Dure-Mansoor - An-Nisaa : 19
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا١ؕ وَ لَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ۚ وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا يَحِلُّ : حلال نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تَرِثُوا : کہ وارث بن جاؤ النِّسَآءَ : عورتیں كَرْهًا : زبردستی وَلَا : اور نہ تَعْضُلُوْھُنَّ : انہیں روکے رکھو لِتَذْهَبُوْا : کہ لے لو بِبَعْضِ : کچھ مَآ : جو اٰتَيْتُمُوْھُنَّ : ان کو دیا ہو اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّاْتِيْنَ : مرتکب ہوں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی مُّبَيِّنَةٍ : کھلی ہوئی وَعَاشِرُوْھُنَّ : اور ان سے گزران کرو بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق فَاِنْ : پھر اگر كَرِھْتُمُوْھُنَّ : وہ ناپسند ہوں فَعَسٰٓى : تو ممکن ہے اَنْ تَكْرَهُوْا : کہ تم کو ناپسند ہو شَيْئًا : ایک چیز وَّيَجْعَلَ : اور رکھے اللّٰهُ : اللہ فِيْهِ : اس میں خَيْرًا : بھلائی كَثِيْرًا : بہت
اے ایمان والو ! تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث ہوجاؤ اور تم ان عورتوں کو اس غرض سے مقید مت رکھو کہ جو مال تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لے لو، مگر یہ کہ وہ عورتیں کوئی صریح فحش کام کر بیٹھیں، اور تم ان کے ساتھ اچھے طریقہ پر زندگی گذارو، سو اگر تم کو وہ ناپسند ہیں تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کا ناپسند کرو اور اللہ اس میں زیادہ خیر رکھ دے
(1) بخاری و ابوداؤد و نسائی و بیہقی نے اپنی سنن میں وابن مردویہ نے وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا لا یحل لکم ان ترثوا النساء کرھا “ کے بارے میں روایت کیا کہ جب کوئی آدمی مرجاتا تھا تو اس کے ورثاء اس کی بیوی کے مالک کے بارے میں فیصلہ کرنے کے مجاز ہوتے (یعنی مالک بن جاتے تھے) ان میں سے بعض اگر چاہتے تو اس سے شادی کرلیتے تھے اور اگر چاہتے تو اس کا نکاح کہیں کرا دیتے تھے اور اگر چاہتے تو کسی سے بھی شادی نہ کرتے اور یہ لوگ اس کے حقدار یعنی مالک بن جاتے تھے اس کے اہل و عیال میں سے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (2) ابو داؤد نے (وجہ آخرت سے) عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ایک آدمی اس کے قریبی رشتہ داروں میں سے عورت کا وارث بن جاتا تھا اور اس کو نکاح سے روک دیتا تھا یہاں تک کہ وہ مرجاتی تھی یا اس کا مہر اپنی طرف لوٹا لیتا (یعنی خود لے لیتا تھا) تو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم فرمایا یعنی اس سے روک دیا۔ (3) ابن جریر وابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ جب کوئی آدمی مرجاتا تھا اور بیوی چھوڑ جاتا تھا تو (اس آدمی کا) قریبی رشتہ دار اس پر کپڑا ڈال دیتا تھا۔ اور اس کو (دوسرے) لوگوں سے روک دیتا تھا۔ اگر وہ خوبصورت ہوتی تو اس سے شادی کرلیتا تھا اگر وہ بدصورت ہوتی تو اس کو روکے رکھتا یہاں تک کہ وہ مرجاتی اور یہ مرد اس (کے مال) کا وارث بن جاتا۔ اسی کو فرمایا لفظ آیت ” ولا تعضلوہن “ یعنی ان کو مجبور نہ کرو ” لتذھبوا ببعض ما اتیتموہن “ کہ تم اس سے مہر لے لو یعنی ایک مرد کی بیوی ہو اور وہ مرد اس عورت سے صحبت کرنا ناپسند کرتا ہو حالانکہ اس (عورت) کے لئے اس پر مہر (لازم) ہے۔ اور یہ آدمی اس کو مارتا تاکہ وہ عورت (مہر) اسے دے دے۔ بیوہ عورت کو زبردستی روکنا جائز نہیں (4) ابن جریر وابن المنذر نے عطا کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب کوئی مرد فوت ہوجاتا تو اس مرد فوت ہوجاتا تو اس مرد کا باپ یا قریبی رشتہ دار میت کی بیوی کا زیادہ حقدار ہونا چاہتا تو اسے روک لیتا یا قید کرلیتا یہاں تک کہ مہر اسے دے دے یا مرجائے اور وہ اس کا مال لے جائے عطا بن ابی رباح نے فرمایا زمانہ جاہلیت میں جب کوئی آدمی مرجاتا اور بیوی چھوڑ جاتا تو اس کے گھر والے اس کو بچے کی وجہ سے روک لیتے تو وہ عورت ان میں رہنے پر مجبور ہوتی تو اس پر یہ آیت ” لا یحل لکم ان ترثوا النساء کرھا “ نازل ہوئی۔ (5) نسائی وابن جریر وابن ابی حاتم نے ابو امامہ بن سہل بن حنیف ؓ سے روایت کیا کہ جب ابو قیس بن سلت فوت ہوگئے تو اس کے بیٹے نے ارادہ کیا کہ اس کی بیوی سے شادی کرلے۔ اور جاہلیت میں ایسا ہوتا تھا۔ تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” لا یحل لکم ان ترثوا النساء کرھا “۔ (6) ابن جریر وابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت کبشہ بنت معن بن عاصم ابو الاوس کے بارے میں نازل ہوئی وہ ابو قیس بن سلت کے عقد میں تھی وہ فوت ہوگئے تو اس کا بیٹا اس پر مائل ہوگیا وہ نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی نہ میں اپنے شوہر کی وارث بنی اور نہ میں چھوڑی گئی کہ میں کسی سے نکاح کرلیتی ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (7) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اہل مدینہ کا یہ طریقہ تھا کہ جب کسی کا قریبی رشتہ دار فوت ہوجاتا تو وہ اس کی بیوی پر کپڑا دال کر اس کے نکاح کا وارث بن جاتا اور اپنے علاوہ کسی اور سے اس کا نکا نہ کرتا اور اس کو اپنے پاس قید کرلیتا تاکہ وہ مہر اسے دے دے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا لا یحل لکم ان ترثوا النساء کرھا “۔ (8) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں جب عورت کا خاوند مرجاتا تو اس کا ولی آکر اس پر کپڑا ڈال دیتا اگر اس کے ساتھ چھوٹا بچہ یا بھائی ہوتا تو اس پر اس عورت کو روک لیتا یہاں تک کہ جب وہ جوان ہوجاتی یا مرجاتی تو یہ اس کے مال کا وارث بن جاتا اور اگر وہ (کسی طرح) چھوٹ جاتی اور وہ اپنے اہل و عیال میں آجاتی اور اس پر کوئی کپڑا نہ ڈالتا تو وہ نجات پاجاتی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت ) ” لا یحل لکم ان ترثوا النساء کرھا “ نازل فرمائی۔ (9) عبد الرزاق وابن سعد وابن جریر نے زہری (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت انصار کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جب کوئی آدمی ان میں سے مرجاتا تو لوگ اس کی بیوی پر اس کے ولی کو وارث بنا دیتے۔ اور وہ اس کو روک لیتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ مرجاتی اور پھر وہ (اس کے مال کا) وارث بن جاتا تھا ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (10) ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں یثرب والوں کا یہ طریقہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی آدمی مرجاتا تھا تو لوگ اس کی بیوی پر اس کے ولی کو وارث بنا دیتے۔ اور وہ اس کو روک لیتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ مرجاتی اور پھر وہ (اس کے مال کا) وارث بن جاتا تھا ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (10) ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں یثرب والوں کا یہ طریقہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی آدمی مرجاتا تھا تو اس کی عورت کا وہی وارث بن جاتا تھا جو اس مرنے والے کے مال کا وارث بنتا تھا اور اس عورت کو نکاح سے روک دیتا تھا یہاں تک کہ اس سے خود شادی کرلیتا تھا یا جس کا ارادہ کرتا اس سے شادی کردیتا تھا اور تھامہ والے عورت کے ساتھ برا سلوک کرتے یہاں تک کہ اس کو طلاق دے دیتا تھا اور اس پر شرط لگاتا تھا کہ وہ اس مرد سے شادی کرے گی جس کے ساتھ وہ چاہے گا یہاں تک کہ وہ اس کا کچھ مہر اسے واپس کر دے تو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اس سے منع فرمادیا۔ (11) عبد الرزاق وابن جریر وابن المنذر نے عبد الرحمن بن سلمانی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا یحل لکم ان ترثوا النساء کرھا ولا تعضلوہن “ یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں ایک ان میں سے ایک زمانہ جاہلیت کے بارے میں ہے اور دوسری زمانہ اسلام کے بارے میں ہے ابن مبارک (رح) نے فرمایا لفظ آیت ” ان ترثوا النساء کرھا “ زمانہ جاہلیت کے بارے میں ہے اور ” ولا تعضلوہن “ زمانہ اسلام کے بارے میں ہے۔ (12) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابو مالک رحمۃ اللہ سے روایت کیا کہ ” ولا تعضلوہن “ سے مراد ہے کہ تو اپنی بیوی کو تکلیف نہ دے کہ تو اس سے مہر واپس لے لے۔ (13) عبد بن حمید وابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تعضلوہن “ یعنی (ان کو نہ روکو) کہ وہ اپنے خاوندوں سے (دوبارہ) نکاح کرلیں سورة بقرہ میں گزر گیا۔ طلاق کے بعد دوسرے خاوند سے روکنا گناہ ہے (14) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ نکاح سے روک دینا مکہ کے قریش میں تھا ایک آدمی کسی شریف عورت سے نکاح کرتا تھا۔ اور اس سے موافقت نہ ہوتی تھی تو اس کو اس شرط پر چھوڑ دیتا تھا کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر کسی سے نکاح نہ کرے گی وہ گواہ لاتا اس کے خلاف تحریر لکھی جاتی اور گواہ بنائے جاتے جب کوئی نکاح کا پیغام بھیجتا اگر وہ عورت پہلے خاوند کو مال دیتی اور اسے راضی کرلیتی تو وہ اس کو اجازت دے دیتا ورنہ اسے روک دیتا۔ (15) ابن جریر نے علی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ “ سے مراد ہے بغض اور ناچاقی اگر یہ عمل عورت کی جانب سے ہو تو عورت کے لئے جائز ہے کہ اس سے فدیہ لے لے۔ (16) ابن جریر نے مقسم (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تعضلوہن لتذھبوا ببعض ما اتیتموہن الا ان یاتین بفاحشۃ “ ابن مسعود ؓ کی قرات میں سے اور فرمایا اگر وہ عورت تجھے اذیت دے تو پھر تیرے لئے حلال ہے اس (مال) کا لینا جو اس نے تجھ سے لیا تھا۔ (17) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ “ سے مراد نافرمانی اور ناچاقی ہے۔ ابن مسعود ؓ اور ابن بن کعب ؓ کی روایت میں ہے لفظ آیت ” الا ان یفحش “ ہے۔ (18) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ” الفاحشۃ “ سے یہاں نافرمانی مراد ہے۔ (19) عبد الرزاق وابن جریر وابن المنذر نے عطا خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ یہ اس آدمی کے بارے میں نازل ہوئی جب اس کی عورت بدکاری کرتی تو مرد نے جو کچھ اس کو دیا تھا واپس لے لیتا اور اس کو نکال دیتا تو یہ حکم حدود سے منسوخ ہوگیا۔ (20) ابن جریر نے حسن (رح) سے لفظ آیت ” الا ان یاتین بفاحشۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے زنا مراد ہے اگر وہ عورت ایسا کرلے تو اس کے خاوند کے لئے حلال ہے کہ وہ اس سے خلع کا سوال کرے۔ (21) ابن المنذر نے ابو قلالہ اور ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہما سے دونوں حضرات سے روایت کیا کہ خلع حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی آدمی کو دیکھ لے اپنی عورت کے پیٹ پر کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” الا ان یاتین بفاحشۃ “۔ (22) ابن جریر نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور ان کی شرم گاہوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے ساتھ حلال کیا ہے۔ اور ان پر یہ لازم ہے کہ اپنے بستروں پر کسی کو نہ آنے دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اگر وہ ایسا کریں تو ان کو مارو کہ اس کا اثر اس پر ظاہر نہ ہو۔ اور تم پر لازم ہے ان کا کھلانا ان کا پہنانا اچھے طریقے سے۔ خاوند وبیوی کے حقوق (23) ابن جریر نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! جو عورتیں تمہارے پا ہیں (یعنی تمہارے گھروں میں ہیں) وہ (تمہاری) مددگار ہیں تم نے ان کو اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور تم نے ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلمہ کے ساتھ حلال کیا ہے تمہارے ان پر حقوق ہیں اور تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی کو نہ آنے دیں اور وہ نیک کام میں تمہاری نافرمانی نہ کریں اور جب انہوں نے ایسا کرلیا (یعنی نافرمانی نہیں کی) تو ان کو کھلانا اور ان کو کپڑے پہنانا تمہارے ذمہ ہے اچھے طریقہ سے۔ (24) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعاشروہن “ سے مراد ہے ” خالطہن “ یعنی ان سے میل جول رکھو ابن جریر نے کہا بعض راویوں نے اس میں نصیحت کی انہوں نے کہا لفظ آیت ” خالقوہن “ بجائے ” خالطوہن “ کے۔ (25) ابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ تم پر عورت کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور ان کا پہنانا اور کھلانا بھی اچھے طریقے سے ہو۔ (26) ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعاشروہن بالمعروف “ یعنی ان سے اچھا برتاؤ کرو (پھر فرمایا) ” فان کرھتموہن فعسی ان تکرھوا شیئا “ (اگر تم ناپسند کرو ان کو تو ممکن ہے تم کوئی چیز ناپسند کرو) تو طلاق کے بعد وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے گی تو اللہ تعالیٰ اس عورت سے نئے خاوند کا بچہ پیدا فرمادے اور اللہ تعالیٰ نے اس عورت سے نکاح کرنے میں خیر کثیر رکھ دیا ہے۔ (27) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا “ میں خیر کثیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عورت پر مہربانی فرمائیں گے اور آدمی کو اس عورت سے بچہ عطا فرما دے گا۔ تو اللہ تعالیٰ اس بچے میں بہت خیر رکھ دیں گے۔ (28) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ عنقریب اللہ تعالیٰ اس کراہت میں خیر کثیر کو رکھ دیں گے۔ (29) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا “ سے مراد بچہ ہے۔ (30) ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ جب مرد اور عورت کے درمیان کوئی بات واقع ہوجائے تو اس کو طلاق دینے میں جلدی نہ کرے اور آہستگی اختیار کرے اور صبر کرے شاید کہ اللہ تعالیٰ اس میں ایسی چیز دکھا دیں جو وہ پسند کرے گا۔ (31) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ بھی ممکن ہے اس (عورت) کو روک لو اگرچہ اس کا روکنا تمہیں ناگوار ہو۔ تو اللہ تعالیٰ اس میں خیر کثیر کردیں گے اور حسن (رح) فرمایا کرتے تھے قریب ہے کہ وہ اس کو طلاق دے پھر وہ کسی اور عورت سے شادی کرے تو اللہ تعالیٰ اس عورت کو بہت خیر رکھ دے۔
Top