Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 221
وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّ١ؕ وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْكُمْ١ۚ وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا١ؕ وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْ١ؕ اُولٰٓئِكَ یَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ١ۖۚ وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلَى الْجَنَّةِ وَ الْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ١ۚ وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۠ ۧ
وَلَا
: اور نہ
تَنْكِحُوا
: تم نکاح کرو
الْمُشْرِكٰتِ
: مشرک عورتوں سے
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
يُؤْمِنَّ ۭ
: وہ ایمان لے آئیں
وَلَاَمَةٌ
: اور البتہ لونڈی
مُّؤْمِنَةٌ
: مومنہ۔ ایمان والی
خَيْرٌ
: بہتر ہے
مِّنْ مُّشْرِكَةٍ
: مشرکہ عورت سے
وَّلَوْ
: اور اگرچہ
اَعْجَبَتْكُمْ ۚ
: وہ اچھی لگے تم کو
وَلَا
: اور نہ
تُنْكِحُوا
: تم نکاح کر کے دو
الْمُشْرِكِيْنَ
: مشرک مردوں کو
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
يُؤْمِنُوْا ۭ
: وہ ایمان لے آئیں
وَلَعَبْدٌ
: اور البتہ غلام
مُّؤْمِنٌ
: مومن
خَيْرٌ
: بہتر ہے
مِّنْ
: سے
مُّشْرِكٍ
: مشرک مرد
وَّلَوْ
: اور اگرچہ
اَعْجَبَكُمْ ۭ
: وہ پسند آئے تم کو
اُولٰٓئِكَ
: یہ لوگ
يَدْعُوْنَ
: بلاتے ہیں
اِلَى النَّارِ ښ
: آگ کی طرف
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَدْعُوْٓا
: بلاتا ہے
اِلَى الْجَنَّةِ
: جنت کی طرف
وَالْمَغْفِرَةِ
: اور بخشش کی طرف
بِاِذْنِهٖ ۚ
: ساتھ اپنے اذن کے
وَيُبَيِّنُ
: اور بیان کرتا ہے
اٰيٰتِهٖ
: آیات اپنی
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَتَذَكَّرُوْنَ
: وہ نصیحت پکڑیں
اور تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا ، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ ایک مومن لونڈی ایک مشریف شریف زادی سے بہتر ہے۔ اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا ، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ ایک مومن غلام مشرک شریف سے بہتر ہے ، اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو۔ یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے ، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے ، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔ “
درس 15 ایک نظر میں یہ سبق گویا عائلی قوانین پر مشتمل ایک ضابطہ ہے ۔ اس میں خاندانی نظام کی شیرازہ بندی کی گئی ہے ۔ خاندان تحریک اسلامی کی تنظیم کی اساس ہے ۔ خشت اول ہے ۔ اس اساس کو اسلام نے ہر پہلو سے مضبوط کیا ہے ۔ اس پر بےحد توجہ دی گئی ہے ۔ اسے بڑی تفصیل سے منظم کیا ہے ۔ اسے ہر طرح سے بچاکررکھا گیا ہے۔ اسے دور جاہلیت کی انارکی سے پاک کیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں اتنی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں جگہ جگہ اس سلسلے میں ہدایات دی گئی ہیں اور ان میں وہ تمام بنیادیں فراہم کردی گئی ہیں جو تحریک اسلامی کی تنظیم کے ابتدائی حلقے کی تنظیم اور تعمیر کے لئے ضروری تھیں ۔ اسلام کا اجتماعی نظام ایک قسم کا خاندانی نظام ہے ۔ اس کی اساس خاندان پر ہے ۔ اس لئے کہ انسان کے لئے اس کے رب کا تجویز کردہ نظام ہے ۔ اس میں انسان کی فطرت کی تمام ضروریات ، تمام خصوصیات اور تمام بنیادی باتوں کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔ خاندانی نظام کی جڑیں ابتداً تخلیق تک جاپہنچتی ہیں ۔ اس کی کونپلیں شاخ فطرت سے پھوٹتی ہیں ۔ انسان بلکہ تمام حیوانات کی تخلیق ہی خاندانی نظام پر ہے ۔ قرآن مجید سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ” اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں ۔ شاید کے تم اس سے سبق لو۔ “ ایک دوسری آیت میں فرماتے ہیں سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الأزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الأرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لا يَعْلَمُونَ ” پاک ہے وہ ذات جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا ، ان تمام چیزوں سے سے جو زمین اگاتی ہے ۔ انسانی نفوس سے اور ان تمام دوسری چیزوں سے جو وہ نہیں جانتے۔ “ اب انسان کا مزید نقطہ نظر سے جائزہ لیا جاتا ہے اور اسے وہ پہلا انسان یاد دلایا جاتا ہے جس کے واسطہ سے یہاں انسانوں کی بستی کا آغاز ہوا ۔ پہلی انسانی آبادی ایک جوڑا تھا ۔ پھر اس کی اولاد پیداہوئی ، پھر اس سے انسانیت اور انسانی آبادی پھیل گئی ۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلادیئے۔ اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو ، اور رشتہ وقربت کے تعلقات بگاڑنے سے پرہیز کرو ۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے ۔ “ دوسری جگہ ہے يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ” لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ “ پھر بتایا جاتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ایک فطری جاذبیت ہے ۔ اس لئے نہیں کہ مرد و عورت علی الاطلاق اکٹھے ہوں ، بلکہ ان کے درمیان انس و محبت کا نتیجہ پیدا ہونا چاہئے کہ وہ خاندان کی بنیاد ڈالیں اور گھرانے تعمیر ہوں : وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ” اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ “ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُم وَاَنتُم لِبَاسٌ لَّھُنَّ ” وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ “ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لأنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں تمہیں اختیار ہے ۔ جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤمگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضگی سے بچو ۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے ۔ “ واللّٰہ جعل لکم من بیوتکم سکنا ” حقیقت ہے کہ اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لئے جائے سکون بنایا ہے۔ “ یہ فطرت ہے کہ جو اپنا کام کرتی ہے اور یہ خاندان ہی ہے جو ابتدائی تخلیق اور پھر انسان کی تعمیر وتربیت میں فطرت عمیق مقاصد کی بجا آوری کے لئے لبیک کہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام زندگی میں خاندانی نظام ایک فطری اور طبعی نظام ہے جس کا سر چشمہ انسان کی تخلیق کے آغاز سے پھوٹا ہے ۔ (آدم وحوا سے ) اگر گہرامطالعہ کیا جائے تو کائنات کی تمام اشیاء کا آغاز تخلیق بھی اسی نظام کے مطابق ہوا ہے ۔ اس طرح اسلام نے فطرت کے منہاج کو اپنایا ہے ، جس طرح اس کائنات کی دوسری اشیاء کی تخلیق خاندانی نظام کے اسلوب پر ہوتی ہے ۔ اسی طرح نظام کی اساس بھی خاندان کو قرار دیا گیا کیونکہ انسان بھی بہرحال اس کائنات کا ایک جزء ہے ۔ خاندان دراصل ایک قدرتی نرسری ہے ۔ جہاں چھوٹے بچوں کی صحیح دیکھ بھال اور تربیت ہوسکتی ہے ۔ صرف اس نرسری میں وہ صحیح طرح روحانی ، عقلی اور جسمانی نشوونما پاسکتے ہیں ۔ خاندان کے سایہ میں بچے میں محبت ، شفقت اور اجتماعی ذمہ داری (Reciprocal Responsibility) کا شعور پیدا ہوتا ہے ۔ اور اس نرسری میں اس پر جو رنگ چڑھتا ہے ، وہ پوری زندگی میں قائم رہتا ہے۔ بچے کو خاندان کی نرسری میں جو سبق ملتا ہے اسی کی روشنی میں وہ زندگی ۔ عملی زندگی کے لئے آنکھیں کھولتا ہے ، اسی کی روشنی میں وہ حقائق حیات کی تشریح کرتا ہے اور اسی کی روشنی میں زندگی میں عمل پیرا ہوتا ہے۔ تمام زندہ مخلوقات میں طفل آدم کی طفولیت سب سے طویل ہوتی ہے ۔ تمام زندہ چیزوں سے زیادہ ۔ وجہ یہ ہے کہ ہر زندہ ذی روح کا عہد طفولیت دراصل باقی زندگی کے لئے تیاری ، تربیت اور ٹریننگ کا زمانہ ہوتا ہے ۔ اس میں بچے کو اس رول کے لئے تیار کیا جاتا ہے جو اس نے باقی زندگی میں ادا کرنا ہوتا ہے ۔ چونکہ دنیا میں انسان نے جو فرائض سر انجام دینے ہیں وہ عظیم فرائض ہیں ۔ جو رول زمین پر انسان نے ادا کرنا ہوتا ہے وہ ایک عظیم رول ہے ، اس لئے اس کا عہد طفولیت بھی نسبتاً لمبا رکھا گیا ہے تاکہ اسے مستقبل کی ذمہ داریوں کے لئے بطریق احسن تیار کیا جاسکے اور اسے اچھی طرح ٹریننگ دی جاسکے ۔ اس لئے دوسرے حیوانات کے مقابلے میں وہ والدین کے ساتھ رہنے کے لئے زیادہ محتاج ہے لہٰذا ایک پرسکون خاندانی ماحول ، مستقل خاندانی نرسری انسانی نظام زندگی کے لئے لازمی ہے۔ انسانی فطرت کے زیادہ قریب اور اس کی تشکیل اور نشوونما اور اس کی زندگی میں اس کے کردار کے لئے موزوں تر ہے۔ دور جدید کے تجربات نے اس بات کو یقین تک پہنچادیا ہے کہ خاندانی گہوارے کے مقابلے میں لوگوں نے بچوں کی نگہداشت کے جو انتظامات بھی کئے وہ سب کے سب ناقص رہے اور وہ خاندان کے نعم البدل ثابت نہیں ہوسکے ۔ بلکہ ان انتظامات میں سے کوئی انتظام بھی ایسا نہیں ہے جس میں بچے کی نشوونما کے لئے مضر پہلو نہ ہوں یا جس میں اس کی معیاری تربیت ممکن ہوسکے ۔ خصوصاً اجتماعی نرسری کا وہ نظام جسے دور جدید کے بعض مصنوعی اور جابرانہ نظام ہائے حیات نے محض اس لئے قائم کیا کہ وہ اللہ کے قائم کردہ مضبوط فطری اور صالح خاندانی نظام کی جگہ لے سکے ۔ محض اس لئے کہ یہ لوگ دین کی دشمنی میں مبتلا ہوگئے اور دین پر اندھا دھند حملے کرکے اس کی ہر چیز کے خلاف ہوگئے۔ اس لئے خاندانی نظام کو جبراً ختم کرکے اس کی جگہ بچوں کے لئے نرسریاں قائم کردیں۔ اگرچہ بعض اوقات ایسی نرسریاں حکومت کے تحت بھی قائم ہوئیں مثلاً دینی حدود وقیود سے آزاد مغربی ممالک نے ماضی قریب میں جو وحشیانہ جنگیں لڑیں ۔ وہ سب کے سامنے ہیں ۔ ان جنگوں میں وحشیوں نے لڑنے والوں اور پر امن شہریوں میں کوئی تمیز نہ کی ، اس کے نتیجے میں لاتعداد لاوارث بچے ماں باپ کے سایہ کے بغیر رہ گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کی بعض حکومتیں ان بچوں کے لئے اجتماعی نرسریاں قائم کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ علاوہ ازیں مغرب کے جاہلی تصور حیات کے نتیجہ میں وہاں کے انسان کے لئے مناسب اجتماعی اور اقتصادی نظام کے مقابلے میں بدشکل اقتصادی اور معاشرتی نظام وجود میں آیا اور جس میں نوزائیدہ بچوں کی مائیں اس پر مجبور ہوگئیں کہ وہ اپنے لئے خود کمائیں اور مجبوراً بتقاضائے ضروریات بچوں کی اجتماعی نرسریاں وجود میں آئیں ۔ یہ نظام نہ تھا بلکہ ایک لعنت تھی ۔ اس نے بچوں کو ماؤں کی مامتا اور خاندان کے زیرسایہ ان کی تربیت سے محروم کردیا ، بیماروں کو نرسری میں پھینک دیا گیا ، نرسری کا نظام بچوں کی فطرت اور ان کے نفسیاتی ساخت سے متصادم تھا اس لئے نتیجہ یہ نکلا کہ اس قسم کے بچے ذہنی الجھنوں کا شکار ہوگئے اور انہیں بیشمار نفسیاتی پریشانیاں لاحق ہوگئیں۔ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے بعض معاصرین ان حقائق کے باوجود اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عورت کے لئے ملازمت کا اختیار کرنا ترقی اور آزادی کی علامت ہے ۔ اور اس بات کا ثبوت ہے معاشرہ رجعت پسندی سے آزاد ہوگیا ہے۔ آپ نے دیکھا ! ان لوگوں کے نزدیک آزادی اور ترقی اس لعنت کا نام ہے جس کی وجہ سے اس دنیا میں انسان کی سب سے قیمتی ذخیرہ یعنی بچوں کی نفسیاتی صحت اور ان کی اخلاقی ترقی تو ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔ حالانکہ بچے انسانیت کے مستقبل کا سرمایہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قیمتی سرمایہ کو ضائع کرکے انسان کیا فائدہ حاصل کرتا ہے ؟ صرف یہ خاندان کی آمدنی میں حقیر سا اضافہ ہوجاتا ہے بجائے اس کے کہ وہ اپنی اولاد کی کفالت کرے ۔ یہ صورتحال اس لئے پیش آئی کہ مغربی جاہلیت اور جدید مشرقی جاہلیت اور اس کے فاسد اجتماعی نظام نے بچوں کے لئے والدہ کی کفالت کی خاطر والدہ کی ملازمت کی حوصلہ شکنی کرنے سے انکار کیا ۔ اور صورت یہ ہوگئی کہ اگر کوئی عورت ملازمت نہیں کرتی تو اس کے ساتھ رشتہ کرنے کے لئے بھی کوئی تیار نہ ہوتا۔ حالانکہ ملازمت سے وہ جو کچھ کماتی وہ اس عظیم سرمایہ کی تربیت اور نگہداشت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ اس لئے بچے انسانیت کا نہایت ہی قیمتی اور نایاب سرمایہ ہیں ۔ نرسریوں کے تجربات سے سب سے پہلے جو چیز ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے دو سال کے عرصہ میں بچہ فطری اور نفسیاتی طور پر اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ اسے مستقلاً والدین کی گود میں ہونا چاہئے۔ بالخصوص والدہ کے معاملے میں تو اس کی ضرورت یہ ہے کہ والدہ مستقلاً صرف اس کی خدمت گزار ہو اور اس کے ساتھ اس میں کوئی دوسرا بچہ بھی شریک نہ ہو۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک پھر اسے یہ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے ماں اور باپ ہوں اور اس کی نسبت ان کی طرف ہو۔ پہلی ضرورت نرسری کے سلسلہ میں ممکن نہیں ہے اور دوسری صورت سوائے اس کے کہ خاندانی نظام موجود ہو ممکن الحصول نہیں ہے۔ جو بچہ ان دوسہولتوں سے محروم رہے وہ توانائی اور نفسیاتی لحاظ سے ناقص رہے گا ۔ ایسے بچے لازماً کسی نہ کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہوتے ہیں ۔ اگر کسی کو کوئی ایسا حادثہ پیش آجائے اور وہ ان دونوں سہولتوں میں سے کسی ایک سے محروم ہوجائے تو یہ حادثہ اس بچے کے لئے تباہ کن ہوتا ہے لیکن ہمیں تعجب ہے کہ ہم کدہر جارہے ہیں ؟ ذرا اس غافل اور بیخبر جاہلیت پر غور کریں ، جس کی کوشش یہ ہے کہ نرسری کا نظام عام کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو ایسے تباہ کن حادثوں سے دوچار کیا جائے اور پھر جاہلیت کے بعض وہ تماشائی جو اسلام کی عطا کردہ امن وسلامتی سے محروم ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہلاکت ، چھوٹے چھوٹے بچوں کی ہلاکت وتباہی ترقی اور آزادی ہے ۔ ثقافت وتہذیب ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اسلامی نظام حیات نے ، اپنے اجتماعی نظام کی بنیاد ” خاندان “ پر رکھی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا یہ تھی کہ مسلمان امن سلامتی کے دائرے میں داخل ہوجائیں ۔ اور اسلام کے زیر سایہ سلامتی اور چین کی زندگی بسر کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے خاندانی نظام کے استحکام پر بہت زیادہ توجہ کی ہے۔ اس لئے کہ اسلام کے اجتماعی نظام میں خاندان بنیادی یونٹ قرار پانے والا تھا ۔ چناچہ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں خاندانی نظام کے استحکام کے لئے ، اس کے مختلف پہلوؤں کو منظم کیا گیا ہے اور اس کے لئے بنیادی مواد فراہم کیا گیا ہے ۔ چناچہ سورة بقرہ ان سورتوں میں سے ایک ہے ۔ اس سورت میں خاندانی نظام کے سلسلے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں نکاح ، معاشرت ، ایلا ، طلاق ، نفقہ ، متعہ ، رضاعت اور حضانت کے اہم مسائل بیان کئے گئے ہیں ، لیکن یہاں ان احکام کو خاص احکام کی شکل میں بیان نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر قانون کی کتابیں پڑھنے والے کتب قانون میں مجرد دفعات اور احکام پاتے ہیں۔ ہرگز نہیں ! یہ احکام ایسی فضا میں وارد ہوتے ہیں کہ انسان کا دل و دماغ اسے بحیثیت ایک عظیم اصول کے لیتے ہیں ۔ انسانی زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام زندگی کا ایک عظیم اصول اور اس نظریہ حیات کا عظیم اصول جس سے اسلامی نظام زندگی کی کونپلیں پھوٹتی ہیں ۔ اور یہ کہ اس اصول اور اس قانون کا تعلق براہ راست اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہے۔ یہ قانون اس کے ارادے ، اس کی حکمت ، اس کی مشیئت سے ملا ہوا ہے ۔ اور یہ اصول اس نظام زندگی کا ایک اہم حصہ ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پسند کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ کی رضا وغضب ، ثواب و عقاب وابستہ ہوتے ہیں اور ان احکام کا تعلق اسلامی نظریہ حیات سے ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ان پر عمل کرے گا ، تو وہ شخص مسلم کہلائے گا ۔ اگر عمل نہ کرے گا تو مسلم نہ کہلائے گا۔ انسان پہلی ہی نظر میں اس معاملے کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھ لیتا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی اس کی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس نظام کا ہر جز خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو اہمیت کا حامل ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ اس نظام کا نگران ہے اور اس طرف اس کی خاص توجہ ہے ۔ اور یہ کہ اس نظام کی ہر چھوٹی اور بڑی بات مقصد بالذات ہے اور اللہ کے ہاں ایک عظیم مقصد کے لئے اسے رکھا گیا ہے ۔ اور یہ کہ اس انسان کی ذات کی نگرانی خود اللہ تعالیٰ کرتا ہے ۔ پھر تحریک کی تعمیر وتربیت کا کام بھی خودذات باری اپنی نگرانی میں فرماتی ہے اور اس تعمیر اور نشوونما اور ٹریننگ کی غرض صرف یہ ہے کہ تحریک اسلامی کو اس عظیم رول کے لئے تیار کرنا ہے ، جو اس نے اس کائنات میں ادا کرنا ہے ، پھر انسان یہ محسوس کرلیتا ہے کہ اس نظام زندگی کے کسی حصے پر عمل نہ کرنا ، اسے کمزور کرنا ، اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے ۔ ایسے افراد شدید غضب کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ احکام بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں ، جب تک ایک حکم ختم نہیں ہوجاتا ، اس کے مالہ وماعلیہ بیان نہیں کردیئے جاتے ، اس وقت تک دوسرے حکم کا آغاز نہیں کیا جاتا ۔ پھر ہر حکم کے بعد تعقیبات اختتامیہ تبصرے اور نتائج بیان کئے جاتے ہیں ۔ بعض اوقات تو یہ تعقیبات اور تنبیہات بیان احکام کے درمیان ہی آجاتی ہیں ، جن سے مقصود یہ بتلانا ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اہمیت کا حامل ہے ۔ بالخصوص وہ تعقیبات ، جن کا تعلق ضمیر و احساس اور دل کے تقویٰ سے ہوتا ہے کیونکہ یہ بیدار تقویٰ ، احساس اطاعت اور ضمیر کی نگرانی کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ان احکام کے بجالانے میں حیلہ سازی سے کام لیاجائے۔ پہلا حکم یہ ہے کہ مسلمان مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کریں نہ اپنی عورتوں کا نکاح کرکے مشرک کے حوالہ کریں ۔ اس کی وجوہات یہ بتائی گئی ہیںأُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ” یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے ، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔ “ دوسرا حکم حیض کے دوران عورتوں سے مباشرت کرنے کے مسئلے کے متعلق ہے ۔ اس پر جو تعلیق وتبصرہ ہے ، اس میں اس فعل کو محض قضائے شہوت کے چند جسمانی منٹ کے تلذذ سے بلند کرکے ، اعلیٰ مقاصد اور انسانی فریضے کے اعلیٰ مقام تک بلند کیا جاتا ہے۔ بلکہ بتایا گیا ہے کہ یہ انسان کے ذاتی اور نجی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے اور اس کا تعلق خالق تعالیٰ کی اس اسکیم سے ہے کہ اس کی مخلوق اس کی عبادت اور اس کے ڈر کی وجہ سے پاک وصاف ہوجائے۔ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (222) نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لأنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ” پھر جب وہ پاک ہوجائیں ، تو ان کے پاس جاؤ اس طرح جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے ، اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے ، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں ۔ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ۔ تمہیں اختیار ہے ، جس طرح چاہو ، اپنی کھیتی میں جاؤ مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو ۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے ۔ اور اے نبی جو تمہاری ہدایات لیں انہیں خوشخبری دے۔ “ تیسرے حکم میں قسموں کے بارے میں احکام ہیں بعد میں چونکہ ایلا اور طلاق کے احکام بیان ہوں گے ۔ اس لئے یہاں بطور تمہید قسموں کے بارے میں عمومی حکم دے دیا۔ اللہ کے نام کی قسمیں کھانے کا ربط بھی ، اللہ پر پختہ یقین اور اللہ خوفی سے قائم کردیا گیا ہے ۔ ایک جگہ کہا گیا وَاللّٰہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ” اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ “ اور دوسری جگہ ہے وَاللّٰہ غَفُورٌ حَلِیمٌ” اللہ بہت درگزر کرنے والا بردبار ہے۔ “ چوتھا حکم ایلا کا ہے اور اس کے آخر میں یہ تعقیب ہے فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (226) وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ” اگر انہوں نے رجوع کرلیا تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔ اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ “ پانچواں حکم مطلقہ عورت کی عدت کے بارے میں ہے ۔ اور اس حکم کے ساتھ بھی متعدد تعقیبات پیوستہ ہیں ۔ لا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ” اور ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو ، اسے چھپائیں ، انہیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔ “ اور چھٹا حکم طلاقوں کی تعداد کے بارے میں ہے اور طلاق کی حالت میں مہر اور نفقہ واپس لینے کے احکام ہیں ۔ ان احکام کے بعد بھی یہ تعقیبات وارد ہیں ۔ وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلا أَنْ يَخَافَا أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ” اور تمہارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو ، البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ، ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے تو ان کے دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرے ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔ “ اور یہ کہ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ” اور یہ دوسرا شخص بھی اسے طلاق دے دے تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدود الٰہی پر قائم رہیں گے ، تو ان کے لئے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ، جنہیں وہ ان لوگوں کی ہدایت کے لئے واضح کررہا ہے ، جو (ان حدود کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں۔ “ ساتواں حکم یہ ہے کہ اگر تم عورت کو طلاق دو تو یا پھر صحیح طرح اسے الگ کردو اور یا صحیح طرح اسے اچھے طریقے سے رخصت کردو اور اس حکم پر اللہ تعالیٰ کا تبصرہ یہ ہے ۔................................................ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” یابھلے طریقے سے انہیں روکو یا بھلے طریقے سے رخصت کرو۔ محض ستانے کی خاطر انہیں نہ روکے رکھنا کہ یہ زیادتی ہوگی اور جو ایسا کرے گا ، وہ درحقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا ۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمہیں سرفراز کیا ہے ۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکم اس نے تم پر نازل کی ہے اس کا احترام ملحوظ رکھو۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے ۔ “ دوسری ہدایت یہ ہے : ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ ” یہ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت نہ کرنا ، اگر تم اللہ اور آخر پر ایمان لانے والے ہو ، تمہارے لئے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو ۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ “ آٹھواں حکم رضاعت اور اجرت پر دودھ پلانے اور اس کی اجرت کے متعلق ہے ۔ اور مفصل احکام بیان کرنے کے بعد اس پر یہ نصیحت کی جاتی ہے وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ” اللہ سے ڈر و اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ، سب اللہ کی نظر میں ہے۔ “ نواں حکم اس عورت کی عدت کے بارے میں ہے جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو ، اس پر یہ تعقیب باپروانہ آزادی فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ” پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو انہیں اختیار ہے کہ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے ، جو چاہیں فیصلہ کریں ، تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔ “ دسواں حکم دوران عدت عورت کو اشارۃً نکاح دینے کے بارے میں ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ تعقیب وتبصرہ آتا ہے۔ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَكِنْ لا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلا أَنْ تَقُولُوا قَوْلا مَعْرُوفًا وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ” اللہ جانتا ہے کہ ان کا خیال تمہارے دل میں تو آئے گا ہی مگر دیکھو ، خفیہ عہدوپیمان نہ کرنا ، اگر کوئی بات کرنی ہے تو معروف طریقے سے کرو۔ اور عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال تک جانتا ہے ۔ لہٰذا اس سے ڈرو اور یہ بھی جان لو کہ اللہ بردبار ہے ۔ (چھوٹی چھوٹی باتوں سے) درگذر فرماتا ہے۔ “ گیارہواں حکم اس مطلقہ عورت کے بارے میں ہے ، جس کے ساتھ مباشرت نہ ہوئی ہو ، ایسی عورت کا مہر مقررنہ کیا گیا ہو تو حکم یا ادا کردیا ہو تو حکم ۔ اس پر یہ وجدانی تبصرہ دیکھئے۔ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ” اور اگر تم (مرد) نرمی سے کام لو ، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو ۔ تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔ “ بارہواں حکم مطلقہ عورتوں کے بارے میں اور جس کا خاوند فوت ہوچکا ہے۔ اس کے بارے میں ہے کہ ایک سال تک نان ونفقہ دو ۔ اس حکم پر آخر میں حکم ہوتا ہے وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ” اور مطلقہ عورتوں کا حق ہے کہ انہیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے ۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر ۔ “ اب ان سب احکام کے بیان کرنے کے بعد ان سب پر ایک جامع تبصرہ کیا جاتا ہے : كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ” اس طرح اللہ اپنے احکام تمہیں صاف صاف بتاتا ہے ۔ امید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کروگے ۔ “ یہ سب احکام عبادت ہیں ۔ نکاح میں اللہ کی بندگی ہے ۔ مباشرت اور اضافہ نسل میں اللہ کی بندگی ہے ۔ طلاق اور جدائی بھی اللہ کی غلامی اور بندگی ہے۔ عدت اور دوران عدت طلاق سے رجوع بھی بندگی ہے ، نفقہ اور رخصتی کا سازوسامان بھی اللہ کی بندگی ہے ۔ معروف طریقے سے عورت کو روک کر بیوی بنالینا بھی بندگی ہے ۔ ورنہ اچھے طریقہ سے ہمیشہ کے لئے رخصت کردینا بھی اللہ کی بندگی ، فدیہ دینا بھی بندگی ہے۔ عوض دینا بھی بندگی دودھ پلانا بھی بندگی ہے اور دودھ سے چھڑانا بھی اللہ کی بندگی اور اطاعت ہے۔ غرض ہر حرکت اور ہر پیش آمد واقعہ میں ایک مسلمان کا طرز عمل اگر خدائی ہدایات کے مطابق ہے تو بندگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان احکام کے عین وسط میں اچانک نماز کا حکم بھی آجاتا ہے ۔ یعنی خوف میں بھی نماز اور امن میں بھی نماز فرماتے ہیں حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (238) فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ” اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو ، خصوصاً ایسی نماز کی جو محاسن صلوٰۃ کی جامع ہو ۔ (یابیچ والی نماز) اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو ، جیسے فرمانبردار غلام کھڑے ہوتے ہیں ، بدامنی کی حالت ہو تو خواہ پیدل ہو ، خواہ سوار جس طرح ممکن ہو ، نماز پڑھو اور جب امن میسر آجائے تو اللہ کو اس طریقے سے یاد کرو جو اس نے تمہیں سکھایا ہے ، جس سے پہلے تم ناواقف تھے۔ “ آپ دیکھیں نماز کا یہ حکم عائلی احکام کے درمیان واقعہ ہے ۔ ابھی عائلی احکام ختم نہ ہوئے تھے کہ درمیان میں نماز کا ذکر آگیا ۔ تاکہ نماز کی عبادت کا حکم دوسری عبادات زندگی کے درمیان خلط ہوجائے ۔ یہ خلط اس لئے ہوا کہ یہ اسلام کے مزاج کے عین مطابق ہے ۔ اور اسلامی نظریہ حیات کی رو سے یہ کلی بندگی اور ہر کام میں عبادت وجود انسان کی اصل غرض وغایت ہے ۔ اس پورے سبق کا انداز بیان ، اس طرف بہت ہی لطیف انداز میں اشارہ کرتا ہے ۔ یہ کہ یہ سب چیزیں عبادت ہیں ، جس طرح نماز کے معاملے میں احکام الٰہی کی اطاعت عبادت ہے ، اسی طرح ان دوسرے عائلی معاملات میں بھی احکام الٰہی کی اطاعت عبادت ہے ۔ زندگی ایک اکائی ہے اور عبادات سب کی سب ایک ہی نوعیت کی ہیں ۔ تو احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور یہ سب احکام ہی زندگی کا وہ نظام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا ہے ۔ ان تمام احکام میں ، جس طرح اللہ کی عبادت اور بندگی کا ماحول ، اللہ کی اطاعت و عبادت کا رنگ ہے اور اللہ کی غلامی کا پرسکون سایہ ہے ، اسی طرح ان میں واقعی زندگی کے ماحول کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا ۔ انسان کی طبعی ساخت اور اس کی فطری خواہشات سے بھی قطع نظر نہیں کی گئی اور اس کرہ ارض پر انسانوں کی انسانی ضروریات کو بھی اچھی طرح پورا کیا گیا ہے۔ اسلام جو قانون بناتا ہے وہ انسانوں کے ایک گروہ کے لئے بنارہا ہے ، وہ یہ قانون بہرحال فرشتوں کے لئے نہیں بنارہا ہے ۔ نہ اڑتے ہوئے تخیلات کے عالم میں کسی فرضی مخلوق کے لئے ۔ اس لئے عام ہدایات اور قانون سازی یا شرعی احکام کے ذریعے ، جب اسلام انہیں اللہ کی بندگی کی فضاتک بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ حقیقت اچھی طرح اس کے سامنے ہوتی ہے کہ وہ سب کچھ ایک انسان کے لئے کررہا ہے ۔ یہ کہ بندگی ایک بشر نے کرنی ہے اور انسانوں میں انسانی جذبات ومیلانات پائے جاتے ہیں ۔ ان میں ضعف ہے اور کئی قسم کی کمزوریاں ہیں ۔ ان کو ضروریات لاحق ہوتی ہیں اور ماحول سے متاثر ہوتے ہیں ، وہ جذبات رکھتے ہیں اور باشعور مخلوق ہیں ۔ ایک طرف ان میں روحانی اشراق ہے تو دوسری طرف انسانی کثافتیں بھی ہیں اور اسلامی نظام زندگی میں ایک ایسا نظام ہے جوان سب امور کا خیال رکھتا ہے ۔ اور ان کے باوجود انسان کو ایک پاک بندگی کی راہ پر لگا دیتا ہے ۔ ایک روشن چراغ انہیں دکھاتا ہے ۔ ہدایت کا روشن چراغ ۔ لیکن بغیر کسی جبر کے ، بغیر کسی مصنوعی ذریعہ کے ، وہ اپنے تمام نظام زندگی کی بنیاد اس پر قائم کرتا ہے کہ یہ انسان بہر حال انسان ہے ! یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ایلا کو جائز قرار دیا ۔ یعنی ایک مرد کے جائز ہے کہ وہ ایک مقررہ وقت تک عورت کے ساتھ مباشرت نہ کرنے کی قسم کھالے ۔ لیکن شرط یہ ہے یہ قسم چار ماہ سے زیادہ نہ ہوگی۔ پھر اسلام طلاق کی گنجائش رکھتا ہے ۔ اور اس کے باقاعدہ قانون سازی کرتا ہے۔ اس کے احکام اور نتائج کو بھی منظم طریقے سے قانونی ضابطہ کا پابند کردیتا ہے۔ ایسے حالات میں ازروئے قانون طلاق کی گنجائش رکھی گئی ہے ، جبکہ دوسری طرف خاندانی نظام کی بنیادوں کو پوری طرح مستحکم کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے ۔ خاندانی تعلقات کو مزید پختہ کرنے کی سعی کی گئی ہے اور افراد خاندان کے باہمی ربط کو محض معاشرتی فائدوں سے بلند کرکے اسے اطاعت خداوندی اور عبادت رب کا بلند تصور دے دیا گیا ہے ۔ یہ وہ توازن ہے جو اسلامی نظام زندگی کے عملی پہلوؤں کو واقعی بہت ہی بلند اور ایک حقیقی مثالی نظام کردیتا ہے۔ جو مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی طاقت اور وسعت کے دائرے کے اندر بھی رہتا ہے ۔ اور یوں لگتا ہے کہ یہی نظام ہے جو فی الواقعہ ایک عام انسان کے لئے بنایا گیا ہے۔ نظام کیا ہے فطرت کی سہولتیں ہی سہولتیں ہیں ۔ مرد اور عورت دونوں کے لئے حکیمانہ سہولیات ہیں ۔ اگر ایک تشکیل شدہ خاندان ، جس کی بنیاد مرد و عورت کے نکاح سے پڑی تھی کامیاب نہیں ہوتا ، اس ابتدائی انسانی خلیہ (Cell) میں امن و سکون قائم نہیں ہوسکتا تو اللہ وہ ذات ہے جو جاننے والا خبردار ہے ، وہ لوگوں کے بارے میں وہ کچھ جانتا ہے ، جو وہ خود بھی نہیں جانتے ۔ اس لئے ذات باری نے یہ نہ چاہا کہ وہ مرد و عورت کے رابطہ نکاح کو ناقابل انفکاک بنادے اور اس طرح ابتدائی انسانی جوڑے کو انس و محبت کے گہوارے کے بجائے ایک قید خانہ بنادے ۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھنا چاہتے ہوں مگر جدائی محال ہو ، ان کے دلوں میں سب شکوک و شبہات سیلابی شکل اختیار کرگئے ہیں لیکن بچنے کی کوئی صورت نہ ہو ۔ میاں بیوی کے تعلقات شبہات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دب کر ررہ گئے ہوں لیکن روشنی کی طرف نکل آنے کی کوئی صورت نہ ہو ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تومیاں بیوی کے جوڑ اور اس چھوٹے خاندان کو اس لئے بنایا تھا کہ وہ دارالسکون ہو ، دارالامن ہو۔ اگر اس سے یہ مقصد پورا نہ ہورہا ہو اور اس لئے نہ ہورہا ہو کہ فریقین کی فطرت اور طبائع میں اختلاف ہو ، تو پھر ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے اور اس بیمار خاندان کو ختم کردیا جائے اور وہ دوبارہ کوشش کریں کہ جڑسکیں لیکن جدائی کا فیصلہ بھی محض سرسری اختلافات کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ اس خاندان کو بچانے کے لئے تمام وسائل کام میں لائے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام زندگی میں انسانی اجتماع میں خاندان مقدس ترین اکٹھ ہے ۔ لیکن جدائی کی صورت میں بھی ایسے احکام دیئے گئے ہیں کہ نہ خاوند کو نقصان پہنچے نہ بیوی کو ۔ نہ بچے کو اور نہ ہی جنین کو ۔ یہ ہے وہ ربانی نظام زندگی ، جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے تشکیل دیا۔ جب انسان اس نظام کی بنیاد وں پر غور کرتا ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے تجویز کیا ہے اور پھر اس نظام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس معاشرے ، پاک معاشرے پر نگاہ ڈالتا ہے جس میں امن وسلامتی کا دور دورہ ہوتا ہے اور پھر اس کے مقابلے میں اس نظام زندگی کا مطالعہ کرتا ہے ، جو اس وقت فعلاً انسانی زندگی میں قائم ورائج تھا ۔ تو نظر آتا ہے کہ دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ اور اسلامی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہے ۔ اور اگر اسلامی معاشرے کا مقابلہ مشرق ومغرب میں آج کے جدید جاہلی معاشروں سے کیا جائے تو بھی یہ مثالی معاشرہ ایک اونچے مقام پر نظر آتا ہے ، حالانکہ ان جدید جاہلی معاشروں کے حامی اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ معاشرہ سمجھتے ہیں ۔ اس تقابلی مطالعہ کے نتیجے میں اچھی طرح احساس ہوجاتا ہے کہ اسلام نے شرافت ، پاکیزگی اور امن و سکون کا اونچا معیار قائم کیا ہے ۔ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس اونچے مقام تک انسانوں کو پہچانے کے لئے قانون بنایا ۔ خصوصاً عورت کو تو اس نظام میں خصوصی رعایتیں دی گئیں ہیں ۔ بہت بڑی حرمت اور شرافت اسے عطاکردی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو مستقیم الفطرت عورت بھی ان خصوصی رعایتوں پر غور کرے ، جو اللہ نے اسلامی نظام میں عورتوں کو دی ہیں ، وہ بےاختیار اللہ تعالیٰ کے ساتھ بےپناہ محبت کرنے لگے گی ، بشرطیکہ وہ استقامت فکر سے غور کرے ۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)
Top