Fi-Zilal-al-Quran - An-Noor : 31
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ١۪ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ١۪ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ١ؕ وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
وَقُلْ : اور فرما دیں لِّلْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں کو يَغْضُضْنَ : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِنَّ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظْنَ : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُنَّ : اپنی شرمگاہیں وَلَا يُبْدِيْنَ : اور وہ ظاہر نہ کریں زِيْنَتَهُنَّ : زپنی زینت اِلَّا : مگر مَا : جو ظَهَرَ مِنْهَا : اس میں سے ظاہر ہوا وَلْيَضْرِبْنَ : اور ڈالے رہیں بِخُمُرِهِنَّ : اپنی اوڑھنیاں عَلٰي : پر جُيُوْبِهِنَّ : اپنے سینے (گریبان) وَلَا يُبْدِيْنَ : اور وہ ظاہر نہ کریں زِيْنَتَهُنَّ : اپنی زینت اِلَّا : سوائے لِبُعُوْلَتِهِنَّ : اپنے خاوندوں پر اَوْ : یا اٰبَآئِهِنَّ : اپنے باپ (جمع) اَوْ : یا اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ : اپنے شوہروں کے باپ (خسر) اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ : یا اپنے بیٹے اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ : یا اپنے شوہروں کے بیٹے اَوْ اِخْوَانِهِنَّ : یا اپنے بھائی اَوْ : یا بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ : اپنے بھائی کے بیٹے (بھتیجے) اَوْ : یا بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ : یا اپنی بہنوں کے بیٹے (بھانجے) اَوْ نِسَآئِهِنَّ : یا اپنی (مسلمان) عورتیں اَوْ مَا مَلَكَتْ : یا جن کے مالک ہوئے اَيْمَانُهُنَّ : انکے دائیں ہاتھ (کنیزیں) اَوِ التّٰبِعِيْنَ : یا خدمتگار مرد غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ : نہ غرض رکھنے والے مِنَ : سے الرِّجَالِ : مرد اَوِ الطِّفْلِ : یا لڑکے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ لَمْ يَظْهَرُوْا : وہ واقف نہیں ہوئے عَلٰي : پر عَوْرٰتِ النِّسَآءِ : عورتوں کے پردے وَلَا يَضْرِبْنَ : اور وہ نہ ماریں بِاَرْجُلِهِنَّ : اپنے پاؤں لِيُعْلَمَ : کہ جان (پہچان) لیا جائے مَا يُخْفِيْنَ : جو چھپائے ہوئے ہیں مِنْ : سے زِيْنَتِهِنَّ : اپنی زینت وَتُوْبُوْٓا : اور تم توبہ کرو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ( آگے) جَمِيْعًا : سب اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ : اے ایمان والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح (دوجہان کی کامیابی) پاؤ
اور اے نبی ﷺ ‘ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں ‘ اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ‘ اور اپنا بنائو سنگھار نہ دکھائیں۔ بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے ‘ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بنائو سنگھار ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : شوہر ‘ باپ ‘ شوہروں کے باپ ‘ اپنے بیٹے ‘ شوہروں کے بیٹے ‘ بھائی ‘ بھائیوں کے بیٹے ‘ بہنوں کے بیٹے ‘ اپنے میل جول کی عورتیں ‘ اپنے لونڈی غلام ‘ وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں ‘ اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہو ‘ اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔ اے مومنو ‘ تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو ‘ توقع ہے کہ فلاح پائو گے “۔
