Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Fi-Zilal-al-Quran - Ibrahim : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ
الٓرٰ
: الف لام را
كِتٰبٌ
: ایک کتاب
اَنْزَلْنٰهُ
: ہم نے اس کو اتارا
اِلَيْكَ
: تمہاری طرف
لِتُخْرِجَ
: تاکہ تم نکالو
النَّاسَ
: لوگ
مِنَ الظُّلُمٰتِ
: اندھیروں سے
اِلَي النُّوْرِ
: نور کی طرف
بِاِذْنِ
: حکم سے
رَبِّھِمْ
: ان کا رب
اِلٰي
: طرف
صِرَاطِ
: راستہ
الْعَزِيْزِ
: زبردست
الْحَمِيْدِ
: خوبیوں والا
ا۔ ل۔ ر۔ اے محمد ﷺ ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے ، اس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے
اب پہلے سورة کا حصہ اول۔ درس نمبر 114 تشریح آیات 1۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ 27 آیت نمبر 1 تا 4 الر کتب انزلنہ الیک (14 : 1) “ اے محمد یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے ”۔ یہ کتاب الف ، لام اور میم اور ان جیسے دوسرے حروف کی ترکیب سے بنائی گئی ہے۔ یہ تمہاری طرف ہم نے نازل کی ہے ، کسی اور نے تمہاری طرف اسے نہیں اتارا۔ نہ تم نے خود اس کی تخلیق کی ہے۔ اور اسے کیوں اتارا گیا ہے۔ لتخرج الناس من الظلمت الی النور (14 : 1) “ تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لاؤ ”۔ تم پوری انسانیت کو ظلمات سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ۔ تم پوری انسانیت کو ظلمات سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ۔ اوہام و خرافات کی تاریکیاں ، رسوم تقالید کی تاریکیاں ، ارباب متفرقہ کی بندگی اور کشاکش اور حیرت کی تاریکیاں ، جاہلی اقدار اور پیمانوں اور جاہلی خیالات و تصورات کی تاریکیوں سے تم انسانیت نکالو اور قرآن کی روشنی میں داخل کر دو ۔ ایسی روشنی جو فی الحقیقت ان تمام تاریکیوں کو دور کر دے۔ وہ عالم ضمیر کو روشن کر دے اور میدان فکر و نظر میں اجالا برپا کردے۔ زندگی کی عملی راہوں میں اور زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور اعلیٰ افکار میں اجالا برپا کر دے۔ اللہ پر ایمان لانا ایک نور ہے جس سے دل روشن ہوجاتا ہے اور جس کا دل روشن ہوجائے اس کی پوری شخصیت اور اس کا بشری ڈھانچہ بھی منور ہوجاتا ہے اور انسانی شخصیت کے دونوں پہلو ، مٹی اور روح اللہ دونوں روشن ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب انسانی شخصیت اس روشنی سے خالی ہوجائے اور جس کے اندر سے یہ چراغ بجھ جائے تو پھر انسان تاریک مٹی کا ایک ڈھیر ہوتا ہے اور خون اور گوشت کی شکل میں ایک کیچڑ ہوتا ہے۔ کیونکہ گوشت اور خون پوری طرح زمین کے مادی عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اگر یہ نور نہ ہو جو روح اللہ سے پھوٹتا ہے اور اس کے اندر ایمان اپنی شفاف صیقل شدہ صورت میں موجود ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے یہ سیاہ مادہ شفاف اور چمکدار ہوجاتا ہے اور پھر یہ سیاہ کیچڑ ایک شفاف شیشہ ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان باللہ ایک ایسا نور ہے جس کے ساتھ نفس انسانی چمک اٹھتا ہے۔ اس کی روشنی میں انسان اپنی راہ متعین کرسکتا ہے۔ اسے اللہ کی طرف راہ بالکل واضح نظر آتی ہے۔ اس راہ میں نہ دھند ہوتی ہے اور نہ غبار۔ اوہام و خرافات کا غبار ، لالچ اور خواہشات کا غبار اور جب نفس انسانی راہ دیکھ لے اور صاف صاف نظر آنے لگے تو پھر ایسی راہ میں کوئی ٹھوکر اور کوئی اضطراب نہیں ہوتا اور نہ اس میں کوئی تردد ہوتا ہے اور نہ کوئی حیرانگی ہوتی ہے۔ پھر اللہ پر پختہ ایمان ایک ایسا نور ہے جس سے پوری زندگی چمک اٹھتی ہے۔ تمام لوگ اللہ کے مساوی بندے ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان ربط اور رشتہ خدائی رشتہ ہوتا ہے۔ وہ صرف اللہ کی اطاعت اور بندگی کرتے ہیں۔ اب ان میں آقا اور غلام کی تقسیم نہیں ہوتی۔ ان کو اس پوری کائنات کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ اس پوری کائنات سے بھی جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ پوری کائنات ایک ناموس الٰہی اور قانون قدرت کے ساتھ چلتی ہے اس لیے وہ اس پوری کائنات ، اس کے اندر موجود پوری مخلوقات کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں اس لیے کہ سب کے سب اللہ کے مخلوق ہیں۔ پھر ایمان ایک نور ہے ، انصاف کی روشنی ہے ، آزادی کی روشنی ہے۔ علم و معرفت کی روشنی ہے ، اللہ کے لئے محبت کی روشنی ہے۔ اللہ کے عدل ، حکمت اور رحمت پر اعتماد کی روشنی ہے۔ خواہ مشکلات ہوں یا مسرتیں ہوں یہ ایمان مشکلات میں صبر پر آمادہ کرتا ہے اور مسرتوں میں شکر رب کی تعلیم دینا ہے اور آزمائش میں حکمت و تجربہ عطا کرتا ہے۔ صرف اللہ پر ایمان کہ وہی الٰہ اور رب ہے ، یہ ایمان ایک نظام زندگی بھی ہے۔ فقط عقیدہ اور تصور ہی نہیں ہے جو دل کو روشن کرتا ہے۔ یہ نظام زندگی صرف اللہ کی بندگی کے اصول پر قائم ہے۔ جس میں صرف اللہ کی ربوبیت کا عقیدہ ہوتا ہے۔ اور تمام دوسری ربوبیتوں کا افکار ہوتا ہے ، جس کے اندر برتری زیبا فقط اس ذات بےہمتا کو ہوتی ہے ۔ وہی حاکم ہوتا ہے اور سب اس کے بندے ہوتے ہیں۔ اس نظام زندگی میں انسانی فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ہے ، اس میں انسان کی ضروری اور لابدی حاجات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ ایسی حاجات جو انسان کو سعادت سے ہمکنار کرتی ہیں۔ اس کو نور اطمینان دیتی ہے اور اسے خوشی اور مسرت عطا کرتی ہیں۔ اس نظام میں قرار و ثبات بھی موجود ہے اور جو معاشرے اللہ کے سوا دوسرے انسانوں کی بندگی کرتے ہیں۔ ان میں جو تغیرات ، انقلابات اور حیرانیاں اور پریشانیاں ہوتی ہے ان سے اس میں انسان محفوظ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا حاکم نہیں ہوتا۔ سیاست میں حکومت میں ، معاشیات میں اور سوسائٹی کے اجتماعی روابط اور رسم و رواج میں کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا غلام نہیں ہوتا۔ اس نظام میں انسانوں کی قوتیں اس کام میں صرف نہیں ہوتیں کہ وہ دوسرے انسانوں کو غلام بتائیں اور نہ اس نظام میں کوئی شخص کسی طاغوتی قوت کا طبلچی ہوتا ہے۔ اس مختصر جملے لتخرج الناس من الظلمت الی النور (14 : 1) “ کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالو ” کے پیچھے معانی و مفہومات کے جہاں پوشیدہ ہیں بڑے بڑے حقائق یہاں ہیں اور قلب و نظر کی گہری سوچ کے نتیجے میں وہ نظر آسکتے ہیں۔ اسلامی نظام زندگی کے قیام کے بعد ہی وہ آفاق نظر آسکتے ہیں۔ صرف انسانی الفاظ ان وسیع معانی کے بیان کے لئے کافی نہیں ہے۔ لتخرج الناس من الظلمت الی النور باذن ربھم (14 : 1) “ تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لاؤ ان کے رب کے حکم سے ”۔ اللہ کے حکم سے اور اذن ہی سے تم یہ کام کرسکتے ہو کیونکہ رسول کا کام تو صرف یہ ہے کہ وہ پیغام پہنچائے۔ اس کی ڈیوٹی صرف بیان ہے۔ رہا لوگوں کا تاریکیوں سے روشنی میں آنا تو یہ صرف اللہ کے فضل و کرم اور اس کے حکم اور اذن سے ہو سکتا ہے اور یہ کام اس سنت کے مطابق ہوتا ہے جو اللہ کی مشیت کے مطابق کام کرتی ہے۔ رسول تو فقط رسول ہوتا ہے۔ الی صراط العزیز الحمید (14 : 1) “ اس خدا کے راستے کی طرف جو زبردست اور اپنی ذات میں محمود ہے ”۔ نحو کے اعتبار سے صراط نور کا بدل ہے ، اور اللہ کی راہ اللہ کا طریقہ ہے۔ اللہ کی سنت ہے ، اس کا وہ ناموس ہے جو اس پوری کائنات پر حکمران ہے ، اس کی راہ اس کی وہ شریعت ہے جو زندگی پر حاوی کرنے کے لئے بھیجی گئی ہے اور ایمان کی روشنی اور نور اسی شریعت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ بلکہ یہ نور بذات خود یہ صراط اور شریعت ہے۔ انسانی نفس کے اندر جو ایمانی نور چمکتا ہے وہی نور اس پوری کائنات کے اندر بھی چمکتا ہے۔ یہ سنت الٰہیہ ہے ، ناموس فطرت ہے اور وہی شریعت ہے جو نفس اس نور سے منور ہو وہ ادراک اور تصور میں غلطی کا ارتکاب نہیں کرتا۔ طرز عمل اور طریقہ زندگی میں بھی وہ غلطی نہیں کرتا۔ یہی صراط مستقیم ہے۔ عزیز وحمید کی راہ یہی ہے اور یہ عزیز قوت قاہرہ کا مالک ہے ، اور اپنی ذات میں محمود اور پوری کائنات پر قابض ہے۔ یہاں اللہ کی قوت کا اظہار اس لیے کیا گیا ہے کہ کفار سن کر ذرا خائف ہوجائیں اور حمید اس لیے کہا گیا کہ اہل شکر اس کی حمد و ثنا کر کے اس کا شکر ادا کریں۔ اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ وہ زمین و آسمان کا مالک اور حاکم بھی ہے۔ وہ لوگوں کا محتاج نہیں ہے وہ تو اس پوری کائنات کو اپنے قبضہ قدرت میں رکھتا ہے۔ اللہ الذی لہ ما فی السموت وما فی الارض (14 : 2) “ اور زمین و آسمان کی ساری موجودات کا مالک ہے ”۔ جو شخص اندھیروں سے نکل کر نور میں آگیا اور اس نے راہ ہدایت پالی تو اس کے بارے میں یہاں خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ یہاں ان لوگوں کو دھمکی دی جاتی ہے جو روشنی میں آنے سے انکار کرتے ہیں۔ کافروں کو عذاب شدید سے ڈرایا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اس نعمت سے استفادہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ نے رسول بھیجا ، اسے ایک کتاب دی تا کہ وہ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں داخل کرے۔ یہ اس قدر عظیم نعمت ہے کہ کوئی انسان اس نعمت عظمیٰ کا شکر ہی ادا نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر کوئی الٹا اس نعمت کی ناشکری کرے تو پھر کہا : وویل للکفرین من عذاب شدید (14 : 2) “ اور سخت تباہ کن سزا ہے قبول حق سے انکار کرنے والوں کے لئے ” ۔ یہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ صفت کیا ہے جس سے اس نعمت کی نا شکری اور کفر ہوتا ہے جو رسول کریم لے کر آئے ہیں۔ وہ صفت یہ ہے۔ الذین یستحبون ۔۔۔۔۔ فی ضلل بعید (14 : 3) “ جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ، جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (ان کی خواہشات کے مطابق) ٹیڑھا ہوجائے ، یہ لوگ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں “۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی محبت ایمان کے تقاضوں کے ساتھ متصادم ہے اور صراط مستقیم پر استقامت کے خلاف ہے اور جب کوئی دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دے تو صورت یہ نہیں رہتی۔ آخرت کو ترجیح دینے سے دنیا میں بھی اعتدال پیدا ہوتا ہے اور دنیا میں خدا کا خوف پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا آخرت کی محبت اور ترجیح سے ترک دنیا لازم نہیں آتا۔ واقعہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے دل آخرت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ دنیا کے میدان میں بھی خسارے میں نہیں ہوتے۔ یہ بات ان لوگوں کے ذہن میں آتی ہے جن کی فکر جاوۂ اعتدال سے منحرف ہو۔ اسلام میں آخرت کو ترجیح دینے کا تصور بھی دراصل دنیا ہی کی اصلاح کے لئے ہے۔ ایمان باللہ کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ فریضہ خلافت ارضی کو بحسن و خوبی سر انجام دیا جائے۔ حق خلافت ارضی میں یہ بھی داخل ہے کہ زمین کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی کی جائے اور اس کے اندر موجود خزانوں سے استفادہ کیا جائے۔ اسلام میں یہ تصور نہیں ہے کہ آخرت کے فائدے کے لئے دنیا کے نظام کو معطل کردیا جائے بلکہ سچائی ، انصاف ، راستی اور خدا کی رضا مندی کی خاطر زندگی کی تعمیر و ترقی ہی دراصل تمہید ہے ، آخرت کی ترقی کے لئے۔ یہ اسلام کی پالیسی ہے کہ دنیا میں بھی حسنہ ہو اور آخرت میں بھی حسنہ۔ پھر وہ لوگ کون ہیں جو دنیا کو آخرت کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نور ایمان کی روشنی میں اپنے مذموم مقاصد تک نہیں پہنچ سکتے ، وہ زمین کے قدرتی و مسائل پر تب ہی فیصلہ کرسکتے ہیں ، وہ حرام تب ہی کما سکتے ہیں ، وہ لوگوں کا استحصال تب ہی کرسکتے ہیں اور لوگوں کی اجتماع دولت کو تب ہی لوٹ سکتے ہیں جب وہ نور ایمان کے دائرے سے نکل جائیں اور اللہ کے دین کی طرف ہدایت اور اس پر استقامت سے محروم ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے دنیا پر ست لوگوں کو بھی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور خود بھی اللہ کے راستے پر نہیں چلتے بلکہ وہ اللہ کے دین اور شریعت کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی سعی کرتے ہیں۔ دین سے استقامت اور عدالت کو معیشت سے عدل کو نکالنا چاہتے ہیں۔ جب یہ لوگ اپنے آپ کو اور دوسرے عوام الناس کو اللہ کی راہ سے روک لینے میں ، کامیاب ہوجاتے ہیں اور جب وہ اسلام کی عدالت اور استقامت سے دامن چھڑا لیتے ہیں ، تب جا کر ایسے لوگ ظلم کرسکتے ، سرکشی کرسکتے ، دھوکہ دے سکتے ، اور لوگوں کو فساد پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح وہ پھر زمین کے وسائل پر قابض ہوجاتے ہیں ، حرام کماتے ہیں ، ذلیل اور غیر اخلاقی ذرائع سے دولت جمع کرتے ہیں۔ پھر یہ زمین میں سرکشی اور علو فی الارض اختیار کرتے ہیں۔ لوگوں کو غلام بناتے ہیں اور لوگوں کو اس قدر کمزور کردیتے ہیں کہ ان میں مقابلے یا احتجاج کی سکت بھی نہیں رہتی۔ یہ واقعہ ہے کہ ایمانی نظام زندگی ہی دراصل زندگی ، حرمت اور معاشی انصاف کا ضامن ہے اور یہی اس بات کی بھی ضمانت ہے کہ اس میں ان لوگوں کا اثرو رسوخ ختم ہوگا جو وسائل ارضی پر قابض ہونا چاہتے ہیں یا وہ آخرت کے مقابلے میں دنیا پرستی کو رواج دینا چاہتے ہیں۔ وما ارسلنا من ۔۔۔۔۔۔ لھم (14 : 4) ” اور ہم نے اپنا پیغام دینے کے لئے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تا کہ وہ اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے “۔ یہ انسانوں کے لئے ہر نبی کی نبوت میں ایک بڑی نعمت رہی ہے کہ رسول ان کی زبان ہی کا بھیجا ہے تا کہ وہ لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف بڑی سہولت سے نکال سکے اور اس بات کی ضرورت بھی تھی کہ وہ اہل لسان ہوتا کہ وہ بیان کرے اور یہ سمجھیں اور مقصد پورا ہو۔ رسول اللہ ﷺ کو بھی ان کی قوم کی زبان میں رسول بنا کر بھیجا گیا ۔ اگرچہ آپ پوری انسانیت کے لئے رسول تھے کیونکہ آپ کی قوم کے ذمہ یہ فریضہ عائد کردیا گیا تھا کہ اب پوری انسانیت تک عربوں کا فرض ہے کہ وہ اس پیغام کو پہچانیں۔ رسول اللہ ﷺ کی عمر تو محدود تھی۔ آپ کے ذمہ یہ فریضہ عائد کیا گیا کہ آپ سب سے پہلے جزیرۃ العرب کو جاہلیت سے پاک کردیں اور اسلام کو وہاں غالب کردیں تا کہ وہ مرکز اور سرچشمہ ہو اور آپ کی رسالت اور پیغام کو پھر امت کے لوگ دور دراز تک پہنچائیں اور عملاً ایسا ہی ہوا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے جزیرۃ العرب میں اسلام کو غالب کردیا تو اللہ نے آپ ؐ کو اس جہاں سے اٹھا لیا لیکن خود آپ نے جیش اسامہ کو جزیرۃ العرب کے اطراف کے لئے تیار کر کے بھیج دیا تھا۔ یہ لشکر ابھی نکلا نہ تھا کہ حضور ﷺ وفات پاگئے۔ اس سے قبل رسول اللہ ﷺ نے جزیرۃ العرب سے باہر دوسرے ممالک تک اپنے دعوتی خطوط ارسال کر دئیے تھے۔ یہ خطوط آپ ؐ نے اس لیے بھیجے تھے کہ لوگ دیکھ لیں کہ آپ کی رسالت تمام انسانوں کے لئے ہے۔ لیکن اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے لئے صرف یہی فریضہ مقرر کیا تھا اور مختصر عمر انسانی میں ایک انسان صرف یہی کرسکتا ہے کہ آپ جزیرۃ العرب میں عربی زبان میں تبلیغ کا کام کریں اور اس کے بعد پوری دنیا تک تبلیغ رسالت کا کام بعد میں دعوت اسلامی کے حاملیں کریں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا لہٰذا اس بات میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پوری انسانیت کے لئے تھی اور خود آپ ؐ نے اپنی قومی زبان میں کام کرنا تھا اور اپنی زندگی میں عملاً عربوں ہی میں کام کرنا تھا۔ فیضل اللہ ۔۔۔۔۔ العزیز الحکیم (14 : 4) ” پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، ہدایت بخشتا ہے ، وہ بالادست اور حکیم ہے “۔ ہر رسول اور نبی آخر الزمان کی رسالت کا فریضہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنا پیغام پہنچا دے۔ رہی یہ بات کہ کوئی ہدایت کی راہ لیتا ہے یا نہیں ، تو یہ کام تو کسی رسول کی قدرت میں نہیں ہے۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ کسی کو ہدایت دے یا گمراہ کر دے۔ خود رسول کی خواہش بھی اس سلسلے میں ضروری نہیں ہے کہ پوری ہو۔ یہ شان الٰہی ہے ۔ اللہ نے اس کے لئے اس کائنات میں ایک سنت وضع کر رکھی ہے۔ یہ سنت اللہ کی مشیت کے مطابق چلتی ہے۔ جو شخص گمراہی کے مقدمات اختیار کرتا ہے اور گمراہی کی راہ لیتا ہے تو وہ گمراہ ہوجاتا ہے اور جو شخص ہدایت کے مقدمات اختیار کرتا ہے اور ہدایت کی راہیں اپناتا ہے تو وہ اہل ہدایت میں سے ہوجاتا ہے۔ یہ سب کام اللہ کی مشیت کے مطابق اور تابع ہوتے ہیں۔ اور انسان کے لئے یہی سنت اللہ نے وضع کی۔ وھو العزیز الحکیم (14 : 4) ” وہ بالادست اور حکیم ہے “۔ وہ اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ جس طرح اس کی مشیت ہو اس کے مطابق لوگوں کی زندگی پھرجائے اور وہ یہ تصرف اپنی حکمت اور اپنی تقدیر سے کرتا ہے ۔ اللہ نے تمام معاملات اپنے کنٹرول میں لے رکھے ہیں۔ اس کی مملکت میں واقعات اتفاقاً ، بغیر کسی سبب اور بغیر کسی تدبیر کے رونما نہیں ہوتے۔
Top