Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے ۔ مگر حقیقت میں وہ بدترین دشمن حق ہوتا ہے ۔
درس 13 ایک نظر میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کی ہدایات دیں۔ مختلف موضوعات پر قانون وضع کئے گئے ہیں ۔ ان ہدایات اور قوانین کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان سے ایک خدائی نظام زندگی وجود میں آتا ہے جو انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے ۔ اس راہنمائی اور اس قانون سازی کے درمیان اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نظام تربیت بھی عطا کردیا ہے ۔ یہ ایک بہترین نظام اصلاح ہے ۔ اس لئے کہ اللہ نفس انسانی کی حقیقت کے بارے میں اس کی ظاہری اور خفیہ رسم وراہوں کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے اللہ تعالیٰ نفس انسانی کے ہر پہلو کو لیتا ہے ۔ اور مختلف انسانوں کی ایسی تصویر بناتا ہے ، جس کے خدوخال واضح ہوتے ہیں ۔ جس میں تمام مطلوبہ خصائص واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔ جب انسان الفاظ کی اس تصویر کو آئینہ دماغ میں رکھ کر ، انسانوں کی بھیڑ میں ان اوصاف کے حاملین کی تلاش میں نکلتا ہے ، تو یوں لگتا ہے کہ گویا وہ لوگ گلیوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں ۔ زمین پر دوڑتے پھرتے ہیں اور ایک انسان انگلی رکھ کر بتاسکتا ہے کہ یہ ہیں وہ لوگ جن کا تذکرہ قرآن نے کیا ہے ۔ اس سبق میں انسانوں کی دواقسام کے واضح خدوخال بیان کئے گئے ہیں ۔ یہ اقسام عام طور پر انسانوں میں پائی جاتی ہیں ۔ پہلی قسم نمائشی ، شریر اور زبان دراز لوگوں کی ہے ۔ ایسا شخص اپنی ذات کو پوری زندگی کا محور بنالیتا ہے ۔ ایسا شخص بظاہر بہت ہی بھلامعلوم ہوتا ہے ، لیکن جب اندرون کھلتا ہے تو گندگی ہی گندگی ہوتی ہے ۔ اسے جب اصلاح احوال اور اللہ خوفی کی طرف دعوت دی جائے تو حق کی طرف نہیں آتا ۔ اپنی اصلاح نہیں کرتا ، اپنے وقار کا خیال اسے گناہ پر جما دیتا ہے ۔ اپنے غرور کی وجہ سے وہ سچائی اور بھلائی سے منہ پھیرلیتا ہے وہ کھیتوں کو غارت کرتا ہے اور نسل انسانی کو تباہ کرتا ہے ۔ دوسری قسم ان مومنین صادقین کی ہے جو اپنی پوری ہستی کا سودا رضائے الٰہی کے حصول کے عوض کرلیتے ہیں ۔ پوری زندگی بیچ دیتے ہیں ۔ اس کا کچھ حصہ بھی رہنے نہیں دیتے ۔ اپنی سعی اور عمل ، اپنی تمام تگ ودو میں ، وہ اپنا کوئی حصہ نہیں رکھتے ۔ وہ اپنے آپ کو فنا ۔۔۔۔ کردیتے ہیں اور ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ انسانوں کے یہ دومعیاری نمونے پیش کرنے کے بعد اب مسلمانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ کسی تردد ، کسی جھجھک ، مطالبہ خوارق و معجزات کے بغیر پورے پورے دین اسلام میں داخل ہوجائیں ۔ بنی اسرائیل کی طرح نہ بنیں ، جنہوں نے قدم قدم پر خوارق ومعجزات کا مطالبہ کیا ، اللہ کی اس نعمت یعنی اسلامی نظام زندگی کی نعمت کو چھوڑ کر کفر کا راستہ اختیا کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” پوری طرح اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ “ اشارہ اس طرف ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے اور تمہیں اپنی پوری زندگی کو اس نظام میں ڈھالنا ہے اس نظام پر عمل کرنا ہے ۔ (تفصیل آگے آرہی ہے ) ایمان کی نعمت عظمیٰ اور مسلمانوں پر اس کی امن وآشتی کی چھاؤں کے مقابلے میں ، کفار کے غلط نقطہ نظر کی ایک جھلک بھی دکھائی جاتی ہے ۔ یہ لوگ اپنے ناقص تصور زندگی کی وجہ سے مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ لیکن بتادیا جاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک کس کی کیا قدر (Value) ہے۔” مگر قیامت کے روز پرہیزگار لوگ ہی ان کے مقابلے میں عالی مقام ہوں گے۔ “ اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ لوگوں کے درمیان اختلاف رائے کس طرح پیدا ہوگیا اور یہ کہ اس کا حل صرف یہ ہے کہ وہ معیار حق کی طرف پلٹیں اور اسے اپنا حاکم تسلیم کریں ۔ بتایا جاتا ہے کہ حق کا یہ معیار اللہ کی کتاب ہے ، جو نازل ہی اس لئے کی گئی ہے تاکہ لوگوں کے درمیان حق کے بارے میں جو اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے ، اس میں ان کے درمیان فیصلہ کرے۔ اس مناسبت سے بتادیا جاتا ہے کہ اس معیار حق کتاب اللہ کے حاملین کی راہ میں بیشمار مشکلات ہیں ۔ امت مسلمہ کو بتایا جاتا ہے کہ اس کی راہ میں سختیاں ہیں ، مصیبتیں ہیں ، نہ صرف تمہاری راہ میں بلکہ تاریخ انسانی مین جس جماعت نے بھی اس امانت کا بوجھ اٹھایا ، اس کا حال یہی رہا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو اس بار امت کے اٹھانے کے لئے تیار کرسکے ۔ جسے بہرحال اس نے اٹھانا ہے ۔ اور تاکہ وہ خوشی خوشی اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہو ، اطمینان کے ساتھ ۔ جب بھی فضا میں خطرات کی آلودگی ہو ، جب بھی اسے یہ نظر آتا ہو کہ صبح دور ہے ، وہ اللہ کی نصرت کے بارے میں پر امید رہے ۔ اس سبق میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی جماعت کی ٹریننگ اور تربیت کے قانون سازی کے ساتھ ساتھ اسلامی نظم وتربیت بھی سکھایا جارہا ہے ۔ اس تربیت کے مختلف پہلو بیان کئے جاتے ہیں جن کا زمزمہ نہایت خوشگوار اور پرتاثیر ہے اور یہ سب کچھ ان ہدایات و وضع قوانین کے اثنا میں ہورہا ہے جن سے اسلامی نظام بنتا ہے جو انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے۔
Top