Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 35
وَ دَخَلَ جَنَّتَهٗ وَ هُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰذِهٖۤ اَبَدًاۙ
وَدَخَلَ : اور وہ داخل ہوا جَنَّتَهٗ : اپنا باغ وَهُوَ : اور وہ ظَالِمٌ : ظلم کر رہا تھا لِّنَفْسِهٖ : اپنی جان پر قَالَ : وہ بولا مَآ اَظُنُّ : میں گمان نہیں کرتا اَنْ : کہ تَبِيْدَ : برباد ہوگا هٰذِهٖٓ : یہ اَبَدًا : کبھی
پھر وہ اپنی جنت میں داخل ہوا اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا ” میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہوجائے گی
ہمیشہ اصحاب جاہ و مال اور اہل ثروت اور اہل ِ اقتدار کے دلوں میں یہی سودا سمایا ہوتا ہے کہ اس فانی دنیا میں ان کی قدرو منزلت ہے ، اسی طرح آخرت میں بھی انہیں ییہ اعزاز ملے گا۔ عالم بالا میں بھی کرسی نسین ہوں گے۔ اگر اہل ِ دنیا کے ہاں ان کا یہ مرتبہ ہے تو اہل سماء میں کیوں نہ ہوگا۔ اب ذرا اس کے اس ساتھی کو دیکھئے جو فقیر ہے اور اس کے پاس کوئی دولت نہیں ہے۔ نہ کہ اس کے پاس باغ ہے اور نہ اس کے پھل ہیں۔ کیونکہ اس کے نزدیک ان باغات کے مقابلے میں ایک اور چیز ایسی ہے جو زیادہ قیمتی ہے۔ اسے اپنے عقیدت اور ایمان پر فخر ہے۔ اسے اپنے اس رب پر بھی فخر ہے جس کے سامنے بڑے بڑے سر جھک جاتے ہیں۔ یہ شخص اپنے اس مغرور سر پھرے اور منکر حق متکبر ساتھی کو بڑے اعتماد سے مخاطب کرتا ہے اور اسے یاد دلاتا ہے کہ تم اپنے آپ کو کوئی بہت بڑی چیز سمجھتے ہو ، لیکن ذرا اپنی پیدائش کو تو دیکھو کہ تمہیں ایک ناپاک پانی سے پیدا کیا ہے ، پھر کیچڑ ہے وہ اسے یاد دلاتا ہے کہ منعم حقیقی کا شکر ادا کرنا لازم ہے اور کبرو غرور کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ یہ رجل صالح ات کہتا ہے کہ تمہارے باغ و راغ کی بہ نسبت مجھے عند اللہ بہتر اجر ملے گا۔
Top