Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fahm-ul-Quran - An-Nisaa : 34
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ١ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ١ؕ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا
اَلرِّجَالُ
: مرد
قَوّٰمُوْنَ
: حاکم۔ نگران
عَلَي
: پر
النِّسَآءِ
: عورتیں
بِمَا
: اس لیے کہ
فَضَّلَ
: فضیلت دی
اللّٰهُ
: اللہ
بَعْضَھُمْ
: ان میں سے بعض
عَلٰي
: پر
بَعْضٍ
: بعض
وَّبِمَآ
: اور اس لیے کہ
اَنْفَقُوْا
: انہوں نے خرچ کیے
مِنْ
: سے
اَمْوَالِهِمْ
: اپنے مال
فَالصّٰلِحٰتُ
: پس نیکو کار عورتیں
قٰنِتٰتٌ
: تابع فرمان
حٰفِظٰتٌ
: نگہبانی کرنے والیاں
لِّلْغَيْبِ
: پیٹھ پیچھے
بِمَا
: اس سے جو
حَفِظَ
: حفاطت کی
اللّٰهُ
: اللہ
وَالّٰتِيْ
: اور وہ جو
تَخَافُوْنَ
: تم ڈرتے ہو
نُشُوْزَھُنَّ
: ان کی بدخوئی
فَعِظُوْھُنَّ
: پس امن کو سمجھاؤ
وَاهْجُرُوْھُنَّ
: اور ان کو تنہا چھوڑ دو
فِي الْمَضَاجِعِ
: خواب گاہوں میں
وَاضْرِبُوْھُنَّ
: اور ان کو مارو
فَاِنْ
: پھر اگر
اَطَعْنَكُمْ
: وہ تمہارا کہا مانیں
فَلَا تَبْغُوْا
: تو نہ تلاش کرو
عَلَيْهِنَّ
: ان پر
سَبِيْلًا
: کوئی راہ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيًّا
: سب سے اعلی
كَبِيْرًا
: سب سے بڑا
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ پس نیک تابع فرماں عورتیں خاوند کی غیر حاضری میں اللہ کی حفاظت و نگرانی میں (عزت و مال کی) حفاظت کرنے والی ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستر پر چھوڑ دو اور انہیں سزا دو پھر اگر اطاعت کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ یقیناً اللہ بلند اور بڑا ہے
فہم القرآن ربط کلام : معاشرتی ‘ مالی حقوق اپنی جگہ مسلّم لیکن خاندانی یونٹ کو متوازن اور مستحکم رکھنے کے لیے مرد کو گھر کا ناظم مقرر کیا گیا ہے اگر میاں بیوی کے درمیان تنازعہ ہوجائے تو اس کا طریقہ کار بھی طے کردیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے گھر یلو زندگی کو ایک یونٹ قرار دے کر مرد کو اس کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ جس کے لیے ” قَوَّامَ “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنی ہے ہر قسم کی نگرانی اور انتظام کرنے والا۔ گھر کا منتظم اس لیے مقرر کیا تاکہ گھر کا نظام مضبوط اور صحت مند خطوط پر چلتا رہے۔ مرد کو منتظم بنانے کی دو وجوہات بیان فرمائیں تاکہ عورت کے ذہن میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔ پہلی یہ کہ مرد ذہنی اور جسمانی لحاظ سے عورت کے مقابلے میں مضبوط اور برتر پیدا کیا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مرد پر بیوی بچوں کی حفاظت اور ان کے اخراجات کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ تاکہ عورت باہر کی الجھنوں سے بچ کر سکون کے ساتھ خاوند کی خدمت ‘ بچوں کی تربیت اور صنف نازک ہونے کی وجہ سے آرام کی زندگی گزار سکے۔ اگر غور سے سوچا جائے تو عورت کی گھریلو مصروفیات اس قدرزیادہ ہیں کہ وہ باہر کے کاموں کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتی۔ چہ جائیکہ اس پر ملازمت یا کاروبار کی دوہری ذمہ داری ڈال دی جائے۔ معاشرہ اس بات کا گواہ ہے کہ جو عورتیں کسی مجبوری یا محض گھریلو بجٹ میں اضافہ کرنے کے لیے ملازمت کرتی ہیں۔ انہیں گھر اور بچوں کو سنبھالنے کے لیے کوئی ملازمہ رکھنا پڑتی ہے۔ بصورت دیگر ان کے گھر کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے یہاں تک کہ ان کے پاس کھانا پکانے کا وقت بھی نہیں ہوتا۔ ایسے جوڑے اپنی ڈیوٹی سے گھر آتے وقت کھانا بھی ہوٹل سے لاتے ہیں۔ ان مسائل کی بنا پر عورت کو گھر کی ملکہ اور خاوند کو مشکل معاملات کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ جب سے مسلمان خواتین نے بلا مجبوری مرد کی ذمہ داریوں میں حصہ لینا شروع کیا ہے اس وقت سے عورت میں خود سری اور نخوت پیدا ہونے کے ساتھ مسلمان معاشرہ توڑ پھوڑ کا شکار، گھروں کا سکون برباد اور اولاد ماں باپ کی نافرمان ہوچکی ہے۔ کتنا ہی بہتر ہوتا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تقسیم کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے تو اولاد کی نافرمانیوں ‘ گھروں کی بربادی اور معاشرتی بےحیائی سے محفوظ رہتے۔ نیک بیوی کے کردار میں دو خوبیاں نمایاں ہونی چاہییں۔ خاوند کی مطیع اور اس کی عزت و ناموس، مال اور اولاد کی حفاظت کرنے والی ہو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے گھر کی نگرانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر عورت مرد کے مقابلے میں آئے اور اس کی بغاوت کرے تو اسے بہتر الفاظ اور اچھے انداز میں نصیحت کرنی چاہیے۔ ٹکراؤ کی صورت میں گھریلو زندگی بےچینی اور عدم توازن کا شکار ہوگی بلکہ اولاد پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔ خاص کر بیٹیوں کے مستقبل پر اس کے نہایت ہی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نفع و نقصان سمجھانے کے باوجود بیوی اگر اپنی روش ترک کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو خاوند کو اس کے ساتھ اپنی قربت ختم کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ جس کے لیے قرآن مجید نے بستر الگ کردینے کا حکم دیا ہے جو حیا دار اور خاندانی عورت کے لیے بہت بڑی سزا ہے۔ عورت میں اگر معمولی عقل اور حیا ہوگی تو وہ ضرور سوچنے پر مجبور ہوگی کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے بیگانگی اور ایک دوسرے سے بیزاری اچھی نہیں۔ بصورت مجبوری تیسرا اور آخری اقدام یہ ہے اسے ہلکی پھلکی جسمانی سزا دی جائے تاکہ اس کی آنکھیں کھل جائیں کہ اب گھر کی ملکہ کے بجائے میں لونڈی کے مقام پر آکھڑی ہوں اور میرا گھر عقوبت خانہ اور اس کا ماحول میرے لیے اچھوت بن چکا ہے۔ کوئی عورت اگر اس قدر جاہل اور ہٹ دھرم ہو کہ وہ سدھرنے کا نام نہ لے تو پھر دونوں خاندانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قریبی رشتہ داروں سے دو آدمی ثالث مقرر کریں۔ ثالثوں کا دونوں طرف سے رشتہ دار ہونا اس لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف کھل کر بات چیت اور معاملات سلجھا سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ میاں بیوی اور خاندان کی عزت بھی سلامت رہ سکے گی۔ بالفاظ دیگر گھر کا معاملہ گھر ہی میں نمٹ جائے گا۔ اگر ثالث اور میاں بیوی اخلاص کے ساتھ معاملہ سدھارنا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں ہمت اور توفیق نصیب فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ان میں کون زیادہ قصور وار اور کون اخلاص کے ساتھ صلح کی کوشش کررہا ہے ؟ (عَنْ حَکِیْمِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْقُشَیْرِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَاحَقُّ زَوْجَۃِ أَحَدِنَا عَلَیْہِ قَالَ أَنْ تُطْعِمَھَاإِذَا طَعِمْتَ وَتَکْسُوَھَا إِذَا اکْتَسَیْتَ وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلَا تُقَبِّحْ وَلَا تَھْجُرْ إِلَّا فِی الْبَیْتِ ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا ] ” حضرت حکیم بن معاویہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! ہم پر ہماری بیویوں کے کیا حقوق ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تو کھانا کھائے تو اسے بھی کھلائے جب تو کپڑے پہنے اسے بھی پہنائے منہ پر نہ مارے ‘ نہ گالی دے اور اسے نہ چھوڑ مگر گھر میں۔ “ عورت کی سربراہی بعض نام نہاد دانشور غیر مسلموں سے متاثر ہو کرنا صرف اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ عورت کو مرد کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہیے بلکہ وہ مغربی جمہوریت کی پیروی میں عورت کو ملک کا سربراہ بنانے میں حرج نہیں سمجھتے۔ اس کے لیے ” سورة النمل “ سے ملکہ سبا کی حکومت کا حوالہ دیتے ہیں۔ ایسے دانشور یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ مملکت سبا کی ملکہ بلقیس اس وقت تک ہی اپنے ملک کی حکمران رہی تھی جب تک وہ کافرہ تھی۔ جو نہی وہ اپنے وقت کے نبی حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ایمان لائی تو اس نے اپنے آپ کو ان کے حوالے کردیا۔ اس کے بعد اس کی حکمرانی کا تاریخ میں ثبوت نہیں ملتا۔ کچھ لوگ جنگ جمل میں حضرت عائشہ ؓ کی سربراہی کا حوالہ دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات بھی انصاف کے ترازو پر پوری نہیں اترتی۔ کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے زندگی بھر کبھی مسلمانوں کی خلیفہ بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ وہ تو شدید ہنگامی حالات میں مسلمانوں کے درمیان صلح کی غرض سے نکلی تھیں۔ لیکن حالات کی پیچیدگی میں پھنس کر رہ گئیں۔ اس لیے وہ زندگی بھر اپنے اس اقدام پر پریشان اور پشیمان رہیں۔ جب بھی قرآن مجید کی اس آیت (وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ ) [ الاحزاب : 33] کی تلاوت کرتیں تو زارو قطار رویا کرتی تھیں۔ [ طبقات ابن سعد ] عورت کی حکمرانی اور اسلام : ہم یہاں مولانا سید جلال الدین انصر کی کتاب ” عورت اسلامی معاشرے میں “ سے کچھ اقتباس درج کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں : ” قدیم تاریخ کے متعلق کسی قدر مفصل اور مستند معلومات ہمیں یونانیوں اور رومیوں کے عہد سے ملتی ہیں۔ انہوں نے تہذیب و تمدن اور علوم وفنون میں اس قدر ترقی کی کہ اس کی بنیاد پر بہت سی تہذیبیں اور بہت سے علوم وجو میں آئے لیکن بایں ہمہ ترقی، ان کے ہاں عورت کا مقام بہت ہی پست تھا۔ وہ اس کو انسانیت پر بار سمجھتے تھے اس کا مقصد ان کے نزدیک سوائے اس کے کچھ نہیں تھا کہ خادمہ کی طرح گھر والوں کی خدمت کرتی رہے۔ اہل یونان اپنی معقولیت پسندی کے باوجود عورت کے بارے میں ایسے ایسے تصورات رکھتے تھے جن کو سن کر ہنسی آتی ہے لیکن ان سے اس بات کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ان کی نگاہ میں عورت کی کیا قدر و قیمت تھی اور وہ اپنے درمیان اسے کیا حیثیت دیتے تھے۔ ان کا قول تھا آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسنے کا علاج ممکن ہے لیکن عورت کے شر کا مداوا محال ہے۔ پنڈور انامی ایک عورت کی بابت ان کا عام اعتقاد تھا کہ وہی تمام دنیاوی آفات و مصائب کی جڑ ہے۔ ایک یونانی ادیب کہتا ہے : دو مواقع پر عورت مرد کے لیے باعث مسرت ہوتی ہے ایک تو شادی کے دن دوسرا اس کے انتقال کے دن۔ “ لیکی نے اپنی کتاب ” تاریخ اخلاق یورپ “ میں لکھا ہے : ” بہ حیثیت مجموعی باعصمت یونانی بیوی کا مرتبہ نہایت پست تھا اس کی زندگی مدۃ العمر غلامی میں بسر ہوتی تھی لڑکپن میں اپنے والدین کی، جوانی میں اپنے شوہر کی، بیوگی میں اپنے فرزندوں کی وراثت میں اس کے مقابلہ میں اس کے مرد اعزہ کا حق ہمیشہ رائج سمجھا جاتا تھا۔ طلاق کا حق اسے قانوناً ضرور حاصل تھا تاہم عملًا وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتی تھی۔ کیونکہ عدالت میں اس کا اظہار یونانی ناموس وحیا کے منافی تھا۔۔ افلاطون نے بلاشبہ مرد اور عورت کی مساوات کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ تعلیم محض زبانی تھی۔ عملی زندگی اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔ ازدواج کا مقصد خالص سیاسی رکھا گیا۔ یعنی یہ کہ اس سے طاقتور اولاد پیدا ہوجوحفاظت ملک کے کام آئے۔ “ (عورت اسلامی معاشرہ میں صفحہ :19، 20، 21) یہ تو تھا یونانی تہذیب میں عورت کا مقام و مرتبہ جس کی معقولیت پسندی کا تاریخ کے اوراق میں آج بھی شہرہ ہے۔ اب ذرا مذکورہ مصنف لیکی ہی کی زبان سے رومی تہذیب میں عورت کے احوال کا تذکرہ کیا سماعت فرمالیں وہ لکھتا ہے : ” عورت کا مرتبہ رومی قانون نے عرصہ دراز تک نہایت پست رکھا، افسر خاندان جو باپ ہوتا تھا یا شوہر، اسے اپنے بیوی بچوں پر پورا اختیار حاصل تھا۔ وہ عورت کو جب چاہے گھر سے نکال سکتا تھا۔ جہیز یا دلہن کے والد کو نذرانہ دینے کی رسم کچھ بھی نہ تھی اور باپ کو اس قدر اختیار حاصل تھا کہ جہاں چاہے اپنی لڑکی کو بیاہ دے بلکہ بعض دفعہ تو وہ کی کرائی شادی کو توڑ دیتا تھا۔ زمانہ مابعد یعنی دور تاریخی میں یہ حق باپ کی طرف سے شوہر کی طرف منتقل ہوگیا اور اب اس کے اختیارات یہاں تک وسیع ہوگئے ہیں کہ وہ چاہے تو بیوی کو قتل کرسکتا تھا۔ 20 5 ء تک طلاق کا کسی نے نام نہ سنا تھا۔ “ غلاموں کی طرح عورت کا مقصد بھی خدمت اور چاکری سمجھا جاتا تھا۔ مرد اسی غرض سے شادی کرتا تھا کہ وہ بیوی سے فائدہ اٹھاسکے گا۔ وہ کسی عہدے کی اہل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ حتی کہ کسی معاملہ میں اس کی گواہی تک کا اعتبار نہیں تھا۔ البتہ اس کی طبعی کمزوریوں کی بناء پر اس کو بعض سہولتیں دی گئی تھیں۔ اس میں شک نہیں کہ بعد کے ادوار میں رومیوں نے اس کو حقوق بھی دیے لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کو مرد کے مساوی درجہ کبھی نہیں دیا۔ “ (عورت اسلامی معاشرہ میں صفحہ نمبر :21، 22) [ بحوالہ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا، عورت کی سماجی ومعاشرتی حالت ][ ماخوذ از ” عورت کی حکمرانی اور اسلام “ مصنف فخرا لدین صدیقی ] مسائل 1۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر برتری عنایت فرمائی ہے۔ 2۔ مرد اپنی کمائی سے عورتوں کی کفالت کرتے ہیں۔ 3۔ عورتوں کو خاوندوں کی تابعداری اور اپنی عزت و عفت کی حفاظت کرنا چاہیے۔ 4۔ نافرمان بیویوں کو نصیحت کرنا۔ 5۔ دوسرا قدم خواب گاہوں میں ان سے علیحدگی اختیار کرنا۔ 6۔ تیسرا قدم ہلکی پھلکی سزا دینا ہے۔ 7۔ اطاعت شعار بیوی پر زیادتی کرنا جائز نہیں۔ 8۔ میاں بیوی کے درمیان اختلافات پہلی تینوں صورتوں سے حل نہ ہوں تو دونوں کی طرف سے رشتہ دار ثالثان مقرر کرنے چاہییں۔ تفسیر بالقرآن نیک عورتوں کے اوصاف : 1۔ پاک دامن، حیا دار اور با پردہ۔ (المائدۃ : 5، القصص : 25) 2۔ مطیع ‘ توبہ کرنے والی ‘ عبادت گزار اور روزے دار۔ (التحریم : 5) 3۔ صدقہ کرنے والی ‘ صابرہ ‘ ڈرنے والی ‘ سچی ‘ پاکدامنہ ‘ اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والی۔ (الاحزاب : 35)
Top