Dure-Mansoor - An-Nisaa : 34
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ١ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ١ؕ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا
اَلرِّجَالُ : مرد قَوّٰمُوْنَ : حاکم۔ نگران عَلَي : پر النِّسَآءِ : عورتیں بِمَا : اس لیے کہ فَضَّلَ : فضیلت دی اللّٰهُ : اللہ بَعْضَھُمْ : ان میں سے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض وَّبِمَآ : اور اس لیے کہ اَنْفَقُوْا : انہوں نے خرچ کیے مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : اپنے مال فَالصّٰلِحٰتُ : پس نیکو کار عورتیں قٰنِتٰتٌ : تابع فرمان حٰفِظٰتٌ : نگہبانی کرنے والیاں لِّلْغَيْبِ : پیٹھ پیچھے بِمَا : اس سے جو حَفِظَ : حفاطت کی اللّٰهُ : اللہ وَالّٰتِيْ : اور وہ جو تَخَافُوْنَ : تم ڈرتے ہو نُشُوْزَھُنَّ : ان کی بدخوئی فَعِظُوْھُنَّ : پس امن کو سمجھاؤ وَاهْجُرُوْھُنَّ : اور ان کو تنہا چھوڑ دو فِي الْمَضَاجِعِ : خواب گاہوں میں وَاضْرِبُوْھُنَّ : اور ان کو مارو فَاِنْ : پھر اگر اَطَعْنَكُمْ : وہ تمہارا کہا مانیں فَلَا تَبْغُوْا : تو نہ تلاش کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر سَبِيْلًا : کوئی راہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيًّا : سب سے اعلی كَبِيْرًا : سب سے بڑا
مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مالوں میں سے خرچ کیا، سو جو عورتیں نیک ہیں وہ اطاعت کرنے والی ہیں، مرد کی عدم موجودگی میں بحفاظت الٰہی نگہبانی کرنے والی ہیں، اور جن عورتوں کی بدخوئی کا تمہیں ڈر ہو ان کو نصیحت کرو اور انہیں لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو ، اور ان کو مارو، سو اگر وہ تمہاری فرمانبرداری کریں تو ان پر زیادتی کرنے کے لئے بہانہ نہ ڈھونڈو، بیشک اللہ تعالیٰ رفعت والا ہے بڑا ہے
(1) ابن ابی حاتم نے اشعت بن عبد المالک کے طریق سے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ ایک عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور اپنے خاوند کے خلاف زیادتی کا بدلہ لینا چاہتی تھی کیونکہ اس نے اس کو تھپڑ مارا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے قصاص کا حکم فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” الرجال قومون علی النساء “ (اس کے بعد) بغیر قصاص کے اس کو لوٹا دیا گیا۔ (2) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ کے طریق سے حسن ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تھپڑ مارا تو وہ نبی ﷺ کے پاس آئی اور آپ نے اس سے قصاص (یعنی بدلہ) لینے کا ارادہ فرمایا تو (یہ آیت) نازل ہوئی ” الرجال قومون علی النساء “ آپ نے اس مرد کو بلایا اور اس پر یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا میں نے ایک کام کا ارادہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ (دوسرے کام) کا ارادہ فرمایا۔ خاوند کو بیوی پر فوقیت حاصل ہے (3) الفریابی وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے جریر بن حازم کے طریق سے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے انصار میں سے اپنی عورت کو تھپڑ مارا تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر قصاص کا مطالبہ کر رہی تھی نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں کے درمیان قصاص کا فیصلہ فرمایا تو (اس پر) یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ولا تعجل بالقران من قبل ان یقضی الیک وحیہ وقل “ (طہ آیت 114) تو رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے اور پھر یہ آیت نازل ہوئی ” الرجال قومون علی النساء “ آخری آیت تک تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم نے ایک کام کا ارادہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ (دوسرے کام) کا ارادہ فرمایا۔ (4) ابن مردویہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ ایک انصاری ایک عورت کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس عورت نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اس کا خاوند فلاں بن فلاں انصاری ہے اس نے اسے مارا ہے اور اس کے چہرے پر نشان چھوڑے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کو اس کا حق نہ تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ” الرجال قومون علی النساء بما فضل اللہ بعضہم علی بعض “ یعنی عورتوں کو ادب سکھانے میں ان کو اختیار ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امین نے ایک کام کا ارادہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ایک اور کام کا ارادہ فرمایا۔ (5) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تھپڑا مارا نبی اکرم ﷺ نے قصاص کا ارادہ فرمایا ابھی یہ لوگ اسی حال میں تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن جریر نے سعید سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (6) عبد بن حمید وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الرجال قومون علی النساء “ سے مراد ہے کہ ادب اور تعلیم دینے میں عورتوں کے سر پرست ہیں پھر فرمایا لفظ آیت ” بما فضل اللہ بعضہم علی بعض “ یعنی مہر کی رقم خرچ کرنے کی وجہ سے۔ (7) ابن جریر وابن المنذر نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ عورت اپنے خاوند سے قصاص نہیں لے سکتی مگر اپنی جان کا قصاص لے سکتی ہے۔ (8) ابن المنذر نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ ہم اس سے قصاص بھی لیں گے مگر ادب (سکھانے) میں (نہیں لیں گے) ۔ (9) ابن جریر ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الرجال قومون علی النساء “ سے مراد ہے کہ مرد عورتوں پر امیر ہیں عورتوں پر لازم ہے کہ جن چیزوں کا اللہ نے حکم دیا ہے ان میں مرد کی اطاعت کریں عورت کی مرد کے لئے اطاعت یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اس کے مال کی حفاظت کرنے والی ہو ” بما فضل اللہ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے مرد کو فضلیت دی اس کے نفقہ اور اس کی کمائی کی وجہ سے پھر فرمایا لفظ آیت ” فالصلحت قنتت “ یعنی نیک بیویاں جو اطاعت کرنے والیاں (اور) ” حفظت للغیب “ یعنی اس کی عدم موجودگی میں مال کی حفاظت کرنے والیاں جب وہ عورتیں ایسی ہیں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (10) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ مرد عورت پر حاکم ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دے اگر وہ انکار کرے (اللہ کا حکم نہ مانے) تو اس کو اتنا مارنے کا حق ہے جو اس پر نشان نہ چھوڑے۔ اور مرد کو فضیلت حاصل ہے عورت پر کیونکہ مرد اس پر مال خرچ کرتا ہے اور کماتا ہے۔ (11) سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الرجال قومون علی النساء “ کہ وہ عورتوں کے ہاتھ پکڑتے ہیں اور ان کو ادب سکھاتے ہیں۔ (12) سفیان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” بما فضل اللہ بعضہم علی بعض “ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے۔ (پھر فرمایا) ” وبما انفقوا من اموالہم “ یعنی مرد عورتوں کو مہر دیتے ہیں۔ (13) ابن ابی حاتم نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ ” وبما انفقوا من اموالہم “ سے مال خرچ کرنے سے مراد مہر ہے۔ جو مرد دیتا ہے۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ اگر اس کا خاوند اس پر تہمت لگائے تو مرد عورت سے لعان کرتا ہے۔ اور اگر وہ عورت اس پر (یعنی اپنے خاوند پر) تہمت لگائے تو اس (عورت) کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ (14) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فالصلحت قنتت “ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والیاں اور اپنے شوہروں کی اطاعت کرنے والیاں (پھر فرمایا) ” حفظت للغیب “ یعنی حفاظت کرنے والیاں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی اور اپنے خاوندوں کی غیر حاضری میں ان کے حقوق کی حفاظت کرنے والیاں۔ (15) ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” حفظت للغیب “ یعنی اپنے شوہروں کے لئے (ان کی غیر حاضری میں) حفاظت کرنے والیاں۔ (16) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” حفظت للغیب بما حفظ اللہ “ یعنی اپنے خاوند کے مال کی حفاظت اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرتی ہیں یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم فرمایا۔ (17) ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ اپنے شوہروں کے لئے اپنے نفسوں کی اس طرح حفاظت کرتی ہیں جن کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ (18) ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والیاں اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے ساتھ حفاطت کرنے والیاں کہ اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں ان کی خیانت کرنے والی نہیں۔ (19) ابن جریر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ اپنے شوہروں کے لئے حفاظت کرنے والیاں اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے باعث اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی۔ (20) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” حفظت للغیب “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ حفاظت کرتی ہیں اپنے شوہروں کی ان چیزوں کی جو ان سے مخفی ہیں ان کے معاملات میں سے (پھر فرمایا) ” بما حفظ اللہ “ یعنی اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے ساتھ ان کو اس قابل بنایا۔ نیک عورت کی خصلتیں (21) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے اپنے سنن میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتوں میں سے بہترین عورت وہ ہے کہ جب اس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو اس کو خوش کرے اور جب اس کو حکم تو اس کی اطاعت کرے اور جب اس سے غائب ہو تو حفاظت کرے اس کے مال کی اور اپنی جان کی پھر رسول اللہ ﷺ نے (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ” الرجال قومون علی النساء “ سے لے کر ” قنتت حفظت للغیب “ تک۔ (22) ابن جریر نے طلحہ بن مصرف (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عبد اللہ ؓ کی قرات میں یوں ہے لفظ آیت ” فالصلحت قنتت حفظت للغیب بما حفظ اللہ فاصلحوا الیہن والتی تخافون “۔ (23) سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فالصلحت قنتت حفظت للغیب بما حفظ اللہ “ اس لئے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (24) ابن ابی شیبہ نے یحییٰ بن جعدہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا سب سے زیادہ فائدہ مند کسی مسلمان کے لئے اسلام کے بعد خوبصورت عورت ہے کہ جو اس کو خوش کرتی ہے جب اس کی طرف دیکھتا ہے اور اس کی اطاعت کرتی ہے جب وہ اس کو حکم کرتا ہے۔ اور اس کے مال کی اور اپنی ذات کی حفاظت کرتی ہے جب وہ غائب ہوتا ہے۔ (25) ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ کوئی آدمی ایمان باللہ کے بعد اچھے اخلاق والی عورت سے بڑھ کر خیر پانے والا نہیں جو خاوند سے محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہو اور کوئی آدمی اللہ تعالیٰ سے کفر کے بعد برے اخلاق والی عورت سے بڑھ کر کوئی برائی پانے والا نہیں جو بد اخلاق اور زبان کی تیز ہو۔ (26) ان ابی شیبہ نے عبد الرحمن بن زہری (رح) سے روایت کیا کہ نیک عورت کی مثال جو نیک آدمی کے پاس ہو اس تاج کی سی ہے جو سونے کا بنا ہوا ہو اور جو بادشاہ کے سر پر ہو اور بری عورت کی مثال نیک آدمی کے پاس اس بھاری بوجھ کی طرح ہے جو بوڑھے آدمی پر ہو۔ (27) ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ کیا میں تم کو تین کمر توڑ مصیبتوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ کہا گیا وہ کون سی ہیں ؟ تو فرمایا ظالم بادشاہ جب اس کے ساتھ نیکی کی جائے تو شکر ادا نہ کرے اور جب اس کے ساتھ برائی کی جائے تو معاف نہ کرے اور برا پڑوسی جب نیکی کو دیکھے تو اس کو چھپا دے اور جب برائی کو دیکھے تو اس کو پھیلا دے اور بری عورت جب اس کے پاس تو حاضر ہو تو تجھ کو غصہ دلائے اور جب اس سے تو غائب ہو تو تیری خیانت کرے۔ (28) الحاکم نے حضرت سعد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین چیزیں سعادت مندی میں سے ہیں بیوی جس کو تو دیکھے تو تجھ کو اچھی لگے۔ اور تو غائب ہو تو وہ امین ہو اپنی ذات اور تیرے مال کے بارے میں اور وہ سواری جو مطیع ہو جو تجھ کو تیرے دوستوں سے ملا دے اور وہ گھر جو کشادہ ہو اور زیادہ سہولتوں والا ہو اور تین چیزیں بدبختی میں سے ہیں وہ عورت کہ تو اس کو دیکھے تو اس کو دیکھے تو تجھ کو بری لگے اور ہر وقت اپنی زبان تجھ پر چلاتی رہے۔ اگر تو غائب ہوجائے تو وہ امین نہ ہو اپنی ذات اور تیرے مال کے بارے میں اور ایسی سواری جو اڑیل ہو اگر تو اس کو مارے تو وہ تجھ کو تھکا دے اور اگر اس کو چھوڑ دے تو تجھ کو تیرے دوستوں کے پاس نہ پہنچائے اور وہ گھر جو تنگ ہو اور اس میں سہولتیں کم ہوں۔ (29) ابن سعید وابن ابی شیبہ حاکم و بیہقی نے حصین بن محصن (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو میری پھوپھی نے بیان کیا کہ میں نبی ﷺ کے پاس اپنی کسی ضرورت سے حاضر خدمت ہوئی آپ نے پوچھا کیا تو شوہر والی ہے ؟ میں نے عرض کیا ہاں ! آپ نے فرمایا تو اس کے ساتھ کیسے معاملات رکھتی ہے ؟۔ عرض کیا میں اس کی ضرورت پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی مگر جو کرنے سے عاجز ہوں آپ نے فرمایا تو رکھ لے کہ تو اس کے ہاں کیا حیثیت رکھتی ہے پھر فرمایا بلاشبہ وہ تیرے لئے تیری جنت ہے یا تیری جہنم ہے۔ (30) البزار والحاکم اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ! مجھے بتائیے خاوند کا حق بیوی پر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا خاوند کا حق بیوی پر یہ بھی ہے کہ اگر اس کے ناک سے خون یا پیپ بہہ رہا ہو اور تو اس کو اپنی زبان سے چاٹ لے تب بھی اس نے خاوند کا حق ادا نہ کیا۔ اگر دوسرے انسان کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے جب وہ اس کے پاس آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر کسی مرد کو گھر میں بٹھانا جائز نہیں (31) الحاکم والبیہقی نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی عورت کے لئے یہ حلال نہیں جو اللہ پر ایمان رکھتی ہو کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں ایسے شخص کو اجازت دے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو اور نہ نکلے گھر میں سے (جب) وہ ناپسند کرتا ہو اور خاوند کے بارے میں کسی کی اطاعت نہ کرے اور اس کو غصہ دلا کر نہ بھڑکائے اور اس کے بستر سے الگ نہ ہوجائے اور اس کے ذریعہ اس کو تکلیف نہ پہنچائے اگر وہ بہت ظلم کرنے والا ہو تب بھی اس کے پاس آتی رہے یہاں تک کہ اس کو راضی کرے اگر وہ اس سے (عذر کو) قبول کرے اور اس کی تعریف کر دے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے عذر کو قبول کرلیں گے اور اگر وہ راضی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا عذر پہنچ گیا۔ (32) البزار والحاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور ابن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس عورت کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا جو اپنے شوہر کا شکر ادا نہ کرے۔ جبکہ وہ اپنے خاوند سے مستغنی بھی نہیں۔ (33) احمد نے عبد الرحمن بن شبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ فساق دوزخ والوں میں سے ہیں کہا گیا یا رسول اللہ ! فساق کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا عورتیں ہیں ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! کیا وہ ہماری مائیں اور ہماری بہنیں ہیں اور ہماری بیویاں نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا ضرور ہیں لیکن جب ان کو دیا جائے تو شکر ادا نہیں کرتیں اور جب آزمائش میں ڈالا جائے تو صبر نہیں کرتی ہیں۔ (34) بخاری ومسلم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی عورت روزہ نہ رکھے اور اس کا شوہر حاضر ہو مگر اس کی اجازت سے اور کسی کو اس کے گھر میں آنے کی اجازت نہ دے اور اس کا شوہر حاضر ہوا مگر اس کی اجازت سے۔ (35) عبدالرزاق والبزار والطبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک عورت نبی ﷺ کے پاس آکر کہنے لگی یا رسول اللہ ! میں عورتوں کی طرف سے آپ کے پاس حاضر ہوئی ہوں یہ جہاد جس کو اللہ تعالیٰ نے مردوں پر فرض کیا ہے اگر وہ کسی کو قتل کریں تو ان کو اجر ملتا ہے۔ اور قتل ہوجائیں تو اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور رزق دئیے جاتے ہیں ہم عورتیں ان کی خدمت میں لگی رہتی ہیں تو ہمارے لئے اس میں کیا اجر ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا میری طرف سے یہ پیغام پہنچا دو جو عورتوں میں سے تم کو ملیں کہ خاوند کی اطاعت کرنا اور اس کے حق کو پہچاننا اس (جہاد کے) برابر ہے۔ اور تم میں سے تھوڑی عورتیں ایسی ہیں جو اس طرح کرتی ہیں۔ نیک عورت کے جنت کی بشارت (36) البزار نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب عورت پانچویں نمازیں پڑھے اور رمضان کے مہینہ کے روزے رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو جنت میں داخل ہوگی۔ (37) ابن ابی شیبہ والبزار نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک عورت خثعم قبیلہ میں سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ! مجھ کو بتائیے کہ کیا حق ہے شوہر کا بیوی پر بلاشبہ میں ایک عورت ہوں بےخاوند والی اگر میں طاقت رکھوں تو شادی کروں ورنہ بیٹھی رہوں بغیر خاوند کے ؟ آپ نے فرمایا شوہر کا حق اپنی بیوی پر یہ ہے کہ اگر وہ سوال کرے اس سے اس کی ذات کا (یعنی اس سے جماع کی خواہش کرے) اور وہ عورت اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھی ہو تو وہ اپنے آپ کو اس سے نہ روکے (یعنی اس کی خواہش پوری کرے) اور خاوند کا عورت پر یہ بھی حق ہے کہ نفل روزہ نہ رکھے مگر اس کی اجازت سے اگر اس نے ایسا کرلیا اور بھوکی پیاسی رہی تو اس سے (روزہ) قبول نہ ہوگا اور اس کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر نہ نکلے اگر اس نے ایسا کیا تو اس پر لعنت ہوگی آسمان کے فرشتوں کی رحمت اور عذاب کے فرشتوں کی یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ آئے۔ (38) البزار والطبرانی نے الاوسط میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا لوگون میں سے کسی کا زیادہ حق ہے عورت پر ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس کے شوہر کا پھر میں نے پوچھا ایک مرد پر سب سے زیادہ کس کا حق ہے آپ نے فرمایا اس کی ماں کا۔ (39) البزار نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے عورتوں کی جماعت ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہو اور اپنے شوہروں کی رضا مندی کو تلاش کرتی رہو۔ بلاشبہ عورت اگر جان لے کہ اس کا شوہر کا (اس پر) کیا حق ہے تو برابر کھڑی رہتی جب تک اس کا صبح کا کھانا اور اس کا شام کا کھانا حاضر ہوتا۔ (40) البزار نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر عورت (اپنے) شوہر کے حق کو جان لیتی تو نہ بیٹھتی جب تک اس کا صبح کا کھانا اور اس کا شام کا کھانا حاضر ہوتا یہاں تک کہ وہ کھانے سے فارغ ہوتا۔ (41) ابن ابی شیبہ واحمد نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں کسی انسان کو حکم کرتا کہ وہ کسی انسان کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم کرتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (42) البیہقی نے شعب الایمان میں جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز قبول ہوتی ہے اور نہ ان کی نیکی اوپر چڑھتی ہے بھاگا ہوا غلام یہاں تک کہ وہ اپنے آقا کے پاس لوٹ آئے اور وہ عورت جس پر اس کا شوہر ناراض ہو اور نشہ میں مدہوش جب تک کہ اس کا نشہ دور نہ ہوجائے۔ (43) البیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو جنتیوں کے بارے میں خبر نہ دوں (وہ یہ ہیں) انبیاء جنت میں ہوں گے۔ اور صدیق جنت میں ہوگا۔ اور شہید جنت میں ہوگا بچہ پیدا ہونے والا (اگر مرجائے) تو جنت میں ہوگا اور وہ آدمی جو اپنے بھائی کی ملاقات کو جائے جو شہر کے کنارے پر رہتا ہے۔ اللہ کے لئے اس کی زیارت کرتا ہے تو وہ جنت میں ہوگا اور تمہاری عورتیں جنت میں سے ہیں جو شوہر سے محبت کرنے والی اور بچے زیادہ جننے والی ہو۔ شوہر جب غصہ ہوجائے تو اس کے پاس آئے یہاں تک کہ اپنا ہاتھ خاوند کے ہاتھ میں دے دے پھر کہے میں اس وقت تک نہ سوؤں گی یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے۔ (44) البیہقی نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی سے فرمایا بلاشبہ میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ عورت اپنے شوہر کی شکایت کرنے والی ہو۔ (45) البیہقی نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کی بیوی سے فرمایا اے میری بیٹی ! کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے پاس نہ آئے جب وہ خواہش کرے خاوند کے منہ پر اس کی مذمت نہ کرے۔ اگر وہ اس کو حکم کرے کہ وہ منتقل ہوجائے تو سیاہ پہاڑ سے سرخ پہاڑ کی طرف یا سرخ پہاڑ سے سیاہ پہاڑ کی طرف تو اپنے شوہر کی رضا چاہو۔ عورتوں کی تین قسمیں (46) البیہقی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا عورتیں تین قسم پر ہیں ایک قسم برتن کی طرح ہے تو اٹھاتا ہے اور رکھ دیتا ہے۔ دوسری قسم جیسے اونٹ ہے خارش زدہ، تیسری قسم خاوند سے محبت کرنے والی اور بہت جننے والی کہ وہ مدد کرتی ہے اور اپنے خاوند کی اور اس کے ایمان پر یہ بہتر ہے اس کے لئے خزانے سے۔ (47) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ عورتیں تین قسم ہیں : وہ عورت جو پاکدامن مسلمان، نرم مزاج، سنجیدہ، خاوند سے محبت کرنے والی بہت (بچے) جننے والی ہو جو خاوند کی مدد کرتی ہیں حادثات زمانہ کے خلاف اور وہ اپنے خاوند کے خلاف زمانے کی مدد نہیں کرتی اور (ایسی عورت) تھوڑی ہیں جو تو اس کو پائے اور ایک عورت (مثل) برتن کے ہے وہ بچے جننے کے سوا کچھ نہیں کرتی اور تیسری عورت خیانت کرنے والی ہے اللہ تعالیٰ جس کی گردن میں چاہتے ہیں ڈال دیتے ہیں اور جب ارادہ فرماتے ہیں اس کو نکال دیں تو نکال دیتے ہیں۔ (48) البیہقی نے اسماء بنت یزید الانصاریہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ نبی ﷺ کے پاس اس حال میں آئی کہ آپ اپنے اصحاب کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں آپ کی طرف عورتوں کی طرف سے نمائندہ بن کر آئی ہوں اور آپ جان لیں کہ میری جان آپ کے لئے قربان ہے کوئی عورت جو مشرق میں ہو یا مغرب میں اس نے میرے آنے کے بارے میں سنا تو وہ میری رائے پر ہوگی اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم عورتیں گھر میں بند ہیں تمہارے گھر کی ستون ہیں اور پورا کرنے والی ہیں تمہاری شہوتوں کو اور اٹھانے والی ہیں تمہاری اولادوں کو اپنے پیٹوں میں سے مردوں کی جماعت کو ہم پر فضیلت دئیے گئے ہو جمعہ جماعات مریضوں کی عیادت جنازوں میں حاضر ہونے اور حج کے بعد حج کرنے کے ساتھ اور اس سے افضل جہاد کرنا ہے اللہ کے راستے میں اور ایک آدمی تم میں سے جب نکلتا ہے حج کے لئے یا عمرہ کے لئے یا اسلام سرحد کا پہرہ دینے کے لئے تو ہم تمہارے مالوں کی حفاظت کرتی ہیں اور ہم تمہارے لئے کپڑے بنتی ہیں اور ہم تمہارے اموال کی نگہداشت کرتی ہیں تو کیا ہم شریک ہیں تمہارے ساتھ اجر میں۔ نبی اکرم ﷺ اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے پھر فرمایا اپنے دین کے بارے میں اس عورت کی بات سے بہتر کبھی کوئی بات تم نے سنی ؟ صحابہ کرام نے فرمایا یا رسول اللہ ہم نے یہ خیال نہیں کیا کہ ایک عورت اس قسم کی بات کرسکتی ہے ؟ پھر نبی ﷺ اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے فرمایا اے عورت چلی جا اور دوسری عورت کو بتادے کہ تم میں سے کسی ایک کا اپنے خاوند کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور اس کی رضا مندی کو طلب کرنا اور اس کی موافقت کی اتباع کرنا تو سارے اعمال کے برابر ہوگا (یعنی مردوں کے ان سب اعمال کے برابر اجر ملے گا) وہ عورت خوشی سے لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہتے ہوئے واپس چلی گئی۔ خاتون خانہ کے لئے جہاد کا اجر ہے (49) البیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عورتیں آئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ ! اللہ کے راستہ کے راستہ میں جہاد کرنے کی وجہ سے فضیلت لے گئے ہمارے لئے کوئی عمل ہے کہ جس سے ہم مجاہد فی سبیل اللہ کا اجر پالیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی کا اپنے گھر میں رہ کر کام کرنا مجاہدین فی سبیل اللہ کا اجر پالینا ہے۔ (50) ابن ابی شیبہ اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو عورت اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (51) احمد نے اسماء بنت یزید ؓ سے روایت کیا کہ ہم عورتوں میں بیٹھی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس سے گزرے اور ہم کو سلام پھیرا فرمایا بچو تم احسان کرنے والوں کی ناشکری سے۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! احسان کرنے والوں کی ناشکری سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا شاید کہ تم میں سے کسی عورت کا بےشوہر کے رہنا والدین کے درمیان لمبا ہوجائے اور کنواری رہ جائے پھر اللہ تعالیٰ اس کو شوہر عطا فرما دیں اور اس سے مال اور اولاد بھی عطا فرما دیں پھر وہ عورت غصہ ہو اور کہے میں نے تم سے کبھی بھی خیر کو نہیں دیکھا۔ (52) بیہقی نے (منقطع سند کے ساتھ) حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایسے حمام پر افسوس جس کا پردہ نہ ہو اور ایسے پانی پر افسوس جو پاک نہ ہو کسی مرد کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ اس میں داخل ہو مگر رومال یعنی کپڑے کے ساتھ کہ جس سے ستر کو چھپالے۔ مسلمان کو حکم دو کہ وہ عورتیں کو آزمائش میں نہ ڈالیں (پھر فرمایا) لفظ آیت ” الرجال قومون علی النساء “ ان کو تعلیم دو اور ان کو تسبیح پڑھنے کا حکم کر دو ۔ (53) احمد وابن ماجہ والبیہقی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حمل اٹھانے والیاں بچہ جننے والیاں رحم کرنے والیاں (اولاد پر) اگر وہ دن ہو جو یہ اپنے خاوندوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ تو البتہ ان میں سے نماز پڑھنے والیاں داخل ہوجائیں جنت میں۔ (54) البیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ ! کیا بدلہ ہے عورت کے غزوہ کا ؟ آپ نے فرمایا خاوند کی اطاعت کرنا اور اس کے حق کا اعتراف کرنا عورت کے لئے غزوہ کا یہی بدلہ ہے۔ (55) الحکیم الترمذی نے نوادر الاصول میں والنسائی والبیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کون سی عورت سب سے بہتر ہے ؟ تو آپ نے فرمایا جو اس کو خوش کر دے (یعنی شوہر کو) جب وہ (اس کی طرف دیکھے اور اس کی فرمانی نہ کرے جب وہ حکم کرے اور عورت اس کی مخالفت نہ کرے جس چیز کو خاوند ناپسند کرے عورت کی ذات اور اپنے مال کے بارے میں۔ (56) حاکم (نے اس کو صحیح کہا) معاذ ؓ سے روایت کیا کہ وہ شام کے ملک میں آئے تو انہوں نے نصاری کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا اپنے علماء اور درویشوں کے سامنے اور یہودیوں کو دیکھا کہ وہ بھی اپنے علماء اور اپنے درویشوں کو سجدہ کر رہے ہیں۔ پوچھا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو تو انہوں نے کہا یہ انبیاء کا تحیہ ہے میں نے کہا ہم زیادہ حقدار ہیں کہ ہم اپنے نبی کو سجدہ کریں نبی ﷺ نے فرمایا وہ اپنے انبیاء پر جھوٹ بولتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب کو بدل ڈالا اگر کسی کو سجدہ کا حکم کرتا تو عورت کو حکم کرنا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ عورت پر مرد کا بہت بڑا حق ہے اور عورت ایمان کی حلاوت نہیں پاتی یہاں تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے کیونکہ عورت پر مرد کا بہت بڑا حق ہے عورت ایمان کی حلاوت نہیں پاسکتی یہاں تک کہ وہ اپنے خاوند کا حق ادا کرے اگرچہ خاوند اونٹ کی پشت پر ہو عورت کو اپنے آپ کو حوالے کرنے کا حکم دے۔ درخت کا قدم مبارک پر بوسہ دینا (57) حاکم نے (اس کو صحیح کہا) اور بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے کہ جس سے یقین ہوجائے آپ نے فرمایا اس درخت کو بلاؤ اس نے اس کو بلایا تو وہ آیا اور اس نے نبی ﷺ کو سلام کیا پھر اس (درخت) سے آپ نے فرمایا لوٹ جا وہ لوٹ گیا پھر اس کو آپ نے اجازت فرمائی تو اس نے آپ کے سر مبارک اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا۔ اور فرمایا اگر میں کسی کو سجدہ کا حکم کرتا تو عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (58) حاکم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دو شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سروں سے اوپر نہیں جاتی اپنے آقا سے بھا گا ہوا غلام یہاں تک کہ واپس آجائے اور وہ عورت جس نے اس حال میں رات گزاری کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو اور کسی قوم کا امام جبکہ لوگ اس کو ناپسند کریں۔ (60) احمد نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ وہ یمن میں آئے تو ایک عورت نے ان سے پوچھا کہ مرد کا حق کیا ہے اس کی بیوی پر کیونکہ میں نے اپنے گھر میں بوڑھے آدمی کو چھوڑا ہے تو انہوں نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں معاذ کی جان ہے۔ کاش کہ تو اس کی طرف لوٹ جائے اور تو پائے جذام کو کہ اس نے پھاڑ دیا ہے اس کے گوشت کو اور اس کے نتھنوں کو اور تو پائے کہ اس نے نتھنے بہا رہے ہیں پیپ کو اور خون کو پھر تو ان دونوں کو اپنے منہ میں لقمہ بنا لے تاکہ تو ادا کرے اس کے حق کو تو (پھر بھی) تو اس کے حق کو ادا نہ کرسکے گی۔ (61) احمد نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی بشر کو یہ لائق نہیں کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے اگر کسی بشر کو کسی بشر کے لئے سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاندوں کو سجدہ کرے اس کے بڑے حق کی وجہ سے جو اس پر ہے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر مرد کے قدموں سے لے کر اس کے سر کی مانگ تک کوئی پھوڑا ہوتا اور اس سے پیپ اور زرد پانی جاری ہوتا پھر وہ عورت اسے چاٹ لے تب بھی عورت نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔ (62) الحکیم الترمذی نے نوادر الاصول میں انس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی جہاد پر گیا اور اپنی بیوی کو حکم دیا کہ تو گھر کے اوپر سے نیچے نہیں اترے گی اور اس کا والد نیچے گھر میں تھا جو بیمار ہوگیا اس عورت نے رسول اللہ ﷺ کی طرف کسی کو بھیجا وہ آپ کو (اس بات کی) خبر دے اور مشورہ لے آپ نے اس کی طرف پیغام بھیجا کہ تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہے اور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے اس کا والد وفات پا گیا پھر اس عورت نے آپ کی طرف پیغام بھیجا اور مشورہ طلب کیا تب بھی آپ نے اسے اسی طرح پیغام (جیسے پہلے بھیجا تھا کہ اپنے خاوند کی اطاعت کر) اور رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور اس کی نماز (جنازہ) پڑھائی۔ اور اس عورت کی طرف پیغام بھیجا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے والد کی مغفرت فرما دی ہے تیرے خاوند کی اطاعت کی وجہ سے۔ (63) ابن ابی شیبہ عمرو بن حارث مصطلق (رح) سے روایت کیا کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ دو شخصوں کو سخت عذاب ہوگا وہ عورت کہ جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرے اور کسی قوم کا امام جس کو وہ لوگ ناپسند کرتے ہوں۔ نکاح عورت کی اجازت پر موقوف ہے (64) ابن ابی شیبہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی اپنی بیٹی کو نبی ﷺ کے پاس لے آیا اور عرض کیا کہ یہ میری بیٹی شادی سے انکار کرتی ہے آپ نے اس سے فرمایا اپنے باپ کی اطاعت کر اس نے کہا نہیں کروں گی یہاں تک مجھے یہ بتادیا جائے کہ خاوند کا حق اس کی بیوی پر کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا خاوند کا حق اس کی بیوی پر یہ ہے کہ اگر خاوند کے جسم میں کوئی زخم ہو عورت اس کو زبان سے صاف کرے یا اس کے نتھنے پیپ یا خون بہاتے ہو پھر وہ اس کو زبان سے صاف کرے تب بھی اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا اس لڑکی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں کبھی بھی شادی نہیں کروں گی۔ آپ نے فرمایا ان عورتوں کی اجازت کے بغیر ان کا نکاح نہ کیا کرو۔ (65) ابن ابی شیبہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی چیز کو یہ لائق نہیں کہ کسی چیز کو سجدہ کرے اگر ایسا ہوتا تو عورتیں اپنی شوہرون کو سجدہ کرتیں۔ (66) ابن ابی شیبہ وابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں کسی کو حکم کرتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو حکم کرے کہ وہ سرخ پہاڑ سے سیاہ پہاڑ کی طرف منتقل ہوجائے یا سیاہ پہاڑ سے سرک پہاڑ کی طرف تو اس پر ایسا لازم ہے۔ (67) ابن ابی شیبہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ اے عورتوں کا گروہ اگر تم جان لیتیں کہ تم پر اپنے شوہروں کا کیا حق ہے تو ایک عورت ان میں سے غبار کو پونچھتی اس کے چہرے سے اپنے چہرے کی سفیدی سے۔ (68) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ (یعنی صحابہ کرام) فرمایا کرتے تھے اگر ایک عورت جذام کے مرض میں مبتلا خاوند کی ناک صاف کرے یہاں تک وہ عورت مرجائے تب بھی اس نے خاوند کا حق ادا نہیں کیا۔ (69) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” والتی تخافون نشوزہن “ کے بارے میں روایت کیا (اگر) وہ عورت نافرمانی کرتی ہے اور اپنے خاوند کے حق کو خفیف جانتی ہے اور اس کے حکم کی اطاعت نہیں کرتی تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ اس کو نصیحت کرو اور اس کو اللہ تعالیٰ کے واسطہ سے یاد دلاؤ اور عورت پر مرد کے حق کی عظمت کو بیان کرو اگر وہ قبول کرے (تو ٹھیک ہے) ورنہ اس سے علیحدگی اختیار کرلو لیٹنے کی جگہ میں اور اس کے نکاح کو توڑے بغیر اس سے بات نہ کرو اور یہ معاملہ عورت کے لئے بڑا تکلیف دہ ہوگا۔ اگر وہ لوٹ آئے (یعنی نافرمانی سے باز آجائے تو ٹھیک) ورنہ اس کو مارو کہ جسم پر نشانات ظاہر نہ ہو اور اس کی ہڈی نہ توڑو اور اس کو زخم نہ لگاؤ (پھر فرمایا) لفظ آیت ” فان اطعنکم فلا تبغوا علیہن سبیلا “ یعنی اگر وہ تیری اطاعت کرے تو تم اس پر بہانے تلاش نہ کرو۔ (70) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ” نشوزہن “ سے مراد ہے اس کا بغض۔ (71) ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ ” نشوز “ سے مراد ہے اس کی نافرمانی اور اس کی مخالفت۔ (72) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والتی تخافون نشوزہن فعظوہن واھجروہن “ یعنی جب عورت اپنے خاوند کے بستر پر آنے سے نافرمانی کرے (یعنی انکار کرے) تو مرد اس سے کہے اللہ سے ڈر اور بستر پر لوٹ آ اگر وہ کہنا مان لے تو پھر اس پر سختی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ (73) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والتی تخافون نشوزہن “ یعنی جن سے تم نافرمانی کا خوف رکھتے ہو ” فعظوہن “ یعنی ان کو زبان سے (نصیحت کرو) ” واھجروہن فی المضاجع ‘ اور ان کو بستروں سے الگ کرو اور خاوند اس سے بات بھی نہ کرے ” واضربوہن “ اور ان کو مارو کہ جسم پر زخم ظاہر نہ ہو لفظ آیت ” فان اطعنکم “ یعنی اگر وہ بستر کی طرف آجائے ” فلا تبغوا علیہن سبیلا “ یعنی عورت کو اس وجہ سے ملامت نہ کرو کہ وہ عورت تم سے بغض رکھتی ہے کیونکہ بغض میں نے اس کے دل میں رکھا ہے۔ (74) ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” فعظوہن “ سے مراد ہے کہ زبان سے اس کو نصیحت کرو۔ (75) البیہقی نے لقیط بن صبرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری ایک بیوی ہے اس کی زبان میں کچھ ہے یعنی بدزبانی آپ نے فرمایا اس کو طلاق دے دو میں نے عرض کیا اس میں میرا ایک بیٹا ہے اور اس کے ساتھ کافی عرصہ مصاحبت بھی رہی آپ نے فرمایا اس کو نصیحت کر اگر اس میں خیر ہوئی تو وہ قبول کرے گی۔ اور اپنی عورت کو ہرگز نہ مارو جیسے تیرا مارنا لونڈی کو (یعنی لونڈی کی طرح اس کو سخت نہ مارو ) ۔ (76) احمد وابو داؤد والبیہقی نے ابو حرہ رقاشی (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا لفظ آیت ” فان خفتم نشوزہن فاھجروہن فی المضاجع “ حمادر حمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ” المضاجع “ سے مراد ہے نکاح (یعنی ان کو نکاح سے الگ کر دو ) ۔ (77) ابن جریر ابن المنذر نے سعید بن جبیر کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واھجروہن فی المضاجع “ سے مراد ہے کہ ان سے جماع نہ کرے۔ (78) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واھجروہن فی المضاجع “ سے مراد ہے یعنی ان سے الگ رہو کہ (جب) مرد اور اس کی بیوی ایک ہی بستر پر ہوں تو اس سے جماع نہ کرے۔ (79) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واھجروہن فی المضاجع “ سے مراد ہے کہ اس کے قریب نہ جاؤ۔ (80) ابن ابی حاتم نے عکرمہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واھجروہن فی المضاجع “ سے مراد ہے اپنے بستر میں اس کو اکٹھے نہ لٹاتے۔ (81) عبد الرزاق وابن جریر نے ابو صالح کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واھجروہن فی المضاجع “ سے مراد ہے کہ اپنی زبان سے اس کو چھوڑ دے (یعنی اس سے بول چال نہ کرے) اور اس سے سختی سے بات کرے لیکن اس سے جماع کو نہ چھوڑے۔ (82) عبد الرزاق وابن ابی شیبہ وابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ” واھجروہن فی المضاجع “ سے مراد ہے کہ بات چیت کرنا چھوڑ دو لیکن جماع نہ چھوڑو۔ (83) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ اس کے پاس لپٹ جائے اور اپنی پیٹھ کو اس سے پھیر لے اور اس سے جماع کرے لیکن اس سے بات چیت نہ کرے۔ (84) ابن ابی شیبہ وابن جریر نے ابو الضحی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واھجروہن فی المضاجع “ کہ وہ عورت سے یہ سلوک کرلے اور اس کو مارے یہاں تک کہ وہ اس کا کہنا مان لے ساتھ لیٹنے میں اگر وہ اس کا کہنا مان لے ساتھ لیٹنے میں تو کو اس پر زیادتی کا کوئی حق نہیں۔ (85) عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اس کو چھوڑے رکھے یہاں تک کہ وہ تیرے ساتھ ہم بستری کرے اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر اس کو اس امر کا مکلف نہ بنا کہ وہ تیرے ساتھ محبت بھی کرے۔ (86) ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ” واضربوہن “ سے مراد ہے ایسا مارو کہ اس پر مارنے کے نشانات ظاہر نہ ہو۔ نیکی کے کام میں نافرمانی کرے تو مارنے کی اجازت ہے (87) ابن جریر نے عکرمہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ان کو مارو اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں نیکی کے معاملات میں مگر ایسا نہ مارو کہ جسم پر مارنے کے نشانات ظاہر ہوں۔ (88) ابن جریر نے حجاج (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتوں کو الگ کر دو لیٹنے کی جگہوں میں اور ان کو مارو اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں نیک کام میں اور ان کو ایسا مارو کہ مارنے کے نشانات ظاہر نہ ہوں۔ (89) ابن جریر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ ضرب غیر مبرح سے کیا مراد ہے ؟۔ تو انہوں نے فرمایا مسواک اور اس جیسی چیزوں کے ساتھ مارو۔ (90) عبد الرزاق وابن سعد وابن المنذر والحاکم والبیہقی نے ایاس بن عبد اللہ بن ابی ذئاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی باندیوں کو نہ مارو عمر ؓ نے فرمایا کہ (اس بات نے) عورتوں کو اپنے شوہروں کی نافرمانی پر جری کردیا اس کو مانے میں رخصت دے دی گئی تو رسول اللہ ﷺ کے گھر والوں کے پاس بہت عورتوں نے چکر لگایا اور اپنے شوہروں کی شکایت کر رہی تھیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ لوگ تم میں سے بہتر نہیں ہیں۔ (91) ابن سعد والبیہقی نے ام کلثوم بنت ابی بکر ؓ سے روایت کیا کہ مردوں کو عورتوں کے مارنے سے روک دیا گیا پھر مردون نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی پھر ان کے اور ان کے مارنے کے درمیان راستہ چھوڑ دیا (یعنی مارنے کی اجازت دے دی گئی) پھر آپ نے فرمایا ان میں سے بہترین لوگ کبھی عورت کو نہیں ماریں گے۔ (92) ابن ابی شیبہ، احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، اور نسائی نے عبد اللہ بن زمعہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو مارتا ہے جیسے غلام کو مارا جاتا ہے پھر دن کے آخر میں اس سے جماع بھی کرتا ہے ؟ (93) عبد الرزاق نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہے دن میں اول حصہ میں اور پھر آخری حصہ میں اس سے جماع کرتا ہے۔ (94) عمرو بن احوص ؓ نے بیان فرمایا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھے آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور اللہ کا ذکر اور وعظ و نصیحت کرنے کے بعد فرمایا یہ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ کون سادن سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ لوگوں نے کہا حج اکبر کا دن ہے یا رسول اللہ آپ نے فرمایا تمہارے خون اور تمہاری مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن یہ شہر اور یہ مہینہ حرمت والا ہے۔ خبردار ہر زیادتی کرنے والا اپنی ذات پر ہی زیادتی کرتا ہے خبردار کوئی والد اپنی اولاد پر زیادتی نہ کرے۔ اور نہ اولاد اپنے والد پر زیادتی کرے۔ عورتوں سے متعلق خبر کی وصیت خبردار، مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے کسی مسلمان کے لئے اپنے بھائی کی کسی چیز میں سے حلال نہیں مگر وہ جس کی وہ خود اجازت دے خبردار ہر سود زمانہ جاہلیت کا ختم کیا جاتا ہے تمہارے لئے اصل مال ہے کہ نہ ظلم کرو نہ ظلم کئے جاؤ گے مگر عباس بن عبد المطلب کا تمام سود ختم کیا جاتا ہے۔ اور زمانہ جاہلیت کے تمام خون ختم کئے جاتے ہیں اور پہلا خون جاہلیت کے خون میں سے حارث بن عبد المطلب کا خون ہے جو میں معاف کرتا ہوں جو بنو لیث میں دودھ پیتے تھے اور اس کو بنو ہذیل نے قتل کردیا تھا خبردار عورتوں کے بارے میں میں تم کو خیر کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ تمہاری خادمائیں ہیں اور تم ان میں سے کسی چیز کے مالک نہیں ہو مگر یہ کہ وہ بدکاری کریں اگر وہ ایسا کریں تو ان کو الگ کر دو بستروں سے اور ان کو ایسا نہ مارو کہ ان کے جسم پر زخم نظر آئے (پھر فرمایا) لفظ آیت ” فان اطعنکم فلا تبغوا علیہن سبیلا “ (یعنی اگر وہ تمہارا کہنا مان لیں تو ان پر پھر کوئی الزام نہ لگاؤ) خبردار تمہارا حق تمہاری عورتوں پر ہے اور تمہاری عورتوں کا حق تم پر ہے۔ پس تمہارا حق تمہاری عورتوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر ان کو نہ آنے دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یعنی ان کو اچھا لباس اور اچھا کھانا دو ۔ (95) البیہقی نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی آدمی سے اس کی بیوی کے مارنے کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ (96) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے فرمایا لفظ آیت ” فلا تبغوا علیہن سبیلا “ سے مراد ہے کہ تو عورت کو اس وجہ سے ملامت نہ کر کہ وہ تجھ کو پسند نہیں کرتی کیونکہ بغض کو میں نے اس کے دل میں کردیا ہے۔ (97) عبد الرزاق وابن جریر نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فان اطعنکم “ سے مراد ہے کہ اگر وہ بستر پر آجائے اس حال میں کہ وہ اس سے بغض رکھتی ہے ” فلا تبغوا علیہن سبیلا “ تو اس پر کوئی راہ تلاش نہ کرو اور اسے اس بات کا مکلف نہ بناؤ کہ وہ خوف سے محبت کرے اس لئے کہ اس کا دل اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ (98) ابن ابی شیبہ و بخاری ومسلم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے اور شوہر نے غصہ کی حالت میں رات گزاری تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت کرتے ہیں۔ (99) ابن ابی شیبہ اور ترمذی (نے اس کو حسن کہا) والنسائی والبیہقی نے طلق بن علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو اس کو چاہئے کہ اس کی حاجت پوری کرے اگرچہ وہ تنور پر (بیٹھی) ہو۔ (100) ابن سعد نے طلق ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورت اپنے شوہر کو (وطی سے) منع نہ کرے اگرچہ وہ اونٹ کی پشت پر ہو۔
Top