Dure-Mansoor - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا : اور تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَلَا تُشْرِكُوْا : اور نہ شریک کرو بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کسی کو وَّ : اور بِالْوَالِدَيْنِ : ماں باپ سے اِحْسَانًا : اچھا سلوک وَّ : اور بِذِي الْقُرْبٰى : قرابت داروں سے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : اور محتاج (جمع) وَالْجَارِ : ہمسایہ ذِي الْقُرْبٰى : قرابت والے وَالْجَارِ : اور ہمسایہ الْجُنُبِ : اجنبی وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ : اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس) وَ : اور ابْنِ السَّبِيْلِ : مسافر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہاری ملک (کنیز۔ غلام اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ : جو كَانَ : ہو مُخْتَالًا : اترانے والا فَخُوْرَۨا : بڑ مارنے والا
اللہ کی عبادت کرو۔ اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کو پاس والے پڑوسی اور دور والے پڑوسی اور پہلو کے ساتھی کے ساتھ اور مسافر کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو مالکانہ طور پر تمہارے قبضہ میں ہیں اچھا سلوک کرو، بیشک اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں فرمایا جو اپنے آپ کو بڑا سمجھے شیخی کی باتیں کرے۔
(1) احمد و بخاری نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے ساتھ اشارہ فرمایا۔ (2) ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس نے صرف اللہ کے لئے ہاتھ پھیرا تو اس کا ہاتھ جتنے بالوں پر سے گزرتا ہے ہر بال کے بدلہ میں اسے نیکی ملتی ہے اور جس شخص نے کسی یتیم بچی یا بچے کے ساتھ اچھا سلوک کیا جو اس کے پاس تھا تو میں اور وہ جنت میں اس طرح (اکٹھے) ہوں گے اور آپ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے ساتھ اشارہ فرمایا۔ (3) ابن سعد واحمد نے عمرو بن مالک قشیری ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص ایک مسلمان غلام کو آزاد کرلے گا تو یہ اس کا جہنم کے بدلہ میں فدیہ ہوگا اس کی ہر آزاد ہونے والی ہڈی کے بدلے اس کی ہڈی آزاد ہوگی (جہنم کی آگ سے) اور جس شخص نے اپنے والدین میں سے کسی کو پایا پھر اس کی مغفرت نہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ اس کو دور کردیں گے اپنی رحمت سے اور جس شخص نے اسے یتیم بچے اپنے ساتھ ملا لیا جس کے دونوں مسلمان ماں باپ وفات پا چکے تھے۔ اس یتیم کو اپنے کھانے میں اور اپنے سے شریک کرلیا یہاں تک کہ وہ بچہ خدمت سے مستغنی ہوگیا تو خدمت کرنے والے کے لئے جنت ثابت ہوگی۔ (4) الحکیم الترمذی نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کسی یتیم بچے یا بچی کے اچھا سلوک کیا میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا دیا (کہ اس طرح اکٹھے ہوں گے) ۔ (5) الحکیم الترمذی نے ام سعد بنت مرہ فہرہ رحمۃ اللہ علیہا سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جو اس کا اپنا یتیم ہو یا کسی غیر کا یتیم ہو جب وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے (یتیم کے بارے میں) جنت میں اس طرح ہوں گے یا فرمایا جس طرح یہ انگلی اس انگلی میں سے ہے۔ (6) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم و بیہقی نے شعب الایمان میں ایک طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والجار ذی القربی “ یعنی وہ پڑوسی جس کی تیرے اور اس کے درمیان رشتہ داری ہو لفظ آیت ” والجار الجنب “ یعنی وہ پڑوسی جس کی تیرے اور اس کے درمیان رشتہ داری نہ ہو۔ (7) ان جریر وابن ابی حاتم نے نوف شافی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والجار ذی القربی “ یعنی جو مسلمان ہو (اور) ” والجار الجنب “ جو یہودی یا نصرانی ہو۔ پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید (8) احمد و بخاری ومسلم نے ابو شریح خزاعی ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (9) ابن ابی شیبہ واحمد بخاری ومسلم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا مجھے جبرئیل (علیہ السلام) برابر پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ پڑوسی کو وراثت میں حصہ دار بنا دے گا۔ (10) بخاری نے ادب میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کتنے پڑوسی اپنے پڑوسی کے ساتھ چمٹے ہوئے ہوں گے (یعنی اپنے پڑوسی کی شکایت کریں گے) پڑوسی عرض کرے گا اے میرے رب ! اس نے اپنے دروازہ کو بند کرلیا تھا مجھ سے اور میرے ساتھ اس نے حسن سلوک نہ کیا۔ (11) بخاری ومسلم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ (12) بخاری نے ادب میں اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے شعب میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ سے کہا گیا فلاں عورت رات کو قیام کرتی ہے دن کو روزہ رکھتی ہے اور دوسرے خیر کے) کام کرتی ہے اور صدقہ کرتی ہے لیکن اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ہے وہ دوزخ والوں میں سے ہے اور عرض کیا فلاں عورت (صرف) فرض نماز پڑھتی ہے رمضان کے روزے رکھتی ہے۔ اور معمولی چیز کا صدقہ کرتی ہے اور کسی کو تکلیف نہیں دیتی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ عورت جنت والوں میں سے ہے۔ (13) بخاری نے ادب میں اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری دو پڑوسنیں ہیں ان دونوں میں سے میں کس کی طرف ہدیہ بھیجا کرو ؟ آپ نے فرمایا ان دونوں میں سے جس کا دروازہ تیرے زیادہ قریب ہے (اس کو ہدیہ بھیجا کرو) ۔ (14) بخاری نے ادب میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ آپ قریب والے پڑوسی سے پہلے دور والے پڑوسی کو ہدیہ دینا شروع نہ کرتے لیکن قریب والے سے شروع کرتے دور والے سے پہلے۔ (15) بخاری نے ادب میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ ان سے پڑوسی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا چالیس گھر سامنے چالیس گھر پیچھے چالیس گھر دائیں اور چالیس گھر بائیں۔ (16) بخاری نے ادب میں اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میرا ایک پڑوسی ہے جو مجھے تکلیف دیتا ہے آپ نے فرمایا جاؤ اور اپنا سامان (نکال کر) راستے میں ڈال دو وہ گیا اور اس نے اپنا سامان راستے میں نکال دیا۔ لوگ اس پر جمع ہوگئے اور کہنے لگے تجھے کیا ہوا (تو نے ایسا کیوں کیا) اس نے کہا میرا پڑوسی مجھے تکلیف دیتا ہے۔ میں نے یہ بات نبی ﷺ کو جا کر بتائی تو آپ نے فرمایا جاؤ اور اپنا سامان (باہر) نکال کر راستے میں ڈال دو تو وہ لوگ کہنے لگے اے اللہ اس پر لعنت کر اے اللہ اس کو رسوا کر یہ (لوگوں کی بددعائیں) جب اس کو پہنچیں تو وہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا اپنے گھر میں لوٹ جاؤ اللہ کی قسم اب میں تجھ کو کبھی تکلیف نہ دوں گا۔ پڑوسی کو تکلیف دینے والا ملعون ہے (17) بخاری نے ادب میں ابو جحیفہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کو اپنے پڑوسی کی شکایت کی آپ نے فرمایا اپنے سامان کو اٹھا کر راستہ میں رکھ دو جو گزرے گا اس کو لعنت کرے گا اس نے ایسا ہی کیا ہر گزرنے والا اس کو لعنت کرتا تھا۔ وہ آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا مجھے لوگ کیوں طعن کر رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ کی لعنت ان لوگوں سے بڑھ کر ہے اور اس نے شکایت کرنے والے سے کہا (یہ سزا) مجھ کو ہے یا اس طرح کے کوئی الفاظ فرمائے۔ (18) بخاری نے ادب میں ثوبان ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص اپنے پڑوسی پر ظلم کرے یہاں تک کہ اسے اس کے گھر سے نکلنے پر مجبور کر دے۔ تو ظلم کرنے والا ہلاک ہوگیا۔ (19) حاکم نے (اس کو صحیح کہا) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا۔ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کون (مومن نہیں ہوسکتا ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا وہ پڑوسی کہ اس کا پڑوسی اس کی شرارتون سے امن میں نہ ہو، صحابہ نے عرض کیا بوائفۃ سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا اس کے شر سے۔ (20) ابن ابی شیبہ اور حاکم نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ مومن نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے امن میں نہ ہو۔ (21) حاکم نے (اس کو صحیح کہا) ابن مسعود ؓ سے مرفوعا روایت کیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان تمہارے اخلاق کو تقسیم فرما دیا جیسا کہ تمہارے درمیان تمہارے رزق کو تقسیم فرما دیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ مال اس شخص کو بھی دیتے ہیں جس سے محبت فرماتے ہیں اور اس کو بھی دیتے ہیں جس سے محبت نہیں فرماتے لیکن ایمان اس کو دیتے ہیں جس سے محبت فرماتے ہیں جس کو ایمان عطا ہوا گویا اس سے محبت ہوئی اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے کوئی بندہ مسلمان نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کا دل مسلمان نہ ہو اور کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ (22) احمد وحاکم نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی (مومن) آدمی اپنے پڑوسی کو چھوڑ کر (خود) پیٹ بھر کر نہیں کھاتا۔ (23) احمد نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو پڑوسی کے بارے میں اتنی وصیت کرتے ہوئے سنا یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ آپ اس کو وراثت میں حصہ دار بنا دیں گے۔ (24) احمد نے ابو العالیہ کے طریق سے ابو العالیہ (رح) سے اور انہوں نے انصار کے ایک آدمی سے روایت کیا کہ میں نبی ﷺ کا ارادہ کرتے ہوئے اپنے گھر سے نکلا۔ اچانک آپ کھڑے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ ایک (اور) آدمی بھی تھا جو آپ کے سامنے تھا میں نے گمان کیا کہ ان کے لئے کوئی حاجت ہوگی۔ جب وہ چلا گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کے ساتھ یہ آدمی کھڑا ہوا تھا یہاں تک کہ میں زیادہ دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے پریشان ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے اس کو دیکھ لیا۔ میں نے کہا ہان پھر فرمایا کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہے ؟ میں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا وہ جبرئیل (علیہ السلام) تھے وہ مجھے برابر پڑوسی کے لئے وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے پھر فرمایا اگر تو (اس کو) سلام کرتا تو وہ بھی تجھ کو سلام لوٹاتا۔ (25) ابن ابی شیبہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے تو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ پڑوسی کے متعلق جبرائیل (علیہ السلام) کی وصیت (26) ابن ابی شیبہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا مجھ کو جبرئیل (علیہ السلام) نے پڑوسی کے بارے میں اتنی وصیت فرمائی یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ اس کو وارث بنا دیں گے۔ (27) ابن ابی شیبہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! بلاشبہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں بڑے پڑوسی سے بستی میں کیونکہ جنگل کا پڑوسی تو بدلتا رہتا ہے۔ (28) ابن ابی شیبہ نے ابو لبابہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پڑوسی کی کوئی تکلیف کم نہیں ہے۔ (29) احمد و بخاری نے ادب میں اور بیہقی نے مقداد بن اسود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے صحابہ سے تم لوگ زنا کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟۔ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول نے اس کو حرام قرار دیا اس لئے وہ قیامت کے دن تک حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک آدمی دس عورتوں سے زنا کرتا ہے یہ آسان ہے اس پر بنسبت اس کے کہ وہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرتا ہے اور فرمایا تم چوری کے بارے کیا کہتے ہو ؟ عرض کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے اس کو حرام قرار دیا ہے اس لئے وہ حرام ہے۔ فرمایا کہ ایک آدمی دس گھروں کی چوری کرتا ہے یہ آسان ہے اس پر بنسبت اس کہ وہ اپنے پڑوسی کی چوری کرے۔ (30) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے شعب میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والصاحب بالجنب “ سے رفیق سفر مراد ہے۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر اور مجاہد (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ (31) الحکیم الترمذی نے نوادر الاصول میں وابن المنذر وابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والصاحب بالجنب “ سے مراد ہے مجلس میں تیرا ساتھی اور سفر میں تیرا ساتھی اور تیری بیوی جو تیرے ساتھ بستر پر لیٹتی ہے۔ (32) ابن جریر نے ابن ابی فدیک کے طریق سے فلاں بن عبد اللہ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک ثقہ آدمی سے روایت کیا کہ جو اس کے پاس تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک صحابی تھے اور وہ دونوں سواری پر سوار تھے نبی ﷺ طرفاء درخت کے جنگل میں داخل ہوئے۔ اور آپ نے دو پیکان کاٹے ایک ان میں سے ٹیڑھا تھا اور دوسرا سیدھا تھا آپ دونوں پیکان کاٹ کر باہر تشریف لائے اور اپنے ساتھ کو سیدھا پیکان عطا فرمایا اور خود ٹیڑھا پیکان رکھ لیا اس آدمی نے کہا یا رسول اللہ آپ مجھ سے زیادہ حق دار ہیں اس سیدھے پیکان کے آپ نے فرمایا ہرگز نہیں اے فلاں کیونکہ ہر ساتھ جو کسی کے ساتھ ہوتا ہے تو اس سے اس دوستی کے بارے پوچھا جائے گا۔ اگرچہ دوستی تھوڑی دیر کے لئے رہی ہو۔ اپنے پڑوسی کے حق میں بہتر آدمی اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہے (33) بخاری نے ادب المفرد میں و ترمذی وابن جریر اور حاکم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لئے بہتر ہو اور پڑوسیوں میں بہترین پڑوسی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لئے بہترین ہو۔ (34) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والصاحب بالجنب “ سے مراد بیوی ہے۔ (35) الفریابی وعبد بن حمید وابن المنذر وابن جریر وابن ابی حاتم والطبرانی نے ابن مسعود ؓ سے اس طرح روایت فرمایا۔ ابن جریر وابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح روایت کیا۔ (36) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” وما ملکت ایمانکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو جو غلام عطا فرمایا ہے اس سے اچھا سلوک کر، ان سب کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم فرمایا۔ (37) ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما ملکت ایمانکم “ سے تمہارے غلام اور تمہاری باندیاں مراد ہیں اللہ تعالیٰ نے تم کو ان کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم فرمایا کہ ان کے حقوق ادا کرو جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ (38) عبد الرزاق واحمد بخاری ومسلم نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے زیردست بنایا پس جس شخص کے زیر دست اس کے بھائی ہوں جو تم کھاتے ہو وہ ان کو کھلاؤ جو تم پہنتے ہو وہ ان کو پہناؤ اور ان کو ایسے کام کا حکم نہ دو جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔ اور اگر ایسے کام کا ان کو حکم دو جو ان کی طاقت سے باہر ہو تو خود بھی ان کی مدد کرو۔ (39) بخاری نے ادب میں جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ غلاموں کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم فرماتے تھے اور فرماتے تھے جو تم کھاتے ہو وہ ان کو کھلاؤ اور جو تم پہنتے ہو وہ ان کو پہناؤ اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو ۔ (40) ابن سعد نے ابو دارداء ؓ سے روایت کیا کہ ان کو دیکھا گیا کہ ان پر کوئی ایک موٹی چادر اور سفید کپڑا تھا اور ان کے غلام پر بھی ایک چادر اور سفید کپڑا تھا۔ ان سے کہا گیا تو انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ان کو پہناؤ ان کپڑوں میں سے جو تم پہنتے ہو اور ان کو کھلاؤ ان چیزوں میں سے جو تم کھاتے ہو۔ (41) بخاری نے الادب المفرد میں و ابوداؤد والبیہقی نے شعب میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کی آخری بات یہ تھی لفظ آیت الصلاۃ الصلاۃ (یعنی نماز کا خیال رکھو) (اور) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اپنے غلاموں کے بارے میں۔ (42) البزار نے ابو رافع ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ڈرتے رہو نماز کے بارے میں بھی یہ آخری بات تھی جو رسول اللہ ﷺ نے فرمائی۔ (43) البیہقی نے دلائل میں ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ان کی موت کے وقت عام وصیت یہ تھی۔ ڈرو تم نماز سے اور اپنے غلاموں کے بارے میں یہاں تک کہ آپ کے سینہ مبارک میں یہ بات گردش کرتی تھی مگر اس کے ساتھ آپ کی زبان نہ بولتی تھی۔ آپ ﷺ کی آخری نماز اور غلاموں کے حقوق کی تاکید (44) احمد و بیہقی نے شعب الایمان میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی عام وصیت جب آپ کو موت حاضر ہوئی نماز اور غلاموں کے بارے میں تھی یہاں تک کہ آپ اسے سینہ مبارک میں حرکت دیتے تھے مگر آپ کی زبان بولتی تھی۔ (45) عبد الرزاق ومسلم اور بیہقی نے شعب میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا غلام کے لئے اس کا کھانا اور اس کا پہنانا اس کا حق ہے اور اس کو ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو وہ اس کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ (46) البیہقی نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا فقیر غنی کے پاس آزمائش ہے اور ضعیف، قوی کے پاس آزمائش ہے اور غلام آقا کے پاس آزمائش ہے پس چاہئے کہ مالک اللہ سے ڈرے اور غلام کو ایسا کام ہی بتائے جس کی وہ طاقت رکھتا ہو اگر اس کو ایسے کام کا حکم دے جس کی وہ طاقت نہ رکھے تو اس پر وہ لعنت نہ کرے اگر وہ کام نہ کرسکے تو مالک اسے سزا نہ دے۔ (47) احمد والبیہقی نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے غلام خادموں میں سے جو تمہارے ساتھ نرمی کرے ان کو کھلاؤ جو تم کھاتے ہو ان کو پہناؤ جو تم پہنتے ہو اور ان میں سے جو تمہارے مزاج کے موافق نہ ہوں ان کو بیچ دو اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو ۔ (48) الطبرانی والبیہقی نے رافع بن مکیث ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا برا اخلاق نحوست ہے اور اچھا اخلاق رکھنا ترقی کا سبب ہے۔ اور نیکی عمر میں زیادتی کا سبب ہے اور صدقہ بری موت کو دور کرتا ہے۔ (49) البیقہی نے ابوبکر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی سے نبی ﷺ نے فرمایا بداخلاق جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (50) ابو داؤد اور ترمذی (نے اس کو حسن کہا) اور بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! کہ ہم دن میں کتنی مرتبہ غلام کو معاف کردیں گے آپ نے فرمایا ستر مرتبہ۔ (51) البیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی جب اپنے خادم کو مارے تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور چاہئے کہ رک جائے۔ (52) الحکیم الترمذی نے نوادر الاصول میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ غلام کو نہ مارو بلاشبہ تم نہیں جانتے جو تمہارا موافق ہے۔ (53) البیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا میری بیوی کا مجھ پر کیا حق ہے آپ ﷺ نے فرمایا تو اس کو وہی کھلا جو تو کھاتا ہے اور وہی اس کو پہنا جو تو پہنتا ہے۔ پھر اس نے کہا میرے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے۔ آپ نے فرمایا تیری نیکی اسے وہاں مقیم رکھے اور تو رک جا اس کو تکلیف دینے سے پھر اس نے کہا میرے خادم کا مجھ پر کیا حق ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ تینوں میں سے تجھ پر زیادہ سخت ہوگا قیامت کے دن۔ (54) عبد الرزاق نے مصنف میں وابن سعد واحمد نے عبد الرحمن بن زید بن خطاب (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا تمہارے غلام، تمہارے غلام، ان کو کھلاؤ ان چیزوں میں سے جو تم کھاتے ہو اور ان کو پہناؤ ان چیزوں میں سے جن کو تم پہنتے ہو اگر وہ کوئی گناہ کریں اور تم ان کو معاف نہیں کرنا چاہتے ہو تو ان کو اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بیچ دو ان کو عذاب نہ دو ۔ فرشتوں کی کثرت عبادت کا ذکر (55) عبد الرزاق نے داؤد بن ابی عاصم (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا خاموش رہ آسمان چر چرایا اور اس پر لازم ہے کہ وہ چر چرائے اور اس پر لازم ہے کہ وہ چر چرائے آسمان میں ایک ہتھیلی یا فرمایا ایک بالشت برابر کوئی جگہ خالی نہیں کہ اس پر کوئی فرشتہ سجدہ کرنے والا نہ ہو اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنے غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرو ان کو کھلاؤ جو تم کھاتے ہو ان کو پہناؤ جو تم پہنتے ہو اور ان کو ایسے کام کی تکلیف نہ دو جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے اگر وہ اپنے اخلاق میں ایسی چیز کو لے آئیں جو تمہارے اخلاق کے مخالف ہو تو پھیر دو ان کے شر کو غیر کی طرف (یعنی ان کو بیچ دو ) اور اللہ کے بندوں کو عذاب نہ دو ۔ (56) عبد الرزاق نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ ابو مسعود انصاری کے پاس سے گزرے اور وہ اپنے کا دم کو مار رہے تھے۔ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا غلام کو مثلہ کرنے سے کہ وہ (مار سے) کانا ہوجائے یا اس کا عضو کٹ جائے اور فرمایا ان کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤ اور ان کو بھوکا نہ رکھو ان کو کپڑے پہناؤ ان کو ننگا نہ رکھو۔ اور ان کو زیادہ نہ مارو کیونکہ تم ان کے بارے میں پوچھے جاؤ گے اور ان کو کام کے ذریعہ عذاب نہ دو اور جو شخص اپنے غلام کو ناپسند کرے تو اس کو بیچ دے اور اللہ کے رزق کو اس پر دشوار نہ کرے۔ (57) عبد الرزاق اور مسلم نے ذاذان (رح) سے روایت کیا کہ میں ابن عمر ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا انہوں نے اپنے ایک غلام کو بلایا اور اس کو آزاد کردیا پھر فرمایا مجھے اس کی اجرت سے کیا غرض جو یہ وزن کرتا ہے۔ اور ایک چیز کو اپنے ہاتھ میں اٹھایا (پھر فرمایا) میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص کسی غلام کو مارے بطور حد کے جو اس نے عمل نہ کیا ہو یا اس کو تھپڑ مارا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو آزاد کر دے۔ (58) عبد الرزاق ابن ابی شیبہ واحمد ومسلم و ابوداؤد و ترمذی و نسائی نے سعید بن مقرن ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں قبیلہ بنو مقرن کے ساتھ آدمی تھے ہماری ایک خادمہ تھی اس کے علاوہ کوئی اور (خادم) نہیں تھا۔ ہم میں سے ایک آدمی نے اس کو تھپڑ مار دیا نبی ﷺ نے فرمایا اس کو آزاد کر دو ہم نے عرض کیا اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی خادم نہیں ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا تمہاری خدمت کرتی رہے یہاں تک کہ تم اس سے مستغنی ہوجاؤ پھر اس کا راستہ چھوڑ دینا۔ (یعنی اس کو آزاد کردینا) ۔ (59) عبد الرزاق وابن ابی شیبہ والبخاری نے ادب میں عمار بن یاسر ؓ سے روایت کیا کوئی آدمی اپنے غلام کو نہ مارے اس حال میں کہ وہ ظالم ہو ورنہ قیامت کے دن اس سے قصاص لیا جائے گا۔ (60) عبد الرزاق نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ کسی آدمی پر لوگوں میں سے سب سے سخت قیامت کے دن اس کے غلام ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کو سزا دینے پر زیادہ قدرت ہے (61) عبد الرزاق اور ترمذی نے (اس کو صحیح کہا) اور ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت کیا کہ اس درمیان کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا اچانک میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی میں متوجہ ہوا۔ تو اچانک وہ رسول اللہ ﷺ تھے آپ نے فرمایا اللہ کی قسم زیادہ قادر ہیں تجھ پر جتنا تو قادر ہے اس پر پھر میں نے قسم اٹھالی کہ میں کبھی بھی اپنے غلام کو نہیں ماروں گا۔ (62) عبد الرزاق نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ہمارے درمیان ایک آدمی اپنے غلام کو مار رہا تھا اور وہ کہہ رہا تھا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور وہ اس کو مارے جارہا تھا اچانک اس نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگا میں پناہ مانگتا ہوں رسول اللہ ﷺ سے تو اس نے اس چیز کو نیچے ڈال دیا جو اس کے ہاتھ میں تھی اور اپنے غلام کو چھوڑ دیا نبی ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ کی ذات زیادہ حق دار ہے اس بات کی کہ اس سے پناہ مانگی جائے بنسبت اس سے کہ اس کے مقابلہ میں میری پناہ مانگی جائے۔ اس آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! وہ آزاد ہے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تو ایسا نہ کرتا تو تو اپنے آپ کو آگ کی لپیٹ کے حوالے کردیتا۔ (63) عبد الرزاق نے ابن التیمی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے قسم کھائی کہ میں اپنے غلام کو ضرور ماروں گا مجھ کو میرے باپ نے کہا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ روح گھومتی رہتی ہے بدن میں کبھی اس کا قرار یعنی ٹھہرنا سر میں ہوتا ہے اور کبھی اس کا ٹھہرنا فلاں فلاں جگہ میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ بہت جگہوں کو شمار کیا تو اس پر ضرب لگائے گا تو مان جاتی رہے گی اس لئے تو ایسا نہ کر۔ (64) احمد نے الزھد میں ابو متوکل ناجی (رح) سے روایت کیا کہ ابو درداء ؓ کے ہاں ایک لونڈی تھی ان کے بیٹے نے اس کو تھپڑمار دیا ایک دن انہوں نے اس لڑکے کو بٹھا دیا اور اس لڑکی سے کہا اس سے بدلہ لے لے اس نے کہا میں نے معاف کیا ابو درداء نے فرمایا اگر تو نے معاف کردیا تو چلی جا اور وہاں سے رشتہ دار بلا کرلے آ پھر ان کو گواہ بنا کہ تو نے (اس لڑکے کو) معاف کردیا وہ گئی اور بلا کرلے آئی ابو درداء نے فرمایا چلی جا تو اللہ کی رضا کی خاطر آزاد ہے۔ کاش ابو درداء کا آل پلٹ آئے اور کسی کو تکلیف نہ دے۔ (65) احمد نے ابو قلابہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم سلمان ؓ کے پاس آئے تو وہ آٹا گوند رہے تھے۔ ہم نے عرض کیا یہ کیا ہے ؟ فرمایا ہم نے خادم ایک کام میں بھیجا ہے اب ہم نے اس بات کو ناپسند کیا کہ ہم اس پر دو کاموں کو جمع کردیں۔ (66) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان اللہ لا یحب من کان مختالا “ میں مختالا سے مراد ہے تکبر کرنے والا اور فخور سے مراد ہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی نعمت اسے عطا کی جائے مگر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کرے۔ (67) ابو یعلی والضیاء المقدسی نے مختارہ میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع فرمائیں گے تو ایک آگ سامنے آئے گی جس کا بعض بعض پر سوار ہوگا جبکہ اس کے داروغے اس کو روک رہے ہوں گے۔ تو وہ کہے گی میرے رب کی عزت کی قسم ! تم میرے گھر اور میرے ازواج کے درمیان راستہ خالی کر دو گے یا پھر میں تمام لوگوں پر ایک ہی طرح غالب آجاؤں گی۔ لوگ کہیں گے تیرے ازواج کون ہیں وہ کہے گی ہر متکبر جبار پھر وہ اپنی زبان کو نکالے گی اور لوگوں کے درمیان ان کو اٹھا لے گی اور ان کو اپنے پیٹ میں ڈال لے گی پھر پیچھے ہٹ جائے گی پھر آگے آئے گی اس کا بعض حصہ بعض پر سوار ہوگا اس کے داروغے اس کو رد کر رہے ہوں گے اور وہ کہے گی میرے رب کی عزت تم ضرور مجھے چھوڑ دو میری ازواج کے درمیان ورنہ میں سب لوگوں پر ایک گردن کی طرح سوار ہوجاؤں گی لوگ کہیں گے تیرے ازواج کون ہیں ؟ وہ کہے گی ہر تکبر کرنے والا فخر کرنے والا پھر اپنی زبان سے سب لوگوں کے سامنے ان کو اپنے منہ میں ڈالے گی اپنے پیٹ میں ان کو پھینک دے گی۔ پھر پیچھے ہٹ جائے گی اور اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ فرمائیں گے۔ (68) ابن ابی شیبہ واحمد و ابوداؤد والنسائی والبیہقی نے شعب الایمان میں جابر بن عتیک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ ایسی غیرت بھی ہے جو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں اور ایسی غیرت بھی ہے جو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتے ہیں اور ایسا تکبر بھی ہے جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں اور ایسا تکبر بھی ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتے ہیں وہ غیرت جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں وہ شک کے بارے میں غیرت ہے اور وہ غیرت جس کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتے ہیں وہ شک کے علاوہ میں غیرت ہے اور وہ تکبر جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں وہ جنگ اور صدقہ کے وقت انسان کا اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنا ہے۔ اور وہ تکبر جس کو اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتے ہیں وہ آدمی کا اپنے آپ پر فخر اور سرکشی کرنا۔ (69) احمد وحاکم نے (اس کو صحیح کہا) جابر بن سلیم ہجیمی ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ منورہ کے بعض راستوں سے آیا۔ میں نے کہا علیک السلام یا رسول اللہ آپ نے فرمایا علیک السلام یہ مردے کا سلام ہے۔ سلام علیکم، سلام علیکم، سلام علیکم، اسی طرح کہا کرو۔ جابر بن سلیم نے کہا کہ میں نے آپ سے ازار کے بارے میں پوچھا آپ نے اس کو پشت کے بلند حصہ پر کیا اور پنڈلی کے موٹے حصے کو پکڑا پھر فرمایا یہاں چادر باندھو اگر تو اس کا انکار کرے تو اسے نیچے کرے اور اگر تو اس کا انکار کرے تو ٹخنوں کے اوپر تک اگر تو (اس کا بھی) انکار کرے تو اللہ تعالیٰ نہیں پسند فرماتے ہر تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو۔ پھر میں نے پوچھا نیکی کے بارے میں آپ نے فرمایا ہرگز حقیر نہ جانو تھوڑی سی نیکی کو بھی اور اگر تو کسی کو رسی کا بچا ہوا ٹکڑا ہی دے۔ اور اگر تو کسی کو جوتے کا تسمہ ہی دے اور تو پانی ڈال دے اپنے ڈول سے پینے والے برتن میں اور اگر کسی (تکلیف دینے والی) چیز کو لوگون کے راستے سے ہٹا دے جو ان کو تکلیف دیتی ہے۔ اور اگر تو اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملے اور اگر تو اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے۔ اور اگر تو بےآسرا لوگوں سے موافقت کرے زمین میں اور اگر کوئی آدمی تیری ایسی برائی بیان کرتا ہے جس کو وہ تیرے اندر جانتا ہے اور تو بھی اس کے اندر اسی قسم کی برائی کو جانتا ہے تو اس کی برائی بیان نہ کر تو اس کا اجر تیرے لئے ہوگا اور اس کا گناہ اس پر ہوگا اور جو بات تیرے کان کو اچھی لگے اس پر عمل کر اور جو بات تیرے کان کو بری لگے تو اس سے بچ جا۔ (70) احمد وابن المنذر وابن ابی حاتم اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے شعب میں مطرف بن عبد اللہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابوذر ؓ سے کہا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ تم گمان کرتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے تم کو بیان فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کو پسند کرتے ہیں اور تین آدمیوں کو ناپسند کرتے ہیں فرمایا ہاں ! (میں بیان کرتا ہوں) میں نے کہا وہ تین آدمی کون سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں ؟ فرمایا ایک وہ آدمی جس نے فی سبیل اللہ جنگ کی صبر کرتے ہوئے اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے جہاد کرتے ہوئے وہ دشمن سے ملا اور دشمنوں سے قتال کیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا اور تم اس کو پاتے ہو اپنے پاس اللہ کی نازل کردہ کتاب میں پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانہم بنیان مرصوص (4) “ اور دوسرا آدمی جس کا بڑا پڑوسی اس کو تکلیف دیتا ہے اور وہ اس کی تکلیف پر صبر کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔ زندگی میں یا موت کے بعد اور وہ آدمی جو قوم کے ساتھ سفر کرے اور وہ شروع رات سے سفر کریں یہاں تک کہ وہ آخررات میں تھے کہ ان پر نیند غالب ہوگئی تو پھر وہ آدمی کھڑا ہوا اور اس نے وضو کیا اللہ کے لئے ڈرتے ہوئے اور اس چیز میں رغبت کرتے ہوئے جو اس کے پاس ہے میں نے (پھر) کہا ان تین آدمیوں میں سے وہ کون ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتے ہیں ؟ فرمایا تکبر کرنے والافخر کرنے والا۔ اور اگر تم اس کو پاتے ہو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب میں تو (یہ آیت) تلاوت فرمائی لفظ آیت ” ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا “ میں نے کہا اور کون ہے ؟ فرمایا بخیل احسان جتانے والے پھر میں نے کہا کون ہے فرمایا قسم کھا کر بیچنے والا۔ (71) ابن جریر نے ابو رجاء ہر وی (رح) سے روایت کیا کہ تو نہیں پائے گا برے مزاج والے کو مگر وہ تکبر کرنے والا اور فخر کرنے والا ہوگا۔ اور یہ آیت ” وما ملکت ایمانکم ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا “ تلاوت فرمائی اور کسی نافرمان بیٹے کو نہیں دیکھے گا وہ سرکش اور بدبخت ہوگا اور (یہ آیت) ” وبرا بوالدتی ولم یجعلنی جبارا شقیا “ تلاوت فرمائی۔ ابن ابی حاتم نے العوام بن حوشب سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (72) احمد وابو داؤد اور نسائی نے والبغوی والباوردی والطبرانی وابن ابی حاتم نے بلجیم کے ایک آدمی سے روایت کیا کہ میں نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے وصیت فرمائیے آپ نے فرمایا چادر کو نیچے لٹکانے سے بچ کیونکہ چادر کو نیچے لٹکانا تکبر میں سے ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔ متکبر اللہ کا مبغوض ہے (73) البغوی وابن قانع نے معجم الصحابہ میں والطبرانی وابن مردویہ نے ثابت بن قیس بن شماس ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا آپ نے یہ آیت ” ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا “ تلاوت فرمائی پھر آپ نے تکبر کو بیان فرمایا اور اس کا بڑا گناہ ہونا بیان فرمایا تو ثابت رونے لگے رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کس بات نے تجھ کو رلایا ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! میں خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں حتی کہ میں اس بات کو بھی پسند کرتا ہوں کہ میرے جوتے کا تسمہ بھی اچھا ہو آپ نے فرمایا تو جنت والوں میں سے ہے کیونکہ تکبر یہ نہیں ہے کہ سواروں اور تیری کجاوہ وہ خوبصورت ہو لیکن تکبر یہ ہے کہ وہ حق کو بےوقوفی سمجھے اور لوگوں کو حقیر جانے۔ (74) احمد نے سمرہ بن فاتک ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا سمرہ کتنا اچھا جوان ہے اگر لمبے بالوں کو کاٹ دے اور تہبند کا لٹکا ہوا حصہ بھی کاٹ لے۔
Top