Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور کتبے والے ہمارے کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں سے تھے ؟
یہ اس قصے کی تلخیص ہے اور اس کی روٹ لائن اس میں دی گئی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک گروہ تھا۔ تعداد معلوم نہیں ہے۔ یہ اہل ایمان تھے۔ انہوں نے غار میں پناہ لی تھی۔ ان کے کانوں پر مہر لگا دی گئی تھی یعنی سو گئے تھے ، کئی سال تک سالوں کی تعداد معلوم نہیں اس طویل نیند سے وہ اٹھائے گئے۔ ان کی میعاد کہف کے بارے ان میں دو گروہ ہوگئے تھے تاکہ معلوم ہو کہ کس کا اندازہ زیادہ درست ہے اور یہ کہ یہ قصہ عجیب و غریب ہونے کے باوجود عجیب نہیں ہے۔ اس کائنات میں اس سے بھی زیادہ عجوبے ہیں اور اصحاف کہف اور اصحاب رقمی سے زیادہ عجیب تر۔ یہ پرکشش تلخیص دینے کے بعد اب اس قصے کی تفصیلات دی جا رہی ہیں۔ تفصیلات سے پہلے بتایا جاتا ہے کہ ان کے بارے میں چونکہ تاریخی روایات میں بےحد اضطراب پایا جاتا ہے۔ اس لئے قرآن کریم میں ہم جو کچھ بتا رہے ہیں وہ فیصلہ کن امر ہے اور یہی حق الیقین ہے۔
Top