Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 236
لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَهُنَّ فَرِیْضَةً١ۖۚ وَّ مَتِّعُوْهُنَّ١ۚ عَلَى الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَ عَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ١ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ
لَاجُنَاحَ : نہیں گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِنْ : اگر طَلَّقْتُمُ : تم طلاق دو النِّسَآءَ : عورتیں مَالَمْ : جو نہ تَمَسُّوْھُنَّ : تم نے انہیں ہاتھ لگایا اَوْ : یا تَفْرِضُوْا : مقرر کیا لَھُنَّ : ان کے لیے فَرِيْضَةً : مہر وَّمَتِّعُوْھُنَّ : اور انہیں خرچ دو عَلَي : پر الْمُوْسِعِ : خوش حال قَدَرُهٗ : اس کی حیثیت وَعَلَي : اور پر الْمُقْتِرِ : تنگدست قَدَرُهٗ : اس کی حیثیت مَتَاعًۢا : خرچ بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار
تم پر کچھ گناہ نہیں ، اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو ، قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو۔ اس صورت میں انہیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہئے ۔ خوشحال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقہ سے دے ۔ یہ حق ہے نیک آدمیوں پر ۔
اس میں دوحالتیں ہیں ۔ پہلی حالت یہ ہے مطلقہ کو اپنی وسعت کے مطابق کچھ سازوسامان دے ۔ اس سے تو ایک تو عورت کی دلجوئی ہوگی اور نفسیاتی طور پر دونوں خاندانوں کے درمیان خوشگواری پیدا ہوگی اور دوسرے یہ کہ اسے کچھ نہ کچھ مالی فائدہ ہوگا۔ اس طرح کی جدائی سے عورت اپنے لئے کرب اور درد محسوس کرتی ہے ۔ یہ اس کے لئے عمر بھر کا طعنہ اور دشمنی بن جاتی ہے ۔ ایسے حالات میں اگر اسے بطور تحفہ کچھ دے دے تو اس سے نفسیاتی طور پر اس عورت کے برے احساسات میں کمی آسکتی ہے اور دونوں خاندانوں کے درمیان کشمکش ، کشیدہ تعلقات کے بادل چھٹ سکتے ہیں اور یہ تحفہ اس قسم کا اظہار محبت ہوسکتا ہے اور ساتھ ہی اعتراف جرم اور معذرت بھی ۔ اس سے خود مرد کی جانب سے بھی اس بات کا اظہار ہوگا کہ وہ خود بھی اس طلاق اور جدائی پر متاسف ہے ، معذرت خواہ ہے ۔ یہ کہ یہ باہمی تعلقات کی یہ ایک ناکام کوشش تھی لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے باہمی حسن سلوک کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا جائے ۔ اس لئے یہاں وصیت کی گئی کہ اس صورت میں عورت کو کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے معروف طریقے کے مطابق تاکہ فریقین کے درمیان انسانی بنیادوں پر انس و محبت قائم رہ سکے اور ٹوٹے ہوئے تعلقات کی اچھی یادیں باقی رہیں ۔ لیکن قرآن مجید ساتھ ساتھ یہ ہدایات بھی کردیتا ہے کہ خاوند پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے ۔ غنی اپنی مقدرت کے مطابق اور نادار آدمی اپنی وسعت کے مطابق دے عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ ” خوشحال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق۔ “ اشارہ کیا جاتا ہے کہ یہ تحفہ معروف طریقے کے مطابق احسان سے ہوتا ہے کہ خشک دلوں میں تازگی پیدا ہوجائے اور باہمی تعلقات کی فضا پر جو گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں وہ چھٹ جائیں ۔ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ” یہ تحفہ ہے معروف طریقے کے مطابق اور یہ حق ہے نیک آدمیوں پر۔ “
Top