Dure-Mansoor - Al-Baqara : 203
وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ۚ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ۙ لِمَنِ اتَّقٰى١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
وَاذْكُرُوا : اور تم یاد رکھو اللّٰهَ : اللہ فِيْٓ : میں اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ : دن۔ گنتی کے فَمَنْ : پس جو تَعَجَّلَ : جلد چلا گیا فِيْ : میں يَوْمَيْنِ : دو دن فَلَآ : تو نہیں اِثْمَ : گناہ عَلَيْهِ : اس پر وَمَنْ : اور جس تَاَخَّرَ : تاخیر کی فَلَآ : تو نہیں اِثْمَ : گناہ عَلَيْهِ : اس پر لِمَنِ : لیے۔ جو اتَّقٰى : ڈرتا رہا وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : جمع کیے جاؤگے
اور اللہ کا ذکر کرو چند دنوں میں تعجیل کرے اس پر کچھ گناہ نہیں، اور جو شخص تاخیر کرے اس پر کچھ گناہ نہیں اس شخص کے واسطے جو تقویٰ اختیار کرے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور خوب یقین رکھو کہ تم سب کو خدا ہی کے پاس جمع ہونا ہے
(1) عبد بن حمید، ابن ابی الدنیا اور ابن ابی حاتم نے علی ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فی ایام معدودت “ تین دن ہیں۔ یوم الاضحی اور اس کے بعد دو دن۔ ذبح کر جس دن میں تو چاہے اور افضل پہلا دن ہے۔ (2) الفریابی، ابن ابی الدنیا اور ابن المنذر نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذکروا اللہ فی ایام معدودت “ سے مراد تین دن ایام تشریق کے اور دوسرے لفظ میں یوم النحر کے بعد تین دن ہیں۔ (3) الفریابی، عبد بن حمید المروزی نے کتاب العیدین میں، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، بیہقی نے الشعب میں، اور الضیاء نے المختارہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فی ایام معدودت “ سے ایام العشر (یعنی دس دن) مراد ہیں اور لفظ آیت ” ایام معدودات “ سے ایام تشریق مراد ہیں۔ (4) طبرانی نے عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذکرواللہ فی ایام معدودت “ سے مراد ہے وہ ایام تشریق ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا جاتا ہے تسبیح، تہلیل، تکبیر اور تحمید کے ساتھ۔ (5) ابن ابی الدنیا المحاملی نے امالی میں اور بیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ایام معلومات دس ہیں اور لفظ آیت ” فی ایام معدودت “ ایام تشریق ہیں۔ (6) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایام معدودات چار دین ہیں یوم نحر اور اس کے بعد تین دن۔ (7) المروزی نے یحییٰ بن کثیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذکروا اللہ فی ایام معدودت “ سے مراد وہ تکبیر ہے جو ایام تشریق میں فرض نماز کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ منی میں تکبیر کہنے کا حکم (8) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ منی کے دنوں میں تکبیر کہا کرتے تھے اور فرماتے تھے تکبیر واجب ہے۔ اور اس آیت لفظ آیت ” واذکروا اللہ فی ایام معدودت “ کی تاویل کرتے ہیں (یعنی بطور دلیل کے یہ آیت تلاوت کرتے تھے) ۔ (9) المروزی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے سنن میں عمرو بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ کو ایام النحر میں تکبیر کہتے ہوئے دیکھا اور یہ آیت تلاوت کرتے تھے لفظ آیت ” واذکروا اللہ فی ایام معدودت “۔ (10) ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) نے لفظ آیت ” واذکروا اللہ فی ایام معدودت “ کے بارے میں روایت کیا اس آیت سے مراد ایام تشریق میں کہتا ہے۔ وہ ہر نماز کے بعد پڑھتے تھے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر۔ (11) ابن المنذر نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ منی میں نمازوں کے بعد تین تین مرتبہ تکبیر کہتے تھے (تکبیر یہ ہے) لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر (12) المروزی نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سارے ایام تشریق میں تکبیریں کہتے تھے۔ (13) سفیان بن عینیہ نے عمرو بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ یوم الصدر (گیارہ ذی الحجہ) کے دن تکبیر کہتے ہوئے سنا۔ اور اپنے اردگرد بھی لوگوں کو تکبیر کا حکم فرماتے تھے میں نہیں جانتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” واذکروا اللہ فی ایام معدودت “ کو دلیل بناتا تھا یا لفظ آیت ” فاذا قضیتم مناسککم “ کو بناتا تھا۔ رمی کے لئے نکلتے وقت تکبیر کہنا (14) امام مالک نے یحییٰ بن سعید (رح) سے روایت کیا کہ ان کو یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ گیارہویں کے دن منی سے نکلے یہاں تک کہ کچھ دن بلند ہوگیا تھا۔ انہوں نے تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ تکبیر کہی یہاں تک کہ ان کی تکبیر بیت اللہ کو پہنچ گئی پھر تیسرے دن نکلے جب سورج ڈھل چکا تھا۔ انہوں نے (پھر) تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ تکبیر کہی تھی جان لیا گیا کہ حضرت عمر ؓ رمی کے لئے نکلے ہیں۔ (15) بیہقی نے سالم بن عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے جمرہ پر سات کنکریاں ماریں ہر کنکری کے ساتھ تکبیر یعنی اللہ اکبر اللہ اکبر کہا (اور یہ دعا کی) لفظ آیت ” اللہم اجعلہ حجا مبرورا وذنبا مغفورا وعملا مشکورا “ اور فرمایا کہ مجھے میرے والد صاحب نے بیان فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ ہر کنکری کے ساتھ یہی دعا پڑھتے تھے جیسے میں نے پڑھی۔ (16) بخاری، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ نزدیک والے جمرہ کی سات کنکریوں کے ساتھ رمی کرتے تھے ہر کنکری پر تکبیر پڑھتے تھے پھر آگے بڑھے یہاں تک کہ سکون سے ہوجائے (پھر) قبلہ رخ ہو کر دیر تک کھڑے رہتے اور دعا کرتے رہتے اور دیر تک ہاتھ اٹھائے کھڑے رہتے۔ پھر جمرہ ذات العقبہ کی رمی کی بطن وادی سے پھر اس کے پاس نہ ٹھہرتے پھر واپس چلے جاتے تھے اور فرماتے کہ اسی طرح میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (17) امام حاکم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ آخری دن جب ظہر کی نماز پڑھ لی تو آپ روانہ ہوئے پھر آپ لوٹے اور ایام تشریق کی راتوں میں منی میں قیام فرمایا (اور) جب سورج ڈھل جاتا تو آپ جمرہ کی رمی کرتے تھے ہر جمرہ کو سات کنکریاں مارتے تھے اور ہر کنکری پر تکبیر پڑھتے تھے پہلے اور دوسرے جمرہ کے پاس آپ ٹھہر گئے لمبا قیام فرمایا اور آہ زاری کی پھر تیسرے کو رمی فرمائی اور اس کے پاس نہیں ٹھہرے۔ (18) امام احمد، نسائی اور حاکم نے حجرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے عقبہ (گھاٹی) کی صبح میں فرمایا میرے لئے کنکریاں چن لاؤ۔ جب ان کو آپ کے ہاتھ پر رکھی گئیں تو فرمایا ان کے مثل کنکریاں ہونی چاہئے اور دین میں غلو کرنے سے بچو۔ اس لئے کہ تم سے پہلے لوگ دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ (19) امام حاکم نے ابو البداح بن عاصم بن عدی (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چرواہوں کے لئے رخصت عطا فرمائی کہ وہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن چھوڑ دیں۔ (20) الازرقی نے ابن الکلبی (رح) سے روایت کیا کہ جمار کو جمار اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے ابلیس کو پتھر مارتے تھے اور وہ سامنے بھاگتا تھا اور جمار سے مراد اسراع ہے یعنی جلدی کرنا۔ (21) ابن ابی شیبہ نے أبو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ جو کنکری قبول کرلی جاتی ہے وہ اٹھالی جاتی ہے۔ (22) ابن ابی شیبہ نے ابو الطفیل (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے عرض کیا لوگ جاہلیت اور اسلام میں رمی کرتے چلے آرہے ہیں۔ (تو یہ کنکریاں کدھر جاتی ہیں) انہوں نے فرمایا ان میں سے جو قبول ہوتی ہیں اٹھالی جاتی ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو ثبیر (پہاڑ) سے بھی بڑا پہاڑ بن چکا ہوتا۔ (23) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے ان کنکریوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو زمانہ جاہلیت اور زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام میں ادھر پھینکی جا رہی ہیں یہ بہت بڑا بند نہ بن گیا جو راستہ روک لیتا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر فرشتوں کو مقرر فرمایا ہے جس سے (کنکری) قبول کی جاتی ہے اس کو اٹھالیا جاتا ہے اور جس سے قبول نہیں کی جاتی اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ (24) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ جس بندے کا حج قبول فرماتا ہے اس کی کنکریوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ مقبول حج والے کی کنکری اٹھالی جاتی ہے (25) الازرقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں کنکریوں کا (ڈھیر) دیکھتے تھے اور آج مسلمان بہت زیادہ ہیں کنکریوں کو زیادہ ہونا چاہئے تھا۔ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ جس کا حج قبول فرماتے ہیں تو اس کی کنکریوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ (26) الازرقی نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ بلاشبہ کنکریاں مارنا ایک قرب ہیں۔ جو ان میں سے قبول کی جاتی ہیں اٹھالی جاتی ہیں اور جو نہیں قبول کی جاتی وہ باقی رہ جاتی ہیں۔ (27) طبرانی نے الاوسط میں، دارقطنی اور حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ پتھر جو ہر سال پھینکے جاتے ہیں ہم خیال کرتے ہیں کہ وہ کم ہوجاتے ہیں آپ نے فرمایا ان میں سے جو قبول ہوجاتے ہیں اٹھا لئے جاتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو تو اس کو پہاڑی کی مانند دیکھتا۔ (28) طبرانی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے رمی جمار کے بارے میں پوچھا کہ ہمارے لئے اس میں کیا حرج ہے ؟ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تو ان کی اپنے رب کے پاس زیادہ احتیاج پائے گا۔ (29) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ منی کا میدان تنگ ہے حج کے دوران اس میں نئے لوگ کیسے سما جاتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ منی لوگوں کے ساتھ اس طرح کھل جاتا ہے جس طرح بچے کے لئے رحم کھل جاتا ہے۔ (30) طبرانی نے الاوسط میں ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منی کی مثال رحم کی طرح ہے یہ تنگ ہوتا ہے جب عورت حاملہ ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو وسیع فرما دیتے ہیں۔ (31) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ منی اس لئے نام رکھا گیا کہ جبرئیل (علیہ السلام) نے جب ارادہ فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) سے علیحدہ ہوجائیں تو ان سے فرمایا آپ کوئی تمنا کریں تو انہوں نے فرمایا میں جنت کی تمنا کرتا ہوں۔ اس لئے اس کا نام منی رکھا گیا (یعنی تمنا کرنے کی جگہ) اس لئے کہ یہ آدم (علیہ السلام) کی تمنا (کی جگہ) ہے۔ (32) الازرقی نے عمر بن مطرف (رح) سے روایت کیا کہ منی اس لئے نام رکھا گیا کہ اس میں خون بنائے جاتے ہیں۔ (33) حاکم نے عمرو بن مطرف (رح) حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ پوچھا گیا یا رسول اللہ ! کیا ہم آپ کے لئے کوئی عمارت نہ بنا دیں جو آپ اس کے سایہ میں بیٹھیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں منی اونٹ بیٹھنے کی جگہ ہے پہلے لوگوں کی۔ (34) بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب کہ ہم لوگ منی میں تھے اگر لوگوں کو منی میں اترنے کے متعلق علم ہوجائے تو وہ مغفرت کے بعد فضیلت سے خوش ہوں۔ (35) مسلم و نسائی نے الشعب میں نبی ثہ ہدبی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں۔ (36) ابن جریر نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن حذافہ ؓ کو منی میں چکر لگا کر یہ اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ ان دنوں میں روزے نہ رکھو یہ دن کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دن ہیں۔ (37) ابن جریر نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایام تشریق کے روزوں سے منع فرمایا اور فرمایا کہ یہ دن کھانے، پینے اور ذکر اللہ کے ہیں۔ ایام تشریق میں روزہ رکھنا جائز نہیں (38) ابن ابی الدنیا نے ابو الشفشار (رح) سے روایت کیا کہ ہم حضرت ابن عمر ؓ کے پاس ایام تشریق کے درمیانی دن میں گئے کھانا لایا گیا تو ان کا بیٹا ایک طرف کو ہٹ گیا آپ نے فرمایا قریب ہوجا کھالے اس نے عرض کیا میں روزہ سے ہوں آپ نے فرمایا کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دن کھانے اور ذکر اللہ کے ہیں۔ (39) امام حاکم نے مسعود بن حکم رزقی (رح) سے روایت کیا کہ اور وہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان فرمایا گویا کہ میں دیکھ رہی ہوں حضرت علی ؓ کی طرف جو رسول اللہ ﷺ کے سفید خچر پر سوار انصار ہیں۔ اور وہ فرما رہی ہیں کہ اے لوگو ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ روزوں کے دن نہیں ہیں۔ یہ دن کھانے پینے اور ذکر اللہ کے ہیں۔ (40) ابن ابی شیبہ نے عمر بن خلدہ انصاری (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو یہ اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ یہ دن کھانے پینے اور جماع کے ہیں۔ (41) ابن ابی شیبہ، نسائی، ابن ماجہ نے بشیر بن شحیم ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایام تشریق میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جنت میں صرف مسلمان نفس ہی داخل ہوگا اور یہ دن کھانے اور پینے کے ہیں۔ (42) مسلم نے کعب بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور اوس بن حدثان کو ایام تشریق میں بھیجا کہ اعلان کریں کہ جنت میں مؤمن کے علاوہ کوئی داخل نہ ہوگا۔ اور منی کے دن کھانے اور پینے کے ہیں۔ (43) ابن ابی شیبہ، ابن ماجہ، ابن ابی الدنیا نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منی کے دن کھانے اور پینے کے ہیں۔ (44) ابو داؤد، ابن ابی الدنیا، حاکم نے ابو مرہ مولی ام بانی ؓ سے روایت کیا کہ وہ عبد اللہ ؓ کے ساتھ ان کے والد عمرو بن عاص ؓ کے پاس آئے انہوں نے ان دونوں کی طرف کھانا قریب کیا اور فرمایا کھاؤ عبد اللہ نے کہا میں روزہ سے ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کھاؤ ان دنوں میں رسول اللہ ﷺ ہم کو افطار کا حکم فرماتے ہیں اور ہم کو روزوں سے منع کرتے تھے مالک (رح) نے فرمایا وہ ایام تشریق تھے۔ (45) ابن ابی الدنیا اور البزار نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے سال میں چھ دن کے روزوں سے منع فرمایا یوم الفطر، یوم الاضحی، ایام تشریق اور وہ دن جس میں رمضان کے روزہ میں شک ہوجائے۔ (46) ابن ابی الدنیا نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایام تشریق کے روزوں سے منع فرمایا اور فرمایا کہ یہ دن کھانے اور پینے کے ہیں۔ (47) ابن ابی الدنیا نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ان سے ایام تشریق کے بارے میں پوچھا گیا کہ کس وجہ سے ان کا نام تشریق رکھا گیا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ (عرب کے لوگ) اپنی قربانیوں کے گوشت سورج کی دھوپ میں خشک کرتے تھے اس وجہ سے ان کو ایام تشریق کہا جاتا ہے تشریق کے معنی دھوپ میں گوشت خشک کرنا۔ أما قولہ تعالیٰ : فمن تعجل فی یومین : (الآیہ) (48) وکیع، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ “ سے مراد ہے فی تعجیلہ یعنی اس کے جلدی کرنے میں اور لفظ آیت ” ومن تاخر فلا اثم علیہ “ سے مراد ہے فی تاخیرہ یعنی اس کے تاخیر کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ (49) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ “ سے مراد ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا (جو دونوں میں جائے گی) اور لفظ آیت ” ومن تاخر فلا اثم علیہ “ سے مراد ہے کہ جو تاخیر کرے اس پر کوئی گناہ نہیں (اور) فرمایا یہ حکم اس کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرے۔ (50) الفریابی، ابن جریر نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو دنوں میں چلے جانا حلال ہے۔ منی سے بارہ تاریخ کو غروب سے پہلے نکلے (51) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص کے لئے اس دن میں سورج غائب ہوجائے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ “ اور وہ منی میں ہو تو وہ ہرگز (یہاں سے) نہ جائے یہاں تک کہ اگلے دن جمرات کو کنکری مارے۔ (52) سفیان بن عینیہ، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ کے مصحف میں یوں تھا لفظ آیت ” لمن اتقی “ سے مراد ہے کہ جو شخص محرم ہونے کی حالت میں شکار کرنے سے بچے۔ (53) ابن جریر، ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عبد اللہ ؓ کے مصحف میں یوں تھا لفظ آیت ” لمن اتقی اللہ “ (54) ابن ابی شیبہ، احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، حاکم اور بیہقی نے سنن میں عبد اللہ بن یعمر دیلمی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور آپ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے اہل مکہ میں سے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! حج کیا ہے۔ آپ نے فرمایا حج عرفات (میں حاضری) ہے۔ حج عرفات (میں حاضر ی) ہے جس شخص نے عرفہ کی رات کو پالیا فجر طلوع ہونے سے پہلے اس نے منی کے تین دن پالئے اسی لئے فرمایا لفظ آیت ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ ومن تاخر فلا اثم علیہ “ پھر اپنے پیچھے (سواری پر) ایک آدمی کو بٹھایا جو ان (احکام) کا اعلان کر رہا تھا۔ (55) ابن جریر نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ “ سے مراد ہے جو دونوں میں جلدی چلا گیا اس کو بخش دیا گیا (اور) لفظ آیت ” ومن تاخر فلا اثم علیہ “ اور جس نے ان سے تاخیر کی اس کو بخش دیا۔ (56) امام وکیع، الفریابی، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ “ سے مراد ہے جو دونوں میں جلدی چلا گیا اس کو بخش دیا گیا لفظ آیت ” ومن تاخر فلا اثم علیہ “ سے مراد ہے اور جو تاخیر سے گیا اس کو بخش دیا گیا۔ (57) بیہقی نے حضرت عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ جس شخص نے جلدی کی دونوں میں اس کو بخش دیا گیا اور جس شخص نے تاخیر کی تین دنوں تک اس کو بھی بخش دیا گیا۔ (58) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے فرمایا لفظ آیت ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ “ سے مراد ہے جو دونوں میں جلدی چلا گیا وہ مغفور ہو کر لوٹا۔ (59) عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے حضرت قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے دو دنوں میں چلے جانے کی اجازت فرمائی اگر تم چاہو اور اگر تیسرے دن تک تاخیر کرو تو اس پر کوئی گناہ نہیں جو شخص ڈرنے وال ہے۔ قتادہ (رح) نے فرمایا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس کے لئے (یہ تاخیر) معاف کردی گئی۔ (60) وکیع اور ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ “ یعنی جو دو دنوں میں چلا گیا اس پر پورے اگلے سال تک کوئی گناہ نہیں لفظ آیت ” ومن تاخر فلا اثم علیہ “ سے مراد ہے اور جو تاخیر سے گیا اس پر بھی آئندہ سال تک کوئی گناہ نہیں۔ (61) عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں ضحاک کی جان ہے۔ یہ آیت لفظ آیت ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ “ ٹھہرنے اور سفر کرنے کے بارے میں نازل ہوئی لیکن وہ گناہوں سے بری ہے جو ٹھہرا رہے یا جو سفر کر جائے۔ (62) سفیان بن عینیہ، عبد بن حمید، ابن جریر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ “ سے مراد ہے کہ وہ سارے گناہوں سے نکل گیا۔ لفظ آیت ” ومن تاخر فلا اثم علیہ “ یعنی وہ سارے گناہوں سے بری ہوگیا۔ (63) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لمن اتقی “ سے مراد ہے کہ جس نے اپنے حج میں تقویٰ اختیار کیا پھر قتادہ (رح) نے فرمایا کہ ہم کو یہ ذکر کیا گیا کہ ابن مسعود ؓ فرمایا کرتے تھے جس شخص نے اپنے حج میں تقویٰ اختیار کیا اس کے پہلے گناہوں کی مغفرت کردی گئی۔ حج میں گناہوں سے بچنے والے کی مغفرت ہوتی ہے (64) ابن ابی شیبہ نے أبو صالح (رح) سے روایت کیا کہ مہاجرات میں سے ایک عورت نے حج کیا جب وہ لوٹی اور حضرت عمر ؓ کے پاس سے گزری تو انہوں نے اس عورت سے پوچھا کہ تو گناہوں سے بچتی تھی ؟ اس نے کہا ہاں آپ نے اس سے فرمایا نئے سرے سے عمل کر۔ (پہلے سب گناہ معاد ہوگئے) (65) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے حجاج سے فرمایا کیا حج کے علاوہ کوئی اور غرض تم کو یہاں لائی ہے ؟ حج کرنے آئے ہو یا کوئی اور مقصد ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کوئی اور کام نہیں تھا (صرف حج کرنا مقصود تھا) پھر انہوں نے فرمایا کیا تم نے تقویٰ اختیار کیا تھا ؟ عرض کیا ہاں۔ پھر انہوں نے فرمایا اب تم نئے سرے سے عمل کرو (پہلے سب گناہ معاف ہوگئے) (66) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ “ سے مراد ہے جو دو دنوں کے اندر چلا گیا۔ اس کی بخشش ہوگئی ایک اس آیت کی کچھ اور تاویل کرتے ہیں جو میری تاویل کے مخالف ہے۔ جب عمرہ سب گناہوں کو مٹا دیتا ہے تو حج کے ساتھ کیا کیفیت ہوگی۔ (وہ تو بدرجہ اولی مٹائے گا) (67) وکیع، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن المنذر نے معاویہ بن مرہ مزنی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فلا اثم علیہ “ سے مراد ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل گیا جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ (68) ابن ابی شیبہ نے شعبی (رح) سے روایت کیا اللہ تعالیٰ نے یہ مناسک اس لئے بنائے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ بنی آدم کے گناہوں کو مٹادیں۔ (69) عبد بن حمید، ابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فلا اثم علیہ لمن اتقی “ سے مراد ہے کہ اس کے سارے گناہ ختم کر دئیے گئے۔ اگر وہ باقی عمر میں گناہوں سے بچتا رہے۔ (70) بیہقی نے الشعب میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حاجی کو بخش دیا جاتا ہے تو انہوں نے فرمایا یہ جب ہے جب وہ اس برائی کو چھوڑ دے جس پر وہ (جما ہوا) تھا۔ (71) بیہقی نے حیثمہ بن عبد الرحمن (رح) سے روایت کیا کہ جب تو اپنے حج کو پورا کرچکے تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کر شاید تیرا یہ سوال قبول ہوجائے۔ (72) اصبہانی نے الترغیب میں ابراہم (رح) سے روایت کیا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ حجاج سے مصافحہ کرلو پہلے اس سے کہ وہ گناہوں میں ملوث ہوجائیں۔ (73) ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ حج کرنے والوں عمرہ کرنے والوں اور جہاد کرنے والوں سے ملاقات کرو ان کو چاہئے کہ وہ تمہارے لئے دعا کریں پہلے اس سے کہ گناہوں میں نہ ملوث ہوجائیں۔ (74) ابن ابی شیبہ نے حبیب بن ابی ثابت (رح) سے روایت کیا کہ ہم حجاج سے ملاقات کرتے تھے اور ان سے جدا ہونے سے پہلے ان سے مصافحہ کرتے تھے۔ (75) الاصبہانی نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ان سے حج مبرور کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ دنیا سے بےرغبتی کرنے والا اور آخرت میں رغبت کرنے والے بن کر لوٹے۔ (76) حاکم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے حج کو پورا کر چلے اس کو چاہئے کہ وہ اپنی سواری کو اپنے گھر والوں کی طرف جلدی لے چلے۔ کیونکہ اس میں زیادہ اجر ہے۔ (77) امام مالک، بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب جہاد سے یا حج سے یا عمرہ سے واپس تشریف لاتے تو زمین کی ہر اونچی جگہ پر تین تکبیریں کہتے تھے پھر یہ دعا فرماتے تھے : لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر ائبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون صدق اللہ وعدہ ونصر عبدہ ھزم الاحزاب وحدہ۔ ترجمہ : ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں (اور) اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہی ہے اور اس کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے (ہم) لوٹنے والے ہیں تو نہ کرنے والے ہیں بندگی کرنے والے ہیں سجدہ کرنے والے ہیں اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں اللہ نے اپنا وعدہ سچا کردیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس کے مخالف لشکروں کو اکیلے شکست دی۔ (78) ابن حبان نے الضعفاء میں ابن عدی نے الکامل میں دار قطنی نے العلل میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی تو اس نے مجھ سے جفا کی۔ (79) امام سعید بن منصور، ابو یعلی، طبرانی، ابن عدی دار قطنی، بیہقی نے الشعب میں ابن عساکر نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے حج کیا اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔ (80) ترمذی، البزار، ابن خزیمہ، ابن عدی، دار قطنی، بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی۔ اس کے لئے میری شفاعت واجب ہے۔ (81) طبرانی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص زیارت کرنے کے لئے میرے پاس آیا اور اس کو صرف میری زیارت ہی کھینچ لائی دوسری کوئی غرض نہ تھی۔ تو مجھ پر حق ہے کہ میں قیامت کے دن اس کے لئے شفاعت کرنے والا بن جاؤں۔ (82) طیالسی اور بیہقی نے الشعب میں حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی تو میں اس کے لئے شفاعت کرنے والا اور گواہی دینے والا ہوں گا۔ اور جو شخص حرمین میں سے کسی ایک میں مرگیا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن امن والوں میں سے اٹھائیں گے۔ (83) بیہقی نے حاطب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے میری موت کے بعد میری زیارت کو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔ اور جو شخص حرمین میں سے کسی ایک میں مرگیا تو وہ قیامت کے دن امن والوں میں سے اٹھالیا جائے گا۔ (84) العقیلی نے الضعفاء میں اور بیہقی نے الشعب میں آل خطاب میں سے ایک آدمی سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے جان بوجھ کو میری زیارت کیوی قیامت کے دن میرے پڑوس میں ہوگا اور جس شخص نے مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کی اور اس کی تکلیفوں پر صبر کیا تو میں اس کے لئے قیامت کے دن گواہی دینے والا اور شفاعت کرنے ولا ہوں گا۔ اور جو شخص حرمین میں سے کسی حرم میں مرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن امن والوں میں سے اٹھائیں گے۔ (85) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے مدینہ منورہ میں میری زیارت کی ثواب کی نیت سے میں اس کے لئے قیامت کے دن گواہی دینے والا اور شفاعت کرنے والا ہوں گا۔ (86) بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو بندہ میری قبر کے پاس مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر فرما دیا ہے جو مجھ تک پہنچاتا ہے اور اس کو یہ کلام اس کی دنیا اور آخرت کے لئے کافی ہے اور میں اس کے لئے گواہی دینے ولا اور شفاعت کرنے والا ہوں گا قیامت کے دن۔ (87) بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مسلمان مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو مجھ پر لوٹا دیتے ہیں یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ (88) بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ قبر مبارک پر آتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ پر سلام بھیجتے تھے اور قبر کو نہیں چھوتے تھے۔ پھر ابوبکر اور پھر عمر ؓ پر سلام پڑھتے تھے۔ (89) بیہقی نے محمد بن المنکدر (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حضرت جابر ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی قبر کے پاس روتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور وہ آنسو بہاتے ہوئے فرما رہے تھے میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ (90) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے منیب بن عبد اللہ بن ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے انس بن مالک ؓ کو دیکھا۔ وہ نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک پر آکر کھڑے ہوگئے اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھایا یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ نماز کو شروع فرما رہے ہیں۔ پھر انہوں نے نبی اکرم ﷺ پر سلام پڑھا اور واپس لوٹ گئے۔ (991 ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے سلیمان بن سحیم (رح) سے روایت کیا کہ میں نے بنی اکرم ﷺ کو نیند میں دیکھا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ لوگ جو آپ کے پاس آکر سلام کرتے ہیں کیا آپ ان کے سلام کو سمجھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور میں ان کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ بارگاہ رسالت میں سلام عرض کرنا (92) بیہقی نے حاتم بن مردوان (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن عبد العزیز (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن عبد العزیز (رح) ایک شخص کو مدینہ منورہ کی طرف بھیجتے تھے تاکہ وہ ان کی طرف سے نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں سلام پیش کرے۔ (93) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے ابو مذلک (رح) سے روایت کیا کہ میں نے بعض ان لوگوں کو فرماتے ہوئے سنا جن کو میں نے پایا ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ جو شخص نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک کے پاس آکر یہ آیت پڑھے۔ لفظ آیت ” ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی، یایھا الذین امنوا صلو علیہ وسلم وا تسلیما “ (احزاب آیت 56) (پھر یہ کہے) ” صلی اللہ علیک یا محمد “ اور یہ ستر مرتبہ کہے۔ تو اس کو ایک فرشتہ جواب دیتا ہے۔ ” صلی اللہ علیک یا فلان “ تجھ پر اللہ کی رحمت ہو اے فلانے ! تیری کوئی حاجت ساقط نہ ہوگی (یعنی ہر حاجت پوری ہوگی) (94) امام بیہقی نے ابو حرب ھلال (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ ایک دیہاتی آدمی نے حج کیا جب رسول اللہ ﷺ کی مسجد کے دروازے کی طرف آیا تو اپنی سواری کو بٹھایا اور اسی کو رسی سے باندھا پھر مسجد میں داخل ہوا یہاں تک کہ قبر شریف پر آیا رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کے سامنے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں آپ کے پاس آیا ہوں گناہوں اور خطاؤں سے بوجھل ہو کر شفا کا طلب کرتا ہوں آپ کے واسطہ سے آپ کے رب سے اس لئے کہ انہوں نے اپنے محکم کتاب میں فرمایا۔ لفظ آیت ” ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاءوک فاستغفرو اللہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما “ (نساء آیت 64) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں آپ کے پاس آیا ہوں گناہوں اور خطاؤں سے بوجھل ہو کر میرے لئے اپنے رب سے شفاعت فرمائیے اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کردے اور آپ کی سفارش میرے حق میں قبول فرمائے۔ پھر لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر (یہ اشعار پڑھنے لگا) یا خیر من دفنت فی التراب اعظمہ فطاب من طیبھن القاع والاکم نفسی الفراء لقبر أنت ساکنہ فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم ترجمہ : اے سب سے بہتر ذات جس کو مٹی میں دفن کردیا گیا جس کی خوشبو سے کائنات کے نشیب و فراز معطر ہوئے ہیں اس قبر لحد کے لئے میری جان قربان ہوجائے جس میں آپ ﷺ آرام فرمائیں وہ قبر منور جس میں پیکر عفت موجود ہے اور جس میں سراپا جودو کرم ذات جلوہ افروز ہے۔ (95) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ آپ اس حاجی سے فرماتے تھے جو (حج کرکے) واپس آتا تھا اللہ تعالیٰ تیری عبادت کو قبول فرمائے اور تجھے بڑا اجر عطا فرمائے اور تیرے اخراجات کا (بہترین) بدلہ عطا فرمائے۔ (96) بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سفر سے اپنے گھر میں آئے تو اس کو چاہئے کہ اپنے گھر والوں کے لئے ہدیہ لے آئے پس اسے گھر والوں کو ضرور تحفہ دینا چاہئے۔ اگرچہ پتھر ہی کیوں نہ ہوں۔
Top