Dure-Mansoor - Al-Baqara : 193
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ
وَقٰتِلُوْھُمْ : اور تم ان سے لڑو حَتّٰى : یہانتک کہ لَا تَكُوْنَ : نہ رہے فِتْنَةٌ : کوئی فتنہ وَّيَكُوْنَ : اور ہوجائے الدِّيْنُ : دین لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنِ : پس اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَلَا : تو نہیں عُدْوَانَ : زیادتی اِلَّا : سوائے عَلَي : پر الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور ان سے یہاں تک جنگ کرو کہ فتنہ باقی نہ رہے اور ہوجائے دین اللہ ہی کے لئے۔ پس اگر وہ باز آجائیں تو زیادتی نہیں ہے مگر ظالموں پر
(1) ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقتلوہم حتی لا تکون فتنۃ “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اور ” یکون الدین “ سے مراد ہے کہ توحید خالص اللہ کے لئے ہوجائے۔ (2) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقتلوہم حتی لا تکون فتنۃ “ سے مراد شرک ہے (اور) لفظ آیت ” فان انتھوا فلا عدوان الا علی الظلمین “ سے مراد ہے کہ تم قتال نہ کرو مگر جو تم سے قتال کرتے ہیں۔ (3) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم، النحاس نے ناسخ میں اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (یہ آیت) لفظ آیت ” ولا تقاتلوہم عند المسجد الحرام حتی یقاتلونکم فیہ “ یہ حکم اس طرح تھا یہاں تک کہ منسوخ کردیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” وقتلوہم حتی لا تکون فتنۃ “ یعنی (فتنہ سے مراد ہے شرک لفظ آیت ” ویکون الدین للہ “ یعنی جب تک کہ ” لا الہ الا اللہ “ نہ کہا جائے اس پر رسول اللہ ﷺ نے قتال فرمایا اور اسی کی طرف (لوگوں کو) بلایا اور ہم کو یہ بیان کیا گیا کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں۔ یہاں تک لوگ ” لا الہ اللہ “ کہنے لگیں (اور) لفظ آیت ” فان انتھوا فلا عدوان الا علی الظلمین “ سے مراد ہے کہ بلاشبہ ظالم وہ ہے جس نے ” لا الہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کردیا اس سے قتال کیا جائے یہاں تک کہ وہ ” لا الہ الا اللہ “ کہہ لے۔ (4) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویکون الدین للہ “ سے مراد ہے (اس وقت تک ان سے قتال کرو) یہاں تک کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ (5) ابن جریر نے عکرمہ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ لفظ آیت ” فلا عدوان الا علی الظلمین “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ” لا الہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کریں۔ مسلمان کا خون بہانا حرام ہے (6) امام بخاری، ابو الشیخ، ابن مردویہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان کے پاس دو آدمی آئے ابن الزبیر کے فتنہ کے دور میں اور کہنے لگے لوگوں نے فساد کیا ہے اور آپ حضرت عمر ؓ کے بیٹے اور نبی اکرم ﷺ کے ساتھی ہیں کس چیز نے آپ کو باہر نکلنے سے روکا ہے ؟ انہوں نے فرمایا مجھے اس بات نے روکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے بھائی کا خون حرام کردیا ہے وہ کہنے لگے کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ؟ لفظ آیت ” وقتلوہم حتی لا تکون فتنۃ “ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا ہم نے قتال کیا یہاں تک کہ فتنہ نہ رہا اور دین خالص اللہ کے لئے ہوگیا اور تم یہ چاہتے ہو کہ قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی رہے اور دین غیر اللہ کے لئے ہوجائے۔
Top