Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 47
وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَ تَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً١ۙ وَّ حَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًاۚ
وَيَوْمَ : اور جس دن نُسَيِّرُ : ہم چلائیں گے الْجِبَالَ : پہار وَتَرَى : اور تو دیکھے گا الْاَرْضَ : زمین بَارِزَةً : کھلی ہوئی (صاف میدن) وَّحَشَرْنٰهُمْ : اور ہم انہیں جمع کرلیں گے فَلَمْ نُغَادِرْ : پھر نہ چھوڑیں گے ہم مِنْهُمْ : ان سے اَحَدًا : کس کو
فکر اس دن کی ہونی چاہئے جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے ، اور تم زمین کو بالکل برہنہ پائو گے ، اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے) ایک بھی نہ چھوٹے گا
درس نمبر 231 ایک نظر میں درس سابقہ کا خاتمہ باقیات صالحات پر ہوا تھا۔ اس سبق کا آغاز ہی یوم قیامت کے بیان سے ہوتا ہے جس میں باقیات صالحات کا وزن ہوگا ار ان کا حساب و کتاب ہوگا۔ قیامت کا بیان بھی حسب معمول مناظر قیامت میں سے ایک منظر کی صورت میں ہے۔ اس کے بعد پھر ابلیس کے اس طرز عمل کو پیش کیا جاتا ہے۔ جو اس نے اس وقت اختیار کیا جب اللہ نے اسے حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کرے ، اس نے امر ربی کی تعمیل سے انکار کیا۔ انسانوں پر تعجب ہے کہ وہ پھر شیطان کو اپنا دوست بناتے ہیں ، حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ تمام شیاطین انسانوں کے دشمن ہیں اور اس دوستی کے نتیجے میں وہ قیامت کے روز عذاب جہنم تک پہنچنے والے ہیں۔ پھر یہ شرکاء جوق یا مت کے دن ان لوگوں کی پکار کا جواب ہی نہ دیں گے جو ان شرکاء کی بندگی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار مثالیں دیں اور لوگوں کو سکھایا کہ وہ اس دن کے حساب و کتاب سے اپنے آپ کو بچائیں۔ لیکن لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے۔ بلکہ الٹا امم سابقہ کی ہلاکت کی طرح کے عذا بکا مطالبہ کرتے ہیں اور باطل انداز میں اہل ایمان کے ساتھ مجادلہ کرتے ہیں تاکہ حق کا مقابلہ کریں۔ اللہ کی آیات اور اللہ کے رسولوں کے ساتھ مذاق کریں۔ اگر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو ان پر یہ عذاب آ بھی جاتا۔ قیامت کا یہ منظر اور امم سابقہ کے عذاب کا ذکر اس سورت کے مرکزی مضمون سے ہم آہنگ ہیں کہ لوگوں کے ذہن میں اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی قدریں بٹھانی چاہئیں تکاہ وہ ہدایت پکڑیں۔
Top