Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 8
وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْهَا صَعِیْدًا جُرُزًاؕ
وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَجٰعِلُوْنَ : البتہ کرنے والے مَا عَلَيْهَا : جو اس پر صَعِيْدًا : صاف میدان جُرُزًا : بنجر (چٹیل)
آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔
وانا لجعلون ما علیھا صعیدا جرزا (81 : 8) ” آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔ “ تعبیر فیصلہ کن انداز کی ہے۔ منظر بھی سخت ہے۔ (جرزاً ) کا کلمہ لفظاً اور معنی خشکی اور بےآب وگیاہ میدان کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح لفظ (صعیداً ) بھی میدان ، ہمواری اور سختی کو لفظاً اور معنی ظاہر کرتا ہے۔ …… اب قصہ اصحاب کہف آتا ہے۔ یہ ایسے لوگوں کا ایک نمونہ پیش کرتا ہے جن کے دلوں میں ایمان بیٹھ جاتا ہے اور جب ایمان دلوں میں اتر جاتا ہے تو وہ اطمینان اور سکون سے اس طرح بھر جاتے ہیں جس طرح اصحاب کہف تھے۔ پھر یہ دل زمین کی آرائش اور زیب وزینت کو کچھ نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ غار میں پناہ لیتے ہیں ، غار میں کیا چیز لے جا کر چھپاتے ہیں ؟ ایمان اور صرف دولت ایمان۔ یہ لوگ اس وقت غار میں جاتے ہیں جب وہ ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے لوگوں میں نہیں رہ سکتے۔ اب دیکھئے کہ اللہ ایسے لوگوں کو کس طرح بچاتا ہے۔ ان کو فتنوں سے محفوظ کرتا ہے اور اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے۔ اس قصے کے بارے میں بیشمار روایات ہیں اور بہت سی آراء ہیں اور قصے کہانیوں کی بعض پرانی کتابوں میں ان کے بارے میں مختلف روایات ہیں ہمارا طریق کار یہ ہے کہ ہم قرآن کی حد تک اپنے آپ کو محدود کرتے ہیں ، کیونکہ قرآن ہی واحد یقینی مصدر علم ہے۔ روایات اور قصوں کو ہم ان کی جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ روایات ہمارے تفسیری دخیرے میں راہ پا گئی ہیں۔ بغیر سند اور صحت کی جانچ پڑتال کئے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ قرآن نے اس بات سے منع کیا ہے کہ اس سلسلے میں غیر قرآنی مصادر کی طرف ہرگز رجوع نہ کیا جائے اور اس میں محتض تیر تکے نہ چلائے جائیں۔ اس قصے اور ذوالقرنین کے قصے کے نزول کے سلسلے میں ایسی روایات وارد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے اہل مکہ کو سوالات دے کر ابھارا کہ یہ سوالات رسول اللہ ﷺ سے کئے جائیں۔ ان دو قصوں کے بارے میں اور روح کے بارے میں یا اہل مکہ نے یہودیوں سے امداد طلبک رتے ہوئے یہ کہا کہ ہمیں کچھ ایسے سوالات بتائو تاکہ ہم ان کے ذریعے رسول اللہ ﷺ سے امتحان لیں یہ دونوں باتیں صحیح ہو سکتی ہیں کیونکہ ذوالقرنین کے قصے کی ابتدا میں ہے۔ ویسئلونک عن ذی القرنین قل ساتلو علیکم منہ ذکراً (81 : 38) ” وہ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو میں اس کے بارے میں تمہیں بتائوں گا۔ “ لیکن قصہ اصحاب کہف کے بارے میں اس قسم کی بات نہیں آئی۔ اس لئے ہم اس قصے کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ قصہ بذات خود سورت کے محور اور موضوع کلام سے واضح طور پر مربوط ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے یہ بات کہہ دی ہے۔ فنی اعتبار سے اس قصے کو پیش کرنے کے لئے قرآن میں جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ وہ پہلے اجمالی تخلیص کا ہے اور پھر اس کی تفصیلات پر بحث کا ہے۔ یہ قصہ کئی مناظر کی شکل میں پیش کیا گیا ہے لیکن مختلف مناظر کے درمیان خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ مضمون اور سیاق کلام سے یہ خلا خود بخود ذہن میں آجاتے ہیں اس قصے کا آغاز یوں ہے :
Top