Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 198
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ١۪ وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ١ۚ وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ
لَيْسَ
: نہیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
جُنَاحٌ
: کوئی گناہ
اَنْ
: اگر تم
تَبْتَغُوْا
: تلاش کرو
فَضْلًا
: فضل
مِّنْ
: سے
رَّبِّكُمْ
: اپنا رب
فَاِذَآ
: پھر جب
اَفَضْتُمْ
: تم لوٹو
مِّنْ
: سے
عَرَفٰتٍ
: عرفات
فَاذْكُرُوا
: تو یاد کرو
اللّٰهَ
: اللہ
عِنْدَ
: نزدیک
الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ
: مشعر حرام
وَاذْكُرُوْهُ
: اور اسے یاد کرو
كَمَا
: جیسے
ھَدٰىكُمْ
: اسنے تمہیں ہدایت دی
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم تھے
مِّنْ قَبْلِهٖ
: اس سے پہلے
لَمِنَ
: ضرور۔ سے
الضَّآلِّيْنَ
: ناواقف
اور حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ پھر جب عرفات سے چلو تو مشعر حرام کے پاس ٹھہر کر اللہ کو یاد کرو ۔ اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے ، ورنہ اس سے پہلے تم بھٹکے ہوئے تھے ۔
مزید احکام حج بیان ہوتے ہیں ، کیا تجارت جائز ہے ۔ کیا دوران حج حاجی مزدوری کرسکتا ہے ؟ وقوف کہاں ہو اور کہاں سے واپسی جائز ہے ؟ ذکر و استغفار کا کیا طریقہ ہے ، یہ مسائل سنئے ! لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ (198) ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ” اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ پھر جب عرفات سے چلو ۔ تو مشعر حرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھہر کر اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے نہیں کی ہے ، ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے ۔ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو ، اور اللہ سے معافی چاہو ، یقینا ً وہ معاف کرنے والا ، رحم فرمانے والا ہے ۔ “ امام بخاری (رح) نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے ، فرماتے ہیں عکاظ مجنہ اور ذوالمجاز دور جاہلیت کے مشہور تجارتی میلے ہوا کرتے تھے ۔ مسلمانوں نے خیال کیا کہ شاید دور اسلام میں ان میلوں میں تجارت کرنا اب جائز نہیں ہے ۔ اس پر حکم آیا کہ موسم حج میں ” اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ “ ابوداؤد نے ، اپنی سند کے ساتھ ایک دوسرے واسطے سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے ۔ فرماتے ہیں : مسلمان ایام حج اور اس کے بعد تجارتی موسم میں خرید وفروخت سے پرہیز کرتے تھے ۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ تو اللہ کو یاد کرنے کے دن ہیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا ، اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرتے جاؤ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ابوامامہ تیمی کی ایک روایت میں ہے ، کہتے ہیں میں حضرت ابن عمر سے پوچھا ہم باربرداری کا کام کرتے ہیں ۔ کیا ہمارا بھی حج ہوگا ؟ انہوں نے فرمایا کیا تم طواف نہیں کرتے ، نیکی کے کام نہیں کرتے ، جمرے نہیں مارتے ، پھر سر نہیں منڈواتے ؟ کہتے ہیں ہم نے جواب دیا ہاں ، ابن عمر نے فرمایا ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اس نے آپ ﷺ سے یہی سوال دریافت کیا جو آپ لوگ مجھ سے پوچھ رہے ہیں ۔ آپ نے اس وقت تک کوئی جواب نہ دیا جب تک جبریل یہ آیت لے کر آ نہیں پہنچے ۔ اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ابن جریر (رح) نے ابوصالح ، حضرت عمر ؓ کے آزاد کردہ غلام ، سے روایت کی ہے۔ اس نے کہا اس نے سوال کیا امیر المومنین کیا تم حج میں تجارت کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا بھائی ہمارے لوگوں کی معیشت کا دارومدار ہی حج پر تھا۔ تجارت کے بارے میں اوپر کی پہلی دوروایات سے اہل اسلام کی جس احتیاط کا اظہار ہوتا ہے پھر وہ دوسری روایت میں بار برداری اور مزدوری کے بارے میں جس احتیاط اور پرہیز کا ذکر ہے ، یہ اسی احتیاط اور پرہیز گاری کا ایک حصہ ہے جو اسلام نے مسلمانوں کے اندر دور جاہلیت کے ہر فعل وہر رسم کے خلاف پیدا کردی تھی ۔ مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ وہ دور جاہلیت کے کسی فعل یا کسی رسم کا ارتکاب اس وقت تک نہ کرتے تھے جب تک اس کے بارے میں اسلام کوئی فیصلہ نہ سنا دیتا ۔ اس پارے کی ابتداء میں ہم اس پر بحث کرچکے ہیں ، یعنی صفاومروہ کے درمیان سعی کے بیان کے ضمن میں ۔ ایام حج کے دوران بیع وشراء باربرداری و مزدوری کی اجازت قرآن نے دے دی مگر اس کی تعبیر یوں ہے کہ یہ اللہ کا فضل ہے ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ ” تم اگر اپنے رب کا فضل تلاش کرو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ “ حلال کمائی کی تعبیر فضل الٰہی سے کی گئی ہے ۔ تاکہ تجارت کرنے والے ، مزدوری کرنے والے یا دوسرا کوئی نفع اور کام کرنے والے ، یہ سمجھیں کہ وہ محض دولت نہیں کماتے بلکہ یہ اللہ کا فضل بھی ہے ۔ یہ کام صرف مادی جسم کا سروساماں ہی نہیں ہے بلکہ اسے تقدس حاصل ہے اور فضل اللہ ہے ۔ اور اللہ اسے اپنے فضل سے نوازتا ہے ۔ اس لئے تجارت کی اس نوعیت یعنی فضل خداوندی کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ فضل خداوندی اسے تب ہی مل سکتا ہے جب وہ لین دین کرے اور ان اسباب کے ذریعے ہی اسے تلاش کرے جو اللہ تعالیٰ نے نظام رزق کے لئے مقررکئے ہوئے ہیں ۔ جب قلب مومن میں یہ احساس جاگزیں ہوجاتا ہے اور پھر وہ طلب رزق میں نکلتا ہے تو وہ اس سعی میں بھی دراصل عبادت کی حالت میں ہوتا ہے اور اس کے لئے یہ سرگرمی حالت حج کے خلاف نہیں ہے ۔ کیونکہ حج بھی اللہ کے لئے ہے اور یہ تجارت بھی فضل الٰہی ہے ۔ اسلام سب سے پہلے قلب مومن میں ایسے جذبات اور ایسے تصورات بٹھا دیتا ہے اور پھر اسے میدان میں عمل اتار دیتا ہے اور کھلا چھوڑدیتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے کام کرے ۔ اس نقطہ نظر سے اس کا ہر فعل ، اس کی ہر حرکت اللہ کی عبادت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلب رزق ، تجارت کے حکم کو بھی احکام حج کے عین وسط میں بیان کردیا اور تلاش فضل کے ساتھ ہی شہر حرام کے پاس ذکر اور عرفات سے واپسی کے مسائل بیان ہوئے۔ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ” پھر جب عرفات سے چلو ، تو مشعرالحرام کے پاس ٹھہر کر اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے ۔ “ عرفات پر وقوف (کھڑا ہونا) افعال حج کا مرکزی ستون ہے ۔ اصحاب سنن نے دیلمی کی روایت نقل کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا : حج عرفات ہے (تین مرتبہ فرمایا) کوئی شخص طلوع فجر سے پہلے پہلے عرفات تک جاپہنچے تو گویا اس نے حج پالیا۔ منیٰ میں قیام کے تین دن ہیں ۔ لیکن اگر کوئی دو دن گزار کر چلاجائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ اور کوئی تاخیر کرے تو بھی گناہ گار نہیں ۔ عرفات کے میدان میں کھڑے ہونے کا وقت یوم عرفہ کے زوال کے بعد شروع ہوجاتا ہے یعنی 8 ذوالحجہ کے دن ظہر سے ۔ اور یہ وقت دوسرے دن ، یعنی یوم النحر ، قربانی کے دن کے طلوع فجر تک ۔ امام احمد کا قول یہ ہے کہ وقوف عرفہ کا وقت دن کے شروع ہی سے شروع ہوجاتا ہے ۔ وہ ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو انہوں نے روایت کی ہے۔ دوسرے اصحاب سنن کے علاوہ امام ترمذی نے روایت کرکے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ شعبی عروہ بن مضرس ابن حارثہ ابن لام الطائی سے روایت کرتے ہیں ۔ میں رسول ﷺ کے پاس مقام مزدلفہ میں آیا ، جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے ، میں نے کہا اللہ کے رسول ﷺ میں طے پہاڑ سے آیا ہوں ۔ میری سواری بھی تھک گئی ہے اور میں بھی چور چور ہوگیا ۔ اللہ کی قسم میں ہر پہاڑ پر کھڑا ہوا ہوں ۔ کیا میرا حج مکمل ہوگیا ؟ اس پر رسول ﷺ نے فرمایا جو شخص ہماری اس نماز میں پہنچ جائے اور ہمارے ساتھ یہاں توقف کرے یہاں تک کہ ہم یہاں سے چل پڑیں ۔ بشرطیکہ وہ اس سے پہلے دن کے وقت یا رات کے وقت میدان عرفات میں کھڑا ہوچکا ہو۔ تو اس کا حج پورا ہوگیا اور اس کی تکلیف دور ہوگئی۔ درج بالا دو اقوال کے مطابق ، رسول ﷺ نے عرفات پر وقوف کے وقت کو قدرے بڑھایا یا اسے یوم النحر کی صبح تک بڑھادیا ، یعنی ذوالحجہ کی دسویں تک ، یہ کیوں ؟ اس لئے کہ مسلمانوں کا طرزعمل مشرکین کے طرزعمل سے قدرے مختلف ہوجائے ۔ ابن مردویہ اور حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے۔ دونوں نے عبدالرحمٰن بن مبارک سے حضرت مسور ابن مخرمہ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ہمیں عرفات میں خطبہ دیا۔ حمد وثناء کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا (امابعد) آج کا دن حج اکبر کا دن ہے ۔ مشرکین اور بت پرست غروب شمس سے پہلے ہی چلنا شروع کردیتے تھے ۔ جب سورج ابھی پہاڑیوں کے سروں پر ہوتا اور سورج کے سامنے پہاڑیاں یوں نظر آئیں گویا کہ آدمیوں کے عمامے ہیں اور ہم ان کے طرز عمل کے خلاف دوسرے دن طلوع الشمس سے پہلے پہلے یہاں سے چلیں گے ۔ رسول ﷺ کی یہ روایت کہ آپ یوم عرفہ کے دن ، غروب آفتاب کے بعد عرفات سے روانہ ہوئے ۔ صحیح مسلم میں جابر ؓ بن عبداللہ کی روایت میں ہے ۔ آپ یوں عرفات میں کھڑے رہے ، سورج غروب ہوگیا ، زردی تھوڑی تھوڑی واضح ہوگئی ۔ اور سورج کی ٹکیہ صاف غائب ہوگئی ۔ اسامہ آپ کے پیچھے آپ کی سواری پر بیٹھ گئے ۔ رسول ﷺ اب آگے بڑھے ۔ اونٹنی کی لگام خوب کھینچ لی ۔ یہاں تک کہ اس کا سر ہودج کے اگلے حصے سے لگنے لگا ۔ آپ ﷺ اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ فرماتے رہے : لوگو ! آرام سے ، رک رک کر چلوجب راستے میں پہاڑی آجاتی اور سواری کو اوپر چڑھنا ہوتا تو آپ مہار ڈھیلی چھوڑ دیتے تاکہ وہ سہولت سے چڑھ جائے ۔ جب آپ ﷺ مزدلفہ پہنچے تو آپ ﷺ نے مغرب و عشاء کی دونوں نمازیں ایک اذان اور دواقامتوں کے ساتھ پڑھائیں ۔ دونوں نمازوں کے درمیان تسبیح کچھ نہ تھی ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے آرام فرمایا۔ صبح طلوع ہونے کے بعد جب روشنی خوب پھیل گئی تو آپ ﷺ نے صبح کی نماز ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ پڑھائی ۔ آپ ﷺ پھر اونٹنی پر سوار ہوگئے اور مشعرالحرام تک آئے اور رو قبلہ ہوکر وہاں دعا فرمائی ۔ تکبیر وتہلیل فرمائی ۔ یہاں آپ ﷺ کھڑے ہی رہے ، یہاں تک کہ زردی پھیل گئی ۔ اور طلوع آفتاب سے پہلے ہی آپ وہاں سے روانہ ہوگئے ۔ یہ ہے وہ فریضہ جو ادا کیا اور رسول ﷺ نے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّين ” پھر جب تم عرفات سے چلو ، تو مشعر حرام کے پاس ٹھہر کر اللہ کو یاد کرو ۔ اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے ۔ ورنہ اس سے پہلے تو تم بھٹکے ہوئے تھے۔ “ مشعر حرام سے مراد مزدلفہ ہے ۔ قرآن مجید کا حکم یہ ہے کہ عرفات سے واپسی پر یہاں آکر اللہ کو یاد کرو ، یاد دلایا جاتا ہے کہ اس ذکر کی بھی اس نے انہیں ہدایت کی ہے ۔ اس کی ہدایات میں سے یہ ہدایت ہے اور یہ ذکر گویا ان کی جانب سے ایک شکر یہ ہے کہ جو وہ اللہ تعالیٰ کا ادا کرتے ہیں کیونکہ یہ وہی ہے جس نے انہیں ہدایت دی ورنہ اس ہدایت سے پہلے تو ان کی حالت یہ تھی وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّين ” ورنہ اس سے پہلے تو تم بھٹکے ہوئے تھے۔ “ پہلی جماعت مسلمہ ، صحابہ کرام اس حقیقت کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے اور اس کا گہرا احساس اپنے اندر پاتے تھے ۔ عرب گمراہی میں ڈوبے ہوئے تھے ، انہوں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔ عقائد خراب ، بتوں ، جنوں اور ملائکہ کے پجاری ، فرشتوں کو اللہ کی اولاد سمجھنے والے ، جنوں کو اللہ تعالیٰ کا رشتہ دار سمجھنے والے ، غرض یہ اور اس قسم کے بیشمار نطریاتی اور عملی گمراہیوں میں یہ لوگ ڈوبے ہوئے تھے ۔ ان غلط تصورات اور باطل عقائد کی اساس پر ان لوگوں نے اپنے لئے ایک نظام عبادت اور نطام زندگی وضع کرلیا تھا ۔ بعض جانوروں کی پشت کا گوشت اور یا پورا گوشت بغیر کسی معقول جواز کے انہوں نے حرام قرار دے دیا تھا ، جواز یہ پیش کرتے تھے کہ ان جانوروں کا اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہے ۔ وہ اپنی اولاد کو اللہ کے لئے نذر کرتے اور جنات کو اس میں شریک کرتے ۔ اور اس کے علاوہ بےشمارجاہلی عبادات ورسومات تھے جن کا کوئی جواز نہ تھا ، صرف ان بےبنیاد اور غلط عقائد کا نتیجہ تھے ۔ نیز ان عقائد کی وجہ سے ان کا اجتماعی نظام فاسد ہوچکا تھا اور وہ بحیثیت قوم اخلاق باختہ تھے ۔ ان کے اندر طبقاتی امتیازات گھر کرچکے تھے مثلاً ایک یہ کہ وہ عرفات تک نہ جاتے اور جس کی اصلاح اس آیت سے کی گئی ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ ” پھر جہاں سے اور لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو۔ “ اور قرآن مجید نے ان تمام فسادات اور رسومات کو ختم کرکے رکھ دیا ۔ اس کے علاوہ ان کے درمیان مسلسل خاندانی رقابتیں اور قبائلی جنگیں جاری رہتی تھیں اور وہ اجتماعی طور پر کسی بھی وقت ایک قوم نہ بن سکتے تھے تاکہ اقوام کی برادری میں ان کی کچھ وقعت ہوتی ۔ ان کا خاندانی نظام برباد ہوچکا تھا اور جنسی تعلقات میں سخت بےراہ روی پائی جاتی تھی اور وہ اس جنسی بےراہ روی پر فخر کرتے تھے ۔ ان کے زبردست لوگ ضعفاء کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے تھے اور اس سلسلے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے سوا ان کے معاشرے میں کوئی میزان عدالت نہ تھی ۔ غرض اس وقت کے عرب معاشرے کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو وہ انسان کی فکری اور عملی گمراہی اور فساد کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا۔ اور یہ صرف اسلام تھا ، جس نے اس معاشرے کو بلند کیا اور اسے فکری اور عملی ضلالت سے نجات دی ۔ اور جب وہ قرآن مجید کی یہ آواز سنتے وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّين ” اللہ کو اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ، ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے ۔ “ تو ان کے حافظہ کے اسکرین پر ان کے تخیلات کے نگار خانہ میں ، ان کے شعور کے نہاں خانہ سے یکلخت وتصاویر ۔ ان کی زندگی کی بھدی تصاویر ، ان کی زندگی کے گرے ہوئے بدنما نقشے سامنے آجاتے ہوں گے ۔ ان کی تاریخ تو ان بدنما مناظر سے بھری پڑی تھی ۔ خیال و شعور کی اسکرین پر اپنی یہ تصاویر دیکھ کر جب وہ پھر اپنی موجودہ پاکیزہ زندگی اور اپنے اس بلند مقام پر نگاہ ڈالتے ہوں گے جو اسلام نے انہیں عطا کیا ، جہاں تک اسلام نے انہیں بلند کیا ۔ تو وہ اس سچائی کی گہرائیوں تک جاپہنچے ہوں گے ۔ وہ بغیر کسی مبحث کے یہ سمجھ جاتے ہوں گے کہ ان کی زندگی میں اسلام کا اساسی رول کیا ہے ؟ عربوں کے علاوہ بھی ہر قوم ، ہر نسل کے مسلمانوں کے سلسلے میں یہ بات اب بھی ایک زندہ حقیقت ہے ۔ اسلام کے بغیر ان کی حیثیت کیا رہ جاتی ؟ اس نظریہ حیات کو اگر نظر انداز کردیاجائے تو ان کا وزن کیا رہ جاتا ہے ؟ جب لوگ اسلام کی روشنی پالیتے ہیں ، اور جب ان کی پوری زندگی میں اسلامی نظام حیات نافذ ہوجاتا ہے اور ایک حقیقت بن جاتا ہے ۔ تو وہ گراوٹ سے رفعت ، چھٹ پنے کے مقابلے میں عظمت ، گمراہی کے بدلے ہدایت اور پریشان خیالی کے مقابلے میں فکر مستقیم پاجاتے ہیں ۔ ان کی زندگی میں یہ تبدیلی اس وقت رونما نہیں ہوتی جب تک وہ صحیح معنوں میں مسلمان نہیں بن جاتے ۔ اور جب تک وہ اپنی پوری زندگی کو اسلامی نظام حیات کے مطابق استوار نہیں کرلیتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پوری انسانیت ایک اندھی جاہلیت میں سرگرداں ہے ۔ اور اس وقت تک یوں ہی رہے گی جب تک وہ اسلام کے حظیرہ ہدایت میں داخل نہیں ہوجاتی ۔ اس راز کو تو صرف وہی شخص کماحقہ پاسکتا ہے ، جس نے جاہلیت میں کچھ دن گزارے ہوں ، جس میں آج کل پوری انسانیت مبتلا ہے اور جس نے پوری دنیا کو بدی سے مالا مال کردیا ہے ، جس کا ہر جگہ دور دورہ ہے ، پھر ایسا شخص اسلامی تصور حیات کو پالے اور پھر اس کے مطابق زندگی بسر کرکے دیکھ لے اور تجربہ کرکے معلوم کرے کہ اسلامی نظام زندگی کس قدر اعلیٰ وارفع نظام ہے اور اس کے علاوہ اس کے ماحول میں جو نظام ہیں وہ ناپاکی ، غلاظت اور گندگی کے ڈھیر ہی ڈھیر ہیں ۔ جب انسان اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام زندگی کی بلند ترین چوٹی پر چڑھ جاتا ہے وہاں سے پوری انسانیت کے تمام تصورات زندگی ، تمام مروجہ اجتماعی نظام اور زندگی کے تمام طور وطریقوں پر نظر ڈالتا ہے ، ان تمام بڑے بڑے فلسفیوں کے تصورات پر ، تمام جدید وقدیم مفکرین کے افکار پر ، تمام جدید وقدیم نطام ہائے زندگی پر انسان اس بلندی اور اسلامی نظام حیات کی بلند چوٹی سے جب نظر ڈالتا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے کہ پوری انسانیت کس مصیبت ، کس بدبختی میں مبتلا ہے ۔ ان فضولیات اور ان بدبختوں نے اس کس قدر ذلیل ولاغر کردیا ہے ۔ وہ ایسی ژولیدہ فکری اور علمی افراتفری میں مبتلا ہے کہ کوئی عقلمند آدمی اس میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ اور پھر وہ بزعم خود غلط انسان کا دعویٰ یہ ہے کہ اسے اللہ کے بھیجے ہوئے نظام زندگی کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہے وہ حقیقت جس کی یاد دہانی اللہ تعالیٰ یہاں کرا رہے ہیں اور جس کا احسان مومنین کو یاد دلایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم کرم ہے کہ اس نے تمہیں اس نعمت کبریٰ سے سرفراز کیا وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ” اور اسے اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے۔ اگرچہ اس سے قبل تم گم کردہ راہ تھے۔ “
Top