Dure-Mansoor - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : تم نہ داخل ہو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتًا : گھر (جمع) غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں کے سوا حَتّٰى : یہانتک کہ تَسْتَاْنِسُوْا : تم اجازت لے لو وَتُسَلِّمُوْا : اور تم سلام کرلو عَلٰٓي : پر۔ کو اَهْلِهَا : ان کے رہنے والے ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اے ایمان والو اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک انسیت حاصل نہ کرلو اور ان گھروں کے رہنے والون کو سلام نہ کرلو یہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرلو
بلا اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونے کی ممانعت 1۔ الفریابی وابن جریر من طریق عدی بن ثابت انصار کے ایک آدمی سے روایت کیا کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا میں اپنے گھر میں بعض مرتبہ ایسے حال میں ہوتی ہوں کہ میں پسند نہیں کرتی کہ کوئی میرے پاس آئے نہ بیٹا اور نہ باپ میرے پاس ایک آنے والا آتا ہے اور میرے پاس اندر داخل ہوجاتا ہے اب میں کیا کروں ْ اور ابن جریر کا لفظ یوں ہے کہ میرے اہل میں کوئی مرد برابر میرے پاس آندر داخل ہوتا رہتا ہے اور میں اس حال میں ہوتی ہوں کہ میں کسی کا اندر آنا پسند نہیں کرتی ہوں تو یہ آیت یا ایہا الذین اٰمنو لاتدخلو ا بیوتا غیر بیوتکم نازل ہوئی۔ 2۔ الفریابی و سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن الانباری فی المصاحف والحاکم وصححہ والبیہقی فی شعب الیمان والضیاء فی المختارۃ ابن عباس ؓ سے آیت ” لاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستأنسوا وتسلموا علی اہلہا “ کے بارے میں روایت کیا کہ کاتب نے غلطی کی اور وہ اس طرح ہے آیت ” حتی تستأنسوا “ 3۔ سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر والبیہقی فی شعب الایمان ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ ؓ کے مسحف میں آیت وتسلموا علی اہلہا وتستاذنو “ ہے۔ 4۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ابی بن کعب ؓ کی قراء ۃ میں آیت ” وتسلموا علی اہلہا وتستزنوا “ ہے۔ 5۔ ابن ابی حاتم وابن الانباری فی المصاحف ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ’ ’ حتی تستأنسوا “ سے مراد ہے حتی تسأذنوا۔ 6۔ سعید بن منصور وابن جریر وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حتی تستأنسو ا سے مراد ہے الاستئذان اجازت طلب کرنا۔ 7۔ ابن ابی شیبہ والحکیم والترمذی وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ نے ابو ایوب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے کہا یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ” حتی تستنسوا وتسلموا علی اہلہا “ کے بارے میں تبائیے کہ تسلیم کا معنہ تو ہم نے پہچان لیا اور ” استئن اس “ کیا ہے ؟ فرمایا کوئی آدمی سبحان اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہے اور کھانسے تو اس طرح گھروالوں کی اطلاع کردے۔ 8۔ الطبرانی نے ابوایوب انصاری ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ” الاستئن اس “ یہ ہے کہ تو خادم کو بلائے یہ ان تک کہ گھر والے آگاہ ہوجائیں جن کو وہ سلام کرے گا۔ 9۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” حتی تستأنسوا “ سے مراد ہے کہ تم کھنکارو یعنی کھانسنے کی آواز نکالو) ۔ 10۔ ابن ابی شیبہ واحمد والبخاری فی الادب وابو داوٗد والیہقی فی سننہ کے طریق سے بنو عامر کے ایک آدمی نے ہم کو بیان کیا کہ اس نے نبی ﷺ سے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی اور آپ گھر میں تھے اس نے کہ کیا میں داخل ہوجاؤں نبی ﷺ نے اپنے خادم سے فرمایا اس آدمی کی طرف جاؤ اور اس کو اجازت طلب کرنے کا ریقہ سکھاؤ اس سے کہا گیا تو کہہ السلام علیکم کیا میں اندر داخل ہوجاؤں۔ اجازت لینے کے لیے سلام 11۔ ابن جریر نے عمرو بن سعد ثقفی ؓ سے روایت کہ ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی اور کہا کیا میں داخل ہوجاؤں ؟ نبی ﷺ نے اپنی باندی سے فرمایا جس کو روضہ کہا جاتا تھا اس کی طرف جا اور اس کو اجازت لینے کا طریقہ سکھا کہ اس نے اچھے طریقے سے اجازت طلب نہیں کی اس سے کہو کہ یوں کہے السلام علیکم کیا میں داخل ہوجاؤں۔ 12۔ ابن سعد واحمد والبخاری فی الادب وابوداوٗ والترمذی وحسنہ والنسائی ولابیہقی فی شعب الایمان من طریق کلدۃ صفوان بن امیہ ؓ نے فتح مکہ میں نبی ﷺ کو دودھ ہرنی اور ککڑیاں تحفے کے طور پر بھیجے اور نبی ﷺ نے فرمایا لوٹ جاؤ اور کہو السلام علیکم کیا میں داخل ہوجاؤں۔ 13۔ قاسم بن اصبغ وابن عبد البر فی التمہید ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عمر ؓ نے نبی ﷺ سے اجازت طلب کی اور یوں کلام کیا ” السلام علی رسول اللہ السلام علیکم ایدخل عمر “ کیا عمر داخل ہوجائے۔ 14۔ ابن وہب نے کتاب المجالس میں وابن ابی شیبہ نے زید بن مسلم (رح) سے روایت کیا کہ میرے باپ نے مجھے ابن عمر ؓ کے پاس بھیجا میں ان کے پاس آیا اور کہا کیا میں داخل ہوجاؤں فرمایا داخل ہوجا۔ جب میں داخل ہوا تو فرمایا خوش آمدید اے میرے بھتیجے یہ کہا کرو کیا میں داخل ہوجاؤں لیکن کہو السلام علیکم جب وہ یہ جواب دیں وعلیمک تو پھر کہو کیا میں داخل ہوجاؤں اگ روہ کہیں داخل ہوجاؤ تو داخل ہوجاؤ۔ 15۔ ابن ابی حاتم نے ام ایاس (رح) سے روایت کیا کہ م چار عورتیں تھیں ہم نے عائشہ ؓ سے اندر آنے کی اجازت لی ہم نے کہا کیا ہم داخل ہوجائیں فرمایا نہیں۔ پھر ایک عورت نے کہا السلام علیکم کیا میں داخل ہوجاأں۔ فرمایا داخل ہوجاؤ۔ پھر یہ آیت ” یا ایہالذین اٰمنو الاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستأنسو وتتسلموا علی اہلہا۔ 16۔ الترمذی نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بات سے پہلے سلام ہے۔ 17۔ ابن ابی شیبہ والبکاری فی الادب ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جو آدمی سلام سے پہلے اندر آنے کی اجازت طلب کرے تو فرمایا اس کو اجازت نہ دو یہاں تک کہ سلام کرے۔ 18۔ البخاری فی الادب ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جب کوئی آدمی سلام نہ کرے تو کہہ دو مت داخل ہو یہاں تک کہ وہ آئے یعنی چابی سلام کے ساتھ۔ 19۔ ابن ابی حاتم نے ابوعبیدہ ؓ سے روایت کیا کہ عبداللہ جب گھر میں داخل ہوتے تو اندر آنے کا احساس دلاتے بات کرتے اور اپنی آواز کو اونچا کرتے۔ مخصوص کمرہ میں داخل ہونے کے لیے ماں بہن سے اجازت 20۔ ابن جریر والبیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ تم پر لاز ہے کہ تم اجازت طلب کرو اپنی ماؤں اور اپنی بہنوں سے۔ 21۔ البخاری فی الاداب وابوداوٗد نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب ایک آدمی کی نظر اندر داخل ہوگئی یعنی اندر جھانک لیا تو اس کے لیے کوئی اجازت نہیں۔ 22۔ ابن مردویہ نے عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت کے بارے میں سوال کی تو فرمایا جس کی نظر اندر داخل ہوگئی یعنی جھانک لیا اجازت طلب کرنے سے پہلے اور سلام سے پہلے تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی اس کے لیے کوئی اجازت نہیں۔ 23۔ الطبرانی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول اہوں تو وہ کسی گھر میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ گھر والوں کو احساس دلائے اور سلام کرے جب اس نے گھر کے اندر دیکھ لیا تو وہ گویا داخل ہوگیا۔ 24۔ ابن ابی شیبہ وابوداوٗد والبیہقی فی شعب الایمان ہذیل (رح) سے روایت کیا کہ سعد آئے اور نبی ﷺ کے دروازہ پر رک گئے اجازت لینے کے یے اور دروازے پر کھڑے ہوگئے نبی ﷺ نے اس سے فرمایا تجھ سے ایسا طرز عمل ہی واقع ہونا چاہیے۔ بلاشبہ اجازت طلب کرنا دیکھنے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ 25۔ البخاری فی الادب وابوداوٗد عبد اللہ بن بشر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ قوم کے دروزے پر تشریف لاتے تو دروزے کے بالکل سامنے کھڑے نہ ہوتے تھے۔ لیکن اس کے داہنی یا بائیں طرف کھڑے ہوتے تھے اور فرماتے تھے السلام علیکم السلام علیکم اور یہ اس وجہ سے کہ ان دنوں دروازون پر پردے نہیں ہوتے تھے۔ 