Dure-Mansoor - An-Noor : 33
وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ خَیْرًا١ۖۗ وَّ اٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَنْ یُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلْيَسْتَعْفِفِ : اور چاہیے کہ بچے رہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَجِدُوْنَ : نہیں پاتے نِكَاحًا : نکاح حَتّٰى : یہانتک کہ يُغْنِيَهُمُ : انہیں گنی کردے اللّٰهُ : اللہ مِنْ فَضْلِهٖ : اپنے فضل سے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَبْتَغُوْنَ : چاہتے ہوں الْكِتٰبَ : مکاتبت مِمَّا : ان میں سے جو مَلَكَتْ : مالک ہوں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے دائیں ہاتھ (غلام) فَكَاتِبُوْهُمْ : تو تم ان سے مکاتبت ( آزادی کی تحریر) کرلو اِنْ عَلِمْتُمْ : اگر تم جانو (پاؤ) فِيْهِمْ : ان میں خَيْرًا : بہتری وَّاٰتُوْهُمْ : اور تم ان کو دو مِّنْ : سے مَّالِ اللّٰهِ : اللہ کا مال الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ : جو اس نے تمہیں دیا وَلَا تُكْرِهُوْا : اور تم نہ مجبور کرو فَتَيٰتِكُمْ : اپنی کنیزیں عَلَي الْبِغَآءِ : بدکاری پر اِنْ اَرَدْنَ : اگر وہ چاہیں تَحَصُّنًا : پاکدامن رہنا لِّتَبْتَغُوْا : تاکہ تم حاصل کرلو عَرَضَ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَمَنْ : اور جو يُّكْرِھْهُّنَّ : انہیوں مجبور کرے گا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِكْرَاهِهِنَّ : ان کے مجبوری غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور جو لوگ نکاح کی قدرت نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے مال دار کردے اور تمہاری ملکیت میں جو لوگ ہیں ان میں جو مکاتب ہونے کی خواہش رکھتے ہوں انہیں مکاتب بنا دو اگر تم ان میں بہتری پاؤ اور تم انہیں اللہ کے مال میں سے دیدو جو اس نے تمہیں دیا ہے اور اپنی باندیوں کو زنا کرنے پر جبور نہ کرو جبکہ پاکدامن رہنا چاہیں تاکہ تم کو دنیاوی زندگی کا کوئی مال مل جائے اور جو شخص ان پر زبردستی کرے تو اللہ انہیں مجبور کرنے کے بعد بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
1۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ولیستعفف الذین لایجدون نکاحا “ سے مراد وہ آدمی ہے جو عورت کو دیکھتا ہے گویا اس میں خواہش پیدا ہوجاتی ہے اگر اس کی بیوی ہے تو اس کو چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس جائے اور اس سے اپنی خواہش پوری کرے اگر اس کی بیوی نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ آسمان و زمین پیدائش میں غور وفکر کرے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو غنی کردے۔ 2۔ الخطیب نے اپنی تاریخ میں ابن عباس ؓ نے نے آیت ” ولیستعفف الذین لا یجدون نکاحا “ کے بارے میں فرمایا چاہیے کہ وہ نکاح کرے جو استطاعت نہیں پاتا اللہ تعالیٰ عنقریب مالدار کردیں گے۔ 4۔ ابن السکن نے معرفۃ الصحابہ میں عبداللہ بن صبیح (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حوطب بن عبد العزی کا غلام تھا میں نے اس سے کتابت کا سوال کیا اس نے انکار کردیا تو یہ آیت ” والذین یبتغون الکتب “ نازل ہوئی۔ 5۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر سے روایت کیا کہ آیت والذین یبتغون الکتب “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو غلاموں سے کتابت کو طلب کرتے ہیں۔ 6۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت ہے کہ آیت ” فکاتبوہم “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ تعلیم ہے اور رخصت ہے ایسا کرنا لازم نہیں ہے۔ 7۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید نے عامر شعبی (رح) سے روایت کیا کہ مجھ سے سیرین نے عقد مکاتبہ کرنے کا سوال کیا میں نے اس پر انکار کیا وہ عمر بن خطاب ؓ کے پاس آیا وہ مجھ پر درہ لے کر آگئے اور فرمایا اس کے ساتھ عقد مکاتبہ کرو اور یہ آیت ” فکاتبوہم ان علمتم فیہم خیرا “ تلاوت فرمائی تو میں نے اس سے عقد مکاتبہ کرلیا۔ 9۔ ابو داوٗد نے مراسیل میں اور بیہقی نے اپنی سنن میں یحییٰ ابن کثیر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت ” فکاتبوہم ان علمتم فیہم خیرا “ کے بارے میں فرمایا اگر تم ان میں کوئی پیشہ دیکھتے ہو تو ان سے عقد مکاتبہ کرو تو ان لوگوں پر بوجھ بنا کر نہ چھوڑو۔ 10۔ عبدالرزاق وابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن حاتم والبیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا آیت ” ان علمت فیہم خیرا “ سے مراد ہے مال۔ 11۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید نے مجاہد سے اسی طرح روایت کیا بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” ان علمت فیہم خیر “ سے مراد ہے امانت اور وفا۔ 12۔ البیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” فکابتوہم ان علمتم فیہم خیرا “ سے مراد ہے کہ اگر تم جانو کہ تیرا مکاتب تجھ کو بدل کتابت یعنی مال ادا کردے گا۔ 13۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر والبیہقی نے ابن جریر (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطاء سے کہا آپ اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ” فکاتبوہم ان علمتم فیہم خیرا “ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کیا ” خیرا “ سے مراد مال ہے یا اصلاح مراد ہے یا یہ سب مراد ہے۔ انہوں نے فرمایا میں اس کو نہیں جانتا مگر مال جیسے اللہ تعالیٰ کا قول ہے آیت ” کتب علیکم اذا حضرت احدکم الموت ان ترک خیرا “ سے مراد ہے مال۔ 14۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عبیدہ سلیمانی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ان علمتم فیم خیرا سے مراد ہے اگر تم اس میں امانت کو جان لو تو تم اس سے عقد مکاتبت کرو۔ 15۔ عبد بن حمید نے قتادہ، ابراہیم اور ابو صالح سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ 16۔ عبدالرزاق وابن المنذر والبیہقی نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ ابن عمر ؓ اپنے غلام کو مکاتب بنادینے کو ناپسند فرماتے تھے اگر وہ پیشہ نہ جانتا ہو ورنہ وہ مجھے لوگوں کی میل کچیل (یعنی زکوٰۃ کے مال) میں سے کھلائے گا۔ 17۔ سعید بن منصور وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے مجاہد وطاؤس (رح) سے روایت کی کہ آیت ” ان علمتم فیہم خیر “ سے مراد ہے مال اور امانت 18۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی عبدالرزاق اور عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ آیت ” ان علمتم فیہم خیرا “ میں خیر سے مراد ہے اگر تم ان میں کوئی حیلہ پاتے ہو (یعنی وہ خود کسی کام کی تدبیر کرسکتا ہے تو اس کو مکاتب بنادو) اور ان کے بوجھ کو مسلمانوں پر نہ ڈالو اور فرمایا آیت ” واٰتوھم من مال اللہ الذی اٰتکم “ یعنی ان کو مال مکاتب میں سے کچھ کم کردو۔ 19۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم والرویان یفی مسند اور الضیاء المقدسی فی المختارہ بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” واٰتوھم من مال اللہ “ یعنی لوگوں کو اس پر آمادہ کیا اپنے مال میں سے اس کو دیں۔ 20۔ عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا آیت ” واٰتوھم من مال اللہ “ یعنی کہ اس آیت میں آقا اور دوسرے لوگوں کو مال دینے پر آمادہ کیا گیا ہے۔ 21۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر والبیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مکاتب کے بدل کتابت میں سے کچھ چھوڑدیا جائے۔ عبد مکاتب کے ساتھ رعایت 22۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے آیت ” واٰتوھم من مال اللہ “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو حکم فرمایا کہ گردنوں کے چھڑانے میں مدد کریں (یعنی غلام آزاد کرانے میں مدد کرو) علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آقا کو حکم فرمایا کہ کہ وہ مکاتب کے لیے اس کی قیمت میں چوتھائی حصہ چھوڑ دے۔ اور یہ تعلیم ہے اللہ کی طرف سے یہ فرض نہیں ہے لیکن اس میں اجر ہے۔ 23۔ عبدالرزاق و سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ والبیہقی من طریق ابی عبدالرحمن السلمی نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” ان علمتم فیہم خیرا “ سے مراد ہے مال آیت ” واٰتوھم من مال اللہ الذی اٰتکم “ سے مراد ہے کہ مکاتب کے مال کا چوتھائی حصہ چھوڑدے۔ 25۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ مال مکاتب میں سے دسواں حصہ چھوڑدیا جائے۔ 26۔ عبدالرزاق وابن ابی حاتم والبیہقی نے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے ایک غلام کو مکاتب بنایا جس کی کنیت ابوامیہ تھا وہ بدل کتابت میں سے اپنی قسط لے کر جب پہنچا تو عمر نے فرمایا اے ابوامیہ چلا جا اور اس کے ساتھ اپنے مال مکاتب میں غناء حاصل کر اس نے عرض کیا اے امیر المومنین اگر آپ چھوڑدیتے یہاں تک کہ وہ معافی والی آخری قسط ہوتی فرمایا میں ڈرتا ہوں کہ میں اس کو نہ پاؤں گا پھر یہ آیت پڑھی۔ آیت ” واٰتوھم من مال اللہ الذی اٰتکم “۔ 27۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ابن عمر ؓ کا کوئی مکاتب ہوتا تو اس کی پہلی قسطوں میں سے ذرا بھی کمی نہیں کرتے تھے اس خوف سے کہ یہ عاجز آجائے اور اس کا صدقہ اس کی طرف لوٹے اور لیکن اگر عقد مکاتبہ کا آخری مرحلہ ہوتا تو اس سے کم کردیتے جو پسند فرماتے۔ 28۔ ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” واٰتوہم من مال اللہ “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ حکم ان پر ہے کہ ان کو زکوٰۃ میں سے جتنا مال چاہیے دے دیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آیت ” وفی الرقاب “۔ 29۔ ابن ابی شیبہ ومسلم و سعید بن منصور والبزار والدارقطنی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ من طریق ابی سفیان جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ عبداللہ بن ابی اپنی لونڈیوں سے کہتا تھا چلی جاؤ اور ہمارے لیے کچھ کما کے لے آؤ یعنی زنا کے ذریعہ ہمارے لیے کچھ کمائی کرو۔ وہ یہ عمل ناپسند کرتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آیت ” ولا تکرھوا فتیتکم علی البغاء ان اردن تحصنا لتبتغوا عرض الحیوۃ الدنیا، ومن یکرہ ہن فان اللہ من بعد اکراہھن غفور رحیم “ اسی طرح وہ اس کو پڑھتے تھے۔ 30۔ مسلم نے اس طریق سے جابر ؓ سے روایت کیا کہ عبداللہ بن ابی کو لونڈی جس کو مسیکہ کہا جاتا تھا اور دوسری کو امیمہ کہا جاتا تھا۔ وہ ان دونوں سے ارادہ کرتا تھا کہ یہ بدکاری کیا کریں ان دونوں نے نبی ﷺ سے شکایت کی تو اللہ تعایلٰ نے یہ آیت اتاری۔ آیت ” ولا تکرھو فتیتکم “ الایۃ۔ 31۔ النسائی والحاکم وصححہ وابن جریر وابن مردویہ نے ابوالزبیر کے طریق سے جابر ؓ سے روایت کیا کہ مسیکہ ایک انصاری کی لونڈی تھی وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرا آقا مجھے زنا کی کمائی کرنے پر مجبور کرتا ہے تو یہ آیت ” ولا تکرھوا فتیتکم علی البغاء “ نازل ہوئی۔ 32۔ البزار وابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ عبداللہ بن ابی کی ایک باندی تھی جس کو معاذہ کہا جاتا تھا وہ اس کو زناء پر مجبور کرتا تھا جب اسلام آیا تو یہ آیت ” ولا ترھو فتیتم علی البغاء “ نازل ہوئی۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 33۔ ابن مردویہ نے علی بن ابی طالب ؓ نے آیت ” ولاتکرھو فتیتکم علی البغاء “ کے بارے میں روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی باندیوں سے بدکاری کراتے تھے تو اسلام میں اس سے منع کردیا گیا۔ 34۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں وہ لوگ اپنی باندیوں کو زنا پر مجبور کرتے تھے اور ان سے اجرت لیتے تھے تو اس پر سے آیت نازل ہوئی۔ 35۔ الطیالسی والبزار وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ نے صحیح سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عبداللہ بن ابی کی باندی زمانہ جاہلیت میں بدکاری کرتی تھی اور زنا سے اس کی اولاد بھی پیدا ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام کردیا تو عبداللہ بن ابی نے اس سے کہا تجھے کیا ہوا تو زنا نہیں کراتی ؟ اس نے نہیں اللہ کی قسم ! میں کبھی زنا نہیں کروں گی تو اس نے اس کو مارا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا آیت ” ولاتکرھوا فتیتکم علی البغاء “ 36۔ سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ بن ابی کی دو باندیاں تھیں مسیکہ اور معاذہ وہ ان دونوں کو زنا کرانے پر مجبور کرتا تھا۔ ان میں سے ایک نے کہا اگر یہ کام اچھا ہے تو میں اس کو زیادہ کروں گی اور اگر یہ کام برا ہے تو اب اس کو چھوڑ دینا چاہیے۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آیت ” ولا تکرھوا فتیتکم علی البغاء “۔ 37۔ سعید بن منصور وعبد بن حمید نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ولا تکرھوا فتیتکم علی البغاء۔ عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی اس کی ایک باندی تھی جو اس کے لیے زنا کی کمائی کر کے لاتی تھی وہ مسلمان ہوئی اور بہت اچھی مسلمان ہوئی عبداللہ نے اس باندی سے یہ ارادہ کیا کہ وہ پہلے کی طرح بدکاری کرے جیسے کرتی تھی اس نے انکار کردیا۔ 38۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ بن ابی کی ایک باندی تھی جس کو معاذہ کہا جاتا تھا جب کوئی اس کا مہمان آتا تو وہ اس کو اس کے پاس بھیج دیتا تاکہ مہمان سے بدلہ اور کرامت پاؤں وہ باندی ابوبکر ؓ کے پاس آئی اور اس بات کی شکایت کی ابوبکر نے نبی ﷺ سے بات ذکر کی تو آپ نے لونڈی قبضہ میں لینے کا حکم فرمایا عبداللہ بن ابی نے شور مچایا کہ اس سے ہم کو کون انصاف دلائے گا جو ہمارے غلاموں پر قبضہ کر رہے ہیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ 39۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ قریش میں سے ایک آدمی بدر کے دق قید ہوگیا اور اسے بطور قیدی عبداللہ بن ابی کے حوالے کردیا گیا اور عبداللہ بن ابی کی ایک باندی تھی جس کو معاذہ کہا جاتا تھا اور قریشی قیدی کی خواہش تھی کہ اسے اس باندی سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا جائے اور وہ باندی مسلمان ہوگئی تھی اور وہ اس زنا سے رکی ہوئی اپنے اسلام کی وجہ سے عبداللہ بن ابی اس کو اس کام پر مجبور کرتا تھا اور اس باندی کو مارتا تھا امید کرتے ہوئے کہ وہ قریشی سے حاملہ ہوجائے تو وہ اس قریشی سے بچے کا فدیہ طلب کرے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ” ولاتکرھوا فتیتکم علی البغاء “ نازل فرمائی۔ 