Fi-Zilal-al-Quran - Al-Faatiha : 3
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ
الرَّحْمٰنِ : جو بہت مہربان الرَّحِيم : رحم کرنے والا
نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا
الرحمن الرحیم کی صفت کو یہاں وسط سورت میں بطور ایک مستقل آیت پھر دہرایا جارہا ہے ۔ یہ رحمت و شفقت کے تمام معانی ‘ تمام حالات اور تمام وسعتوں کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ اور یہاں دوبارہ لانے کی غرض وغایت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عالمگیر ربوبیت کی ان صفات کے ایک نہایت ہی ممتاز پہلو کو نمایاں کیا جائے اور خالق و مخلوق اور اللہ اور اس کے پروردہ بندوں کے درمیان ربط وتعلق کو حمد وثناپر ابھارتا ہے اور یہ وہ تعلق ہے جو اطمینان قلب کی اساس پر قائم ہے اور اس کی تاریں محبت کے ساتھ بھرے ہوئے دل میں جڑی ہوئی ہیں ۔ لہٰذا الحمد للہ درحقیقت انسانی فطرت کی وہ آواز ہے جو وہ اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت کے جواب میں بلند کرتی ہے ۔ اسلام نے اللہ اور رب کا جو تصور پیش کیا ہے وہ اس تصور سے سراسر مختلف ہے جو اولمپک (Olympic) خداؤں کے متعلق یونانی افکار نے پیش کیا ۔ اس تصور کے مطابق یہ قسی القلب خدا زمانہ امن اور حالت جنگ دونوں میں یکساں طور پر اپنے بندوں کے پیچھے پڑے رہتے تھے ۔ اور ایک دشمن کی طرح اپنے بندوں کے تعاقب میں لگے رہتے تھے ۔ لیکن اسلام کا الٰہ العالمین اپنے بندوں کے لئے وہ انتظامی تدابیر اختیار نہیں کرتا جن کا ذکر عہد نامہ قدیم کی منحرف روایات میں ہوا ہے ۔ مثلاً سفر تکوین کے باب 11 میں بابل کے متعلق جو داستان بیان کی گئی ہے وہ اس کی واضح ترین مثال ہے (” اور تمام زمین پر ایک ہی زبان اور ایک ہی بولی تھی اور ایسا ہوا کہ مشرق کی طرف سفر کرتے ان کو ملک سنمار میں ایک میدان ملا اور وہاں بس گئے اور انہوں نے آپس میں کہا آؤ ہم اینٹیں بنائیں اور ان کو آگ میں خوب پکائیں ۔ سو انہوں نے پتھر کی جگہ اینٹ سے اور چونے کی جگہ گارے سے کام لیا ۔ پھر وہ کہنے لگے آؤہم اپنے واسطے ایک شہر اور ایک برج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے ‘ بنائیں اور یہاں اپنانام کریں ۔ ایسا نہ ہو کہ ہم تمام روئے زمین پر پراگندہ ہوجائیں اور خداوند اس شہر اور برج کو جس کو بنی آدم بنانے لگے ‘ دیکھنے کو اترا اور خداوند نے کہا دیکھو ! یہ لوگ سب ایک ہیں اور ان سبھوں کی ایک ہی زبان ہے ۔ وہ جو یہ کرنے لگے ہیں تو اب کچھ بھی جس کا وہ ارادہ کریں ان سے باقی نہ چھوٹے گا۔ سو آؤ ہم وہاں جا کر ان کی زبان میں اختلاف ڈالیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھ سکیں ۔ پس خداوند نے ان کو وہاں سے تمام روئے زمین میں پراگندہ کیا ۔ سو وہ اس شہر کے بنانے سے باز آئے ۔ اس لئے اس کا نام بابل ہوا کیونکہ خدا نے وہاں ساری زمین کی زبان میں اختلاف ڈالا اور وہاں سے خداوند نے ان کو تمام روئے زمین پر پراگندہ کیا۔ “ )
Top