارا رمضان عورتوں کے قریب نہ جاتے تھے تو کچھ لوگ اس سلسلے میں اپنی جانوں میں خیانت کرتے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم فتاب علیکم وعفا عنکم “۔ (3) امام احمد، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی ھاتم نے حسن سند کے ساتھ کعب بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رمضان میں لوگ روزہ رکھ لیتے تھے پھر افطاری کے وقت سو جاتے تو ان پر کھانا پینا اور عورتیں حرام ہوجاتی تھیں۔ یہاں تک کہ پھر دوسرے دن شام کو افطار کرتے حضرت عمر بن خطاب ؓ ایک رات نبی اکرم ﷺ کے پاس سے (دیر میں) واپس لوٹے اور آپ کے پاس رات کو دیر تک باتیں کرتے رہے (گھر لوٹے) تو اپنی بیوی کو سویا ہوا پایا اس کو جگایا اور (اس سے جماع کرنے کا) اراداہ کیا۔ اس نے کہا میں سو چکی تھی حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں نہیں سویا تھا پھر اس سے جماع کیا اور اس طرح کعب بن مالک ؓ نے بھی کیا صبح کو حضرت عمر ؓ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کو یہ واقعہ بتایا اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم “۔ رات کا روزہ بعد میں منسوخ ہوگیا (4) ابن جریر نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے مسلمان جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تھے تو ان پر کھانا پینا اور عورتیں حرام ہوجاتی تھیں۔ یہاں تک کہ دوسرے دن شام کو افطار کرلیتے اور حضرت عمر ؓ عشاء کے بعد اپنی بیوی کو پہنچ گئے (یعنی اس سے جماع کرلیا) اور صرمہ بن قیس کو مغرب کے بعد نیند غالب ہوگئی اور وہ سو گئے کھانا نہ کھا سکے اور نہ جاگے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز پڑھ چکے تھے آپ اس وقت اٹھے کھانا کھایا اور پانی پیا۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ بتایا (اس پر) اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم “ اور رفث سے مراد ہے عورتوں سے جماع کرنا۔ ” کنتم تختانون انفسکم “ یعنی تمہارا عورتوں سے جمع کرنا، کھانا اور پینا عشاء کے بعد (حلال کردیا گیا) ” فلئن باشروھن “ یعنی ان سے اب جماع کرو۔ ” وابتغوا ما کتب اللہ لکم “ یعنی بچے طلب کرو ” وکلوا واشربوا “ (یعنی کھاؤ اور پیو) یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے درگزر ہے اور رحمت ہے۔ (5) ابن جریر، ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مسلمان رمضان کے مہینہ میں جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تھے تو ان پر عورتیں اور کھانا حرام ہوجاتا تھا یہاں تک کہ دوسرے دن شام ہوجاتی پھر مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے رمضان میں عشاء کے بعد کھانا کھالیا اور عورتوں سے جماع کرلیا ان میں حضرت عمر ؓ بھی تھے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کی شکایت کی تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” احل لکم لیلۃ الصیام “ الی قولہ ” فالئن باشروھن “ یعنی ان سے (اب) مباشرت کرو۔ (6) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لوگوں میں جو پہلے مسلمان ہوئے تھے ان میں سے جب کوئی روزہ رکھتا تو دن بھر روزہ رکھتا تھا یہاں تک کہ جب شام ہوجاتی تو کھانا نہ کھاتا تو دوسرے دن شام تک روزے کی پابندیوں کے ساتھ رہتا۔ اور عمر بن خطاب ؓ سوگئے ان کے دل میں حقوق زوجیت کا خیال آیا تو وہ اپنی بیوی سے حقوق زوجیت ادا فرماتے پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ! میں معذرت کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف اور آپ کی طرف اس خطا کار نفس کی میرے نفس نے رات کو جماع پر آمادہ کیا تو میں جماع کرلیا کیا آپ میرے لئے رخصت پاتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے عمر رخصت تو نہ تھی (پھر) جب حضرت عمر ؓ گھر پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو بلا بھیجا پھر ان کو عذر کی قبولیت کی خبر دی کہ قرآن میں اجازت آگئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ اس آیت کو سورة بقرہ کے درمیان میں رکھو۔ پھر فرمایا لفظ آیت ” احل لکم لیلۃ الصیام “ الی قولہ ” تختانون انفسکم “ یعنی وہ کام جو حضرت عمر ؓ نے کیا اللہ تعالیٰ نے اس کے معاف کردینے کو نازل فرمایا پھر فرمایا لفظ آیت ” فتاب علیہ “ الی قولہ ” من الخیط الاسود “ سو ان کے لئے جماع کرنا کھانا اور پینا حلال کردیا حتی کہ ان کے لئے صبح ظاہر ہوجائے۔ (7) ابن جریر نے ثابت ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے رمضان المبارک کی رات میں اپنی بیوی سے ہم بستری کر لیء۔ تو آپ کو انتہائی پریشانی ہوئی اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری ” احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم “۔ (8) ابو داؤد اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لوگ جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تھے تو ان پر کھانا پینا اور عورتوں سے ملنا حرام ہوجاتا تھا اور اگلی رات تک روزہ سے رہتے تھے ایک آدمی نے اپنی جان میں خیانت کی (اور) اس نے اپنی عورت سے جماع کرلیا حالانکہ وہ عشاء کی نماز پڑھ چکا تھا اور افطار نہیں کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا باقی لوگوں کو آسانی ورخصت دینے کا تو آپ نے یہ آیت نازل فرما کر رخصت دے دی اور آسانی پیدا فرما دی۔ (9) ابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (یہ آیت) ” وکلوا واشربوا “ بنو خزرج میں سے قیس بن صرمہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ طلوع فجر تک کھانے پینے کی اجازت (10) امام وکیع، عبد بن حمیدنے عبد الرحمن بن ابی لیلی (رح) سے روایت کیا فرمایا کہ لوگ جب روزہ رکھتے تھے اور کوئی ان میں شام کو کھانا کھانے سے پہلے سو جاتا تھا تو پھر اگلے دن کی شام تک کوئی چیز نہ کھا سکتا تھا۔ اور جب جماع کرنے سے پہلے سو جاتا تھا تو پھر آئندہ رات تک جماع نہ کرسکتا تھا۔ انصار میں سے ایک بوڑھا آدمی جس کو صرمہ بن مالک ؓ کہا جاتا تھا ایک رات اپنے اہل کی طرف آیا اور وہ روزہ سے تھا اس نے شام کا کھانا طلب کیا گھر والوں نے کہا ہم تیرے لے گرم کھانا پکاتے ہیں اس سے روزہ کو افطار کرنا شیخ انصاری نے اپنا سر رکھا ان پر نیند کا غلبہ ہوا تو وہ سو گئے گھر والے کھانا لے کر آئے تو وہ سو چکے تھے۔ انہوں نے کہا کھالو شیخ نے کہا میں تو سو چکا تھا کھانا چھوڑ دیا۔ اور رات کروٹیں بدلتے ہوئے گزاری۔ جب صبح ہوئی تو نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر سارا واقعہ بیان فرمایا حضرت عمر بن خطاب ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے گزشتہ رات اپنی بیوی سے ہم بستری کی جیسے آدمی اپنی بیوی سے کیا کرتا ہے وہ سو چکی تھی میں گمان کیا کہ وہ ایسے ہی کہہ رہی ہے۔ تو میں اس پر واقع ہوگیا۔ مجھے اس نے بتایا کہ وہ واقعی سو چکی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے صرمہ بن مالک ؓ کے بارے میں (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” کلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر “ اور حضرت عمر ؓ کے بارے میں (یہ آیت) اتری لفظ آیت ” احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم “۔ (11) عبد بن حمید، ابن جر یر نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” علم اللہ کنتم تختانون انفسکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ رمضان کے روزوں سے پہلے ہر ماہ تین دن اور ہر دس دنوں میں سے ایک دن روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا اور ان کو صبح کو دو رکعت اور شام کو دو رکعت (پڑھنے کا) حکم دیا گیا اور یہ نماز اور روزہ کی ابتداء تھی لوگ یہی روزے رکھتے تھے پھر رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد جب لوگ سو جاتے تو یہ عورتوں کے پاس جاسکتے اور نہ کھانا کھا سکتے تھے آئندہ رات تک اور مسلمانوں میں سے کچھ لوگ سونے کے بعد اپنی عورتوں کے پاس پہنچ گئے اور کھانا بھی کھالیا اور یہ ان کی اپنی جانوں کے ساتھ خیانت تھی تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” علم اللہ انکم کنتم تختانون “ (الآیہ) (12) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ محمد ﷺ کے اصحاب رمضان کے مہینہ میں روزے رکھتے تھے جب شام ہوتی افطار کے وقت کھاتے اور پیتے اور (اپنی) عورتوں سے جماع کرتے لیکن جب کوئی سو جاتا تو یہ چیزیں اس پر حرام ہوجاتیں آئندہ رات تک اور ان میں سے بعض لوگ اپنے نفسوں سے خیانت کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا اور ان کے لئے سونے کے بعد اور اس سے پہلے ساری رات ان کے لئے یہ کام حلال فرما دیا۔ (13) عبد بن حمید نے ابراہیم تیمی (رح) سے روایت کیا کہ مسلمان ابتدائے اسلام میں وہی کرتے تھے جیسے اہل کتاب کرتے تھے (یعنی) جب ان میں سے کوئی سو جاتا تو کھانا تھا یہاں تک کہ آئندہ شام آجاتی تو اس پر (یہ آیت نازل ہوئی) ” کلوا واشربوا “ الی آخرہ۔ سحری کھانا سنت ہے (14) ابن ابی شیبہ، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی نے حضرت عمر وبن عاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق صرف سحری کھانے کا ہے۔ (15) امام وکیع، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” الرفث “ سے مراد جماع ہے۔ (16) ابن المنذر نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ الرفث سے مراد جماع ہے۔ (17) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن المنذر، بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ دخول تفشی افضاء مباشرہ، رفث لمس، قس، مسیس ان سب سے مراد جماع ہے اور روزہ میں رفث سیمراد بھی جماع ہے اور حج میں رفث سے مراد ہے جماع پر آمادہ کرنے والی گفتگو۔ (18) الفریابی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ھن لباس لکم وانتم لباس لہن “ سے مراد ہے کہ وہ تمہارے لئے آرام کا باعث ہیں اور تم ان کے لئے آرام کا باعث ہو۔ (19) امام الطستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” ھن لباس لکم “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے وہ (عورتیں) تمہارے لئے سکون ہیں کہ تم ان کی طرف رات اور دن میں آرام پاتے ہو پھر انہوں نے عرض کیا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے نابغہ بن ذیبان کا شعر نہیں سنا وہ کہتا ہے۔ اذا ما الضجیع ثنی عطفھا تثنت علیہ فکانت لباسا ترجمہ : جس وقت عورت کے پہلو میں اس کا شوہر ہوتا ہے تو وہ اس پر لوٹتا ہے اور وہ اس پر لوٹتی وہ اس کے لئے لباس یعنی سکون کا باعث ہوتی ہے۔ (20) عبد الرزاق نے المصنف میں یحییٰ بن انعیم سے روایت کیا ہے سعد بن مسعود کندی ؓ سے روایت کیا کہ عثمان بن مظعون ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے حیا آتی ہے کہ میری بیوی میری شرم گاہ کو دیکھے آپ ﷺ نے فرمایا کیوں ! اللہ تعالیٰ نے تجھ کو ان کے لئے لباس بنایا اور ان کو تیرے لئے لباس بنایا پھر کہا کہ میں تو یہ چیز ناپسند کرتا ہوں آپ نے فرمایا میں حق زوجیت ادا کرتا ہوں اور ایساکام ہوتاہی ہے حضرت عثمان نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ اللہ کے رسول ہیں فرمایا میں تو ایسا کرتا ہوں حضرت عثمان نے عرض کیا آپ ایسا کرتے ہیں تو پھر آپ کے بعد کون ایسا حیاوار ہوسکتا ہے جب حضرت عثمان بن مظعون ؓ واپس چلے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلا شبہ ابن مظعون ؓ بہت حیاکر نے والے اور شرمیلے ہیں۔ (21) ابن ابی حاتم نے ابن سعد نے سعید بن مسعود اور عمارہ بن غراب الیعصبی (رح) سے اس کو روایت کیا سد ی (رح) سے ر و ایت کیا کہ ” تختا نون “ سے مراد ہے کہ تم واقع ہوتے ہو ان پر خیانت کرتے ہوئے (یعنی اپنی از واج سے جماع کرتے ہو) (2 2) ابن جریرنے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فلئن باشروھن “ سے مراد ہے ” انکحوھن “ (ان سے نکاح کرو) یعنی ان سے جماع کرو۔ (23) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مباشرت سے مراد جماع ہے لیکن اللہ تعالیٰ کریم ہیں انہوں نے کنایہ فرمایا۔ (24) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ مباشرت اللہ تعالیٰ کی پوری کتاب میں جماع کو کہتے ہیں۔ (25) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ” اوبتغوام اکتب اللہ لکم “ سے اولاد مراد ہے۔ (26) ابن جر یر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے عبد بن حمید، مجاہد، قتادہ اور ضحاک (رح) سے یہی معنی روایت کیا ہے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” وابتغواما کتب اللہ “ سے لیلتہ القدر مراد ہے۔ (27) امام بخاری نے اپنی تاریخ میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا ” وابتغواما کتب اللہ “ سے لیلتہ القدر مراد ہے۔ (28) عبدالر زاق نے قتا دہ (رح) سے روایت کیا کہ ” وابتغواما کتب اللہ “ سے مراد ہے کہ رخصت کو تلاش کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دی۔ (29) عبدالرزاق، سعیدبن منصور، عبدبن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے عرض کیا کہ آپ یہ آیت کیسے پڑھتے ہیں ” وابتغواما کتب اللہ لکم “ یا ” واتبعوا “ انہوں نے فرمایا جو میں چاہتا ہوں، پڑھتا ہوں، تجھ پر پہلی قرأت لازم ہے۔ (30) امام مالک، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم اور نسائی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے رمضان میں فجر کے طلوع ہونے کے بعد جنبی ہوتے تو آپ غسل فرماتے اور روزہ رکھتے۔ (31) امام مالک، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی نے ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ ان سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو صبح جنبی حالت میں کرتا ہے کیا وہ روزہ رکھ لے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں جماع کی وجہ سے جنبی حالت میں صبح کرتے بغیر احتلام کے پھر روزہ رکھتے تھے۔ (32) امام مالک، شافعی، مسلم، ابو داؤد، نسائی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں جنبی حالت میں صبح کرتا ہوں اور میں روزہ (رکھنے) کا بھی ارادہ رکھتا ہوں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میں بھی جنبی حالت میں صبح کرتا ہوں اور روزہ (رکھنے) کا ارادہ بھی کرتا ہوں تو میں غسل کرتا ہوں اور اس دن روزہ بھی رکھتا ہوں۔ اس آدمی نے کہا آپ ہماری طرح نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ سب معاف کر دئیے ہیں آپ اس بات پر غصہ ہوئے اور فرمایا اللہ کی قسم ! میں امید رکھتا ہوں کہ میں تم سے اللہ کے لئے زیادہ ڈرنے والا ہوں اور تقویٰ کو زیادہ جاننے والا ہوں۔ (33) ابوبکر الانباری نے کتاب الوقف والابتداء میں اور الطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” حتی یتیبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس سے رات کے اندھیرے سے دن کی سفیدی مراد ہے اور وہ صبح ہے پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس (معنی) سے واقف ہیں انہوں نے فرمایا ہاں ! کیا تو نے امید کا مقولہ نہیں سنا۔ الخیط الابیض ضوء الصبح متعلق والخیط الاسود لون اللیل مکموم ترجمہ : خیط الابیض سے مراد صبح کی روشنی ہے جو مشکل سے پھوٹتی ہے اور خیط الاسود سے مراد رات کا رنگ ہے جو لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ (34) امام بخاری، مسلم، نسائی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود “ (جب یہ آیات نازل ہوئیں اور فجر میں سے (کچھ بھ) نازل نہ ہوا تو لوگ جب روزے کا ارادہ کرتے تو اس میں سے ایک آدمی اپنے پاؤں میں سفید اور کالا دھاگہ باندھ لیتا (اور) وہ برابر کھاتا اور پیتا رہتا یہاں تک کہ وہ ان دونوں دھاگوں کو واضح طور پر دیکھ لیتا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے لفظ آیت ” من الفجر “ (کا لفظ) نازل فرمایا پس انہوں نے جان لیا کہ اس سے مراد رات کی تاریکی اور دن کی سفیدی ہے۔ (35) سفیان بن عینیہ، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابن جریر، ابن المنذر اور بیہقی نے عدی بن حاتم ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت لفظ آیت ” وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود “ نازل ہوئی تو میں نے دورسیاں لے لیں ایک ان میں سے کالی تھی اور دوسری سفید تھی۔ دونوں (رسیوں) کو میں نے اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لیا میں ان دونوں کو دیکھتا رہا تو مجھ کو سفید سیاہ سے واضح نہ ہوئی جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میں نے کیا تھا آپ کو بتلایا۔ آپ نے فرمایا تیرا تکیہ تو بہت چوڑا ہے۔ (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) اس سے روات کی تاریکی دن کی سفیدی مراد ہے۔ انتہاء سحر کی پہچان (36) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے عدی بن حاتم ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا آپ نے مجھ کو اسلام کے احکام سکھائے اور مجھ کو پانچوں نمازوں کے بارے میں بیان فرمایا کہ کس طرح میں ہر نماز کو اس کے وقت پر پڑھوں پھر آپ نے فرمایا جب رمضان (کا مہنہ) آجائے تو کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ ظاہر ہوجائے تیرے لئے فجر کے سیاہ دھاگہ سے سفید دھاگے سے پھر رات تک روزہ کو پورا کرو میں نے نہیں سمجھا اس سے کیا مراد ہے ! میں نے دو دھاگہ سفید اور کالا بٹ لیا فجر کے وقت ان کی طرف دیکھنے لگا اور برابر دیکھتا رہا میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! جو آپ نے مجھے وصیت فرمائی تھی میں نے یاد کرلی تھی سوائے سفید دھاگہ کالے دھاگے سے (کہ یہ میری سمجھ میں نہ آیا) اور آپ ﷺ نے فرمایا اے ابن حاتم تجھے (پوچھنے سے) کس نے منع کیا تھا ؟ اور آپ ﷺ نے تبسم فرمایا گویا کہ جو کچھ میں نے کہا تھا آپ اس کو جان چکے تھے میں نے عرض کیا میں نے دو دھاگے سفید اور کالا بٹ لئے تھے پھر ان کو رات کو دیکھتا رہا تو دونوں کو برابر پایا (کوئی فرق معلوم نہ ہوا) رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کی داڑیں مبارک نظر آگئیں پھر فرمایا میں نے تجھے بتایا نہیں تھا کہ اس سے مراد فجر کی سفیدی ہے اس سے مراد رات کے اندھیرے سے دن کی روشنی مراد ہے۔ (37) عبد بن حمید، بخاری، ابن جریر نے عدی بن حاتم ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کالے دھاگے سفید دھاگے سے کیا وہ دونوں دھاگے مراد ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو چوڑی گدی والا ہے گار ان دھاگوں کو دیکھ لیتا ہے پھر آپ نے فرمایا اس کا یہ مطلب نہیں بلکہ اس سے رات کی تاریکی اور دن کی سفیدی مراد ہے۔ (38) ابن ابی شیبہ نے جابر الجیدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں پوچھا لفظ آیت ” حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود “ (تو فرمایا) کہ اس سے روات اور دن مراد ہیں۔ (39) الفریابی، عبد بن حمید، ابن جریہر نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ جب فجر طلوع ہوئی تو فرمایا اب تمہارے لئے سفید دھاگہ کالے دھاگہ سے واضح ہوگیا۔ (40) امام وکیع، ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے اپنی سنن میں ابو الضحیٰ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ابن عباس ؓ سے پوچھا سحری کب تک کھائی جائز ہے ؟ پھر اس نے کہا جب مجھے شک ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا جب تک تجھے شک رہے کھاتا رہ یہاں تک کہ تیرے لئے سیاہی سے سفیدی واضح ہوجائے۔ (41) وکیع نے أبو الضحیٰ (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ فجر پھیلنے والی ہے آسمان میں۔ (42) عبد الرزاق، ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان دھاگوں سے مراد دونوں فجریں ہیں ایک وہ فجر (فجر کا ذب) جو آسمان میں پھیلتی ہے وہ نہ کسی چیز کو حلال کرتی ہے اور نہ حرام کرتی ہے لیکن وہ فجر (فجر صادق) جو ظاہر ہوتی ہے پہاڑوں کی چوٹیوں پر وہ پینے کا حرام کردیتی ہے۔ اصل اعتبار طلوع فجر کا ہے (43) امام وکیع، ابن ابی شیبہ، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن جریر نے سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلال کی اذان تم کو سحری کھانے سے نہ روکے اور نہ وہ فجر جو لمبائی میں پھیلتی ہے۔ لیکن وہ فجر جو افق پر طاہر ہوتی ہے۔ اس فجر کے وقت سحری سے رک جاؤ۔ (44) امام بخاری و مسلم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تم کو بلال ؓ کی اذان تمہارے کھانے سے نہ روک دے کیونکہ وہ رات میں اذان دیتے ہیں تم کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم ؓ کی اذان سن لو کیونکہ وہ اذان نہیں دیتے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے۔ (45) ابن ابی شیبہ، احمد، ابو داؤد، ترمذی نے (انہوں نے اس کو حسن کیا ہے) طلق بن علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کھاؤ اور پیو اور نہ روکے تم کو اوپر کی طرف پھیلنے والی صبح اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے سرخی (عرضا) پھیل جائے۔ (46) احمد (رح) سے روایت کیا کہ فجر وہ نہیں ہے جو افق پر لمبائی پر پھیلتی ہے لیکن فجر وہ ہے جو سرخی (عرضا) پھیلتی ہے۔ (47) امام وکیع، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، دار قطنی، بیہقی نے محمد بن عبد اللہ عمان سے اور انہوں نے ثوبان ؓ سے روایت کیا کہ ان کو یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یا فجر دو فجریں ہیں وہ جو سرحان کے دم کی طرح ہوتی ہے وہ کسی چیز کو نہ حلال کرتی ہے نہ حرام کرتی ہے۔ اور وہ فجر جو افق میں طولا پھیلتی ہے وہ نماز کو حلال کردیتی ہے اور کھانے کو حرام کردیتی ہے۔ حاکم نے حضرت جابر ؓ سے اس حدیث کو موصولا روایت کیا ہے۔ (48) دار قطنی، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا فجر دو فجریں ہیں ایک وہ فجر جو کھانے اور پینے کو حرام کردیتی ہے اور نماز حلال کردیتی ہے اور دوسری وہ فجر جس میں کھانا حلال ہوتا ہے اور نماز حرام ہوتی ہے۔ (49) ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو روزہ رکھنے کا ارادہ کرے تو اس کو چاہئے کہ سحری کھائے کوئی چیز بھی کھائے۔ (50) ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رات ادھر سے آجائے اور دن ادھر سے چلا جائے اور سورج غروب ہو جائیتو روزہ دار افطار کرے۔ (51) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آپ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جس نے افطار کرلیا پھر سورج نکل آیا تو وہ روزہ کی قضا کرے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” ثم اتموا الصیام الی الیل “ (روزہ رات تک مکمل کرو) ۔ (52) حاکم نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اس دوران کہ میں سو رہا تھا اچانک میرے پاس (دو آدمی) آئے انہوں نے میرے دونوں پہلوؤں کو پکڑ لیا اور مجھے ایک خوفناک پہاڑ پر لے آئے پھر مجھ سے کہا اس کے اوپر چڑھ یہاں تک کہ جب میں پہاڑ کے درمیان میں تھا میں نے سخت آوازیں سنیں۔ میں نے پوچھا یہ کیا آوازیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ یہ دوزخ والوں کی آوازیں ہیں پھر مجھے لے چلے اچانک میں ایسی قوم کے پاس تھا جو سینوں کے بل لٹکے ہوئے تھے ان کی بانچھیں بندھی ہوئی تھیں (اور) ان کی بانچھوں سے خون بہہ رہا تھا میں نے کہا یہ کون ہیں ؟ اس نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے روزے کھولنے (کے وقت) سے پہلے روزہ کھول دیتے تھے۔ صوم وصال ممنوع ہے (53) امام احمد، بعد ابن حمید، ابن ابی حاتم، طبرانی نے لیلیٰ بشیر بن خصاصیہ ؓ کی بیوی لیلیٰ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے (اپنے شوہر سے) کہا میں دو دن ملا کر روزہ رکھنا چاہتی ہوں۔ مجھے بشیر نے منع کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے نصاری ایسا کیا کرتے ہیں لیکن تم روزے رکھو جیسا تم کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور روزہ کو رات تک پورا کرو۔ جب رات (یعنی مغرب کا وقت) ہوجائے تو افطار کرلو۔ (54) طبرانی نے الاوسط میں اور ابن عساکر نے ابو ذرار ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دن اور ایک رات متواتر روزہ رکھا آپ کے پاس جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کے صوم و صال کو قبول فرما لیا ہے لیکن آپ کے بعد کسی کے لئے ایسا کرنا حلال نہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ثم اتموا الصیام الی الیل “ (یعنی روزہ کو رات تک پورا کرو) ۔ (55) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا لفظ آیت ” ثم اتموا الصیام الی الیل “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رات تک روزہ کو پورا کرو۔ اس لیے وہ صوم و صال کو ناپسند کرتے ہیں۔ (56) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید نے ابو العالیہ سے روایت کیا کہ ان کے پاس صوم و صال ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے روزہ دن کو فرض فرمایا اور فرمایا لفظ آیت ” ثم اتموا الصیام الی الیل “ جب رات آجائے تو افطار کرنے والا ہوجا اگر چاہے تو کھالے اگر چاہے تو مت کھا۔ (57) ابن ابی شیبہ، نسائی، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دین غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کریں گے بلاشبہ یہود اور نصاری (افطار میں) تاخیر کرتے ہیں۔ (58) امام مالک، شافعی، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم اور ترمذی نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگ ہمیشہ خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔ (59) مالک بن ابی شیبہ، بخاری، مسلم نے ابو داؤد نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صوم و صال سے منع فرمایا صحابہ ؓ نے آپ ﷺ سے عرض کیا آپ تو صوم و صال رکھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم میری طرح نہیں ہوں میں کھلایا اور پلایا جاتا ہوں۔ (60) ابن ابی شیبہ اور بخاری نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تم لوگ صوم و صال نہ رکھو صحابہ ؓ نے عرض کیا آپ تو صوم و صال رکھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا میں تم جیسا نہیں ہو بلاشبہ میں رات گزارتا ہوں اس حال میں کہ مجھے کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔ (61) بخاری، ابو داؤد نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم صوم و صال نہ رکھو اگر کوئی تم میں سے صوم و صال کا ارادہ کرے تو اس کو چاہئے کہ سحری تک وصال کرے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ تو صوم و صال رکھتے ہیں آپ نے فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا ایک کھلانے والا ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور میرا ایک پلانے والا ہے جو مجھے پلاتا ہے۔ (62) امام بخاری، مسلم، نسائی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام پر رحم کرتے ہوئے صوم و صال سے منع فرمایا صحابہ نے عرض کیا آپ تو صوم و صال رکھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں بلاشبہ میرا رب مجھ کو کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔ آپ ﷺ کو صوم و صال کی اجازت تھی (63) مالک، ابن ابی شیبہ، بخاری، نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے صوم وصال سے منع فرمایا مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ تو صوم و صال رکھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میری طرح تم میں سے کون ہے ؟ میں رات گزارتا ہوں اس حال میں کہ میرا رب مجھ کو کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔ (64) حاکم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کھانے پینے سے رکے رہنا روزہ نہیں بلکہ روزہ فضول باتوں اور جماع سے رکنا ہے۔ اگر کوئی تجھ کو گالیاں دے یا تیرے ساتھ جہالت پر اتر آئے تو اس کو کہہ دو میں روزہ سے ہوں، میں روزہ سے ہوں۔ (65) بخاری، نسائی، بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو روزہ دار جھوٹ کو اور اس پر عمل کرنے کو اور جہالت کو نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنے کھانے اور پینے کو چھوڑ دے۔ (66) امام حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بسا اوقات رات پھر قیام کرنے والے کو اس کا حصہ قیام سے صرف جاگنا اور بسا اوقات روزہ رکھنے والے کو اس کے روزے میں بھوک اور پیاس ہے۔ (یعنی قیام کرنے والے کو صرف جاگنا ملتا ہے) اور روزہ رکھنے والے کو بھوک اور پیاس کا ثواب نہیں ملتا۔ (67) بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ غیبت روزہ کو پھاڑ دیتی ہے اور استغفار اس کو جوڑ دیتا ہے سو جو شخص تم میں سے اس بات کی طاقت رکھے کہ کل کو ایسے روزے کے ساتھ آئے جس کو جوڑا گیا ہو۔ تو اس کو چاہئے کہ ایسا کرے (یعنی روزہ کے ساتھ استغفار کرے) ۔ (68) ابن ابی شیبہ، بیہقی نے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ جب تم روزہ رکھو تو چاہئے کہ تو اپنے کانوں اپنی آنکھوں اور اپنی زبان کو جھوٹ اور حرام کے کاموں سے روکے رکھو اور خادم کو تکلیف دینا چھوڑ دو لیکن لازم پکڑو روزہ والے دن وقار اور سکینہ کو اور اپنے روزہ والے دن اور اپنے افطار کے دن کو برابر نہ کرو۔ (69) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے طلق بن قیس (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابوذر ؓ نے فرمایا جب تو روزہ رکھے تو اپنی طاقت کے مطابق اس کی حفاظت کر تو طلق جس دن روزہ رکھتے تھے تو (گھر میں) داخل ہوجاتے اور صرف نماز کے لئے باہر نکلتے تھے۔ (70) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جو شخص دو چیزوں کی حفاظت کرے گا اس کا روزہ اس کے لئے سلامت رہے گا (دو چیزیں یہ ہیں) غیبت اور جھوٹ۔ (71) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ روزہ عبادت میں ہوتا ہے جب تک غیبت نہ کرے۔ (72) ابن ابی شیبہ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کا کوئی روزہ نہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتا رہا (یعنی غیبت کرتا رہا) ۔ (73) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ صحابہ کرام ؓ علیہ عنہم کہا کرتے تھے جھوٹ روزہ دار کے روزے کو توڑ دیتا ہے۔ (74) بیہقی نے حضرت ابوبکر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی تم میں سے ہرگز یوں نہ کہے میں نے سارے رمضان کا قیام کیا اور اس کے روزے رکھے میں نہیں جانتا کہ کیا انہوں نے اپنی تعریف کو ناپسند فرمایا یا فرمایا ضروری ہے سونا اور جاگنا۔ (75) بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ولا تباشروھن وانتم عکفون “ کے بارے میں روایت کیا کہ مباشرہ سے مراد ہے کہ جماع کرنا اور مس کا معنی ہے جماع کرنا لیکن اللہ تعالیٰ کنایہ فرما دیتے ہیں جس کے ساتھ چاہتے ہیں۔ (76) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے ” ولا تباشروھن “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت اس مرد کے بارے میں ہے جو رمضان میں اعتکاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام فرما دیا ہے رات یا دن میں عورتوں سے جماع کرنا یہاں تک کہ رک کر اپنا اعتکاف پورا کرے۔ (77) وکیع، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ صحابہ کرام ؓ اپنی عورتوں سے اعتکاف کے حالت میں جماع کرلیتے تھے یہاں تک (یہ) آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ولا تباشروھن وانتم عکفون فی المسجد “۔ (78) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ پہلے جب کوئی آدمی اعتکاف میں بیٹھتا تھا تو مسجد سے باہر نکل جاتا اگر چاہتا تو (اپنی بیوی سے) جماع کرلیتا تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (جس سے اعتکاف کے زمانہ میں جماع سے روک دیا گیا) ۔ (79) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ لوگ اعتکاف کی حالت میں اپنی عورتوں سے جماع کرلیتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا۔ حالت اعتکاف میں ہمبستری جائز نہیں (80) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ پہلے جب اعتکاف بیٹھتے تھے تو (ایک) آدمی پیشاب کی غرض سے نکلتا تھا وہاں اپنی عورت سے جماع بھی کرلیتا تھا۔ پھر غسل کرکے اپنے اعتکاف میں لوٹ آتا تھا تو اس سے منع کردیا گیا۔ (81) ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ مسجدوں میں اپنی عورتوں سے جماع کرنے سے روک دیا گیا جیسے انصار کیا کرتے تھے۔ (82) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن المنذر حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اعتکاف کرنے والا اگر (اپنی عورت سے) جماع کرے تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا پھر وہ نئے سرے سے اعتکاف کرے۔ (83) عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے اس معتکف کے بارے میں روایت کیا کہ جو اپنی بیوی پر واقع ہوگیا تھا کہ وہ اپنا اعتکاف دوبارہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار اور توبہ کرے اور جتنا ہو سکے اس کی طرف قربت حاصل کرے۔ (84) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب کوئی معتکف جماع کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ دو دینار صدقہ کرے۔ (85) ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے ایسے معتفک کے بارے میں روایت کیا کہ جس نے اپنی بیوی سے جماع کرلیا کہ وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے رمضان میں جماع کرلیا اس پر وہی سزا ہے جو اس شخص کی ہے جس نے رمضان میں جماع کرلیا۔ (86) ابن ابی شیبہ نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ جو معتکف اپنی عورت سے جماع کرے تو اس پر وہی کفارہ ہے جو رمضان میں معتکف پر ہے جو جماع کرے۔ (87) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ معتکف (اپنی بیوی کا) نہ بوسہ لے اور نہ جماع کرے۔ (88) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ معتکف خریدو فروخت نہ کرے۔ ٍ وقولہ تعالیٰ : ” وانتم عکفون فی المسجد “ (89) دار قطنی، بیہقی نے زہری سے انہوں نے سعید بن المسیب کے طریق سے اور انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں مرتے دم تک اعتکاف فرمایا کرتے تھے آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا اور سنت طریقہ معتکف کے بارے میں یہ ہے کہ (اعتکاف کی جگہ) سے نہ نکلے مگر انسانی حاجت کے لئے اور جنازہ کے پیچھے نہ جائے مریض کی عیادت نہ کرے۔ عورت کو ہاتھ نہ لگائے، اپنی عورت سے جماع نہ کرے اور جماع مسجد میں اعتکاف کرے۔ اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ آخری جملہ عروہ کا قول ہے (دار قطنی فرماتے ہیں یہ زہری کا کلام ہے اور جنہوں نے اس کو حدیث میں داخل کیا ہے ان کو وہم ہوا ہے۔ (90) ابن ماجہ، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے معتکف کے بارے میں فرمایا کہ وہ گناہوں سے رکنے والا اور اس کے لئے ایسا اجر جاری ہوتا ہے جیسے نیک کام کرنے والے کا اجر ہوتا ہے۔ (91) طبرانی نے الاوسط میں، الحاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) بیہقی نے (انہوں نے اسے ضعیف کہا ہے) اور الخطیب نے اپنی تاریخ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں معتکف تھے ایک آدمی ان کے پاس کسی حاجت سے آیا تو اس کے ساتھ چل پڑے اور فرمایا کہ میں نے اس قبر والے صاحب ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت میں چلتا ہے اور اس کام کو انتہاء تک پہنچا دیتا ہے تو یہ (عمل) دس سال کے اعتکاف سے بہتر ہے اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے ایک دن کا اعتکاف کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے اور آگ کے درمیان تین ضندقیں بنا دے گا جو زمین و آسمان کے درمیان کی مسافت سے زیادہ چوڑی ہوں گی۔ (92) بیہقی نے علی بن حسین ؓ سے اور انہوں نے واپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف کیا وہ دو حجوں اور دو عمروں کی طرح ہے۔ (93) بیہقی نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ معتکف کے لئے ہر دن حج (کا ثواب ہے) بیہقی فرماتے ہیں کہ حضرت حسن ایسی بات نہیں کرتے تھے مگر جو انہیں کسی سے پہنچی ہوتی تھی۔ (94) بیہقی نے زیاد بن سکن (رح) سے روایت کیا کہ زبید الیامی اور (ان کی) جماعت جب یوم النیر وز اور یوم المہرجان ہوتا تو وہ اپنی مسجدوں میں اعتکاف کرلیتے تھے پھر کہتے تھے کہ انہوں نے اپنے کفر پر اعتکاف کیا اور ہم نے اپنے ایمان پر اعتکاف کیا (اے اللہ) ہم کو بخش دیجئے۔ اعتکاف کرنے کی فضیلت (95) بیہقی نے عطا خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ اعتکاف کرنے والا محرم کی طرح سے ہے جو اپنے آپ کو رحمن کے آگے ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے اللہ کی قسم ! میں نہیں پیوں گا یہاں تک کہ مجھ پر رحم فرمائے۔ (96) ابن ابی الدنیا نے کتاب قضاء الحوائج میں حسن بن علی ؓ سے روایت کیا کہ ایک شخص حسین بن علی کے پاس آیا اور اس سے سوال کیا کہ میرے ساتھ میری حاجت میں چلیں فرمایا میں معتکف ہوں۔ وہ آدمی حسن ؓ کے پاس آیا اور ان کو (یہ بات) بتائی حسن ؓ سے فرمایا اگر وہ تیرے ساتھ چلے جاتے تو وہ ان کے اعتکاف سے بہتر ہوتا اللہ کی قسم میں تیرے ساتھ تیری حاجت میں چلوں یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے کہ ایک مہینہ اعتکاف بیٹھوں۔ (97) امام بخاری نے جزء تراجم میں ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں اپنے بھائی کے ساتھ اس کی حاجت میں چلوں تو یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں اپنی اس مسجد میں ایک ماہ کا اعتکاف کروں اور جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ اس کی حاجت میں چلا۔ یہاں تک کہ اس کی حاجت پوری کردی تو اللہ تعالیٰ اس کے قدموں کو اس دن ثابت رکھیں گے جس دن قسم ڈگمگا جائیں گے۔ (98) عبد الرزاق نے محمد بن واسع الازدی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنے بھائی کی کسی دن مدد کی تو اس کے لئے ایک ماہ کے اعتکاف بیٹھے سے بہتر ہے۔ (99) دار قطنی نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہر مسجد جس کے لئے مؤذن اور امام ہو اس میں اعتکاف کرنا بہتر ہے۔ (100) ابن ابی شیبہ نے حضرت مسیب (رح) سے روایت کیا کہ اعتکاف صرف مسجد میں ہوتا ہے۔ (101) دار قطنی اور حاکم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا نہیں ہوتا اعتکاف مگر روزہ کے ساتھ۔ (102) مالک نے قاسم بن محمد اور نافع مولی ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں اعتکاف نہیں ہوتا مگر روزہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے ساتھ یعنی لفظ آیت ” وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض “ الی قولہ ” ولا تباشروھن وانتم عکفون فی المسجد “ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کو روزہ کے ساتھ ذکر فرمایا۔ (103) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس رحی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ معتکف پر روزہ لازم ہے۔ (104) ابن ابی شیبہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا انہوں نے فرمایا نہیں ہے اعتکاف مگر روزہ کے ساتھ۔ ابن شیبہ نے عائشہ ؓ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (105) ابن ابی شیبہ نے ایک دوسرے طریق سے حضرت علی وابن مسعود ؓ دونوں حضرات سے روایت کیا کہ معتکف پر روزہ واجب نہیں ہے۔ مگر یہ کہ انہوں نے اپنے اوپر شرط کرلیا ہو۔ (106) دار قطنی اور حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا معتکف پر روزہ نہیں مگر یہ کہ اس کو اپنے اوپر لازم کرے۔ (107) ابن ابی شیبہ دار قطنی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا کہ معتکف مریض کی تیمار داری کرسکتا ہے جنازہ میں جاسکتا ہے۔ جمعہ (کی نماز) میں آسکتا ہے اور اپنے اہل و عیال کے پاس آسکتا ہے لیکن ان کے پاس بیٹھ نہیں سکتا۔ (108) امام مالک، بخاری، مسلم، نسائی، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سر مبارک کو میرے حجرے میں داخل فرماتے اور آپ خود مسجد میں ہوتے تھے میں آپ کو کنگھی کردیتی تھی اور جب آپ معتکف ہوتے تھے تو گھر میں داخل نہ ہوتے تھے مگر (ضروری) حاجت کے لئے۔ (109) امام بخاری، مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرماتے تھے۔ بیس دن کا اعتکاف (110) امام بخاری، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ پر رمضان میں دس دن کا اعتکاف فرماتے تھے جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال میں آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ (111) امام مالک (رح) نے اہل فضل و دین سے روایت کیا کہ وہ لوگ رمضان کے مہینہ کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا کرتے تھے اپنے گھر والوں کے پاس نہ لوٹتے تھے یہاں تک کہ لوگوں کے ساتھ عید کی نماز میں حاضر ہوتے تھے۔ (112) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ علماء معتکف کے لئے اس بات کو پسند کرتے تھے کہ عید الفطر کی رات (مسجد میں) گزارے تاکہ صبح کے وقت عید گاہ کی طرف جانا مسجد سے ہو۔ (113) ابن ابی شیبہ نے أبو مجلز (رح) سے روایت کیا کہ لیلۃ القدر کی رات اس مسجد میں گزارے جس میں اس نے اعتکاف کیا ہے تاکہ صبح کے وقت عید گاہ کی طرف جانا مسجد سے ہو۔ (114) حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں عمروبن شعب سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے بھائی کو محبت کے ساتھ دیکھا اس کا یہ عمل میری اس مسجد میں ایک سال کا اعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔ (115) ابن ابی شیبہ نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کی بعض ازواج مطہرات مستحاضہ ہونے (وہ خون جو بیماری کی وجہ سے آتا ہے) کے باوجود اعتکاف کرتی تھیں۔ (116) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” تلک حدود اللہ “ سے مراد ہے طاعۃ اللہ یعنی اللہ کی اطاعت۔ (117) ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” تلک حدود اللہ “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی یعنی اعتکاف میں بیوی سے جماع کرنا۔ (118) ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” تلک حدود اللہ فلا تقربوھا “ سے جماع مراد ہے۔ (119) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ” کذلک “ سے مراد ہے یعنی اس طرح اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا۔
Top