40۔ الخطیب فی رواۃ مالک من طریق مالک ابن شہاب (رح) سے روایت کیا اور انہوں نے عمر بن ثابت سے جو بنو الحرث بن خزرج کے بھائی تھے انہوں نے روایت کیا کہ سورة نور میں یہ آیت ” ولا تکرھوا فتیتکم علی البغاء “ عبداللہ بن ابی بن سلول کی باندی معاذہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور یہ اس لیے کہ عباس بن عبدالمطلب ان کے پاس قید تھے عب اللہ بن ابی اس کو مارتا تھا کہ اہ اپنے آپ کو عباس کے حوالے کرے یہ امید رکھتے ہوئے کہ وہ اس سے حاملہ ہوجائے تو وہ اس سے اس بچے کا فدیہ لے گا وہ باندی ایسا کرنے سے انکار کرتی رہی۔ اور ابن ابی اس بات کی ہی خواہش رکھتا تھا۔ 41۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ اپنی باندیوں کو زنا کی کمائی کا حکم دیتے تھے اور وہ ایسا کرتی تھیں اور اپنی کمائی کو لے آتی تھیں عبداللہ بن ابی کی ایک لونڈی تھی اس سے بدکاری کا مطالبہ کیا جاتا تھا وہ اس وہ اس کو ناپسند کرتی تھی اور اس نے قسم کھائی کہ وہ اس کام کو نہ کرے گی۔ مگر ابن ابی نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ 42۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان ؓ سے روایت کیا کہ واللہ اعلم ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ یہ آیت دو آدمیون خے بارے میں نازل ہوئی دونوں اپنی باندیوں کو بدکاری پر مجبور کرتے تھے ان میں سے ایک کا نام مسیکہ تھا اور وہ ایک انصاری کی لونڈی تھی اور دوسری امیمہ جو مسیکہ کی ماں تھی۔ یہ عبداللہ بن ابی کی ملکیت ہے اور معاذہ کا بھی یہی حال تھا مسیکہ اور اس کی ماں نبی ﷺ کے پاس آئیں دونوں نے یہ بات ذکر کی تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی آیت ” ولا تکرھوا فتیتکم علی البغاء یعنی زنا پر مجبور نہ کرو۔ باندیوں کو زناکاری پر مجبور کرنا بڑا گناہ ہے۔ 43۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم علی کے طریق سے ابن عباس ؓ نے آیت ” ولا تکرھوا فتیتکم علی البغاء “ کے بارے میں فرمایا کہ اپنی لونڈیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ ان کے لیے بخشنے والے اور رحم کرنے ہیں اور اس کا گناہ اس پر ہے جس نے ان کو مجبور کیا۔ 44۔ ابن ابی شیبہ نے رافع بن خدیج ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ حجام کی کمائی خبیث ہے بدکار عورت کی کمائی بھی خبیث ہے۔ 45۔ ابن ابی شیبہ نے ابو جحیفہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بدکار ورت کے مہر یعنی خرچی سے منع فرمایا۔ 46۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ابن مسعود کی قراءت میں یوں ہے آیت ” فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم “ یعنی اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے جن کو بدکاری پر مجبور کیا جاتا ہو۔ 47۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ان اردن تحصنا “ سے تحصنا کے معنی ہے عفت اور اسلام۔ 48۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم۔ یعنی مجبور کرنا زنا پر ان کے لیے اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ 50۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم “ یعنی اللہ تعالیٰ ان عورتوں کے لیے غفور رحیم ہے اور ان مردوں کے لیے نہیں ہے۔ 51۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) اس کو یوں پڑھتے تھے آیت ” فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم “۔
Top