26۔ احمد والبخاری ومسلم والترمذی والنسائی نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے حجرت میں جھانکا نبی ﷺ کے حجروں میں سے اور آپ کے پاس ایک کنگھی تھی جس سے اپنے سر کو کھجلا رہے تھے آپ نے فرمایا اگر میں جان لیتا کہ تو دیکھ رہا ہے تو میں اسے تیری آنکھ میں چبھو دیتا۔ دیکھنے ہی کی وجہ سے اجازت طلب کی جاتی ہے اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اجازت طلب کرنے کا حکم دیکھنے کی وجہ سے دیا ہے۔ 27۔ الطبرانی نے سعد بن عبادہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اپنے گھر میں تھے میں دروازہ کے سامنے کھڑا ہو اکر اجازت طلب کرنے لگا۔ آپ نے میری طرف اشارہ فرمایا کہ دور ہوجاؤ اور فرمایا اجازت تو وہ نظر کی وجہ سے ہے۔ 28۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے والبیہقی فی شعب الایمان قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” حتی تستأنسوا “ سے مراد ہے اجازت طلب کرنا راوی نے فرمایا کہ یہ بھی کہا جاتا ہے اجازت تین دفعہ ہوتی ہے جس شخص کو بھی اجازت نہ ملے تو اس کو چاہیے کہ لوٹ جائے پہلی دفعہ پر زندہ کو سننا چاہیے۔ اور دوسری دفعہ پر گھروالوں کو محتاط ہوجانا چاہیے اور تیسری دفعہ پر اگر وہ چاہیں اجازت دیں اگر وہ چاہیں رد کریں۔ تین مرتبہ اجازت لینا چاہیے 29۔ مالک و بخاری ومسلم وابوداوٗد نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ میں انصار کی مجلسوں میں سے ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ابو موسیٰ گھبراتے ہوئے آئے ہم نے ان سے کہا کس چیز نے آپ کو گھبرادیا کہا مجھے عمر نے حکم دیا ہے کہ میں ان کے پاس آؤں میں انے کے پاس آیا اور تین مرتبہ اجازت لی۔ مجھے اجازت نہیں دی گئی میں لوٹ آیا عمر نے فرمایا کس چیز نے تجھے روک دیا کہ تو مییر پاس آئے میں نے کہا میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا میں نے تین مرتبہ اجازت لی مجھے اجازت نہیں دی گئی۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ دی جائے تو اس کو چاہیے کہ لوٹ جائے عمر نے فرمایا اس حدیث پر گواہ لے آؤ۔ مجلس کے لوگوں نے کہا سب سے چھوٹا آدمی اٹھے ابو سعید کھڑے ہوئے اور ان کے حق میں گواہی دی۔ عمر نے ابو موسیٰ سے فرمایا کہ میں نے تم پر تہمت نہیں لگائی تھی لیکن رسول اللہ ﷺ کی طرف حدیث کی نسبت کرنا بہت سخت ہے۔ 30۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت لاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم یعنی وہ گھر جو تمہارے نہیں ہیں (ایسے گھروں میں داخل نہ ہو) آیت ” ھتی تستأنسوا وتسلموا “ اس میں تقدیم ہے مطلب یہ ہے آیت حتی تستأنسوا وتسلموا یعنی پہلے تم سلام کرو پھر اجازت طلب کرو ذلکم یعنی یہ اجازت طلب کرنا اور سلام کرنا آیت ” خیر لکم “ یعنی بہتر ہے اس سے کہ تم بغیر اجازت کے اندر داخل ہوجاؤ تاکہ تم گنہگار نہ ہوجاؤ اور تاکہ گھر والے بھی محتاط ہوجائیں۔ آیت لعلکم تذکرون۔ تاکہ نصیحت حاصل کرو۔ آیت فان لم تجدوا فیہا احدا فلا تدخلوہا حتی یؤذن لکم۔ یعنی داخل ہو جب تک تم کو اجازت دی جائے۔ آیت وان قیل لکم ارجعوا فارجعو۔ یعنی پھر مت بیٹھو اور لوگوں کے دروازے پر مت کھڑے ہو۔ آیت ہو ازکی لکم۔ یعنی تمہارے لیے کھڑے ہونے اور بیٹھنے سے ان کے دروازوں پر آیت واللہ بما تعملون علیم۔ یعنی تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں۔ آیت لیس علیکم جناح۔ یعنی تم پر کوئی حرج نہیں۔ آیت ان تدخلوا بیوتا غیر مسکونۃ۔ یعنی ایسا گھر جس میں کوئی رہنے والا نہیں اور وہ مسافر خانے ہیں جو مسافر کے لیے لوگوں کے راستوں پر بنائے جاتے ہیں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم بغیر اجازت ان میں داخل ہوجاؤ اور نہ وہاں سلام کرنا ہے۔ آیت فیہا متاع لکم۔ یعنی ان مسافر خانوں میں تو تمہارے لیے سردی اور گرمی سے بچاؤ کے منافع ہیں۔ 31۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے آیت فان لم تجدو فیہا احد کے بارے میں روایت کیا اگر اس میں تمہارا کوئی سامان نہیں تو اس میں مت داخل ہو مگر اجازت ہے۔ آیت لیس علیکم جناح۔ یعنی وہ لوگ شہر کے راستے پر اپنے کجاوے اور دیگر سامان ایسے گھروں میں رکھتے ہیں جس میں کوئی رہائش نہیں رکھتا تو ان کے لیے حلال ہے کہ وہ اس میں بغیر اجازت داخل ہوجائیں۔ 32۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے آیت بیوتا غیر مسکونۃ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے وہ گھر مراد ہیں جو سفر کی مختلف جگہوں پر بنائے جاتے ہیں اس میں کوئی نہیں رہتا۔ 33۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے محمد بن حنفیہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت بیوتا غیر مسکونۃ وہ مسافر خانے مراد ہیں جو راستوں میں بنائے جاتے ہیں۔ 34۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ آیت فیہا متاع لکم یعنی جن میں قضائے حاجت کرتے ہو۔ 35۔ عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت بیوتا غیر مسکونۃ سے قضائے حاجت کے لیے ویران جگہیں مراد ہیں 36۔ عبد بن حمید نے ابراہیم نخعی سے اسی طرح روایت کیا اور ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ آیت فیہا متاع الکم سے وہ مسافر خانے مراد ہیں کہ بارش سردی اور گرمی کی حالت میں ان سے نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ 37۔ عبد بن حمید وابن جریر قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت بیوتا غیر مسکونۃ وہ گھر مراد ہیں جس میں لوگ اپنے سفر میں ٹھہرے ہیں اس میں کوئی نہیں رہتا آیت فیہا متاع لکم یعنی جس میں ضرورت اور نفع اٹھانے والی چیز ہوتی ہے۔ 38۔ ابویعلی وابن جریر وابن مردویہ نے انس ؓ سے سے روایت کیا کہ مہاجرین میں سے ایک آدمی نے کہا کہ میں نے اپنی ساری عمر اس آیت پر عمل کرنے کی خواہش کی مگر میں اس کو نہ پاسکا وہ اس طرح کہ اگر میں بعض دوستوں کی خدمت میں حاضری کی اجازت چاہوں اور وہ مجھے کہہ دیں کہ واپس لوٹ جا تو میں لوٹ جاؤں گا اور میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان آیت وان قیل لکم ارجعوا فارجعوا ہو ازکی لکم پر عمل کر کے خوش ہوں۔ بوقت ملاقات سلام کرنا مسنون ہے 39۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی آدمی اپنے ساتھی سے ملتا تھا تو اس کو سلام نہیں کرتا تھا بلکہ یوں کہتا تھا تیری صبح خیر کے ساتھ اور تیری شام خیر کے ساتھ اور قوم کا آپس میں یہی سلام تھا ان میں جب کوئی ساتھی کی طرف جاتا تھا تو وہ اس سے داخل ہونے کی اجازت نہیں لیتا تھا یہاں تک کہ وہ اس کے پاس اندر چلا جاتا اور کہتا تھا میں داخل ہوں یہ طریقہ آدمی پر بہت بھاری گزرتا تھا۔ اور ممکن ہے کہ وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ موجود ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس سارے طریقے کو پردہ پوشی اور پاکدامنی میں بدل دیا اور فرمایا آیت لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم جب گھروں میں سلام کرنے اور اجازت لینے کی آیت نازل ہوئی تو ابوبکر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم اور قریش کے تاجروں کا کیا حکم ہے جو مکہ مدینہ شام اور بیت المقدس کے درمیان آتے جاتے رہتے ہیں۔ اور ان کے راستوں پر جانے پہچانے گھر ہیں تو کس طرح ہم ان سے اجازت لیں اور ان کو سلام کریں اور ان میں کوئی رہنے والا نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس میں رخصت دیدی۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا آیت لیس علیکم جناح ان تدخلوا بیوتا غیر مسکونۃ کہ ان میں بغیر اجازت داخل ہوجاؤ۔ 40۔ البخاری فی الادب وابوداوٗد فی الناسخ وابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت یا ایہا الذین اٰمنوا لا تدخلو بیوتا غیر بیوتکم حتی تستاأنسو وتسلمو علی اہلہا کے حکم سے استثنی کرتے ہوئے فرمایا آیت ” لیس علیکم جناح ان تدخلوا بیوتا غیر مسکونۃ فیہا متاع لکم “۔ یعنی تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم داخل ہوجاؤ ایسے گھروں میں جس میں کوئی نہیں رہتا اور اس میں تمہارا سامان ہے۔
Top