Dure-Mansoor - Al-Baqara : 225
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ : نہیں پکڑتا تمہیں اللّٰهُ : اللہ بِاللَّغْوِ : لغو (بیہودہ) فِيْٓ : میں اَيْمَانِكُمْ : قسمیں تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَاخِذُكُمْ : پکڑتا ہے تمہیں بِمَا : پر۔ جو كَسَبَتْ : کمایا قُلُوْبُكُمْ : دل تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
اللہ تعالیٰ تمہارا مؤاخذہ نہیں فرمائے گا تمہاری لغو قسموں کے بارے میں، لیکن مؤاخذہ اس بات پر فرمائے گا جس کا تمہارے دلوں نے ارادہ کیا اور اللہ غفور ہے، حلیم ہے
قسم کی اقسام (1) ما لک نے موطا میں، وکیع، شافعی نے الام میں، عبد الرزاق بخاری، مسلم، عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردو یہ، بیہقی نے سنن میں حضرت عا ئشہ ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت ” لایو اخذکم اللہ با للغو فی ایمانکم “ اس آدمی کے لاو اللہ، بلی اللہ اور کلاو اللہ کہنے کے بارے میں نازل ہوئی۔ ابن جریر (رح) عیہ نے (اس بات کو) زیادہ کیا کہ جو آدمی (ان الفاظ کے ساتھ) اپنے کلام کو ملا دیتا ہے۔ (2) ابوداودابن جریر، ابن حبان، ابن مردویہ، بیہقی، نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ ان سے یمین لغو کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کا اپنی بات میں کلام واللہ، وبلی واللہ سے قسم کھانا (لغو ہے) (3) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن المنذر نے حضرت عائشہ ؓ سے لفظ آیت ” لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد وہ قوم ہے جو کسی کام میں آپس میں جھگڑتے ہوئے یوں کہتے ہیں۔ لاو اللہ کلاو اللہ۔ وہ آپس میں کسی معاملہ میں جھگڑتے ہوئے قسمیں کھاتے ہیں کہ ان کے دل اس قسم میں پختہ نہ ہوتے۔ (4) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ لغو قسم ہنسی مذاق میں ہوتی ہے۔ مثلا ایک آدمی یوں کہتا ہے لا واللہ، بلی واللہ۔ یہ ایسی قسم ہے کہ اس میں کفارہ نہیں۔ کفارہ اس قسم میں ہوتا ہے جو دل سے پختہ ارادہ کرتے ہوئے کہے کہ میں ایسا کروں گا پھر اس کو نہ کرے۔ لغو اور بےکار قسمیں (5) ابن جریر نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک قوم پر گزرے جو تیراندازی میں مقابلہ کر رہے تھے۔ اور آپ کے صحابہ میں سے ایک آدمی بھی آپ کے ساتھ تھا قوم میں سے ایک آدمی نے تیر پھینکا اور کہا اللہ کی قسم ٹھیک نشانہ پر پہنچ گیا (اور) اللہ کی قسم میں نے خطا کی نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جو صحابی تھے وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! (اس) آدمی نے قسم توڑ دی تو آپ نے فرمایا ہرگز نہیں۔ تیر اندازوں کی قسمیں لغو ہیں اس میں نہ کفارہ ہے نہ سزا ہے۔ (6) ابو الشیخ نے عطار کے طریق سے حضرت عائشہ ابن عباس اور ابن عمر و ؓ تینوں حضرات سے روایت کیا کہ لا واللہ، بلی واللہ (کہنا) لغو ہے۔ (7) سعید بن منصور، ابن جریر، ابن المنذر، بیہقی نے عکرمہ کے پاس نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لا واللہ اور بلی واللہ لغو قسم ہے۔ (8) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے طاؤس کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا لغو قسم یہ ہے کہ تو غصہ کی حالت میں قسم کھائے۔ (9) ابن ابی حاتم اور بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس آیت لفظ آیت ” لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم “ کی تاویل کرتے ہوئے فرماتی تھیں کہ وہ اس سے مراد وہ شی ہے جس پر تم میں سے کوئی قسم کھاتا ہے (اور) جس میں وہ سچائی کا ارادہ کرتا ہے۔ لیکن وہ اس کے خلاف ہوتی ہے۔ (10) ابن جریر نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ یمین لغو یہ ہے کہ انسان نے کسی چیز پر قسم کھالے اور اس کا گمان ہو کہ وہ ایسی ہی تھیں۔ جیس اس نے قسم اٹھائی ہے مگر وہ اس کے خلاف تھی۔ (11) ابن جریر نے عطیہ العوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لغو قسم یہ ہے کہ آدمی کسی چیز پر اس کو حق گمان کرتے ہوئے قسم کھاتا ہے مگر وہ حق نہیں ہوتی۔ (12) ابن جریر، ابن المنذر نے علی بن ابی طلحہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت لفظ آیت ” لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم “ اس آدمی کے بارے میں ہے جو نقصان والے کام پر قسم کھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ اپنی قسم کا کفارہ دیدے۔ اور خیر والے کام کو لے پھر فرمایا اور لغو قسم یہ بھی ہے کہ آدمی کسی ایسے کام پر قسم کھالے جس میں وہ سچائی کو نہ جانے۔ اور اپنے گمان میں اس نے خطا کی پس وہ صورت ہے کہ اس میں کفارہ ہے لیکن اس میں گناہ نہیں۔ (13) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ لغو قسم یہ ہے کہ تو حرام کرلے اس چیز کو جس کو اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے حلال فرمایا ہے۔ یہ وہ (صورت) ہے کہ اس میں تجھ پر کوئی کفارہ نہیں (مگر) لفظ آیت ” ولکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم “ سے مراد ہے کہ جس میں تم نے دل کے ارادہ کے ساتھ قسم کھائی ہو اس میں گناہ ہے۔ پس یہ وہ (صورت) ہے کہ اس میں تجھ پر کفارہ ہے۔ (14) وکیع، عبد الرزاق، ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم “ سے مراد وہ آدمی ہے جو کسی گناہ پر قسم کھا لیتا ہے یعنی میں نماز نہیں پڑھوں گا یا خیر کا کام نہیں کروں گا۔ (15) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم “ سے مراد وہ آدمی ہے جو کسی چیز پر قسم کھا کر بھول جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کا مواخذہ نہیں فرمائیں گے لیکن وہ کفارہ دے گا۔ (16) عبد بن حمید، ابو الشیخ نے قتادہ کے طریق سے سلیمان بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم “ میں یمین لغو سے مراد۔ بغیر ارادہ کے غلط قسم اٹھانا ہے۔ (17) عبد بن حمید نے ابو قلابہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی کے لا واللہ اور بلی واللہ کے کہنے پر فرمایا کہ یہ (الفاظ) عرب کی لغت میں سے ہیں، قسم نہیں ہیں۔ (18) عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم “ سے وہ آدمی مراد ہے جو کسی چیز پر یہ گمان کرتے ہوئے قسم کھا لیتا ہے کہ وہ سچا ہے حالانکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ یہ یمین لغو ہے جس پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا۔ لفظ آیت ” ولکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم “ یعنی کسی ایسی چیز پر قسم کھانا یہ جانتے ہوئے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے یہ وہ قسم ہے جس پر مواخذہ ہوگا۔ (19) ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لوگ حلال چیز کے حرام کرنے پر قسم کھالیتے تھے اور (پھر) کہتے تھے جب ہم نے قسم کھالی اور (حلال چیز کو) اپنے اوپر حرام کردیا تو ہم کو چاہئے کہ ہم اپنی قسم کو سچا کریں (اسی کو) اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ان تبروا وتتقوا وتصلحوا بین الناس “ اور ان کے لئے اس میں کفارہ نہیں تھا (پھر) اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی۔ لفظ آیت ” یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک “ سے لے کر ” قد فرض اللیہ لکم تحلۃ ایمانکم “ (اس آیت میں) نبی اکرم ﷺ کو کفارے کا حکم دیا گیا اس لونڈی کو اپنی ذات پر حرام کرلینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا کہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کریں اور اپنی لونڈی کو لوٹا لیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم “ (20) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ” واللہ غفور “ سے مراد ہے کہ جب قسم سے بندہ تجاوز کرتا ہے (تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی غفاری کی صفت کا اظہار فرماتے ہیں) (اور فرمایا) ” حلیم “ یعنی اس قسم پر کفارہ لازم نہیں فرمایا پھر کفارہ (کا حکم) نازل فرما دیا۔
Top