Dure-Mansoor - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مالوں کو ناحق طریقہ سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی تجارت آپس کی رضا مندی سے ہو، اور مت قتل کرو اپنی جانوں کو، بیشک اللہ تم پر بہت بڑا مہربان ہے
(1) ابن ابی حاتم والطبرانی نے (صحیح سند کے ساتھ) ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (یہ آیت) لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “ محکم ہے منسوخ نہیں کی گئی اور نہ قیامت کے دن تک منسوک ہوگی۔ (2) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ان کا کھانا اپنے مالوں کا آپس میں باطل طریقے سے یہ ہے (جیسے) زنا کرنا، جوا کھیلنا، ناپ تول میں کمی کرنا اور ظلم کرنا (پھر فرمایا) ” الا ان تکون تجارۃ “ مگر تجارت کی صورت میں بڑھا لو۔ ایک درہم کو ہزار اگر طاقت رکھتے ہو۔ (3) ابن جریر نے عکرمہ اور حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ آدمی اس بات میں حرج محسوس کرتا تھا کہ لوگوں میں کسی ایک کے پاس کھائے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پھر اس آیت کو سورة نور کی آیت ” ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم “ (النور آیت 61) کے ساتھ منسوخ کردیا گیا ہے۔ (4) عبد بن حمید وابن جریر، وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ یعنی باہم رضا مندی سے مال اور تجارت میں یا کوئی دوسرے کو عطیہ دے۔ (5) عبد بن حمید وابن جریر والبیہقی نے سنن میں قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ تجارت رزق ہے اللہ تعالیٰ کے رزق میں سے اور حلال ہے اللہ کی حلال کردہ چیزوں میں سے اس شخص کے لئے جو اس کو طلب کرتا ہے اپنی سچائی کے ساتھ اور اپنی نیکی کے ساتھ ہم بیان کرتے تھے کہ سچا تاجر امانتدار ان سات لوگوں کے ساتھ ہوگا جو عرش کے سایہ کے نیچے ہوں گے قیامت کے دن۔ (6) ترمذی نے اس کو حسن کہا اور حاکم نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا تاجر بہت سچ بولنے والا اور امانتدار (قیامت کے دن) انبیاء اور صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ (7) ابن ماجہ والحکم اور بیہقی نے ابن عمر ؓ مرفوعا روایت کیا کہ بہت سچ بولنے والا تاجر جو امانتدار اور مسلمان ہو قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہوگا۔ سب سے پاکیزہ کمائی ہاتھ کی کمائی ہے (8) الحاکم نے رافع بن خدیج (رح) سے روایت کیا کہ کہا گیا یا رسول اللہ ! کون سی کمائی پاکیزہ ہے آپ نے فرمایا آدمی کے اپنے ہاتھ کی کمائی اور یہ ایسی تجارت ہے جس میں دھوکہ اور فریب نہ ہو۔ (9) الحاکم والبیہقی نے اپنی سنن میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کون سی کمائی پاکیزہ اور افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا انسان کے ہاتھ کی کمائی اور ایسی تجارت جو دھوکہ سے پاک ہو۔ (10) سعید بن منصور نے نعیم بن عبد الرحمن ازدی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نو حصے رزق کے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ جو پاؤں میں ہے۔ (11) الاصبہانی نے الترغیب میں صفوان بن امیہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو جان لے کہ اللہ کی مدد نیک تاجروں کے ساتھ ہے۔ (12) الاصبہانی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سچا تاجر قیامت کے دن عرش کے سایہ کے نیچے ہوگا۔ (13) الاصبہانی نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ سب سے پاکیزہ کمائی تجارت کی کمائی ہے۔ وہ لوگ جب بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں جب وعدہ کریں تو خلاف ورزی نہ کریں۔ جب امانت رکھی جائے تو خیانت نہ کریں جب چیز خریدیں تو اس کی مذمت نہ کریں جب بیچیں تو تعریف نہ کریں جب ان پر قرضہ ہو تو ٹال مٹول نہ کریں اور جب کسی سے قرض لینا ہو تو اسے تنگ نہ کریں۔ (14) الاصبہانی نے ابو امامہ ؓ سے مرفوعا روایت کیا کہ تاجر میں جب چار خصلتیں ہوں تو اس کی کمائی پاکیزہ ہے جب وہ کسی چیز کو خریدے تو مذمت نہ کرے جب بیچے تو تعریف نہ کرے اور بیچنے میں عیب کو نہ چھپائے باہم معاملات پر قسم نہ کھائے۔ (15) حاکم نے (اس کو صحیح کہا) اور رفاعہ بن رافع ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن تاجر گنہگار ہو کر اٹھیں گے مگر وہ تاجر جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور نیک کام کرنے والا اور سچ بولنے والا ہوگا۔ (وہ گنہگار ہو کر نہیں اٹھے گا) ۔ (16) احمد وحاکم نے (اس کو صحیح کہا) عبد الرحمن بن شبل ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا بلاشبہ تاجر گنہگار ہیں صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا اللہ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔ لیکن وہ قسمیں کھاتے ہیں اور گنہگار ہوتے ہیں اور ماپ کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں۔ (17) حاکم نے اس کو صحیح کہا عمرو بن تغلب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ مال بہا دیا جائے گا (یعنی مال کی کثرت ہوگی) اور جہالت بہت ہوجائے گی اور فتنے ظاہر ہوں گے اور تجارت درہم برہم ہوجائے گی۔ خریدو فروخت آپس کی رضا مندی سے ہوگی (18) ابن ماجہ وابن المنذر نے ابن سعد ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” عن تراض منکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ خریدو فروخت باہم رضا مندی سے ہے۔ (19) ابن جریر نے میمون بن مہران ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ خریدو فروخت باہم رضا مندی سے ہوئی ہے اور خیار عقد ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ اور کسی مسلمان کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو دھوکہ دے۔ (20) عبد بن حمید نے ابو زرعہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک گھوڑا کسی کو بیچا اور اس خریدنے والے سے کہا اختیار لے لو پھر اس کو تین دن کا اختیار دے دیا پھر اس سے کہا مجھے اختیار دے دے تو اس نے اس کو تین دن کا اختیار دے دیا پھر اس نے کہا میں نے ابوہریرہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا یہ خریدو فروخت باہم رضا مندی کی ہے۔ (21) ابن ماجہ نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک دیہاتی نے پتوں کا بار خریدا جب بیع پوری ہوچکی تو آپ نے اس دیہاتی سے فرمایا اختیار لے لو دیہاتی بولا اللہ تعالیٰ آپ کی تجارت کو آباد رکھے۔ (22) ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کے ساتھ بیع کی پھر اس سے فرمایا اختیار لے لو اس نے کہا میں نے اختیار لے لیا آپ نے فرمایا اسی طرح خریدو فروخت ہوتی ہے۔ (23) ابن جریر نے ابو زرعہ ؓ سے روایت کیا کہ جب وہ کسی کے ساتھ بیع کرتے تو اس سے کہتے مجھے اختیار دو پھر ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو آدمی آپس میں خریدو فروخت کرنے والے جدا نہ ہوں گے مگر آپس کی رضا مندی کے ساتھ۔ (24) ابن جریر نے ابو قلابہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے بقیع والو ہرگز نہ جدا ہوں دو خریدو فروخت کرنے والے مگر رضا مندی سے۔ (25) بخاری، الترمذی و نسائی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو خریدو فروخت کرنے والوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں ان میں سے ایک دوسرے سے کہے تجھے اختیار ہے۔ (26) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابو صالح و عکرمہ رحمہما اللہ دونوں فرماتے ہیں کہ لفظ آیت ” ولا تقتلوا انفسکم “ یعنی ایک دوسرے کو قتل کرنے سے منع کردیا گیا۔ (27) ابن المنذر نے مجاہد نے فرمایا کہ لفظ آیت ” ولا تقتلوا انفسکم “ یعنی تم میں سے کوئی دوسرے کو قتل نہ کرے۔ ابن جریر نے عطا بن ابی رباح سے اسی طرح روایت کیا۔ (28) ابن جریر وابن المنذر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تقتلوا انفسکم “ یعنی اپنے دینی بھائیوں کو قتل نہ کرو۔ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو (29) احمد وابو داؤد وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ذات السلاسل کی لڑائی والے سال میں مجھ کو بھیجا سخت ٹھنڈی رات میں مجھ کو احتلام ہوگیا میں نے خوف کیا کہ اگر میں نے غسل کیا تو میں مرجاؤں گا تو میں نے تیمم کیا پھر صحابہ کرام کو صبح کی نماز پڑھا دی۔ جب میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو میں نے ان کو یہ بات بتائی آپ نے فرمایا اے عمرو تو نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی حالانکہ تو جنبی تھا میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! مجھے سخت ٹھنڈی رات میں احتلام ہوگیا میں ڈر گیا کہ اگر میں نے غسل کیا تو میں مرجاؤں گا۔ اور میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول یاد کیا لفظ آیت ” ولا تقتلوا انفسکم “ اور میں نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی۔ رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے اور کچھ نہیں فرمایا۔ (30) الطبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عمرو بن عاص ؓ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور وہ جنبی تھے جب رسول اللہ ﷺ کے پاس صحابہ آئے تو اس بات کو ذکر کیا آپ نے ان کو بلوایا اور اس بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا رسول اللہ ! میں اس بات سے ڈرا کہ سردی مجھے قتل کر دے گی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ولا تقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما “ تو (یہ بات سن کر) رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے۔ (31) سعید بن منصور وابن سعید وابن المنذر نے عاصم بن بھدلہ (رح) سے روایت کیا کہ مسروق ؓ صفین میں آئے اور صفوں کے درمیان کھڑے ہوگئے اور فرمایا اے لوگو ! خاموش ہوجاؤ تم بتاؤ اگر ایک پکارنے والا تم کو آسمان سے پکارے پس تم اس کو دیکھو گے اور اس کی بات کو سنو گے پھر فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے تم کو منع کیا ہے۔ ان کاموں سے جن میں تم ہو کیا تم اس میں رکنے والے ہو ؟ انہوں نے کہا اللہ کی ذات پاک ہے پھر فرمایا اللہ کی قسم ! جبرئیل (علیہ السلام) اس حکم کو لائے تھے محمد ﷺ پر اور میرے پاس اس سے زیادہ واضح کوئی چیز نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ولا تقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما “ پھر وہ کوفہ کی طرف لوٹ گئے۔ (32) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ومن یفعل ذلک “ یعنی اموال اور جانوں میں ایسا عمل کیا لفظ آیت ” عدوانا وظلما “ یعنی تجاوز کرتے ہوئے اور ظلم کرتے ہوئے ناحق لفظ آیت ” وکان ذلک علی اللہ یسیرا “ یعنی اس کو عذاب دینا اللہ پر آسان ہے۔ (33) ابن جریر وابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطا سے کہا آپ بتائیے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں لفظ آیت ” ومن یفعل ذلک عدوانا وظلما فسوف نصلیہ نارا “ کہ یہ حکم ہر ایک کے بارے میں ہے یا اللہ تعالیٰ کے اس قول ” ولا تقتلوا انفسکم “ کے بارے میں ؟ تو انہوں نے فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم لفظ آیت ” ولا تقتلوا انفسکم “ کے بارے میں۔
Top