Dure-Mansoor - Al-Baqara : 195
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ١ۛۖۚ وَ اَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاَنْفِقُوْا : اور تم خرچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَلَا : اور نہ تُلْقُوْا : ڈالو بِاَيْدِيْكُمْ : اپنے ہاتھ اِلَى : طرف (میں) التَّهْلُكَةِ : ہلاکت وَاَحْسِنُوْا : اور نیکی کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور نہ ڈالو اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں، اور خوبی کے ساتھ کام کیا کرو، بیشک اللہ تعالیٰ خوبی کے ساتھ کام کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے
(1) امام وکیع، سفیان بن عینیہ، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “ سے مراد ہے کہ اللہ کے راستہ میں غربت اور افلاس کے ڈر سے خرچ کرنا چھوڑ دینا۔ (2) امام وکیع، عبد بن حمید، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ لفظ آیت ” ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “ سے مراد ہے اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کو چھوڑ دینا خرچ کو اگرچہ کھجور کا آدھا ٹکڑا کیوں نہ ہو۔ (3) الفریابی، ابن جریر، ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ” التھلکۃ “ یہ نہیں ہے کہ آدمی اللہ کے راستہ میں قتل ہوجائے بلکہ اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے سے رک جائے۔ (4) عبد بن حمید، ابن جریر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت لفظ آیت ” ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “ اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی۔ (5) امام وکیع اور عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت لفظ آیت ” ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “ اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی۔ (6) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ ایک قوم اللہ کے راستہ میں چلتی تھی ان میں سے ایک آدمی زاد راہ لیتا تھا اور وہ افضل آدمی تھا توشہ کے لحاظ سے دوسرے سے اور وہ اپنے توشے سے خشک چیز خرچ کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے توشے سے کوئی ایسی چیز باقی نہ رہتی تھی جس کے ساتھ وہ اپنے ساتھی کی غم خواری اور مدد کرتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) لفظ آیت ” وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “ نازل فرمائی۔ (7) ابن جریر نے حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ لوگ سفر کرتے تھے اور (سفر میں خرچ کرنے سے) کنجوسی کرتے تھے۔ اور اپنے مالوں سے خرچ نہیں کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا کہ وہ اپنی جگہوں میں اللہ کے راستے میں خرچ کریں۔ (8) عبد بن حمید اور بیہقی نے الشعب میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” بایدیکم الی التھلکۃ “ سے مراد نخل ہے۔ (9) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ لوگ بغیر نفقہ کے ان جنگی مہموں میں نکلتے تھے جن کو رسول اللہ ﷺ روزانہ فرما دیتے تھے پھر یا تو ان کا زادراہ ختم ہوجاتا تھا یا چلنے سے عاجز آجاتے پس اللہ تعالیٰ نے ان کو خرچ کرنے کا حکم فرمایا ان چیزوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو رزق عطا فرمایا اور (فرمایا) نہ ڈالو اپنے ہاتھوں کو (یعنی اپنے آپ کو) ہلاکت میں اور ” التھلکۃ “ یہ ہے کہ لوگ بھوک پیاس اور چلنے کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں اور اس شخص کے بارے میں فرمایا جس کے ہاتھ میں فضل ہے (یعنی جس کے پاس اضافی مال ہے) لفظ آیت ” واحسنوا، ان اللہ یحب المحسنین “ (اور نیکی کرو یعنی غریبوں پر خرچ کرو بیشک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (10) عبد بن حمید، ابو یعلی، ابن جریر، البغوی نے معجم میں، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن عباس، ابن حاتم اور طبرانی نے ضحاک بن ابی جبرہ (رح) سے روایت کیا کہ انصار اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے تھے اور صدقہ کرتے تھے۔ ایک دفعہ قحط پڑگیا تو ان کے خیالات بدل گئے اور وہ خرچ کرنے سے رک گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اتارا۔ لفظ آیت ” وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “۔ (11) سفیان بن عینیہ اور عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “ سے مراد ہے کہ تم کو محتاجی یا غریبی کا خوف خرچ کرنے سے نہ روک دے۔ فتح قسطنطنیہ کا تذکرہ (12) عبد بن حمید، ابو داؤد، ترمذی (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) نسائی، ابو یعلی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) طبرانی، ابن مردویہ، بیہقی نے السنن میں اسلم ابو عمران (رح) سے روایت کیا کہ ہم قسطنطنیہ میں تھے اور مصر والوں پر عقبہ بن عامر ؓ گورنر تھے اور شام والوں پر فضالہ بن عبید ؓ گورنر تھے۔ رومیوں میں سے ایک بہت بڑا لشکر (لڑائی کے لئے) نکلا ہم نے بھی ان (سے لڑنے) کے لئے صف بنائی۔ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے رومیوں کے لشکر پر حملہ کیا اور ان میں گھس گیا لوگ چیخنے لگے اور کہنے لگے سبحان اللہ ! اس نے اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں ڈال دیا یا رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت ابو ایوب ؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو ! تم نے اس آیت کی یہ تاویل کی ہے بلاشبہ یہ آیت ہمارے درمیان انصار کی جماعت کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو عزت دی اور مسلمانوں کے مددگار زیادہ ہوگئے تو لوگ چپکے چپکے آپس میں کہنے لگے۔ بلاشبہ ہمارے مال ضائع ہوچکے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت عطا فرمائی اور اس کے مددگار بہت ہیں۔ اگر ہم اپنے مالوں کے درمیان رہیں اور ہم اپنے مالوں کی دیکھ بھال کریں تو اس میں سے جو کچھ ضائع ہوچکا ہے اس کی اصلاح کریں (تو ہمارے لئے بہتر ہوگا) تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر (یہ آیت) نازل فرمائی اور ہم پر رد فرمایا جو کچھ ہم نے کہا تھا لفظ آیت ” وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “ یعنی مالوں کی دیکھ بھال اس کی اصلاح کی جائے اور جہاد کو چھوڑ دیا جائے یہ تہلکہ ہے۔ (13) امام وکیع، سفیان بن عینیہ، الفریابی، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ لفظ آیت ” ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “ سے کیا وہ شخص مراد ہے جو دشمن سے مقابلہ کرے پھر ان سے لڑتے ہوئے شہید ہوجائے ؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن اس سے مراد وہ شخص ہے جو گناہ کرتا رہتا ہے اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے اور کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میری کبھی بھی مغفرت نہیں فرمائے گا۔ (14) عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن مردویہ، طبرانی اور بیہقی نے الشعب میں نعمان بن بشیر ؓ سے روایت کیا کہ ایک شخص گناہ کرتا رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میری کبھی مغفرت نہیں فرمائیں گے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “ (15) وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر نے عبیدہ سلمانی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “ سے مراد ہے القنوط یعنی مایوسی، نا امیدی۔ (16) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” التھلکۃ “ سے مراد اللہ کا عذاب ہے۔ (17) ابن ابی حاتم نے عبد الرحمن بن اسود بن عبد یغوث (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ انہوں نے دمشق کا محاصرہ کیا۔ (ہم میں سے) ایک آدمی کے اکیلے ہی دشمن کی طرف جلدی کی۔ اس پر مسلمانوں نے عیب لگایا (اور) اس بات کو وہ لوگ عمرو بن عاص رضی ال ؛ لہ عنہ کے پاس لے گئے انہوں نے اس آدمی کو بلا بھیجا اور واپس لوٹا دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “۔ (18) ابن جریر (رح) صحابہ میں سے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ ” واحسنوا “ سے مراد ہے فرائض کو ادا کرو۔ عبد بن حمید نے ابو اسحاق (رح) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (19) عبد بن حمید اور ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واحسنوا، ان اللہ یحب المحسنین “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھو۔
Top