Dure-Mansoor - Al-Baqara : 212
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۘ وَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
زُيِّنَ : آراستہ کی گئی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوا : کفر کیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَسْخَرُوْنَ : اور وہ ہنستے ہیں مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اتَّقَوْا : پرہیزگار ہوئے فَوْقَهُمْ : ان سے بالا تر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَاللّٰهُ : اور اللہ يَرْزُقُ : رزق دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
مزین کی گئی ان لوگوں کے لئے دنیاوی زندگی جنہوں نے کفر کیا اور وہ ہنسی کرتے ہیں ان لوگوں سے جو لوگ ایمان لائے حالانکہ جن لوگوں نے پرہیزگاری کو اختیار کیا وہ قیامت کے دن ان سے بالا ہوں گے۔ اور اللہ جسے چاہے بلا حساب رزق عطا فرماتا ہے
(1) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” زین للذین کفروا الحیوۃ الدنیا “ سے مراد ہے کہ وہ کافر دنیا طلب کرتے ہیں جس کو تلاش کرتے ہیں۔ لفظ آیت ” ویسخرون من الذین امنوا “ اور مسلمان جو آخرت کی طلب کرتے ہیں تو وہ ان سے مذاق کرتے ہیں ابن جریر (رح) نے فرمایا میں اس کو عکرمہ (رح) سے گمان کرتا ہوں کافروں نے کہا اگر محمد ﷺ نبی ہوتے تو اس کی اتباع ہمارے سردار اور اشرف کرتے۔ اللہ کی قسم اس کی اتابع نہیں کی مگر غریب لوگوں نے جیسے ابن مسعود ؓ اور اس کے ساتھی۔ دنیا کی حرص و لالچ قابل مذمت ہے (2) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” زین للذین کفروا الحیوۃ الدنیا “ سے مراد ہے کہ کافروں کے ارادے ان کی حرص اور ان کی طلب اور ان کی نیت لفظ آیت ” ویسخرون من الذین امنوا “ اور وہ کہتے ہیں۔ کہ وہ لوگ (یعنی ایمان والے) کسی چیز پر نہیں (یعنی کسی دین پر نہیں) مذاق کرتے ہوئے (پھر فرمایا) لفظ آیت ” والذین اتقوا فوقھم یوم القیمۃ “ اور قیامت کے دن متقی ان سے بلند ہوں گے۔ (3) عبد الرزاق نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والذین اتقوا فوقھم “ سے مراد ہے کہ جنت میں مسلمان ان سے بلند ہوں گے۔ (4) ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا لفظ آیت ” واللہ یرزق من یشاء بغیر حساب “ تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر نہیں ہے کوئی نگرانی کرنے والا اور نہ کوئی ان سے حساب لینے والا۔ (5) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے ” بغیر حساب “ کے بارے میں روایت کیا کہ رب تعالیٰ کا محاسبہ نہ ہوگا۔ (6) میمون بن مہران (رح) سے روایت کیا کہ ” بغیر حساب “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے آسودہ زندگی (یعنی اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے فراوانی عطا فرماتا ہے) (7) ربیع بن انس (رح) نے ” بغیر حساب “ کے بارے میں فرمایا جس کو مال کے کم ہوجانے کا خوف ہو وہ حساب کے ساتھ خرچ کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے خزانے خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتے۔
Top