Dure-Mansoor - At-Tahrim : 4
اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا١ۚ وَ اِنْ تَظٰهَرَا عَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ
اِنْ تَتُوْبَآ : اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف فَقَدْ صَغَتْ : تو تحقیق کج ہوگئے ۔ جھک پڑے قُلُوْبُكُمَا : تم دونوں کے دل وَاِنْ تَظٰهَرَا : اور اگر تم ایک دوسرے کی مدد کرو گی عَلَيْهِ : آپ کے خلاف فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ : وہ مَوْلٰىهُ : اس کامولا ہے وَجِبْرِيْلُ : اور جبرائیل وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ : اور صالح اہل ایمان وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد ظَهِيْرٌ : مددگار
اے دونوں بیویو ! اگر تم اللہ کے سامنے توبہ کرلو تو تمہارے دل مائل ہوگئے اور اگر پیغمبر ﷺ کے مقابلہ میں تم دونوں آپس میں کارروائیاں کرتی ہو تو اللہ ان کا مولی ہے اور جبرئیل بھی اور نیک مسلمان بھی اور ان کے علاوہ فرشتے مددگار ہیں
18۔ ابن جریر وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت فقد صغت قلوبکما سے مراد ہے کہ تم دونوں کے دل مائل ہیں اور انہوں نے گناہ کیا۔ 19۔ ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” صغت “ سے مراد ہے کہ وہ مائل ہیں۔ 20۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” صغت “ سے مراد ہے کہ وہ مائل ہیں۔ 21۔ عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ہم یہ خیال کرتے تھے کہ آیت صغت قلوبکما آسان چیز ہے یہاں تک کہ ہم نے اس کو سنا عبداللہ ؓ کی قراءت کے ساتھ آیت ان تتوبا الی اللہ فقدصغت قلوبکما۔ 22۔ عبدالرزاق وابن سعد واحمد والمدنی وعبد بن حمید والبخاری ومسلم والترمذی وابن حبان وابن المنذر وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں ہمیشہ ایسے موقع کی تلاش میں رہا کہ میں حضرت عمر رضی الہ عنہ سے نبی ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے ان دو عورتوں کے بارے میں سوال کروں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما۔ اگر تم اللہ کی جانب میں تو بہ کرو تو بہتر ورنہ تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں۔ یہاں تک کہ عمر ؓ نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا ابھی آپ راستے میں تھے تو عمر ؓ ایک طرف کو گئے میں بھی آپ کے ساتھ گیا جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انہوں نے وضو کیا۔ میں نے کہا اے امیر المومنین نبی اکرم ﷺ کی بیویوں میں سے وہ کونسی عورتیں ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما۔ تو انہوں نے فرمایا اے ابن عباس ؓ تجھ پر بڑا تعجب ہے وہ عائشہ اور حفصہ ؓ ہیں۔ پھر انہوں نے مجھ کو بات بتانی شروع کی۔ اور فرمایا ہم قریش کی جماعت ہیں اور ہم عورتوں پر غلبہ رکھتے ہیں جب ہم مدینہ منورہ آئے اور ہم نے ایسی قوم یعنی انصار صحابہ ؓ کو پایا کہ ان پر ان کی عورتیں غالب ہیں تو ہماری عورتوں نے ان عورتوں سے سیکھنا شروع کیا میں ایک دن اپنی بیوی پر غصہ ہوا اچانک وہ جواب دینے لگی۔ میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ وہ مجھ کو جواب دے۔ اس نے کہ آپ کیوں اس بات کو ناپسند کرتے ہیں اللہ کی قسم ! نبی ﷺ کی بیویاں البتہ ان کو جواب دیتی ہیں اور ان میں سے کوئی دن سے لے کر رات تک آپ کو چھوڑے رکھتی تھی۔ یعنی ان سے قطع کلامی کرتی ہیں میں نے کہا ان میں سے جس نے ایسا کیا وہ خائب و خاسر ہو۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میر اگھر عوالی میں تھا۔ اور انصار میں سے میرا ایک پڑوسی تھا ہم باری باری رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے تھے۔ ایک دن وہ آیا اور میرے پاس وحی کی خبریں اور اس کے علاوہ دوسری خبریں لے آتا۔ اور ایک دن میں آتا اور اس کے پاس اس طرح کی خبریں لے آتا۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا اور ہم باتیں کر رہے تھے۔ کہ غسان نے اپنے گھوڑے کو نعل لگوائے ہیں تاکہ وہ ہم سے جنگ کرے۔ پھر ایک دن وہ انصاری آیا اور دروازہ پر زور سے دستک دی میں اس کی طرف نکلا۔ اس نے کہا بڑا معاملہ پیش آگیا۔ میں نے کہا کیا غسان آگیا اس نے کہا اس سے بھی بڑا معاملہ ہے رسول اللہ ﷺ نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا حفصہ خائب و خاسر ہوگئی۔ میں ایسا ہونے والا دیکھ رہا تھا جب ہم صبح کی نماز پڑھ چکے میں نے اپنے کپڑے پہنے پھر میں چلا یہاں تک کہ حفصہ پر داخل ہوگیا۔ اچانک وہ رو رہی تھی میں نے اس سے پوچھا کیا تم کو رسول اللہ ﷺ نے طلاق دیدی ؟ کہنے لگی میں نہیں جانتی آپ تو بالاخانے میں علیحدہ ہوگئے ہیں۔ میں چل اور ایک سیاہ رنگ والے غلام کے پاس آیا میں نے کہا عمر اجازت طلب کرتا ہے وہ اندر گیا پھر میری طرف نکلا اور کہا میں نے آپ کا ذکر کیا مگر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا پھر میں مسجد کی طرف چلا۔ اچانک مسجد کے اردگرد بہت سے لوگ رو رہے ہیں۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پھر وہ اضطراب جو میرے دل میں تھا وہ مجھ پر غالب آگیا۔ پھر میں چلا اور اس غلام کے پاس آیا میں نے کہا عمر ؓ کے لیے اجازت لو پھر وہ اندر گیا اور باہر نکل آیا اور کہا میں نے آپ کا ذکر کیا آپ نے کچھ نہیں فرمایا۔ پھر میں واپس چلنے لگا تو اس غلام نے مجھے آواز دی اور کہا آپ اندر آجاؤ۔ آپ نے تمہارے لیے اجازت عطا فرمادی ہے میں اندر داخل ہوا۔ اچانک نبی اکرم ﷺ ایک چٹائی پر تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ اور میں نے آپ کے پہلو مبارک میں اس کے نشانات دیکھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ میں نے کہا اللہ اکبر۔ یا رسول اللہ اگر آپ ہم کو دیکھیں کہ ہم قریش کی جماعت عورتوں پر غالب تھی۔ جب ہم مدینہ منورہ آئے تو ہم نے ایسی قوم کو پایا کہ ان کی عورتیں ان پر غالب ہیں تو ہماری عورتوں نے بھی ان کی عورتوں سے سیکھنا شروع کیا۔ میں ایک دن اپنی بیوی پر غصہ ہوا۔ اچانک مجھ کو جواب دینے لگی میں نے اسے اس سے منع کردیا تو وہ کہنے لگی کیا تم منع کررہے ہو اللہ کی قسم ! نبی ﷺ کی بیویاں البتہ ان کو جواب دیتی ہیں اور دن سے لے کر رات تک آپ سے قطع تعلق کیے رکھتی ہے تو میں نے کہا تم میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ خائب و خاسر ہو پھر میں حفصہ کے پاس آیا میں نے کہا کیا تم میں سے کوئی رسول اللہ ﷺ کو جواب دیتی ہے۔ وہ دن سے لے کر رات کو چھوڑے رکھتی ہے ؟ تو انہوں نے بتایا۔ میں نے کہا نامراد ہو اور نقصان والی ہو جو تم میں سے ایسا کرتی ہے کیا تم میں سے کوئی امن میں رہ سکتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اس پر غصہ ہو اس کے رسول کے غصہ کی وجہ سے پھر تو یقینی بات ہے کہ وہ ہلاک ہوجائے گی۔ تو رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے۔ میں نے حفصہ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو جواب نہ دینا۔ اور نہ ان سے کسی چیز کا سوال کرنا۔ اور مجھ سے سوال کرنا جو تو چاہے اور تجھ کو دھوکہ نہ دے کیو کہ تیری پڑوسن حضرت عائشہ ؓ تجھ سے زیادہ خوبصورت ہے اور رسول اللہ ﷺ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے آپ دوسری مرتبہ ہنس پڑے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ میں وحشت دور کر رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا ہاں پھر میں نے اپنا سر اٹھایا میں نے گھر میں نہیں دیکھا جن چیزوں کے سوا میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ آپ کی امت کو خوشحالی اور وسعت فرمائے۔ اسی ذات نے فارس اور روم والوں کو وسعت اور حوشحالی عطا کی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ سن کر آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا اے خطاب کے بیٹے تو شک میں ہے۔ یہ وہ قوم ہے کہ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں ان کو عمدہ چیزیں دے دی گئیں۔ اور آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ اپنی بیویوں کے پاس ایک ماہ تک نہیں جائیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں عتاب فرمایا۔ اور آپ کے لیے قسم کا کفارہ مقرر فرمایا۔ 23۔ ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی عورتوں سے ایلا کیا اور حرام قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے حرام کو حلال بنادیا اور قسم کا کفارہ ادا فرمادیا۔ 24۔ ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی عورتوں سے ایلاء کیا اور ان کو حرام قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس حرام کو آپ کے لیے حلال قرار دیا اور ایلا میں قسم کے کفارے کا حکم فرمایا۔ 25۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا آیت وان تظہرا علیہ ظاء کو تخفیف کے ساتھ عسی ربہ ان طلقکن ان یبدلہ اگر پیغمبر تم عورتوں کو طلاق دے دیں گے تو ان کا رب بہت جلد تمہارے بلدے ان کو تم سے اچھی بیویاں دے دے گا۔ میں یاء کو مرفوع اور یاء تخفیف کے ساتھ ” سائحات “ روزہ رکھنے والیاں الف کو تخفیف کے ساتھ پڑھا۔ رسول اللہ ﷺ کا ایلاء 26۔ عبد بن حمید ومسلم وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نے مجھ سے بیان فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ اپنی عورتوں سے علیحدہ ہوگئے تو میں مسجد میں داخل ہوا تو لوگ کنکریاں پھینکنے لگے۔ اور کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی ہے۔ اور یہ پردہ کے حکم کے نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ میں نے دل میں کہا میں آج کے دن میں ضرور جانوں گا کہ کس لیے آپ عورتوں سے علیحدہ ہوئے۔ چناچہ میں عائشہ ؓ کے پاس آیا اور میں نے کہا اے ابوبکر کی بیٹی ! کیا تیرے بارے میں یہ خبر پہنچی ہے کہ تو رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دیتی ہے۔ عائشہ ؓ نے فرمایا کیا ہے مجھے اور تجھے اے خطاب کے بیٹے پھر میں حفصہ ؓ کے پاس آیا۔ اور میں نے اس سے کہا اے حفصہ ؓ کیا تیرے بارے میں یہ خبر پہنچی ہے کہ تو رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دیتی ہے اللہ کی قسم ! میں نے جان لیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تجھ کو پسند نہیں فرماتے۔ اگر میں نہ ہوتا تو تجھ کو رسول اللہ ﷺ طلاق دے دیتے۔ یہ سن کر وہ سخت رونے لگیں۔ میں نے اس سے پوچھا رسول اللہ ﷺ کہاں ہیں ؟ اس نے کہا کہ آپ ﷺ شربہ یعنی پینے پلانے کا کمرہ میں ہیں، میں داخل ہوا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام رباح۔ آپ کے اس کمرے کی چوکھٹ پر لکڑی کے ایک کھوکھلے تنے پر سے اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے بیٹھا ہوا ہے یہ ایک تنا تھا جس پر رسول اللہ ﷺ اوپر چڑھتے اور اترتے تھے تو میں نے آواز دی اے رباح ! میرے لیے اندر آنے کی اجازت لو رسول اللہ ﷺ سے۔ رباح نے کمرے کی طرف دیکھا۔ پھر میری طرف دیکھا اور کچھ نہیں کہا۔ پھر میں نے اپنی آواز کو اونچا کیا اور کہا اے رباح ! میرے لیے رسول اللہ ﷺ سے آپ کے پاس آنے کی اجازت لے میں نے یہ خیال کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ خیال فرمایا کہ میں حفصہ کی وجہ سے آیا ہوں۔ اللہ کی قسم ! اگر مجھ کو رسول اللہ ﷺ حکم فرمائیں کہ اس کی گردن ماردو تو میں ضرور اس کی گردن مار دوں گا۔ اور میں نے یہ اپنی بلند آواز سے کہا تو اس نے میری طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ میں اس سے نرمی کروں۔ چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس داخل ہوا اور آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ میں بیٹھ گیا آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی اور چادر نہ تھی۔ اور اس چٹائی کے نشانات آپ کے پہلوؤں میں تھے اور میں نے آپ کے سامان پر نظر ڈالی تو وہ مٹھی بھر جو تھے ایک صاع کے برابر۔ اور اتنے ہی قزط یعنی کیکر کے پتے کمرے کے ایک کونے میں پڑے ہوئے تھے۔ جبکہ دول لٹکا ہوا تھا ان چیزوں کو دیکھ کر میری آنکھیں بھر گئیں۔ آپ نے پوچھا اے خطاب کے بیٹے ! کس چیز نے تجھ کو رلایا ؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! میرے لیے کیا ہے کہ میں نہ روؤں۔ اور اس چٹائی نے آپ کے پہلو میں نشانات ڈال دئیے ہیں اور یہ آپ کا جمع شدہ سامان ہے۔ جو میں دیکھ رہا ہوں۔ اور وہ کسریٰ اور قیصر پھلوں میں اور نہروں میں ہیں۔ اور آپ اللہ کے رسول اور اس کے محبوب ہیں اور یہ آپ کا سامان ہے آپ نے فرمایا اے خطاب کے بیٹے ! کیا تو راضی نہیں ہے اس بات سے کہ ہمارے لیے آخرت ہو اور ان کے لیے دنیا ہو۔ میں نے کہا کیوں نہیں اس کے بعد جب بھی میں آپ کے پاس داخل ہوا تو میں نے آپ کے چہرہ مبارک میں غصہ کو دیکھا تھا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا آپ کی ازواج کی کوئی حرکت آپ پر بھاری ہوگئی۔ اگر آپ نے ان کو طلاق دے دی تو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہیں اور اس کے فرشتے اور جبرئیل اور میکائیل اور میں اور ابوبکر اور ایمان والے بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ اور بہت کم ایسا ہوا کہ میں نے کوئی بات کی اور کوئی کلام کرتے ہوئے اللہ کی حمد بیان کی مگر میں نے یہ امید رکھی کہ اللہ تعالیٰ میری بات کی تصدیق فرمائیں گے جو میں نے کہی۔ اور یہ آیت نازل ہوگئی آیت وان تظہرا علیہ فان اللہ ہو مولاہ وجبریل و صالح المومنین والملئکۃ بعد ذلک ظہیر عسی ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجا خیر امنکن۔ اگر پیغمبر تم عورتوں کو طلاق دے دیں گے تو ان کا رب بہت جلد تمہارے بدلے ان کو تم سے اچھی بیویاں دے دے گا۔ اور اگر تم پیغمبر کی مرضی کے خلاف باہم تعان کرتی رہی تو یاد رکھو پیغمبر کا رفیق اللہ ہے اور جبریل ہے اور نیک مسلمان ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے مددگار ہیں۔ اور عائشہ بنت ابوبکر اور حفصہ ؓ آپس میں گٹھ جوڑ کرتی تھیں نبی ﷺ کی ساری بیویوں کے خلاف۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا آپ نے ان کو طلاق دیدی ؟ فرمایا نہیں۔ میں نے کہا یارسول اللہ ! میں مسجد میں داخل ہو اور مومنین کنکریاں پھینک رہے اور کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی ہے۔ کیا میں نیچے اترجاؤں اور ان کو بتادوں کہ آپ نے ان کو طلاق نہیں دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اگر تو چاہے پھر میں مسلسل ان سے باتیں کرتا رہا۔ یہاں تک کہ آپ کے چہرہ مبارک سے غصہ کے آثار ختم ہوگئے۔ بلکہ آپ مسکرائے اور ہنس دئیے اور آپ کے دندان مبارک ظاہر ہونے لگے اور آپ کے دندان مبارک تمام لوگوں سے بڑھ کر حسین اور خوبصورت تھے پھر رسول اللہ ﷺ نیچے اترے اور میں بھی اترا۔ میں نے اس تنے کو مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ اور اللہ کے نبی ﷺ نیچے اترے اور آپ زمین پر اس طرح چلنے لگے گویا کہ آپ اسے اپنے ہاتھ مبارک سے چھو رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کمرے میں انتیس دن رہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے پھر میں مسجد کے دروازے پر کھڑا ہوا اور میں نے اونچی آواز سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی عورتوں کو طلاق نہیں دی۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی آیت واذا جاء ہم امر من الامن او الخوف اذاعوا بہ ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منہم لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم۔ اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی پہنچی ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں اور اگر اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچاتے تو اس کی تحقیق کرتے جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں۔ اور میں نے اس معاملہ کی تحقیق کی اور اللہ تعالیٰ نے آیت تخییر نازل فرمائی۔ 27۔ ابن عسکر نے کلبی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میرے والد محترم اس آیت کو پڑھتے تھے آیت و صالح المومنین اور فرماتے تھے کہ اس سے ابوبکر اور عمر ؓ مراد ہیں۔ 29۔ ابن عساکر نے عکرمہ اور میمون بن مہران رحمہما اللہ سے ایسے ہی روایت کیا۔ 30۔ ابن عساکر نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ آیت و صالح المومنین سے عمر بن خطاب ؓ مراد ہیں۔ 31۔ ابن عساکر نے مقاتل بن سلیمان (رح) سے روایت کیا کہ آیت و صالح المومنین سے ابوبکر وعمر ؓ مراد ہیں۔ 32۔ ابن عساکر من طریق مالک بن انس ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ آیت فقد صغت قلوبکما بلاشبہ تم دونوں کے دل مائل ہوگئے تھے یعنی مائل ہوگئے اور آیت و صالح المومنین سے مراد ہے انبیاء علیہم السلام۔ 33۔ ابن عساکر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے و صالح المومنین کے بارے میں فرمایا کہ آیت و صالح المومنین سے ابوبکر وعمر ؓ مراد ہیں۔ 34۔ الطبرانی وابن مردویہ اور ابو نعیم فی فضائل صحابہ میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت و صالح المومنین کے بارے میں فرمایا کہ صالح المومنین ابوبکر اور عمر ؓ ہیں۔ 35۔ طبرانی نے اوسط میں اور ابن مردویہ نے ابن عمر اور ابن عباس ؓ سے آیت و صالح المومنین کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت ابوبکر اور عمر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ 36۔ سعید بن منصور وابن سعد وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن عسکر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت و صالح المومنین۔ عمر بن خطاب ؓ کے بارے میں خاص طور پر نازل ہوئی۔ 37۔ ابن مسعود ؓ نے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت و صالح المومنین کے بارے میں فرمایا کہ صالح المومنین سے ابوبکر وعمر ؓ مراد ہیں۔ 38۔ طبرانی فی الاوسط وابن مردویہ نے ابن عمرو وابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت و صالح المومنین ابوبکر وعمر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ 39۔ سعید بن منصور وابن سعد وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن عساکر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت و صالح المومنین خاص طور پر عمر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ 40۔ الحاکم نے ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ آیت و صالح المومنین سے ابوبکر وعمر ؓ مراد ہیں۔ 41۔ ابن ابی حاتم نے ضعیف سند کے ساتھ علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آیت و صالح المومنین علی بن ابی طالب ؓ ہیں۔ 42۔ ابن مردویہ نے اسماء بنت عمیس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آیت و صالح المومنین سے علی بن ابی طالب ؓ مراد ہیں۔ 43۔ ابن مردویہ وابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت و صالح المومنین سے علی بن ابی طالب مراد ہیں۔ 44۔ سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن المنذر نے علاء بن زیاد (رح) سے روایت کیا کہ آیت و صالح المومنین سے انبیاء (علیہم السلام) مراد ہیں۔ 45۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت و صالح المومنین سے انبیاء (علیہم السلام) مراد ہیں۔
Top