Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 21
وَ كَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیْهَا١ۗۚ اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْهِمْ بُنْیَانًا١ؕ رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰۤى اَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَّسْجِدًا
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح اَعْثَرْنَا : ہم نے خبردار کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر لِيَعْلَمُوْٓا :تا کہ وہ جان لیں اَنَّ : کہ وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّاَنَّ : اور یہ کہ السَّاعَةَ : قیامت لَا رَيْبَ : کوئی شک نہیں فِيْهَا : اس میں اِذْ : جب يَتَنَازَعُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے بَيْنَهُمْ : آپس میں اَمْرَهُمْ : ان کا معاملہ فَقَالُوا : تو انہوں نے کہا ابْنُوْا : بناؤ عَلَيْهِمْ : ان پر بُنْيَانًا : ایک عمارت رَبُّهُمْ : ان کا رب اَعْلَمُ بِهِمْ : خوب جانتا ہے انہیں قَالَ : کہا الَّذِيْنَ غَلَبُوْا : وہ لوگ جو غالب تھے عَلٰٓي : پر اَمْرِهِمْ : اپنے کام لَنَتَّخِذَنَّ : ہم ضرور بنائیں گے عَلَيْهِمْ : ان پر مَّسْجِدًا : ایک مسجد
اس طرح ہم نے اہل شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بیشک آکر رہے گی (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اس وقت وہ آپس میں اس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ ان (اصحاب کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا ” ان پر ایک دیوار چن دو ، ان کا رب ہی ان کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے “ مگر جو لوگ ان کے معاملات پر غالب تھے انہوں نے کہا ” ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے۔
اس واقعہ سے قرآن مجید کے پیش نظر کیا نتیجہ نکالنا مقصود ہے ؟ یہ کہ بعث بعد الموت کے لئے یہ واقعہ ایک قریب انفہم اور محسوس نمونہ ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ موجودہ انسانی ڈھانچے کو بھی صدیوں تک زندہ رکھ سکتا ہے اور دوبارہ بھی اٹھا سکتا ہے اور قیام قیامت اور بعث بعد الموت حق ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ یوں اللہ نے ان نوجوانوں کو ان کی نیند سے جگایا اور ان کی قوم کو بتایا کہ صدیوں تک یہ لوگ یونہی پڑے تھے۔ اب بعض لوگوں نے کہا بعض لوگوں نے کہا ان پر دیوار چن دو کیونکہ ان کے عقائد کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں ہے۔ ان کا رب ان کے معاملے کو بہتر جانتا ہے یعنی ان کے عقائد اور ان کی پوزیشن کے بارے میں لیکن اس وقت اصحاب حل و عقد نے کہا ’ ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے “ مسجد سے مقصد یہاں عبادت گاہ ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ کا طریقہ تھا کہ و انبیاء اور اولیاء کی قبروں کے قریب عبادت گاہ بنا دیتے تھے۔ جس طرح آج مسلمانوں میں سے جو لوگ نبی ﷺ کے طریقہ کار کو چھوڑ کر ، صلحاء کی قبروں کے ساتھ مساجد اور گنبد بناتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پ جنہوں نے اپنے نبیوں اور صالحین کی قبروں سے عبادت گاہ بنا دی “ اب اس منظر پر بھی پردہ گرتا ہے اور جب پردہ اٹھتا ہے تو اصحاب کہف کے بارے میں اب تاریخی مباحث شروع ہیں ، جیسا کہ لوگوں کی عادت ہوتی ہے۔ لوگ تاریخی خبریں اور روایات نقل کرتے رہتے ہیں۔ بعض واقعات کو حذف کردیتے ہیں ، بعض میں اضافہ کردیتے ہیں اور نسلا بعد نسل ان واقعات میں اپنے خیالات بھرتے رہتے ہیں اب قصے پھیلتے جاتے ہیں اصل قصہ الگ رہ جاتا ہے کچھ اور واقعات اہمیت اختیار کرلیتے ہیں ایک ایک بات کے بارے میں اقوال و اختلاف سامنے آتے ہیں اور قیل و قال میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور جوں جوں وقت گزرتا ہے اختلافات بڑھتے جاتے ہیں۔
Top