Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 29
وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ١۫ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْ١ۙ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا١ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا١ؕ وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَ١ؕ بِئْسَ الشَّرَابُ١ؕ وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا
وَقُلِ : اور کہ دیں الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَمَنْ : پس جو شَآءَ : چاہے فَلْيُؤْمِنْ : سو ایمان لائے وَّمَنْ : اور جو شَآءَ : چاہے فَلْيَكْفُرْ : سو کفر کرے (نہ مانے) اِنَّآ : بیشک ہم اَعْتَدْنَا : ہم نے تیار کیا لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے نَارًا : آگ اَحَاطَ : گھیر لیں گی بِهِمْ : انہیں سُرَادِقُهَا : اس کی قناتیں وَاِنْ يَّسْتَغِيْثُوْا : اور اگر وہ فریاد کریں گے يُغَاثُوْا : وہ داد رسی کیے جائینگے بِمَآءٍ : پانی سے كَالْمُهْلِ : پگھلے ہوئے تانبے کی مانند يَشْوِي : وہ بھون ڈالے گا الْوُجُوْهَ : منہ (جمع) بِئْسَ الشَّرَابُ : برا ہے پینا (مشروب) وَسَآءَتْ : اور بری ہے مُرْتَفَقًا : آرام گاہ
صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے ، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لئے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپیٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں۔ وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا منہ بھون ڈالے گا ، بدترین پینے کی چیز اور بہت بری آرام گاہ
و قل الحق من ربکم فم شاء فلیومن و من شاء فلیکفر (29:18) ” صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے ، اب جس کا جی جا ہے مان لے اور جس کا جی چاہی انکار کر دے “۔ نہایت عزت کے ساتھ ، نہایت صاف گوئی کے ساتھ ، نہایت ہی فیصلہ کن انداز میں ہے یہ اعلان۔ حق کسی کے سامنے جھکتا نہیں۔ کسی کے سامنے ٹیڑہ اختیار نہیں کرتا۔ وہ بڑی قوت کے ساتھ آتا ہے۔ نہایت صراحت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ اس میں کوئی رو رعایت نہیں ہوتی۔ جو چاہے اسے مان لے ، جو چاہے اس کا انکار کر دے۔ اگر کسی کو سچائی پسند نہ ہو تو اپنی راہ لے۔ اگر کسی شخص کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ اس کی خواہشات اللہ کی ہدایات کے تابع ہوں گی تو پھر نظریہ کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی سودا بازی نہیں ہو سکتی۔ اگر کسی کی کھوپڑی اللہ کی بلندی کے مقابلے میں نہیں جھکتی اور وہ اپنے غرور کے بلند محلات سے نیچی نہیں اترتا تو اسلامی نظریہ حیات کو بھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظریہ حیات کسی شخص کی ملکیت نہیں ہے کہ وہ اس میں رو رعایت کر دے ، سودا بازی کر دے ، یہ تو اللہ کی ملکیت ہے۔ اللہ تمام جہانوں سے غنی ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے ، جہاں تک اسلامی نظریہ حیات کا تعلق ہے۔ وہ کسی شخص پر فخر نہیں کرتا اور نہ کسی ایسے شخص سے نظریاتی امداد طلب کرتا ہے جو شخص اسے خالص طور پر قبول نہیں کرتا یا جو شخص اس نظریے کو پوری طرح قبول نہیں کرتا ، جس طرح کہ وہ ہے ، بغیر کسی تغیر و تبدل کے۔ اور جو شخص اپنے آپ کو ان لوگوں سے بلند کوئی مخلوق سمجھتا ہے جو اپنے آپ کو رات اور دن رب کی پکار میں مصروف رکھتے ہیں اور صرف اللہ کی رضامندی کے طلبگار ہیں ، ایسے شخص سے کسی خیر کی توقع نہیں ہے ، نہ اسلام کے لئے ور نہ مسلمانوں کے لئے۔ انا اعتدنا للظلمین (29:18) ” ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لئے ایک آگ تیار کر رکھی ہے “۔ یہ آگ تیار ہے اور حاضر و ومجود ہے۔ اسے جلانے کے لئے کسی محنت کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ اس کے جلانے کے لئے اور تیار کرنے پر کوئی وقت لگتا ہے۔ باوجود اس کے کہ اللہ کی جانب سے کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے صرف کن کی ضرورت ہوتی ہے یعنی جب اللہ کا ارادہ ہوجائے تو وہ کام ہوجاتا ہے۔ لیکن یہاں آگ کے لئے لفظ ” اعتدنا “ استعمال کیا گیا ہے یعنی ہم نے اسے تیار کیا ہے یعنی بڑی سرعت سے اس کو تیار کیا گیا ہے ، یعنی ان کے لئے پکڑ لیا جائے گا اور جلدی سے اس تیار شدہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ یہ آگ ایسی ہوگی کہ اس کی خیمے جیسی لپیٹیں ظالموں کو گھیر لیں گی۔ یہ اس سے بھاگ نہ سکیں گے۔ نہ ان کو اس سے چھوٹنے اور نجات پانے کی کوئی امید ہے۔ نہ ان کو یہ امید ہے کہ کس طرف سے ان کو کوئی ٹھنڈی ہوا ملے گی… نہ یہ امید ہے کہ اس مین ان کے لئے آرام کا وقفہ ہوگا۔ اگر وہ وہاں گرمی پیاس اور شدت سے فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی کی جائے گی۔ اور ان کو ایسا پانی دیا جائے گا جو تیل کی چھت جیسا ہوگا اور ایک قول کے مطابق گرم پیپ جیسا ہوگا۔ یہ منہ کو بھون ڈالے گا۔ جب یہ منہ کو بھول ڈالے گا تو ان کے گلوں اور ان کے پیٹ کا اس سے کیا حال ہوجائے گا۔
Top