(وقل۔۔۔۔۔۔ فروجھن) (24 : 31) ” “۔ وہ اپنی بھوکی نظروں کو آزاد نہ چھوڑیں نہ وہ درد یدہ نگاہوں سے مردوں کو دیکھیں۔ نہ اچانک ان پر نگاہ ڈالیں اس طرح کہ مردوں کے خوابیدہ میلانات کے اندر اشتعال پیدا ہوجائے اور وہ اپنی شرمگاہوں اور غیر قانونی اور غیر جائز مردوں کے لیے مباح نہ کردیں۔ اپنے فطری میلانات کو جائز طریقے سے استعمال کر کے حلال بچے پیدا کریں اور یہ نہ ہو کہ حرام بچے پیدا ہوں اور عاشرے کے لیے وہ شرم کا باعث ہوں اور عاشرہ ان کے لیے شرمشار کنندہ ہو۔ (ولا۔۔۔۔۔ منھا) (24 : 31) ” “۔ زینت اور بنائو اور میک اپ عورتوں کے لیے جائز ہے کیونکہ یہ ان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ ہر عورت کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہت ہی خوبصورت نظر آئے۔ ہر زمانے میں زینت کے معیار بھی بدل جاتے ہیں لیکن زینت کا داعیہ فطرت کے اندر موجود ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت بنائے۔ اسلام عورت کی اس فطرت کو بھی جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکتا۔ وہ اسے تسلیم کرتا ہے لیکن اسلام اس کی تنظیم اور ضابطہ بندی ضرور کرتا ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ یہ زیب وزینت صرف ایک مرد یعنی اپنے خاوند اور شریک حیات کے لیے مخصوص ہوجائے اور اس زینت کو صرف وہ دیکھے۔ اس میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہ ہو۔ ہاں بعض مجارم بھی اس زینت میں شریک ہو سکتے ہیں جن کا ذکر بعد میں آتا ہے اور جن سے یہ توقع نہیں ہوتی کہ عورت ان کے لیے شہوت انگیز ہوگی۔ رہی وہ زینت جو چہرے پر ہے یا جو ہاتھوں پر ہے تو اس کا ظہور جائز ہے۔ کیونکہ چہرے اور ہاتھوں کا کھولنا عورتوں کے لیے مباح ہے۔ حضور ﷺ نے اسماء بنت ابوبکر سے یہ فرمایا ” اسماء عورت جب حیض کی حد تک پہنچ جائے تو یہ جائز نہیں ہے کہ اس کے ” ان “ مقامات کے سوا کوئی جگہ کھلی ہو۔ آپ نے اس وقت چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا۔ ولیضربن بخمر ھن علی جیو بھن (24 : 31) ” “۔ جب اس شگاف کو کہتے ہیں جو قمیض میں سینے پر ہوتا ہے۔ اور ” خمار “ اس چادر کو کہتے ہیں جو سر پر اوڑھی جاتی ہے تاکہ اس سے سینہ چھپ جائے اور وہ بھوکی نظروں سے اوجھل رہے اور اچانک نظر سے بھی یہ مقامات بچ جائیں۔ متقی لوگ تو اس اچئتی نظر کو طول نہیں دیتے نہ دو بارہ نظر ڈالتے ہیں لیکن اس نظر سے بھی بعض اوقات بڑے فتنے پیدا ہوجاتے ہیں۔ اگر ان مقامات کو کھلا رکھا جائے جن سے جنسی میلان کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ اس معاملے میں کسی انسان کو آزمانا نہیں چاہتا کیونکہ اللہ کو معلوم ہے کہ انسان کے لیے یہ ایک عظیم فتنہ ہے۔ اور وہ مومن عورتیں جو اللہ کی طرف سے یہ ممانعت پار ہی تھیں اور ان کے دل اللہ کے نور سے منور تھے انہوں نے ان احکام کی تعمیل میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا۔ اگر چہ ان کی فطری رغبت اور خواہش یہی تھی کہ وہ ایسے جمال و کمال کا اظہار کریں جس طرح ہر عورت کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے۔ جاہلیت میں یہ رواج تھا جس طرح آج کی جدید جاہلیت کا رواج ہے کہ عورتیں مردوں کے درمیان سینہ تان کر پھرتی تھیں اور ان کے سینہ پر کچھ نہ ہوتا تھا۔ بعض اوقات تو اس کی گردن اور بالوں کی لٹیں بھی کھلی ہوتی تھیں اور کان کی بالیاں بھی کھلی ہوتی تھیں۔ جب اللہ کی طرف سے یہ حکم آیا کہ وہ اپنے سینوں پر اوڑھنیاں لٹکائیں اور اپنی زینت کے صرف ان حصوں کو ظاہر کریں جو ظاہر ہوں تو انہوں نے اس حکم کی تعمیل میں مطلق تامل نہ کیا۔ اس کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ کا قول خوب و ضاحت کرتا ہے کہ اللہ دور اول کی مہاجر عورتوں پر رحم فرمائے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن (24 : 31) ” “۔ تو جب ان کے مرد عورتوں کے پاس گئے اور انہوں نے ان پر یہ آیت تلاوت کی تو ایک انقلاب آگیا۔ ایک شخص اپنی بیوی ‘ بہن ‘ اور لڑکی کے سامنے یہ تلاوت کرتا یا دوسری قریبی رشتہ دار عورتیں کے سامنے ‘ تو ان عورتوں نے اپنی نقش و نگار والی ریشمی چادروں کو پھاڑا اور سر پر اوڑھ لیا۔ یہ انہوں نے ایمان اور تصدیق کے جذبہ سے کیا۔ (یعنی اللہ کا جو حکم آیا انہوں نے اس پر عمل کیا) ۔ اور وہ عورتیں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے صفوں میں یوں کھڑی نظر آتی تھیں کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ اسلام نے اسلامی معاشرے کا ذوق ہی بدل دیا اور اس معاشرے میں لوگوں کے جمالی احساسات ہی بدل گئے۔ اب جمال اور حسن کی حیوانی ادائیں مطلوب اور مستحسن نہ رہیں بلکہ حسن و جمال کا ایک انسانی اور مہذب رنگ ڈھنگ اور معیار قائم ہوگیا جس میں عریانی معیار حسن نہ رہی۔ جہاں تک عریانی کا تعلق ہے یہ حسن و جمال کا حیوانی معیار ہے۔ انسان اس کی طرف تب مائل ہوتا ہے جب اس کے احساسات حیوانی بن جائیں۔ اگرچہ یہ عریاں جمال بہت ہی اعلیٰ درجے کا حسن پیش کرتا ہو۔ سنجیدگی اور وقار کا جمال تو وہی پاکیزہ جمال ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے۔ اس سے ذوق ترقی پاتا ہے اور وہ انسان کے لائق ہوتا ہے۔ یہ ظاہری بھی ہوتا ہے ‘ اور تصوراتی بھی ہوتا ہے۔ آج بھی اسلام سچی مومنہ عورتوں کی تربیت اسی انداز سے کرتا ہے اگرچہ آج کا ماحول بہت ہی بدل گیا ہے۔ عمومی طور پر لوگوں کا ذوق گر گیا ہے اور اس میں حیوانی رنگ کا غلبہ ہے۔ آج کے جمالیاتی مظاہر میں عریانی اور حیوانی رنگ ڈھنگ اپنے عروج پر ہے لیکن ہماری مومنہ عورتیں آج بھی اپنے مقامات کشش اور مقامات فتنہ کو چھپاتی ہیں۔ وہ یہ جہاد ایسے ماحول میں گر رہی ہیں جہاں عریانی ہی عریانی ہے۔ عورتوں کی حالت یہ ہے کہ وہ مردوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہیں اور اس طرح پکار رہی ہیں اور دعوت دے رہی ہیں جس طرح حیوان حیوان کو پکارتا ہے۔ یہ پردہ سنجیدگی اسلامی فرد اور ایک معتدل اسلامی سوسائٹی کے لیے بےحیائی سے بچائو کی واحد تدبیر ہے۔ لیکن جہاں فتنے اور فحاشی اور بےراہ روی کا ڈر نہ ہو وہاں اسلام کشف و ظہور ‘ زینت کی ممانعت نہیں کرتا۔ چناچہ وہ مرد جن کا میلان بالعموم محرم عورتوں کی طرف نہیں ہوتا ‘ ان کے سامنے اظہار زینت کی ممانعت نہیں ہے۔ آبائ ‘ ابنائ ‘ سسر ‘ خاوند کے بیٹے ‘ بھائی بھتیجے ‘ بھانجے اور مومن عورتیں ان احکام سے مستثنیٰ ہیں۔ اونسا ئھن (24 : 31) ” ان کی عورتیں “ یعنی مومن عورتیں۔ رہیں غیر مومن عورتیں تو وہ مستثنیٰ نہیں ہیں۔ یہ اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ غیر مسلم عورتیں اپنے خاوندوں کے سامنے یا بھائیوں کے سامنے یا لڑکوں کے سامنے مسلمان عورتوں کی خفیہ زیب وزینت کی داستانیں سنائیں۔ صحیحین میں ہے۔ لاتباشر المر اۃ المر اۃ تنقھا لزو جھا کا نہ پر اھا ” کوئی عورت دوسری عورت کے سامنے ننگی نہ ہو کہ وہ اس کا بیان اپنے خاوند سے اس طرح کرے کہ گویا وہ اسے ننگا دیکھ رہا ہے “۔ لیکن مسلمان عورتیں اس سے اس لیے مستثنیٰ ہیں کہ وہ امین ہیں۔ ان کا دین اور ان کا اخلاص ان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ایک مسلم عورت کی جسمانی ساخت اور زیب وزینت کا بیان اپنے خاوندوں کے سامنے کریں۔ اور اس سے وہ بھی مستثنیٰ ہیں۔ اوما ملکت ایمانھن (24 : 31) ” وہ جو تمہارے مملوک غلام ہیں “۔ ان کے بارے میں دو اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مراد صرف لونڈیاں ہیں دوسرا یہ کہ غلام اور لونڈیاں دونوں اس حکم میں شامل ہیں کیونکہ ایک غلام بالعموم اپنی مالکہ کی طرف شہوانی نظروں سے نہیں دیکھتا۔ لیکن پہلی رائے درست ہے کیونکہ غلام بھی بہر حال انسان ہے اور سیدہ کی زیب وزینت کے مقامات دیکھ کر اس کے اندر بھی شہوانی ہیجان پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر چہ وہ معاشرتی اعتبار سے ایک فردوتر مقام رکھتا ہو اور اس سے وہ زیر دست مرد بھی مستثنیٰ ہیں جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں۔ یعنی اوالتبعین غیر اولی الاربۃ من الرجال (24 : 31) ” اور وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں “۔ یا وہ کسی سبب سے عورتوں کی خواہش ہی نہ رکھتے ہوں مثلاً وہ نامرد ہوں ‘ یا احمق ہوں یا مجنوں ہوں یا اور کوئی ایسی وجہ ہو جس کی بنا پر وہ عورت کو نہ چاہتے ہوں اور کسی فتنہ اور بےراہ روی کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ اوالطفل الذین لم یظھروا علی عورت النسآ ئ (24 : 31) ” اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں “۔ وہ بچے کہ اگر وہ عورت کو ننگا دیکھ لیں تو اس کے اندر جسمانی خواہش پیدانہ ہو۔ اگر انکے اندجنسی شعور پیدا ہوگیا ہو ‘ اگرچہ وہ بالغ نہ ہوئے ہوں تو ان سے پردہ ضروری ہے اور وہ اس استثناء میں داخل نہیں ہیں۔ یہ سب خاوندوں کے علاوہ ہیں۔ ان کے لیے یہ اجازت ہے کہ یہ اگر عورت کے ناف کے نیچے اور گھٹنے کے اوپر کے حصے ‘ کے ماسوا کسی جگہ کو دیکھ لیں ‘ جب کہ ان لوگوں سے ایسا کوئی ڈر نہ ہو کہ یہ کسی فتنے میں مبتلا ہوں گے۔ رہا خاوند تو تو اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ اپنی بیوی کے جسم کا ہر حصہ دیکھ سکے۔ پردہ کے ان احکام سے مراد اور مقصود یہ تھا کہ کوئی بےراہ روی اور فحاشی میں مبتلا نہ ہو اس لیے اب یہاں ایسی حرکات کی بھی ممانعت کردی گئی ہے جس سے کوئی فتنے میں پڑسکتا ہے ‘ جن کی وجہ سے شہوت کا ہیجان پیداہو سکتا ہے اور جن کی وجہ سے خفیہ جذبات بھڑک سکتے ہیں اگرچہ عملا وہ عورتیں پردے میں ہوں۔ ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن (24 : 31) ” اور وہ اپنے پائوں کو زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ اپنی زینت جو انہوں نے چھپار کھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہوجائے “۔ یہ آیت نفس انسانی کی تشکیل ‘ اس کے تاثر اور انفعال اور جنسی معاملات میں اس کے رد عمل کی گہرائی تک اتر جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی سوچ اور تصور بعض اوقات ایک منظر کے دیکھنے سے بھی زیادہ متاثر کردیتی ہے۔ کئی لوگ ایسے حساس ہوتے ہیں کہ عورت کے جسم کو دیکھنے کے مقابلے میں اس کے جوتوں ‘ اس کے کپڑوں اور اس کے زیورات کو دیکھ کر ہی متاثر ہوتے ہیں۔ نیز بعض افراد کو عورت کا خیال زیادہ متاثر کرتا ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ ان کے سامنے ہو۔ امراض نفسی کے علماء کے ہاں ان امور کے بارے میں بڑی ہی معلومات ہیں۔ اس طرح دور سے گھنگرئوں کی آواز اور عطر کی خوشبو بھی انسانی حواس کے اندر ہیجان پیدا کردیتی ہے اور ان کے اعصاب پر اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ اثرات اس قدر شدید ہوتے ہیں کہ انسان کا اپنے اوپر قابو نہیں رہتا۔ قرآن کریم ان تمام تاثرات کے راستے بند کرتا ہے کیونکہ قرآن کا نازل کرنے والا وہی ہے جو انسان کا خالق ہے۔ وہی ہے جو اپنی مخلوقات کے بارے میں سب سے اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ نہایت ہی گہرائی کے ساتھ خبر دار ہے۔ اور آخر کار تمام نیکیوں کا سرچشمہ آتا ہے ‘ کہ لوگوں کا تعلق بالل مضبوط ہونا چاہیے اور توبہ و استغفار کا دروازہ بھی ان کے لیے کھلا چھوڑا جاتا ہے۔ یعنی وہ گناہ اللہ معاف کردے گا جو نزول قرآن سے قبل تم لوگوں سے صادر ہوتے رہے ہیں۔ (وتوبوآ۔۔۔۔۔۔۔ تفلحون) (24 : 31) ” اے مومنو ‘ تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو ‘ توقع ہے کہ فلاح پائو گے “۔ چناچہ اس فقرے کے ذریعے اللہ کی نگرانی کا احساس دلایا جاتا ہے اور اللہ کی عظمت ‘ اس کی مہربانی کی اہمیت بتائی جاتی ہے کیونکہ شیطان کی اس کشمکش کے مقابلے میں وہی مدد گا رہے اور اس کا خوف اور اس کی نگرانی کا شعور ہی انسان کو ان خرابیوں سے بچا سکتا ہے۔ یہاں تک اس مسئلے کا انسدادی علاج کیا گیا تھا لیکن انسان کی جنسی خواہش دراصل ایک حقیقی خواہش ہے جو انسان کے اندر رکھی گئی ہے ۔ اس لیے جنسی تشفی کے حقیقی علاج یعنی مثبت علاج کی بھی ضرورت ہے۔ یہ مثبت علاج ویں ہوگا کہ معاشرے میں شادی کو آسان کردیا جائے اور اس معاملے میں معاونت کی جائے اور شادی اور جائز تعلق کے مقابلے میں تمام دوسرے ذرائع اور تعلقات کے معاملے میں سختی کی جائے۔
Top