Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-Baqara : 198
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ١۪ وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ١ۚ وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ
لَيْسَ
: نہیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
جُنَاحٌ
: کوئی گناہ
اَنْ
: اگر تم
تَبْتَغُوْا
: تلاش کرو
فَضْلًا
: فضل
مِّنْ
: سے
رَّبِّكُمْ
: اپنا رب
فَاِذَآ
: پھر جب
اَفَضْتُمْ
: تم لوٹو
مِّنْ
: سے
عَرَفٰتٍ
: عرفات
فَاذْكُرُوا
: تو یاد کرو
اللّٰهَ
: اللہ
عِنْدَ
: نزدیک
الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ
: مشعر حرام
وَاذْكُرُوْهُ
: اور اسے یاد کرو
كَمَا
: جیسے
ھَدٰىكُمْ
: اسنے تمہیں ہدایت دی
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم تھے
مِّنْ قَبْلِهٖ
: اس سے پہلے
لَمِنَ
: ضرور۔ سے
الضَّآلِّيْنَ
: ناواقف
تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ معاش تلاش کرو جو تمہارے رب کی طرف سے ہے، پھر جب تم عرفات سے واپس ہو تو اللہ کو یاد کرو مشعر حرام کے نزدیک، اور اس کو یاد کرو جیسا کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور حقیقت میں بات یہ ہے کہ تم اس سے پہلے محض ناواقف تھے
(1) سفیان، سعید بن منصور، بخاری، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں عکاظ مجنہ اور ذوالمجاز (کے نام سے) بازار تھے۔ مگر موسم (حج) میں وہ تجارت کرنے کو گناہ سمجھنے لگے (صحابہ کرام ؓ نے) رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم، فاذا افضتم من عرفت “ یعنی مواسم حج میں تجارت کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ (2) امام وکیع، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن عبید، ابو داؤد، ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لوگ موسم حج میں بیع و تجارت کرنے سے رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کے ذکر کے دن ہیں۔ تو (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” لیس علیکم جناح “ (الآیہ) (3) ابوداؤد، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ پہلے لوگ منی، عرفات، ذوالمجاز کے بازار اور مواسم حج میں خریدو فروخت کرتے تھے مگر احرام کی حالت میں خریدو فروخت سے ڈرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم فی مواسم الحج “ عبید بن عمیر (رح) نے بیان فرمایا کہ وہ قرآن مجید میں اس (آیت) کو یوں پڑھا کرتے تھے۔ سفر حج میں تجارت کرنا جائز ہے (4) عبد الرزاق، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، احمد، عبد بن حمید، ابو داؤد، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے ابو امامہ تمیمی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا ہم لوگ سواریوں کے کرائے دیتے ہیں کیا ہمارا حج ہے ؟ انہوں نے فرمایا کیا تم بیت اللہ کا طواف، اور صفا مروہ کی سعی نہیں کرتے ہو ؟ اور تم عرفان میں نہیں آتے ہو شیاطین کو کنکری نہیں مارتے ہو اور اپنے سروں کا حلق نہیں کراتے ہو ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں (یہ سب کام کرتے ہو (پھر) ابن عمر ؓ نے فرمایا ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے یہی سوال کیا جو تو نے مجھ سے سوال کیا۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ جبرئیل (علیہ السلام) یہ آیت لے کر نازل ہوئے لفظ آیت ” لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم “ آپ نے اس کو بلایا اور یہ آیت اس کو سنائی۔ اور فرمایا تم لوگ حج کرنے والے ہو۔ (5) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ اس آیت لفظ آیت ” لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم فی مواسم الحج “ کو اس طرح پڑھا۔ (6) وکیع، ابو عبید، ابن ابی شیبہ، بخاری، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس آیت کو لفظ آیت ” لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم فی مواسم الحج “ اس طرح پڑھتے تھے۔ (7) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں عطا (رح) سے روایت کیا کہ (یہ آیت اس طرح) نازل ہوئی لفظ آیت ” لا جناح علیکم ان تبتغوا فضلا من ربکم فی مواسم الحج “ اور ابن مسعود ؓ کی قرأت میں یوں ہے لفظ آیت ” فی مواسم الحج فاتبعوا حنیذ “۔ (8) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” لیس علیکم جناح “ کے بارے میں روایت کیا اس سے مراد ہے تم پر کوئی حرج نہیں خریدو فروخت کے بارے میں احرام سے پہلے یا اس کے بعد۔ (9) ابن ابی شیبہ، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لوگ ایام حج میں تجارت نہیں کرتے تھے تو اس بارے میں (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم ‘ ‘ (10) ابو داؤد نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کو یوں پڑھا۔ لفظ آیت ” لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم “ اور فرمایا کہ وہ لوگ منی میں تجارت نہیں کرتے تھے تو ان کو عرفات سے لوٹنے کے بعد تجارت کا حکم دیا گیا۔ (11) سفیان بن عینیہ اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم “ کے تحت روایت کیا کہ اس سے مراد دنیا میں تجارت ہے اور آخرت میں اجر ہے۔ (12) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے تحت روایت کیا کہ اہل جاہلیت میں سے لوگ لیلۃ النصر کو لیلۃ الصدر کہتے تھے اور وہ لوگ کسی چیز کو توڑنے اور کسی گمشدہ اور کسی حاجت کے لئے متوجہ نہ ہوتے تھے اور اس رات نہ تجارت کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ سب چیزیں ایمان والوں کے لئے حلال فرما دیں کہ اپنی حاجات کے لئے اور روزی کی تلاش میں لگنے کو حلال فرما دیا۔ وأما قولہ تعالیٰ : فاذا افضتم من عرفت : (13) امام وکیع، ابن جریر، ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عرفات اس لئے نام رکھا گیا کہ جبرئیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرماتے تھے یہ فلاں جگہ ہے۔ یہ فلاں جگہ ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) فرماتے تھے کہ میں نے پہچان لیا، میں نے پہچان لیا اسی لئے اس کو عرفات کا نام دیا گیا۔ (14) ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ عرفات اس لئے نام رکھا گیا کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا گیا جب ان کو مناسک دکھا دئیے گئے تو آپ سے کہا گیا عرفت ؟ (کیا آپ نے پہچان لیا) عرفہ سے غروب آفتاب کے بعد واپس آنا عبد الرزاق اور ابن جریر نے علی ؓ سے اسی طرح روایت ہے۔ (15) امام حاکم، ابن مردویہ، بیہقی نے اپنی سنن میں سوار بن مخرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو عرفہ میں خطبہ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی۔ پھر فرمایا أما بعد اور جب آپ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے تو اما بعد فرماتے تھے (پھر فرمایا) یہ حج اکبر کا دن ہے خبردار مشرک اور بتوں کی پوجا کرنے والے سورج غروب ہونے سے پہلے یہاں سے چلتے تھے جب سورج پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہوتا تھا گویا کہ آدمیوں کی پگڑیاں ان کے چہروں میں ہیں اور ہم سورج غروب ہونے کے بعد (یہاں سے) جائیں گے۔ اور وہ لوگ مشعر الحرام سے سورج طلوع ہونے کے بعد جاتے تھے جب سورج پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہوتا تھا گویا کہ آدمیوں کی پگڑیاں ان کے چہروں میں ہیں اور ہم سورج طلوع ہونے سے پہلے (یہاں سے) جائیں گے اہل مشرک کی مخالفت کرتے ہوئے۔ (16) بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص صبح سے پہلے عرفات سے چلا اس نے اپنا حج پورا کرلیا جس کا عرفات (کا قیام) فوت ہوگیا اس کا حج فوت ہوگیا۔ (17) امام بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدمی حلال ہونے کی حالت میں بیت اللہ کا طواف کرتا رہے یہاں تک کہ حج کا احرام باندھ لے جب عرفات کی طرف سوار ہوجائے تو جو کچھ میسر ہو ہدی کے جانوروں میں سے اونٹ یا گائے یا بکری اس کو ساتھ لے اور جس کو ہدی کا جانور میسر نہ ہو تو اس پر تین روزے ہیں حج کے دوران اور عرفہ کے دن سے پہلے اور اگر (روزے کے) تین دنوں میں سے آخری دن عرفہ ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ پھر اس کو چاہئے کہ چل پڑے یہاں تک کہ عرفات میں ٹھہر جائے نماز عصر سے اندھیرا ہونے تک پھر عرفات سے چل پڑے یہاں تک کہ مزدلفہ میں پہنچ جائیں جس میں رات گزاریں پھر ان کو چاہئے کہ کثرت سے اللہ کا ذکر اور تسبیح اور تہلیل صبح ہونے تک کرتے ہیں۔ پھر چل پڑیں کیونکہ لوگ بھی چل پڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ثم افیضوا من حیث افاض الناس واستغفروا اللہ، ان اللہ غفور رحیم “ یہاں تک کہ شیطان کو کنکری ماریں۔ (18) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عرفات کی حد بلند پہاڑ سے لے کر بطن عرفہ پر عرفہ کے پہاڑوں تک ہے یعنی ملتقی وصیق اور وادی عرفہ۔ (19) ابو داؤد اور ابن ماجہ نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عرفات سارے کا سارا موقوف ہے اور سارا منی قربانی کی جگہ ہے اور سارا مزدلفہ موقف ہے اور مکہ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے۔ (20) مسلم نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے یہاں اونٹ ذبح کیا اور منی سارا قربانی کی جگہ ہے۔ اپنی سواریوں میں سے ذبح کرو۔ میں نے یہاں وقوف کیا اور عرفات سارا موقف ہے۔ میں نے یہاں وقوف کیا اور مزدلفہ سارا موقف ہے۔ (21) احمد نے جبیر بن معطم ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا سارا عرفات موقف ہے اور وادی عرفہ سے دور رہو اور مزدلفہ (کا میدان) سارا موقف ہے اور وادی محرا سے دور رہو اور مکہ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور سارے ایام تشریق ذبح کرنے کے وقت ہیں۔ بطن عرنہ کے علاوہ پورا عرفہ موقف ہے (22) امام ابو داؤد، ترمذی نے (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے اور الفاظ بھی ان کے ہیں) اور ابن ماجہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفات میں وقوف فرمایا اور فرمایا یہ عرفات ہے اور عرفات (کا میدان) سارا موقف ہے۔ جب سورج غروب ہوا تو آپ یہاں سے چل پڑے۔ اور اپنے پیچھے سواری پر اسامہ بن زید ؓ کو بٹھایا اور آپ اپنے ہاتھ سے آہستہ ہونے کا فرما رہے تھے اور لوگ دائیں اور بائیں دوڑ رہے تھے آپ ان کو توجہ کرتے ہوئے فرماتے اے لوگو ! لازم پکڑو (چلتے میں) اطمینان کو پھر آپ مزدلفہ تشریف لائے اور دونوں نمازیں (مغرب اور عشاء) اکٹھی پڑھیں جب صبح ہوئی تو آپ قزح (پہاڑ) پر تشریف لائے اور اس پر وقوف فرمایا اور فرمایا یہ قزح (پہاڑ) موقف ہے اور مزدلفہ سارا موقف ہے۔ (23) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، ترمذی (انہوں نے اس کو حسن کہا ہے) نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) یزید بن شیبان (رح) سے تروایت کیا کہ ہمارے پاس ابن مربع انصاری ؓ تشریف لائے اور ہم موقف میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے فرمایا میں تمہاری طرف رسول اللہ ﷺ کا قاصد ہوں آپ نے فرمایا ہے ہوجاؤ تم اپنی علامت والی جگہوں میں کیونکہ تم میراث پر ہو اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی میراث پر (یعنی ان کے طریقے پر ہو) ۔ (24) ابوداؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے اطمینان کے ساتھ چل پڑے اور آپ کی سواری کے پیچھے اسامہ ؓ تھے آپ نے فرمایا اے لوگو ! وقار اور سکون کو لازم پکڑو کیونکہ نیکی گھوڑے اور اونٹ کے تیز دوڑانے میں نہیں۔ راوی حدیث ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی ہاتھوں کو اوپر اٹھائے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ مزدلفہ میں تشریف لے آئے۔ پھر آپ نے اپنے پیچھے فضل بن عباس ؓ کو بٹھا لیا اور فرمایا اے لوگو ! گھوڑے اور اونٹ تیز دوڑانے میں نیکی نہیں اطمینان کو لازم پکڑو۔ راوی حدیث نے فرمایا میں نے آپ کو ہاتھ اٹھائے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ منی میں تشریف لے آئے۔ (25) بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عرفات سے روانہ ہوا آپ نے اپنے پیچھے اونٹ کو سخت ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور سخت مارنے کی آواز سنی تو آپ نے ان کی طرف اپنے کوڑے سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اے لوگو اطمینان کو لازم پکڑو کیونکہ نیکی تیز چلنے میں نہیں۔ (26) امام حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ تیز چلنے کا آغاز دیہات کے رہنے والوں سے شروع ہوا یہ لوگ لوگوں کے کنارے پر ٹھہرے رہتے تھے اور انہوں نے اپنے کوڑے لاٹھیاں اٹھائی ہوئی تھیں۔ جب لوگ لگتے تو اپنی لاٹھیاں کھٹکھٹاتے تو لوگ بھی بھاگ پڑتے اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ کی اونٹنی کے پاؤں کے درمیانی حصہ زمین پر نہیں لگتا تھا۔ اور آپ فرماد ہے تھے اے لوگو ! اطمینان کو لازم پکڑو (یعنی سکون سے چلو) ۔ (27) امام بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے اسامہ بن زید ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کس طرح چل رہے تھے جب آپ عرفات سے چلے ؟ انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفات سے مجھے اپنی سواری کے پیچھے بٹھایا اور آپ کی رفتار معتدل تھی لیکن جب راستہ کشادہ پاتے تو تیز رفتاری سے چلتے۔ (28) ابن خزیمہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سورج غروب تک عرفات میں ٹھہرے رہے پھر آپ چل پڑے تکبیر کہتے ہوئے تلبیہ کہتے ہوئے اس کی عظمت اور بزدگی بیان کرتے ہوئے۔ یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچ گئے۔ (29) طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے روانہ ہوئے تو یہ شعر پڑھتے تھے۔ الیک تعدد قلقا وصینھا مخالفا دین للنصاری دینھا ترجمہ : تیری طرف بےقرار ہو کر دوڑتا ہے حالانکہ اس کا دین نصاری کے دین کے خلاف ہے۔ (30) امام شافعی نے الام میں اور عبد الرزاق نے المصنف میں اور سعید بن منصور نے عروہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ جب عرفات سے چلے تو یہ شعر پڑھا۔ الیک تعدد قلقا وصینھا مخالفا دین للنصاری دینھا ترجمہ : تیری طرف بےقرار ہو کر دوڑتا ہے حالانکہ اس کا دین نصاری کے دین کے خلاف ہے۔ (31) عبد الرزاق نے عبد المالک بن أبی بکر (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابوبکر بن عبد الرحمن بن حرث بن ہشام و ابو سلمہ بن سفیان کو دیکھا کہ بطن عرفہ کے کنارے پر دونوں کھڑے ہیں میں بھی ان کے ساتھ ٹھہر گیا جب امام جانے لگا تو ان دونوں نے یہ شعر پڑھا۔ الیک تعدد قلقا وصینھا مخالفا دین للنصاری دینھا ترجمہ : تیری طرف بےقرار ہو کر دوڑتا ہے حالانکہ اس کا دین نصاری کے دین کے خلاف ہے۔ اور اس نے گمان کیا کہ اس نے ابوبکر بن عبد الرحمن کو ایسا پڑھتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ جب (عرفات سے) روانہ ہوئے تو یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔ (32) بخاری، مسلم اور نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عرفات سے مزدلفہ تک رسول اللہ ﷺ کی سواری کے پیچھے اسامہ بن زید ؓ بیٹھے تھے پھر مزدلفہ سے منی تک آپ کے پیچھے الفضل ؓ بیٹھے تھے دونوں نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ برابر تلبیہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ جمرہ عقبہ کی رمی فرمائی۔ (33) مسلم نے اسامہ بن زید ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا جب آپ عرفات سے روانہ ہوئے۔ جب گھاٹی پر پہنچے تو آپ نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے جب آپ واپس تشریف لائے تو میں آپ کے پاس برتن لے آیا آپ نے وضو فرمایا پھر سواری پر سوار ہوگئے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچ گئے اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا۔ (34) ابوداؤد، ترمذی اور نسائی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشا کی نمازوں کو (اس طرح) جمع فرمایا کہ (پہلے) مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں اور عشاء کی دو رکعتیں ایک اقامت کے ساتھ۔ وأما قولہ تعالیٰ : فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام : مشعر الحرام مزدلفہ میں ہے (35) امام وکیع، سفیان، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم الازرقی نے تاریخ مکہ میں اور بیہقی نے سنن میں عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ ان سے مشعر الحرام کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ خاموش ہوگئے یہاں تک کہ سواریوں کے اگلے پاؤں مزدلفہ میں اترے تو فرمایا یہ مشعر الحرام ہے۔ (36) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم، حاکم نے (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ مشعر الحرام سارا مزدلفہ ہے۔ (37) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لوگوں کو (جیل) قزح پر بھیڑ کرتے ہوئے دیکھا۔ تو انہوں نے فرمایا یہ لوگ کیوں بھیڑ کر رہے ہیں ؟ (حالانکہ) یہ ساری جگہ مشعر الحرام ہے۔ (38) سعید بن منصور، ابن جریر، ابن المنذر اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام “ میں مشعر الحرام سے مراد پہاڑ اور اس کے ادرگرد کی جگہ ہے۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت کیا۔ (39) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان دونوں پہاڑوں کے درمیان مزدلفہ میں مشعر ہے۔ (40) ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے۔ مزدلفہ کے دونوں پہاڑوں کے درمیان جو جگہ ہے وہ مشعر الحرام ہے۔ (41) ابن ابی شیبہ نے عبد الرحمن بن اسور (رح) سے روایت کیا کہ میں نے کسی ایک کو بھی نہیں پایا جو مجھے مشعر الحرام کے بارے میں بتائیے۔ (42) مالک اور ابن جریر نے عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ سوائے بطن عزیز کے سارا عرفات موقف ہے۔ اور وادی محسر کے سوا مزدلفہ سارا موقف ہے۔ (43) الازرقی اور حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بطن عرفہ سے دور ہو اور بطن محسر سے دور ہو۔ (44) الازرقی نے ابن جریر (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطا (رح) سے پوچھا مزدلفہ کہا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ مزدلفہ (وہ جگہ ہے) کہ جب تو عرفہ کے دونوں پہاڑی راستوں پر چلے اور وہ وادی محسر تک ہیں۔ اور دونوں پہاڑی راستے عرفہ کے ہیں وہ مزدلفہ سے نہیں ہیں لیکن وہ اس تک پہنچانے والے ہیں پھر انہوں نے فرمایا ان دونوں راستوں میں سے جس راستے پر تو چاہے کھڑا ہوجا۔ اور میں پسند کرتا ہوں کہ تو قزح (پہاڑ) سے نیچے کھڑا ہے۔ (45) امام حاکم نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب آپ عرفات میں وقوف فرما رہے تھے کہ یہ موقف ہے اور عرفات کا میدان سارا موقف ہے اور جب آپ قزح (پہاڑ) پر کھڑے ہوئے تو فرمایا یہ موقف ہے اور سارا مزدلفہ موقف ہے۔ (46) ابن خزیمہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مشعرالحرام میں وقوف فرماتے تھے اور لوگ (وہاں) وقوف کرتے تھے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے اور تکبیر کہتے تھے اور الا الہ الا اللہ کہتے اور اس کی بزرگی اور اس کی عظمت کو بیان کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ منی کی طرف روانہ ہوجاتے۔ (47) الازرقی نے نافع سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے جب کبھی بھی حج کرتے تھے تو قزح پہاڑ پر وقوف کرتے تھے اور آپ نہیں پہنچ سکتے تھے یہاں تک کہ ان کے لئے اسے خالی کیا جاتا اور امام کے ساتھ جبل قزح پر کھڑے ہوتے تھے جب بھی حج فرماتے تھے۔ (48) بخاری و مسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ اپنے گھر کے کمزور لوگوں کو پہلے بھیج دیتے تھے تو وہ رات کو مزدلفہ میں مشعر الحرام کے پاس وقوف کرتے تھے اور وہ اللہ کا ذکر کرتے تھے جو ان کے خیال میں آتا پھر وہ چلے جاتے امام کے وقوف سے پہلے اور امام کے چلنے سے پہلے اور کچھ اس میں سے وہ ہوتے جو فجر کی نماز سے پہلے منی آجاتے اور کچھ ان میں سے اس کے بعد آتے۔ جب وہ (منی) آتے تو پھر جمرہ کی رمی کرتے اور ابن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے لوگوں کے لئے رخصت فرمائی ہے۔ مزدلفہ سے روانگی طلوع سے تھوڑی دیر پہلے (49) ابو داؤد، الطیالسی، احمد، بخاری، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے عمرو بن میمون (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو مزدلفہ میں صبح کی نماز کے بعد یہ کہتے ہوئے سنا کہ مشرکین سورج نکلنے کے بعد مزدلفہ سے جاتے تھے اور وہ کہتے تھے ثبیر پہاڑ روشن ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ ان کی مخالفت کرتے ہوئے سورج نکلنے سے پہلے چلے تھے۔ (50) الازرقی نے کلیب ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کو ان کے حج میں عرفات سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوتے ہوئے دیکھا اور آگ مزدلفہ میں جلائی گئی تھی اس کے ارادے سے چلے اور اس کے قریب جاکر اترے۔ (51) الازرقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان ؓ کے زمانہ میں آگ جلائی جاتی تھی۔ (52) الازرقی نے اسحاق بن عبد اللہ بن خارجہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان عبد الملک بن مروان پہاڑی راستوں سے چلے تو انہوں نے آگ کی طرف نظر کو جو قزح (پہاڑ) پر جلائی گئی تھی۔ خارجہ بن زید سے فرمایا اے ابو زید ! اس آگ کو کس نے سب سے پہلے یہاں جلائی خارجہ نے کہا زمانہ جاہلیت میں اس کو قریش نے جلائی تھی وہ حرم شریف سے عرفات کی طرف نہیں نکلتے تھے ہم اللہ والے ہیں (ہمیں عرفات جانے کی ضرورت نہیں) خارجہ نے کہا میری قوم میں سے کچھ لوگوں نے خبر دی کہ انہوں نے اس آگ کو جاہلیت میں دیکھا تھا اور وہ حج کرتے تھے ان میں سے حسان بن ثابت میری قوم کے چند لوگوں میں سے ہیں اور لوگ کہتے تھے قصی بن کلاب نے مزدلفہ میں آگ جلائی تھی جہاں وہ ٹھہرا تھا یہاں تک کہ اس آگ کو وہ شخص دیکھ لے جو عرفات سے روانہ ہو۔ (53) بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی نے عبد الرحمن بن یزید (رح) سے روایت کیا کہ میں حضرت عبد اللہ ؓ کے ساتھ مکہ کی طرف روزنہ ہوا۔ پھر ہم مزدلفہ میں آئے اور وہ نمازیں (مغرب اور عشاء) اکٹھی پڑھیں۔ ہر نماز علیحدہ علیحدہ تھی اذان اقامت ایک تھی اور عشاء کا کھانا ان کے درمیان تھا۔ پھر فجر کی نماز پڑھی جب فجر طلوع ہوئی اور ایک کہنے والے نے کہا کہ فجر طلوع ہوگئی اور ایک کہنے والے نے کہا فجر طلوع نہیں ہوئی تھی پھر راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ دونوں نمازیں مغرب اور عشاء ان جگہوں میں اپنے وقتوں سے پھیر دی گئیں لوگ مزدلفہ نہیں پہنچے تھے یہاں تک کہ عشاء کی نماز مؤخر ہوچکی تھی۔ اور فجر کی نماز اس اندھیرے کے وقت میں پڑھتے تھے۔ پھر انہوں نے (مزدلفہ میں) وقوف فرمایا یہاں تک کہ (صبح میں) سفیدی ہوگئی پھر فرمایا اگر امیر المؤمنین اس وقت (یہاں سے) چلے تو اس سنت کو پالے گا (راوی نے) میں نہیں جانتا کہ آپ نے یہ قول پہلے کہا یا حضرت عثمان ؓ پہلے چلے گئے پھر آپ برابر تلبیہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ دسویں کے دن جمرہ و عقبہ کی رمی کی۔ (54) طبرانی اور حاکم نے ابن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ حج کی سنت میں سے یہ ہے کہ امام ظہر، عصر، مغرب اور عشاء اور صبح کی نمازیں منی میں پڑھے (آٹھ ذوالحجہ کو) پھر صبح کو عرفات کی طرف روانہ ہوجائے اور جو اس کے لئے فیصلہ کیا گیا یہاں تک کہ جب سورج کو زوال ہوجائے تو لوگوں کو خطبہ دے اور ظہر اور عصر اکٹھے پڑ ھائے پھر عرفات میں وقوف کرے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے تو وہاں سے چل دے جب جمرہ کبری کی رمی کرے تو اس پر یہ چیز حلال ہوجاتی ہے جو اس پر حرام تھیں سوائے عورتوں کے اور خوشبو کے یہاں تک کہ بیت اللہ کا طواف کرے (تو عورتیں اور خوشبو بھی حلال ہوجائے گی) ۔ وقوف عرفہ کے بعد وقوف مزدلفہ کرنا (55) ابن ابی شیبہ، احمد، ابو داؤد، ترمذی (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) نسائی، ابن ماجہ اور حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) عروہ بن مضرس ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ مزدلفہ میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا میں آپ کے پاس جبل طئی سے آیا ہوں اور میری سواری تھک گئی ہے اور میں خود بھی چلنے سے عاجز آچکا ہوں اللہ کی قسم ! میں نے کوئی پہاڑ نہیں چھوڑا جس پر میں نہ ٹھہرا ہوں کیا میرے لئے حج ہوگیا ہے ؟ آپ نے فرمایا جس نے ہمارے ساتھ یہ نماز اس مقام پر پڑھی پھر اس وقوف میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ امام روازنہ ہوگیا اور اس سے پہلے اس نے عرفات میں رات یا دن کے وقت وقوف کیا تھا تو اس نے اپنے حج کو پورا کرلیا اور اپنے میل کچیل کو دور کرلے۔ (56) امام شافعی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جس حاجی نے دسویں ذی الحج کی رات کو پالیا۔ پھر اس نے عرفات کے پہاڑ پر وقوف کیا فجر طلوع ہونے سے پہلے تو اس نے حج کو پالیا اور جس نے فجر طلوع ہونے سے پہلے عرفات کا وقوف نہیں کیا تو اس نے حج کو گم کردیا (یعنی اس کا حج فوت ہوگیا) اس کو چاہئے کہ بیت اللہ میں آکر سات چکر لگائے۔ صفا مروہ کے درمیان سعی کرے۔ پھر حلق یا قصر کرائے اگر چاہے اگر اس کے ساتھ ہدی کا جانور ہے تو حلق کرنے سے پہلے اس کو ذبح کرے جب طواف سعی سے فارغ ہو اجائے تو حلق یا قصر کرکے اپنے گھر کی طرف لوٹ آئے اگر آئندہ سال حج کرنے کی طاقت ہو تو اس کو چاہئے کہ ضرور حج کرے اور بدنہ ہدی بھی دے اور ہدی نہ پائے تو اس کے بدلہ میں تین روزے حج (کے ایام) میں اور سات روزے گھر آکر رکھ لے۔ (57) مسلم و نسائی نے عبد الرحمن بن یزید (رح) سے روایت کیا کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے مزدلفہ سے روانہ ہونے کے بعد لبیک پڑھا ایک دیہاتی نے کہا یہ کون ہے ؟ حضرت عبد اللہ ؓ نے فرمایا کیا لوگ بھول گئے ہیں یا گمراہ ہوگئے ہیں۔ میں نے اس ذات سے سنا جس پر سورة بقرہ نازل ہوئی۔ اس جگہ آپ نے پڑھا ” لبیک اللہم لبیک “۔ (58) ابن ابی حاتم اور طبرانی نے ابن زبیر ؓ سے لفظ آیت ” واذکروہ کما ھدکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ حکم عام نہیں ہے یہ اہل مکہ کے لئے ہے یہ مزدلفہ سے نکلتے تھے۔ اور باقی سب لوگ عرفات سے نکلتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس کام کا انکار کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” ثم افیضوا من حیث افاض الناس “۔ (59) عبد بن حمید نے حضرت سفیان ؓ سے لفظ آیت ” وان کنتم من قبلہ “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد ہے کہ تم قرآن (کے نازل ہونے) سے پہلے (جاہل تھے) ۔ (60) ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان کنتم من قبلہ لمن الضالین “ کہ اس میں ” ضالین “ سے مراد ” جاہلین “ (یعنی تم ناواقف تھے) ۔ (61) امام مسلم، ابو داؤد اور نسائی نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دسویں کے دن اپنی سواری پر رمی کرتے ہوئے دیکھا اور آپ فرما رہے تھے اپنے حج کے احکام سیکھ لو کیونکہ میں نہیں جانتا کہ میں اپنے اس حج کے بعد کوئی حج کرسکوں۔ حجۃ الوداع کا تذکرہ (62) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے جعفر بن محمد (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ہم جابر بن عبد اللہ ؓ کے پاس آئے اور میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ! کے حج کے بارے میں مجھے بتائیے تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نو سال تک ٹھہرے رہے اور حج (ادا) نہیں فرمایا پھر دسویں سال میں آپ نے لوگوں میں اعلان کرا دیا کہ رسول اللہ ﷺ حج کرنے والے ہیں (یہ اعلان سن کر) بہت لوگ مدینہ منورہ آگئے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (حج کے احکام) پورے کرے اور آپ کی طرح عمل کرے۔ رسول اللہ ﷺ (حج کے لئے) نکلے تو ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ذوالحلفیہ میں آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں نماز پڑھی پھر (اپنی اونٹنی) قصواء پر سوار ہوگئے۔ یہاں تک کہ اونٹنی آپ کو لے کر (مقام) بیداء پر سیدھی ہوئی اور رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تھے۔ اور آپ پر قرآن نازل ہو رہا تھا اور آپ اس کی مراد بتلاد ہے تھے جو آپ عمل کرتے تھے ہم بھی وہی عمل کرتے تھے پھر آپ نے توحید کے ساتھ تلبیہ پڑھا : لفظ آیت ” لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک “۔ اور لوگ یہی تلبیہ پڑھتے جاتے تھے لوگوں پر رسول اللہ ﷺ نے اس میں سے کسی چیز کو لازم کرنے کا نہیں کہا تھا رسول اللہ ﷺ برابر تلبیہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ ہم آپ کے ساتھ بیت اللہ پر آئے۔ آپ نے حجر اسود کا استلام فرمایا اور تین چکروں میں رمل فرمایا اور چار چکروں میں اپنی چال پر چلے۔ پھر مقام ابراہیم پر تشریف لائے اور یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “ (پھر) مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کردیا اور دو رکعتیں پڑھیں اور ان دونوں میں لفظ آیت ” قل ھو اللہ احد “ اور ” قل یایھا الکفرون “ پڑھا پھر بیت اللہ کی طرف لوٹے اور کن کا استلام کیا۔ پھر دروازہ سے صفا کی طرف نکلے جب صفا کے قریب ہوئے تو یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ پھر اس جگہ سے سعی شروع کی جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع فرمانے کا حکم فرمایا تھا۔ پھر آپ نے صفا سے آغاز فرمایا اور اس کے اوپر چڑھے یہاں تک کہ آپ کو بیت اللہ نظر آیا پھر آپ نے تکبیر کہی۔ اور فرمایا : ” لا الہ اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحی ویمیت وھو علی کل شیء قدیر لا الہ الا اللہ وحدہ انجز وعدہ ونصر عندہ وھزم الاحراب وحدہ “۔ پھر اس کے درمیان دعا کرتے ہوئے تین مرتبہ اسی طرح فرمایا : پھر مروہ کی طرف اترے یہاں تک کے قدیم جم ہوگئے تو آپ نے بطن وادی میں رمل کیا جب (وادی سے) اوپر چڑھے تو آہستہ آہستہ چلنے لگے یہاں تک کہ مروہ کے اوپر پہنچ گئے پھر مروہ پر وہی عمل فرمایا جو صفا پر عمل کیا تھا۔ یہاں تک کہ جب آپ کا آخری چکر مروہ پر تھا تو فرمایا اگر پہلے سے مجھ کو معاملہ کا علم ہوتا تو میں پیچھے نہ رہتا اور میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا اور میں اس احرام کو عمرہ کا احرام بنا لیتا پس تم میں سے جس شخص کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں ہے اس کو چاہئے کہ حلال ہوجائے اور اس کو عمرہ بنالے (یہ سن کر) سب لوگ حلال ہوگئے اور قصر کر الیا سوائے نبی اکرم ﷺ کے اور جن کے ساتھ قربانی کا جانور تھا وہ حلال نہ ہوئے جب یوم الترونیہ (یعنی آٹھویں ذی الحج) کا دن تھا سب لوگ تلبیہ پڑھتے ہوئے منی کی طرف روانہ ہوئے اور حج کا احرام باندھا رسول اللہ ﷺ سوار ہوئے اور منی میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نمازیں پڑھیں پھر تھوڑی دیر ٹھہرے۔ یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا اور آپ نے بالوں کا ایک خیمہ لگانے کا حکم فرمایا وہ خیمہ (مسجد) نمرہ کے ساتھ لگا دیا گیا۔ مزدلفہ میں مشعر الحرام کے قریب ٹھہرنا رسول اللہ ﷺ روانہ ہوئے تو قریش کو کوئی شک نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺ مزدلفہ میں مشعرالحرام کے قریب ٹھہرے تھے جیسا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ عرفات آگئے۔ انہوں نے قبہ دیکھا جو مسجد نمرہ کے پاس لگایا تھا۔ آپ یہاں اترے یہاں تک کہ جب سورج غروب ہوگیا تو قصواء (اونٹنی) پر سوار ہوگئے یہاں تک کہ بطن وادی میں پہنچ کر لوگوں سے خطاب فرمایا۔ اور فرمایا تمہارے خون اور تمہارے اموال تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کا دن اس مہینہ میں اور اس شہر میں حرمت والا ہے خبردار زمانہ جاہلیت کا ہر کام میرے قدموں کے نیچے لایا گیا ہے اور جاہلیت کے خون ختم کر دئیے گئے ہیں۔ اور پہلا خون جو میں معاف کرتا ہوں وہ عثمان بن ربیعہ بن الحرث بن عبد المطلب کا ہے۔ اور جاہلیت کا سود ساقط ہوگیا ہے اور پہلا سود جو میں ختم کرتا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔ یہ سب کا سب ختم کردیا گیا۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے ان کو لیا ہے اللہ کی امانت کے ساتھ اور تم نے اللہ کے کلمہ کے ساتھ ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے اور ان پر لازم ہے کہ تمہارے بستروں پر کسی کو نہ آنے دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اگر وہ ایسا کریں تو ان کو مارو لیکن زخمی نہ کرو اور تم پر لازم ہے ان کو کھلانا اور ان کو پہنانا اچھے طریقے سے۔ اور میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ تم اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اگر تم اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑو گے اور تم میرے بارے میں سوال کئے جاؤں گے تو تم کیا کہو گے ؟ صحابہ نے عرض کیا ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے حق کا پیغام پہنچا دیا اور فرض ادا کردیا اور دین کو خالص کردیا آپ نے فرمایا اے اللہ ! گواہ ہوجا ! پھر بلال ؓ نے اذان دی اور آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی پھر اقامت کہی گئی اور آپ نے عصر کی نماز پڑھائی۔ ان دونوں کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی گئی۔ پھر آپ قصواء پر سوار ہوئے یہاں تک کہ موقف پر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی قصواء کے بطن کو صخرات پر بٹھایا اور جبل المشاۃ آپ کے سامنے تھا آپ نے قبلہ کی طرف رخ فرمایا اور برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور زردی بھی تھوڑی دیر بعد ختم ہوگئی جب سورج کی ن کیا غائب ہوگئی اور اپنے پیچھے اسامہ ؓ کو بٹھا کر رسول اللہ ﷺ چل پڑے اور آپ نے (اپنی اونٹنی) قصواء کی لگام کو کھینچا یہاں تک کہ اس کا سر کجا وہ تک پہنچ گیا۔ اور آپ نے اپنے داہنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اے لوگو ! اطمینان سے چلو جب کوئی پہاڑ آتا تو آپ اونٹنی کی مہار کو ڈھیلا چھوڑ دیتے یہاں تک کہ (آپ کی اونٹنی) اوپر چڑھ جاتی اسی طرح آپ مزدلفہ پہنچ گئے (وہاں) مغرب اور عشاء کی نمازوں کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ جمع فرمایا اور ان کے درمیان کوئی نفل نہیں پڑھی پھر رسول اللہ ﷺ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی جب صبح ظاہر ہوگئی تو آپ نے فجر کی نماز پڑھی۔ پھر آپ قصواء پر سوار ہوئے حتی کہ مشعر الحرام پر پہنچے۔ آپ اس کے اوپر چڑھے قبلہ کی طرف منہ کرکے اللہ تعالیٰ کی حمد بڑائی اور اس کی توحید بیان کی۔ آپ یہاں برابر ٹھہرے رہے یہاں تک کہ خوب روشنی ہوگئی پھر آپ طلوع شمس سے پہلے چل پڑے حتی کہ (وادی) محسر میں آئے (یہاں) تھوڑا تیز چلے پھر آپ نے درمیانی راستہ اختیار فرمایا جو جمرہ الکبری پر جاتا ہے حتی کی آپ جمرہ پر آئے جو درخت کے پاس ہے آپ نے اس کو سات کنکریاں ماریں ہر کنکری کے ساتھ تکبیر بھی پڑھتے رہے پھر بطن وادی میں آکر رمی کی پھر رسول اللہ ﷺ قربان گاہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ نے اپنے ہاتھوں سے تریسٹھ اونٹ ذبح فرمائے اور حضرت علی ؓ کو حکم فرمایا تو باقی اونٹ انہوں نے ذبح فرمائے اور آپ نے ان کو اپنی ہدی میں شریک فرمایا پھر آپ نے قربانی کے ٹکرے ٹکرے کرنے کا حکم فرمایا ان ٹکڑوں کو ہانڈی میں ڈالا اور پکایا گیا سب نے یہ گوشت کھایا اور شوربا پیا پھر آپ (سواری پر) سوار ہوگئے اور بیت اللہ کی طرف چلے مکہ میں ظہر کی نماز ادا فرمائی پھر آپ بنو عبد المطلب کے پاس آئے جو زمزم پر پانی پلا رہے تھے آپ نے فرمایا بنو عبد المطلب (زمزم) کھینچو ! اگر مجھے لوگوں کا تم پر پانی کھینچنے میں بھیڑ کرنے کا خوف نہ ہوتا تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچا انہوں نے (آپ کے لئے) ایک ڈول لٹکایا آپ نے اس میں سے پیا۔
Top