Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 16
وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗۤا اِلَى الْكَهْفِ یَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یُهَیِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا
وَاِذِ : اور جب اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ : تم نے ان سے کنارہ کرلیا وَ : اور مَا يَعْبُدُوْنَ : جو وہ پوجتے ہیں اِلَّا اللّٰهَ : اللہ کے سوا فَاْوٗٓا : تو پناہ لو اِلَى : طرف میں الْكَهْفِ : غار يَنْشُرْ لَكُمْ : پھیلادے گا تمہیں رَبُّكُمْ : تمہارا رب مِّنْ : سے رَّحْمَتِهٖ : اپنی رحمت وَيُهَيِّئْ : مہیا کرے گا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے اَمْرِكُمْ : تمہارے کام مِّرْفَقًا : سہولت
اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبود ان غیر اللہ سے بےتعلق ہوچکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔ تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لئے سروسامان مہیا کر دے گا۔
واذا اعتزلتموھم و مایعبدون الا اللہ فاو وآ الی الکھف ینشرلکم ربکم من رحمتہ ویھیمی لکم من امرکم مرفقاً (81 : 61) ” اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبود ان غیر اللہ سے بےتعلق ہوچکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو ، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا امن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لئے سرو سامان مہیا کرے گا۔ “ یہاں حقیقی مومن دلوں کی اصل حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ یہ نوجوان اپنی قوم کو چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے ہیں۔ یہ اپنے علاقے کو چھوڑ رہے ہیں۔ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ رہے ہیں ، گھروں اور کاروبار اور کرہ ارض اور اس دنیا کی زیب وزینت کو چھوڑ رہے ہیں۔ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ رہے ہیں ، گھروں اور کاروبار اور کرہ ارض اور اس دنیا کی زیب وزینت کو چھوڑ رہے ہیں اور یہ لوگ کہاں پناہ لے رہے ہیں ؟ ایک کرخت پتھریلی جگہ اور تاریک غار میں۔ لیکن یہاں رحمت خداوندی ہے اور اس رحمت میں وہ خوش ہیں۔ اس تاریک غار میں انہیں اللہ کی رحمت سے رضا مندی نہایت وسیع نظر آتی ہے۔ ینشرلکم ربکم من رحمتہ (81 : 61) ” تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن پھیلا دے گا۔ “ ینشر کا لفظ کشادگی ، وسعت اور خوشی اور مسرت کا اظہار کر رہا ہے۔ یہ تاریک غار ان کے لئے ایک کھلا میدان ہے اور کھلی فضا ہے۔ طویل و عریض میدان ہے اور اس میں رحمت خداوندی کی چھائوں ہے اور یہاں وہ نہایت ہی خوشحالی ، آرام اور سکون محسوس کرتے ہیں۔ جب اللہ کی رحمت ہو تو نہایت ہی تنگ جگہ ایک وسیع میدان نظر آتی ہے اور ان کی اونچی اونچی دیواریں کر جاتی ہیں اور تنہائی اور وحشت کے غبار چھٹ جاتے ہیں۔ رحمت خداوندی شفقت اور خوشی اور سہولت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ اس ظاہری دنیا کی قدر وق یمت کیا ہے ؟ اور دنیاوی زندگی کی ان اقدار کی کیا قیمت جن سے لوگ اس زندگی میں متعارف ہوچکے ہیں ؟ اور ان کے عادی ہوچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی دنیا ایک دوسری دنیا ہے۔ اس دنیا کے ساز و سامان کچھ اور ہیں۔ اس دنیا میں ایک مومن رحمٰن کے ساتھ ، انس و محبت کے ساتھ ، اللہ کے سایہ میں اللہ کی رضا مندی ، محبت اور اطمینان کے وسیع سائے میں زندگی بسر کرتا ہے ۔ اب اس منظر سے پردہ گرتا ہے اور جب پردہ اٹھتا ہے تو ایک دوسرا منظر ہمارے سامنے ہے۔ یہ نوجوان ہیں یہ اس غار میں نہایت ہی اطمینان سے گہری نیند میں ڈوبے ہوئے آرام کر رہے ہیں۔
Top