Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
اور دیکھو ، کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کر دوں گا
واقعہ یہ ہے کہ ہر حرکت اور پر سکون بلکہ زندہ انسانوں کے سا انسوں میں سے ہر سانس اللہ کے ارادے کی مرہون منت ہے۔ عالم غیب لمحہ حاضرہ کے پردے کے پچیھے مستور ہے اور انسانی آنکھ اس پر دے کے پیچھے نہیں دیکھ سکتی۔ انسان چاہے بہت ہی عقلمند ہو ، مستقبل کے بارے میں اس کی عقل کند ہے اور کچھ جاننے سے قاصر ہے۔ لہٰذا کسی انسان کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میں کل یہ کروں گا۔ جبکہ کل پردہ غیب کے پیچھے ہے اور کل کے نتائج کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ انسان بیٹھ جائے اور مستقبل کے امور کے بارے میں کوئی غور و فکر نہ کرے۔ اور وہ اپنی زندگی کے بارے میں صرف ایک دن ہی کی منصوبہ بندی کرے یا لمحہ بہ لمحہ زندگی کے بارے میں نئی نئی سوچ سامنے لائے اور اپنی سابقہ زندگی کو حال اور مستقبل کے ساتھ مربوط نہ کرے۔ ایسا مفہوم اس آیت کا ہرگز نہیں ہے بلکہ مفہوم یہ ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں غیبی اور ناگہانی واقعات اور اللہ کی مشیت کا بھی خیال رکھے۔ وہ جو عزم چاہے کرے ، جو منصوبہ چاہے بنائے ، لیکن اس کے بارے میں اللہ کی مدد کا طلب گار ہو ، یہ بات ذہن میں رکھے کہ ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ اگر کام اس کے منصوبے کے مطابق ہوگیا تو بہتر ورنہ اگر اللہ کی مشیت نے اس کے لخاف کوئی اور تدبیر کردی تو اسے بھی وہ معبد نہ سمجھے ، کیونکہ اللہ کا حکم بہر حال برتر رہتا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ سوچے ، تدبیر کرے۔ لیکن اسے یہ شعور زندہ رکھنا چاہئے کہ وہ جو سوچتا ہے ، وہ توفیق الٰہی اور اللہ کی فراہم کردہ آسانیوں کے نتیجے ہی میں کرسکتا ہے۔ اس کی وہی سوچ اور وہی تدبیر کامیاب ہو سکتی ہے جس کے ساتھ اللہ کی مدد شامل حال ہو۔ یاد رہے کہ یہ کاہلی ، سستی ، ضعف اور بےتدبیری کا جواز فراہم نہ کرے بلکہ چاہئے کہ اس سے قوت ، اعتماد ، اطمینان اور عزم مضبوط ہو۔ اور اگر کام اس کی تدابیر کے خلاف ہوجائے تو بس وہ یہی کہہ دے کہ اللہ کا حکم اور فیصلہ ایسا ہی ہوگا۔ ہم اللہ کے فیصلے پر راضی ہیں مطمئن ہیں اور سر تسلیم خم کرتے ہیں کیو ن کہ ہونا وہی تھا جو ہوا ، البتہ ہمیں وہ معلوم نہ تھا وہ پردہ غیب کے پیچھے مستور تھا۔ یہ ہے وہ طریقہ کار جس پر اسلام ایک مومن کو ڈالنا چاہتا ہے لہٰذا ایک مومن تنہائی اور وحشت محسوس نہیں کرتا۔ بلکہ ہر وقت فکر و تدبیر کرتا رہتا ہے اور اگر وہ کامیاب ہوتا ہے تو وہ غرور اور سرکشی اختیار نہیں کرتا۔ نہ وہ قنوطیت اور مایوسی کا شکار ہوتا ہے۔ اگر وہ کسی منصوبے میں ناکام ہوجائے ، بلکہ کامیابی اور ناکامی دونوں میں وہ اللہ سے جڑا رہتا ہے۔ اس کا اللہ پر پورا پورا بھروسہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی توفیق پر راضی ہوتا ہے۔ اس کے فیصلوں پر راضی برضا ہوتا ہے نہ وہ متکبر ہوتا ہے اور نہ قنوطی ہوتا ہے۔
Top