Dure-Mansoor - An-Nisaa : 42
یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ١ؕ وَ لَا یَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثًا۠   ۧ
يَوْمَئِذٍ : اس دن يَّوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَعَصَوُا : اور نافرمانی کی الرَّسُوْلَ : رسول لَوْ تُسَوّٰى : کاش برابر کردی جائے بِهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین وَلَا : اور نہ يَكْتُمُوْنَ : چھپائیں گے اللّٰهَ : اللہ حَدِيْثًا : کوئی بات
جس دن وہ لوگ آرزو کریں گے جنہوں نے کفر کیا اور رسول کی نافرمانی کی کہ کاش ! ان میں زمین برابر کردی جاتی اور یہ لوگ اللہ سے کوئی بات بھی نہ چھپائیں گے
(1) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لو تسوی بہم الارض “ سے مراد ہے کہ زمین اور پہاڑ ان پر برابر کر دئیے جاتے۔ قیامت کا انتہائی ہولناک منظر ہوگا (2) عبد بن حمید وابن المنذر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ وہ لوگ اس بات کو پسند کرتے ہوں گے کہ زمین ان کے لئے پھٹ جاتی اور وہ اس میں دھنس جاتے۔ (3) ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لو تسوی بہم الارض “ سے مراد ہے کہ زمین ان کے لئے پھٹ جاتی اور وہ اس میں داخل ہوجاتے اور پھر زمین ان پر برابر ہوجاتی۔ (4) عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی (نے اس کو صحیح کہا) وابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی ابن عباس کے پاس آیا اور کہا مجھے ان چند چیزوں کے بارے میں جو قرآن میں مختلف ہیں ابن عباس ؓ نے فرمایا وہ کیا ہیں ؟ کیا تو قرآن میں شک کرتا ہے ؟ اس نے کہا شک نہیں ہے لیکن اختلاف ہے۔ فرمایا بیان کرو جو چیزیں تجھ پر مختلف ہوں اس نے کہا میں نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا لفظ آیت ” ثم لم تکن فتنتہم الا ان قالوا واللہ ربنا ما کنا مشرکین (23) “ (الانعام آیت 23) اور فرمایا ” ولا یکتمون اللہ حدیثا “ جبکہ انہوں نے چھپایا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” فلا انساب بینہم یومئذ ولا یتساء لون “ (المؤمنین آیت 21) پھر فرمایا ” واقبل بعضہم علی بعض یتساء لون “ (الصافات آیت 37) اور فرمایا ” ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارج فی یومین “ سے ” طائعین “ تک (فصلت آیت 9) اور اس آیت میں آسمان کی پیدائش سے پہلے زمین کی پیدائش کا ذکر ہے۔ پھر دوسری آیت میں فرمایا ” ام السماء بنھا “ (نازعات آیت 27) پھر فرمایا ” والارض بعد ذلک دحھا “ یعنی اس آیت میں آسمان کی پیدائش کا زمین کی پرورش سے پہلے ذکر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” وکان اللہ عزیزا حکیما “ (اور) ” والاخرۃ وکان اللہ سمیعا بصیرا “ گویا اللہ تعالیٰ پہلے عزیز حکیم، غفوررحیم اور سمیع بصیر تھا اب نہیں ہے اور جن آیات میں اللہ تعالیٰ ” وکان اللہ “ فرماتے ہیں اس سے کیا مراد ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا یہ قول ” ثم لم تکن فتنتہم الا ان قالوا واللہ ربنا ما کنا مشرکین “ (انعام آیت 23) (اور) ” ولا یکتمون اللہ حدیثا “ کوئی تعارض نہیں جب تک قیامت کے دن مشرک اور کافر مسلمانوں کے گناہ معاف ہوتے دیکھیں گے اور مشرکوں کے گناہ معاف نہ ہوں گے تو بخشش کی امید میں مشرک ہونے سے انکار کردیں گے اور کہیں گے اللہ کی قسم اے ہمارے رب ! ہم مشرک نہیں تھے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ اور پاؤں گواہی دیں گے اس وقت یہ کافر لوگ تمنا کریں گے کہ کاش ان پر زمین برابر کردی جاتی اور اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت ” فلا انساب بینہم یومئذ ولا یتساء لون “ (المومنون آیت 101) یہ پہلا صور پھونکا جانے کا وقت ہوگا (اور فرمایا) ” ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شاء اللہ “ (الزمر آیت 68) یعنی صور کی آواز سے سب بےہوش ہوجائیں گے اس وقت ان میں کوئی تعلق نہیں ہوگا اور