Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 71
فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَا رَكِبَا فِی السَّفِیْنَةِ خَرَقَهَا١ؕ قَالَ اَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ اَهْلَهَا١ۚ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا اِمْرًا
فَانْطَلَقَا : پھر وہ دونوں چلے حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا : جب رَكِبَا : وہ دونوں سوار ہوئے فِي السَّفِيْنَةِ : کشتی میں خَرَقَهَا : اس نے سوراخ کردیا اس میں قَالَ : اس نے کہا اَخَرَقْتَهَا : تم نے اس میں سوراخ کردیا لِتُغْرِقَ : کہ تم غرق کردو اَهْلَهَا : اس کے سوار لَقَدْ جِئْتَ : البتہ تو لایا (تونے کی) شَيْئًا : ایک بات اِمْرًا : بھاری
” اب وہ دونوں روانہ ہوئے ، یہاں تک کہ وہ ایک کشتی میں سوار ہوگئے تو اس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ” آپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تاکہ سب کشتی والوں کو ڈبو دیں ؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی۔ “ یہ عبدصالح نہایت برد باری سے اور نہایت ہی سنجیدگی سے یاد دلاتے ہیں کہ ہمارے درمیان معاہدہ کیا طے ہوا تھا ؟
یہ کشتی ان دونوں کو بھی لے جا رہی اور ساتھ ہی اور سوار بھی اس پر موجود ہیں۔ یہ سب لوگ سمندر کے درمیان موجوں میں سفر کر رہے ہیں۔ عبدصالح اس میں شگاف ڈال دیتے ہیں۔ بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ اس شگاف کی وجہ سے یہ کشتی غرق ہو سکتی ہے اور مالکوں اور سواروں کے لئے مصیبت کا باعث ہو سکتی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ عبداصالح نے یہ حرکت کیوں کی ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذہن سے شرائط سفر محو ہوگئیں۔ وہ اس غیر معقول حرکت کو برداشت نہ کرسکے۔ جو عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے۔ انسان بعض اوقات محض تصور کی حد تک بہت کچھ کہتا ہے۔ لیکن جب وہ کسی عملی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے تمام نظریاتی جائزے اور توقعات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ عملی میدان میں اس کا ردعمل محض نظری میدان سے مختلف ہوتا ہے۔ عملی تجربات اور ہوتے ہیں اور نظری تصورات اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نظری طور پر متنبہ بھی کردیا گیا تھا کہ تم ان امور پر صبر نہ کرسکو گے جن کے بارے میں تمہیں علم نہ ہوگا۔ وہ اللہ کے فضل و کرم سے صبر کرنے کا عزم بھی کرتے ہیں ، وعدہ بھی کرتے ہیں ، شرط قبول بھی کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ عملاً ایک منظر کو دیکھتے ہیں تو سب کچھ بھول کر اعتراض کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کی طبیعت بھی انفعالی اور جذباتی تھی۔ اس لئے وہ صبر نہ کرسکے۔ وہ وعدے کا ایفا نہ کرسکے۔ وہ اس فعل کے انوکھے پن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی برائی کو برداشت نہ کیا۔ مثلاً مصر میں جب ایک قبطی ایک بنی اسرائیل سے لڑ رہا تھا تو آپ نے غصے میں اسے مکا رسید کیا اور وہ مر گیا۔ پھر انہوں نے اس فعل پر اللہ سے معافی مانگی۔ پھر دوسرے دن جب وہی بنی اسرائیل پھر ایک مصری سے لڑر رہا تھا تو آپ پھر غصہ ہوئے۔ بہرحال حضرت مسویٰ اپنی افتاد طبع کے مطابق ہیاں بھی برداشت نہ کرسکے۔ واقعہ عجیب و غریب تھا۔ عقل و نقل کے خلاف تھا۔ اور اگرچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وعدہ کیا تھا اور شرط بھی قبول کرلی تھی لیکن نظریات اور ہوتے ہیں اور عملی صورت حالات اور ہوتی ہے۔ چناچہ جب عملاً موسیٰ علیہ السالم کے سامنے یہ صورت حالات پیش ہوئی تو آپ نے بےساختہ اعتراض کردیا۔
Top