Dure-Mansoor - Al-Ankaboot : 51
اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْلٰى عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرٰى لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ : کیا ان کے لیے کافی نہٰن اَنَّآ اَنْزَلْنَا : کہ ہم نے نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب يُتْلٰى : پڑھی جاتی ہے عَلَيْهِمْ ۭ : ان پر اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَرَحْمَةً : البتہ رحمت ہے وَّذِكْرٰي : اور نصیحت لِقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لاتے ہیں
کیا یہ بات انہیں کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جو ان پر پڑھی جاتی ہے بلاشبہ اس میں رحمت ہے اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لیے
1۔ الدارمی وابوداوٗد فی مراسیلہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے یحییٰ بن جعدہ ؓ سے روایت کیا کہ کچھ لوگ مسلمانوں میں سے کتابیں لاتے کہ جس میں اپنوں نے بعض وہ باتیں لکھی تھی جو انہوں نے یہودیوں سے سنی تھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک قوم کی حماقت اور گمراہی کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ اس چیز سے اعراض کریں جو ان کے نبی ان کے لیے لائے اور اس چیز میں رغبت کا اظہار کریں جو ان کے پاس ان کا غیر لایا تو یہ آیت نازل ہوئی آیت اولم یکفہم انا انزلنا علیک الکتب یتلی علیہم یعنی کیا ان کے لیے یہ کافی ہے کہ ہم نے آپ پر ایک کتاب اتاری ہے جو ان پر پڑھی جاتی ہے۔ 2۔ الاسمعیلی نے اپنی معجم میں وابن مردویہ نے یحییٰ میں جعدہ کے طریق سے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ تورات میں سے لکھتے تھے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ احمقوں میں سب سے زیادہ احمق اور گمراہوں میں سے سب زیادہ گمراہ وہ قوم ہے جو اس پیغام سے اعراض کرتے ہیں جو ان کے نبی لے کر آئے اور اس کی طرف رغبت کرتے ہیں جو دوسروں کا نبی لایا اور اس امت کی طرف لایا جو دوسروں کی امت ہے پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آیت اولم یکفہم انا انزلنا علیک الکتب یتلی علیہم قرآن کریم تمام سابقہ کتب کے لیے ناسخ ہے 3۔ عبدالرزاق نے المصنف میں والبیہقی نے شعب الایمان میں زہری (رح) سے روایت کیا کہ حفصہ ؓ نبی ﷺ کے پاس یوسف (علیہ السلام) کے قصوں میں سے ایک کتاب اپنی بغل میں لے آئیں اور آپ کے سامنے پڑھنا شروع کردیا جبکہ نبی ﷺ کا رنگ متغیر ہورہا تھا آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تمہارے پاس یوسف (علیہ السلام) آجائیں اور میں تمہارے درمیان موجود ہوں اگر تم ان کی اتباع کرو گے اور مجھ کو چھوڑدو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے۔ 4۔ عبدالرزاق وابن سعد وابن الضریس والحاتم نے الکنی میں والبیہقی نے شعب الایمان میں عبداللہ بن ثابت حرث انصاری ؓ سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نبی ﷺ کے پاس ایک کتاب لے کر آئے جس میں تورات کے بھی چند مقامات تھے اور عرض کیا کہ اہل کتاب میں سے ایک آدمی سے لی ہے۔ اور میں اس کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کا رنگ بدل گیا کہ اس طرح کبھی میں نے نہیں دیکھا تھا عبداللہ بن حارث نے عمر ؓ سے کہا کیا تو رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کو نہیں دیکھ رہا۔ یہ غصہ دیکھ کر عمر نے فرمایا ہم راضی ہیں اللہ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر یہ سن کر رسول اللہ ﷺ سے غصہ جاتا رہا۔ اور آپ نے فرمایا اگر موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے درمیان آجائیں اور تم اس کی اتباع کروگے اور مجھ کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے نبیوں میں سے میں تمہارا حصہ ہوں اور تم امتوں میں سے میرا حصہ ہو۔ 5۔ عبدالرزاق والبیہقی نے ابوقلابہ ؓ سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو کتاب پڑھ رہا تھا کچھ دیر سنا اور اچھا جانا اس آدمی سے کہا کہ اس کتاب میں سے میرے لیے لکھ دو اس آدمی نے کہا ہاں لکھ دیتا ہوں پھر انہوں نے لے کر چمڑہ خریدا اس کو درست کیا پھر اس کے پاس لے آئے اس آدمی نے آپ کے لیے اس کی دونوں جانب لکھ دیا۔ پھر حضرت عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسے پڑھنا شروع کیا یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک غصہ سے رنگین ہوگیا۔ انصار میں سے ایک آدمی نے کتاب پر اپنا ہاتھ مارا اور کہا تجھ کو تیری ماں روئے اے خطاب کے بیٹے ! کیا تو نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کو نہیں دیکھا اور تو ان کے سامنے یہ کتاب پڑھ رہا ہے اس وقت نبی ﷺ نے فرمایا بلاشبہ میں بھیجا گیا ہوں فاتح اور خاتم کی حیثیت سے مجھے جوامع الکلم اور فواتح عطا کیے گئے اور میرے لیے بات کو مختصر کردیا گیا اور بیوقوف لوگ تم کو ہلاکت میں نہ ڈال دیں۔ 6۔ البیہقی نے اور اس کو ضعیف قرار دیا عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے تورات کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پوچھا تو آپ نے فرمایا اس کی تعلیم حاصل نہ کرو اور اس پر ایمان لے آؤ اور تم وہ چیز سیکھو جو تمہاری طرف اتاری گئی اور اس پر ایمان لے آؤ۔ 7۔ ابن الضریس نے عمر بن خطاب ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ! کہ اہل کتاب ہم کو کچھ ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو ہمارے دلوں کو قابو کرلیتی ہیں اور ہم نے ارادہ کیا کہ ہم ان کو لکھ لیں آپ نے فرمایا اے خطاب کے بیٹے کیا تم اسی طرح تکالیف میں پڑو گے جیسے یہود و نصاری تکالیف میں پڑے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں تمہارے لیے سفید روشن چیز لایا ہوں لیکن مجھے جوامع الکلم عطا کیے گئے اور میرے لیے بات کو مختصر کردیا گیا۔ 8۔ ابن عساکر نے ابن ابی ملکہ (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عامر بن کز نے عائشہ ؓ کو ایک ہدیہ بھیجا انہوں نے گمان کیا کہ وہ عبداللہ بن عمرو ہیں تو انہوں نے واپس کردیا اور فرمایا وہ کتب کی چھان بین کرتا رہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ولم یکفہم انا انزلنا علیک الکتب یتلی علیہم کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب کو اتارا جو ان پر پڑھی جاتی ہے پھر جب آپ سے کہا گیا کہ ہدیہ بھیجنے والا۔ عبداللہ بن عامر ہیں تو آپ نے ہدیہ قبول کرلیا۔
Top