نہ وہ آپس میں کوئی سوال کرسکیں گے (پھر فرمایا) ” ثم نفخ فیہ اخری فاذاہم قیام ینظرون “ (الزمر آیت 68) اور فرمایا ” واقبل بعضہم علی بعض یتساء لون “ (الصافات آیت 17) یعنی پھر جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو اٹھ کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول ” خلق الارض فی یومین “ (فصلت آیت) یعنی زمین پیدا کی گئی آسمان سے پہلے اور آسمان دھواں تھا پھر (اللہ تعالیٰ نے) ان کو دنوں میں سات آسمان بنا دیا زمین کے پیدا کرنے کے بعد اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول ” والارض بعد ذلک دحھا “ (النازعات) یعنی اس میں پہاڑ بنائے اس میں نہریں بنائی اس میں درخت اگائے اور اس میں سمندروں کو جاری فرمایا اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول ” وکان اللہ “ تو (اس میں کان ماضی کے بعد میں نہیں ہے بلکہ استمرار کے معنی میں ہے) اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفوررحیم ہے، اور وہ اسی طرح ہمیشہ رہے گا اور وہ اسی طرح عزیز حکیم ہے اور اسی طرح علیم قدیر ہے اور ہمیشہ اسی طرح رہے گا قرآن مجید میں جو چیز تجھ کو مختلف نظر آئی وہ اسی طرح ہے جو میں نے تجھ کو بتادیا اور اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز نازل نہیں فرمائی مگر اللہ تعالیٰ نے جو ارادہ فرمایا اس کو پالیا لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔ (5) ابن جریر نے جویبر کے طریق سے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) ابن عباس ؓ کے پاس آئے اور کہا اے ابن عباس ! اللہ کا قول ہے لفظ آیت ” یومئذ یود الذین کفروا وعصوا الرسول لو تسوی بہم الارض ولا یکتمون اللہ حدیثا “ اور یہ بھی قول ہے ” واللہ ربنا ما کنا مشرکین “ (الانعام آیت 23) ابن عباس ؓ نے اس سے فرمایا میں تجھ کو خیال کرتا ہوں کہ تو اپنے ساتھیوں کے پاس سے آیا ہے میں نے کہا میں ابن عباس ؓ کے سامنے قرآن کی متشابہات القرآن پیش کروں گا ابن عباس نے فرمایا جب تو ان کے پاس لوٹ کر جائے تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو ایک میدان میں جمع فرمائیں گے اور مشرکین کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کسی سے کوئی عمل قبول نہیں فرماتے مگر ان لوگون سے جو اس کو ایک ماننے والے ہیں تو وہ (آپس میں) کہیں گے ادھر آجاؤ ہم بھی ایسے ہی کہہ دیتے ہیں تو جب ان سے پوچھا جائے گا تو وہ کہیں گے ” واللہ ربنا ما کنا مشرکین “ (الانعام آیت 23) (اللہ کی قسم ہم تو مشرک نہیں تھے) تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے اعضاء بولیں گے اور ان پر گواہی دیں گے کہ وہ لوگ مشرک تھے پس اس وقت وہ تمنا کریں گے کاش زمین ان پر برابر کردی جاتی اور وہ اللہ تعالیٰ سے کچھ چھپا نہیں سکیں گے۔ (6) ابن ابی حاتم اور حاکم نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی کو لایا جائے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا تھا اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے تو نے دنیا میں کیسا عمل کیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپا نہیں سکے گا تو وہ کہے گا اے میرے رب ! میں نے کوئی کام نہیں کیا مگر یہ کہ تو نے مجھ کو مال دیا تھا میں لوگوں سے خریدوفروخت کرتا تھا اور میری عادت یہ تھی کہ میں تنگ دست کو مہلت دے دیتا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اس کا زیادہ حقدار ہوں تجھ سے (پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائیں گے) میرے بندے سے درگزر کر وابو مسعود انصاری نے فرمایا کہ اسی طرح میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ (7) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا یکتمون اللہ حدیثا “ سے مراد ہے کہ وہ اپنے اعضاء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ پر کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے۔
Top