Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Yunus : 98
فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ
فَلَوْلَا
: پس کیوں نہ
كَانَتْ
: ہوتی
قَرْيَةٌ
: کوئی بستی
اٰمَنَتْ
: کہ وہ ایمان لاتی
فَنَفَعَهَآ
: تو نفع دیتا اس کو
اِيْمَانُهَآ
: اس کا ایمان
اِلَّا
: مگر
قَوْمَ يُوْنُسَ
: قوم یونس
لَمَّآ
: جب
اٰمَنُوْا
: وہ ایمان لائے
كَشَفْنَا
: ہم نے اٹھا لیا
عَنْھُمْ
: ان سے
عَذَابَ
: عذاب
الْخِزْيِ
: رسوائی
فِي
: میں
الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا
: دنیا کی زندگی
وَمَتَّعْنٰھُمْ
: اور نفع پہنچایا انہیں
اِلٰى حِيْنٍ
: ایک مدت تک
پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لئے نفع بخش ثابت ہوا ہو ؟ یونس اور اس کی قوم کے سوا (اس کی کوئی نظیر نہیں) وہ قوم جب ایمان لے آئی تھی تو البتہ ہم نے اس پر دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیا تھا۔
فلولا کانت قریۃ امنت فنفعھا ایمانھا الا قوم یونس قوم یونس کے علاوہ کوئی اور ایسی بستی کیوں نہیں ہوئی کہ (مشاہدۂ عذاب کے بعد) وہ ایمان لائی ہو اور ایمان اس کیلئے مفید ہوا ہو۔ قریہ سے مراد ہیں قریہ والے ‘ یعنی ان بستیوں والے جن کو اللہ نے (تکذیب رسول کی سزا میں) تباہ کردیا۔ اٰمَنَتْ یعنی عذاب کا مشاہدہ کرنے سے پہلے ایمان لے آئی ہو اور فرعون کی طرح وقت موت پر ایمان کو نہ ٹالا ہو۔ ایمان کے مفید ہونے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ نے ان کا ایمان قبول کرلیا ہو (اور آیا ہوا عذاب ٹال دیا ہو) ۔ حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ اپنے بندہ کی توبہ قبول کرتا ہے جب تک غرغرہ نہ لگنے لگے۔ رواہ الترمذی وابن ماجہ وابن حبان والحاکم والبیہقی۔ حضرت ابو ذر کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ بلاشک اپنے بندہ کی مغفرت کردیتا ہے جب تک پردہ نہ پڑجائے۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! پردہ کیا۔ فرمایا : شرک کی حالت میں مرنا۔ رواہ احمد والبیہقی فی کتاب البعث والنشور لَوْلا حرف تحضیض (ابھارنا ‘ برانگیختہ کرنا) ہے۔ اس کے اندر نفی کا معنی ہے ‘ اسلئے الاَّ قَوْمَ یُوْنُسَاستثناء متصل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قوم یونس مستثنیٰ ہے۔ وہ عذاب (دنیوی) کا مشاہدہ کرنے کے وقت ایمان لائی اور اس کو اس ایمان نے فائدہ پہنچایا (ا اللہ نے اس کی توبہ قبول کرلی) آخرت کے عذاب سے محفوظ ہوگئی (لیکن قوم یونس غرغرہ کی حالت سے پہلے اور عذاب آخرت کے معائنہ سے قبل ایمان لائی تھی) ۔ لما امنوا جب وہ ایمان لے آئے ‘ یعنی اختیار کی حالت میں جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان کے ایمان کو قبول کرلیا۔ ابن مردویہ نے حضرت عائشہ کی روایت سے رسول اللہ (ﷺ) کا یہ فرمان اس آیت کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ جب وہ ایمان لے آئے تو انھوں نے دعا کی : کشفنا عنھم عذاب الخزی فی الحیوۃ الدنیا اور ہم نے دنیوی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے دور کردیا۔ ومتعنھم الی حین۔ اور ایک (معین مقرر) وقت تک (دنیا میں) ان کو بہرہ اندوز کردیا۔ مقرر وقت سے مراد وقت موت جس کا علم اللہ کو تھا۔ بغوی نے لکھا ہے : اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بستی ایسی نہیں ہوئی کہ عذاب کا مشاہدہ کرلینے کے بعد ایمان لائی ہو اور اس حالت میں اس کے ایمان نے اس کو فائدہ پہنچایا ہو ‘ سوائے قوم یونس کے۔ ان کو ایسے وقت میں ایمان لانے سے بھی فائدہ ہوا۔ اس جگہ علماء کے دو قول ہیں : ایک فریق کا قول ہے کہ قوم یونس نے عذاب کو آنکھوں سے اپنے سامنے دیکھ لیا تھا اور اس کے بعد ایمان لائے تھے۔ دوسرا فریق قائل ہے کہ عذاب کی علامت دیکھی تھی ‘ عذاب نہیں دیکھا تھا۔ اول قول اکثر اہل علم کا ہے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِاور عذاب کو دور کرنا وقوع کے بعد ہی ہوتا ہے۔ بغوی کے اس کلام کا مفاد یہ ہے کہ دنیوی عذاب آجانے کی حالت (جس کو بغوی نے حالت بأس کہا ہے) میں کسی کا ایمان قابل قبول نہیں۔ حالت بأس میں ایمان صرف قوم یونس کا قبول کیا گیا ‘ اس کے علاوہ کسی کا قبول نہیں کیا گیا۔ صحیح یہ ہے کہ آیت میں عذاب الیم سے وہ اخروی عذاب مراد ہے جو مرنے کے وقت ملائکۂ موت کی شکل میں مردہ کے سامنے آجاتا ہے۔ اس عذاب کو دیکھنے کے بعد ایمان لاناقابل قبول نہیں (دنیوی عذاب کو دیکھ کر ایمان لانا قابل قبول ہے) دیکھو ! بدر کے دن کافروں پر قتل و قید کی شکل میں دنیوی عذاب آیا اور اس جنگ سے جو کفار بچ گئے اور بعد کو ایمان لے آئے تو ان کا ایمان قبول بھی کیا گیا۔ قوم یونس کا بھی یہی حال ہوا۔ آخرت کے عذاب کو دیکھنے سے پہلے وہ لوگ ایمان لے آئے باوجودیکہ دنیوی عذاب انہوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا تھا اور دیکھنے کے بعد ایمان لائے تھے ‘ پھر بھی ان کا ایمان مقبول ہوا اور دنیوی زندگی میں رسوائی کا عذاب اللہ نے ان سے دور کردیا۔ رہا فرعون کے ایمان کا قبول نہ ہونا ‘ اس کی وجہ یا یہ تھی کہ وہ مرنے کے وقت غرغرہ کی حالت میں ایمان لایا تھا جو ناقابل قبول ہے ‘ یا یہ سبب تھا کہ زبان سے اس نے اگرچہ ایمان کا اظہار کیا تھا مگر (ا اللہ کو معلوم تھا کہ وہ) دل سے ایمان نہیں لایا تھا کیونکہ حضرت موسیٰ نے اس کیلئے بددعا کی تھی اور آپ کی بددعا قبول ہوئی تھی ‘ اسلئے فرعون دل سے ایمان لانے والا ہی نہ تھا۔ فرعون اور اس کی قوم کی عادت ہی ہوگئی تھی کہ جب ان پر کوئی عذاب پڑجاتا تھا تو کہتے تھے : موسیٰ ! اپنے رب سے اس عذاب کو ٹال دینے کی دعا کر دو ۔ اگر عذاب تم نے دور کرا دیا تو ہم تم پر ایمان لے آئیں گے اور تمہارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت دے دیں گے۔ لیکن جب اللہ عذاب کو ایک مدت مقرر کیلئے دور کردیتا تھا تو وہ عہد توڑ دیتے تھے اور وعدہ کے خلاف کرتے تھے۔ پس ممکن ہے کہ آخری مرتبہ بھی فرعون دل سے ایمان نہ لایا ہو ‘ صرف زبان سے اقرار کرلیا ہو۔ غرغرہ کی حالت میں ایمان قبول ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ سورة النساء کی آیت اِنَّمَا التَّوبَتَہ علی اللّٰہ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْءَ بِجَھَالَۃٍ الخ کی تفسیر کے ذیل میں ہم نے بیان کردیا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا قصّہ بغوی نے حضرت ابن مسعود اور حضرت سعید بن جبیر اور وہب بن منبہ وغیرہ کی روایات سے حسب ذیل بیان کیا ہے۔ قوم یونس نینوا علاقۂ موصل کی رہنے والی تھی۔ اللہ نے ان کی ہدایت کیلئے حضرت یونس کو مامور فرمایا۔ حضرت یونس نے ان کو ایمان کی دعوت دی مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اللہ کی طرف سے حضرت یونس کو حکم دیا گیا : ان سے کہہ دو کہ تین روز تک صبح کے وقت ان پر عذاب آئے گا۔ حضرت یونس نے اطلاع دے دی۔ قوم والوں نے کہا : تجربہ سے ثابت ہے کہ یہ شخص کبھی جھوٹ نہیں بولا ‘ اسلئے انتظار کرو اور دیکھو ! اگر یہ آج رات تمہارے ساتھ رہے تو سمجھ لو صبح کو کچھ نہیں ہوگا اور اگر رات کو تمہارے ساتھ نہ رہے تو سمجھ لو کہ صبح ........... کو عذاب ضرور آئے گا۔ وسط شب میں حضرت یونس قوم کے پاس سے باہر چلے گئے۔ صبح ہوئی تو لوگوں کے سروں سے ایک میل اوپر عذاب آگیا۔ وہب کا بیان ہے : عذاب ایک سیاہ گھٹا کی شکل میں سخت دھواں اڑاتا آگیا ‘ پھر نیچے اتر کر شہر پر چھا گیا جس سے گھروں کی چھتیں کالی ہوگئیں۔ یہ دیکھ کر لوگوں کو ہلاک ہوجانے کا یقین ہوگیا۔ حضرت یونس کو تلاش کیا تو ان کا بھی کہیں پتہ نہ چلا۔ آخر اللہ نے ان کے دلوں میں توبہ کرنے کا خیال ڈال دیا اور بڑے ‘ بچے ‘ عورت ‘ مرد اور چوپائے سب شہر کے باہر میدان میں جمع ہوگئے۔ سبھوں نے کمبل کا (فقیرانہ) لباس پہن لیا اور لگے توبہ کرنے اور صحیح نیت کے ساتھ ایمان کا اظہار کرنے۔ ہر ماں کو بچے سے علیحدہ کردیا گیا تھا یہاں تک کہ چوپایوں کے بچے بھی ماؤں سے جدا کر دئیے گئے تھے۔ اس علیحدگی کی وجہ سے آدمیوں اور جانوروں کے بچوں نے چیخنا شروع کردیا ‘ مائیں بھی (جذبۂ محبت کے زیر اثر) چیخنے لگیں (ایک کہرام مچ گیا) بیتابی سے سب چیخ پڑے اور اللہ کے سامنے گڑگڑائے۔ آخر اللہ نے رحم فرمایا ‘ دعا قبول فرمائی اور چھایا ہوا عذاب دور کردیا۔ یہ واقعہ 10 محرم کا تھا۔ ابن جریر ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابن المنذر اور ابو الشیخ نے قتادہ کا بیان نقل کیا ‘ قتادہ نے کہا : ہم سے کہا گیا کہ قوم یونس مقام نینوا علاقۂ موصل میں رہتی تھی۔ اس بیان میں اتنا زائد ہے کہ جب اللہ نے ان کے دلوں کی سچائی مشاہدہ فرما لی اور توبہ و ندامت جان لی تو عذاب دور کردیا حالانکہ عذاب ان کے سروں پر لٹک آیا تھا ‘ صرف ایک میل کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ ابن ابی حاتم نے حضرت علی کا بیان نقل کیا ہے کہ قوم یونس کی توبہ عاشورہ کے دن قبول ہوئی تھی۔ حضرت یونس قوم کی بستی سے باہر چلے گئے اور عذاب نازل ہونے اور قوم کے ہلاک ہونے کا انتظار کرتے رہے ‘ لیکن جب آپ نے عذاب آتا نہ دیکھا (اس زمانہ کا قومی ضابطہ تھا کہ) اگر کوئی شخص بلاثبوت جھوٹ بولتا تھا تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا۔ حضرت یونس نے کہا : میں نے قوم سے جھوٹی بات کہی (یعنی میرا جھوٹ ثابت ہوگیا) اب کیسے ان کے پاس لوٹ کر جاسکتا ہوں۔ یہ خیال کر کے قوم سے ناراض اور اپنے رب سے کشیدہ ہو کر چل دئیے۔ دریا پر پہنچے تو کچھ لوگ کشتی میں سوار ہو رہے تھے۔ لوگوں نے پہچان لیا اور بلا کرایہ سوار کرلیا۔ کشتی جب آپ کو لے کر بیچ سمندر میں پہنچی تو رک گئی ‘ نہ آگے بڑھ سکتی تھی نہ پیچھے ہٹ سکتی تھی۔ کشتی والوں نے کہا : کشتی کے اڑ جانے کی کوئی خاص وجہ ہے۔ حضرت یونس نے کہا : مجھے اس کی وجہ معلوم ہے ‘ اس میں کوئی بڑا گناہگار سوار ہے۔ لوگوں نے کہا : وہ کون ہے ؟ حضرت یونس نے کہا : میں ہوں ‘ مجھے دریا میں پھینک دو ۔ لوگوں نے کہا : جب تک ہمارے نزدیک کوئی خاص وجہ نہ ہو ‘ ہم تو آپ کو پھینکنے والے نہیں۔ آخر قرعہ اندازی کی اور تین بار حضرت یونس ہی کا نام قرعہ میں نکلا۔ حضرت یونس نے فرمایا : یا تو تم مجھے پانی میں پھینک دو ورنہ سب ہلاک ہوجاؤ گے۔ مجبوراً کشتی والوں نے آپ کو پھینک دیا۔ پھینکتے ہی کشتی روانہ ہوگئی۔ کشتی کے نچلے حصہ کے پاس ایک مچھلی منہ کھولے اللہ کے حکم کی منتظر تھی۔ جونہی حضرت یونس پانی میں گرے ‘ مچھلی نے اپنے منہ میں لے لیا۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ اللہ نے ایک بڑی مچھلی کو حکم دیا ‘ اس نے کشتی کی طرف رخ کیا۔ کشتی والوں نے جو اس کو منہ کھولے ہوئے کشتی کی طرف رخ کئے ہوئے دیکھا جو بڑے پہاڑ جیسی تھی تو انہوں نے محسوس کیا کہ وہ کشتی کے اندر کسی کی جستجو کر رہی ہے۔ حضرت یونس نے یہ دیکھتے ہی پانی میں چھلانگ لگا دی (اور مچھلی نے ان کو پکڑ لیا) ۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ حضرت یونس اپنی قوم سے ناراض ہو کر نکل کھڑے ہوئے اور بحر روم پر پہنچے۔ وہاں ایک کشتی مسافروں سے بھری کھڑی تھی۔ آپ اس میں سوار ہوگئے۔ جب کشتی روانہ ہو کر وسط میں پہنچی تو رک کر کھڑی ہوگئی۔ قریب تھا کہ سب لوگ ڈوب جائیں ‘ ملاح بولے : ہماری کشتی میں کوئی گناہگار آدمی یا بھاگا ہوا غلام سوار ہوگیا ہے جس کی وجہ سے کشتی اڑ گئی ہے۔ ہمارا طریقہ ہے کہ ایسے موقع پر قرعہ اندازی کرتے ہیں۔ جس کے نام پر قرعہ نکل آتا ہے ‘ اس کو سمندر میں پھینک دیتے ہیں (کشتی چل نکلتی ہے) ایک آدمی کو ڈبو دینا تو پوری کشتی کے مع سواریوں کے ڈوب جانے سے بہتر ہوتا ہے۔ چناچہ لوگوں نے تین بار قرعہ ڈالا ‘ ہر بار حضرت یونس کے نام پر نکلا۔ حضرت یونس فوراً کھڑے ہوئے اور بولے : میں ہی گناہگار آدمی اور بھاگا ہوا غلام ہوں۔ اس کے بعد آپ نے خود اپنے کو پانی میں پھینک دیا۔ فوراً ایک مچھلی نے نگل لیا ‘ پھر اس مچھلی سے بڑی مچھلی نے آکر اس مچھلی کو نگل لیا۔ اللہ نے مچھلی کو حکم دیا کہ یونس کو بال برابر تکلیف نہ ہونے پائے۔ میں نے تیرے پیٹ کو اس کیلئے قید خانہ بنایا ہے ‘ اس کو تیری غذا نہیں بنایا۔ حضرت ابن عباس کی روایت میں آیا ہے کہ مچھلی کو ندا دی گئی کہ ہم نے یونس کو تیری روزی نہیں بنایا بلکہ تیرے پیٹ کو اس کی حفاظت کا مقام اور عبادت خانہ بنایا ہے۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ قرعہ ڈالنے سے پہلے ہی حضرت یونس کھڑے ہوگئے اور فرمایا : میں ہی گنہگار ‘ بھاگا ہوا غلام ہوں۔ کشتی والوں نے پوچھا : تم کون ہو ؟ فرمایا : یونس بن متی۔ لوگ پہچان گئے اور بولے : اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کو نہیں پھینکیں گے بلکہ قرعہ اندازی کریں گے۔ قرعہ اندازی کی گئی اور حضرت یونس کے نام کا قرعہ نکل آیا اور آپ نے خود اپنے آپ کو پانی میں پھینک دیا۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : جس مچھلی نے آپ کو نگلا تھا ‘ وہ آپ کو ساتویں زمین کی گہرائی میں لے گئی اور چالیس رات تک آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ وہاں آپ نے سنگریزوں کے تسبیح کرنے کی آواز سنی تو تاریکیوں میں ہی پکار اٹھے : لاَ اِلٰہَ الاَّ اَنْتَ سُبْحْانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ اللہ نے آپ کی دعا قبول فرما لی اور بحکم خداوندی مچھلی نے لا کر آپ کو سمندر کے کنارے پھینک دیا۔ اس وقت آپ کی ہیئت ایسی تھی جیسے پرو بال نوچا ہو اچوزہ۔ اللہ نے فوراً کدو کا درخت پیدا کردیا جس کے سایہ میں آپ نے آرام لیا اور ایک پہاڑی بکری یا پاڑی کو مامور کردیا ‘ آپ اس کا دودھ پیتے رہے۔ جب درخت سوکھ گیا تو آپ درخت پر رو دئیے۔ اللہ نے وحی بھیجی : تو ایک درخت کے خشک ہوجانے پر تو رو دیا اور ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ آدمیوں پر نہیں رویا اور ان کو ہلاک کروا دینا چاہا۔ یہاں سے حضرت یونس چل دئیے اور ایک غلام سے ملاقات ہوئی جو جانور چرا رہا تھا ‘ اس سے پوچھا : غلام ! تو کون ہے ؟ اس نے کہا : یونس کی قوم کا ہوں۔ حضرت نے فرمایا : جب تو اپنی قوم والوں سے جا کر ملے تو ان سے کہہ دینا کہ میری ملاقات یونس سے ہوئی تھی۔ غلام نے کہا : آپ واقف ہیں کہ اگر میرے پاس گواہ نہ ہوں گے تو (مجھے جھوٹی اطلاع دینے پر) قتل کردیا جائے گا۔ حضرت یونس نے فرمایا : یہ زمین کا ٹکڑا اور یہ درخت تیری گواہی دے گا۔ غلام نے کہا : تو شہادت دینے کا ان کو حکم دے دیجئے۔ حضرت یونس نے فرمایا : جب یہ غلام تمہارے پاس آئے تو تم دونوں اس کی گواہی دینا۔ زمین اور درخت نے کہا : بہت اچھا۔ اس غلام نے جا کر اپنے بادشاہ کو اطلاع دے دی کہ حضرت یونس سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ بادشاہ نے غلام کو قتل کردینے کا حکم دے دیا۔ غلام نے کہا : میرے پاس (اس بات کی سچائی کے) گواہ ہیں ‘ میرے ساتھ کسی کو بھیجو۔ غرض غلام لوگوں کو ساتھ لے کر اس جگہ اور اس درخت کے پاس پہنچا اور کہا : میں تم دونوں کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا حضرت یونس نے تم دونوں کو گواہ بنایا تھا ؟ دونوں نے کہا : ہاں۔ یہ سنتے ہی لوگ خوفزدہ ہو کر لوٹ آئے اور بادشاہ سے آ کر کہہ دیا کہ درخت اور زمین نے اس غلام کی گواہی دی۔ بادشاہ نے غلام کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اپنی جگہ بٹھا دیا اور کہا : تو اس جگہ کا مجھ سے زیادہ حقدار ہے۔ غلام نے ان لوگوں کا انتظام چالیس سال تک کیا۔
Top