Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Noor : 32
وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآئِكُمْ١ؕ اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَاَنْكِحُوا
: اور تم نکاح کرو
الْاَيَامٰى
: بیوی عورتیں
مِنْكُمْ
: اپنے میں سے (اپنی)
وَالصّٰلِحِيْنَ
: اور نیک
مِنْ
: سے
عِبَادِكُمْ
: اپنے غلام
وَاِمَآئِكُمْ
: اور اپنی کنیزیں
اِنْ يَّكُوْنُوْا
: اگر وہ ہوں
فُقَرَآءَ
: تنگدست (جمع)
يُغْنِهِمُ
: انہیں غنی کردے گا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ فَضْلِهٖ
: اپنے فضل سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
وَاسِعٌ
: وسعت والا
عَلِيْمٌ
: علم والا
تم میں سے جو لوگ مجرو ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ‘ ان کے نکاح کر دو ۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا ‘ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے
(وانکحوا الایامی۔۔۔۔۔۔۔۔ واسع علیم ولیستعفف الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غفور رحیم ) ” جنسی میلان کی تسکین کا بہترین طریقہ شادی ہے۔ اس گہری خواہش کے اندر فطرت اور قدرت کا یہی راز ہے کہ لوگ نسل انسانی کے تسلسل کے مشکل کام کو خوشی خوشی سرانجام دیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم شادی کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹیں دور کردیں تاکہ زندگی فطری انداز کے مطابق سادگی سے چلتی رہے۔ کسی خاندان کی تشکیل کے لیے پہلی رکاوٹ مالی رکاوٹ ہے اس طرح لوگ محفوظ اور قلعہ بند نہیں ہو سکتے۔ اسلام چونکہ ایک مکمل نظام زندگی ہے اس لیے وہ عفت اور پاکیزگی کو تب ہی لازم کرتا ہے جب اس کے لیے اسباب بھی فراہم کر دے اور سوسائٹی کے تمام افراد کو فراہم کردے تاکہ جو لوگ معتدل اور فطری راستے سے انحراف کرتے ہیں وہ اس کے لیے مجبور نہ ہوں بلکہ ان کے سامنے جنسی تسکین کا صحیح راستہ موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام حکم دیتا ہے کہ ایسے نوجوانوں کے لیے شادی کی راہ ہموار کی جائے جو شادی شدہ نہ ہوں۔ (وانکحوا۔۔۔۔۔۔۔۔ واسع علیم) (24 : 32) ” تم میں سے جو لوگ مجروہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ‘ ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا ‘ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے “۔ اور ایامیٰ وہ لوگ ہیں جن کا جوڑ نہ ہو یعنی عورت کا خاوند نہ ہو اور مرد کی بیوی نہ ہوائو وہ مجروہوں۔ یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو آزاد ہیں۔ اس کے بعد غلاموں کا ذکر خصوصیت سے کردیا گیا ہے۔ (والصلحین۔۔۔۔۔۔ وامآ ئکم) (24 : 32) ” اور تمہارے لونڈی اور غلاموں میں سے جو صالح ہوں “۔ لیکن یہ لوگ ایسے ہیں جن کی مالی حالت اچھی نہیں ہوتی۔ ان یکونوا فقرآء یغنھم اللہ (24 : 32) ” یہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا “۔ یہ حکم اسلامی سوسائٹی کے لیے ہے کہ وہ شادی کا انتظام کردے اور جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ یہ مستحب امر ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ کے دور میں ایسے مجرد لوگ تھے جنہوں نے شادی نہ کی تھی۔ اگر یہ حکم فرض ہوتا تو حضور اکرم ﷺ ضرور ان کی شادی کا انتظام فرماتے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ حکم واجبی ہے ‘ اس معنی میں نہیں کہ کسی مجرد کو شادی پر مجبور کیا جائے بلکہ اس معنی میں کہ اسلامی سوسائٹی کے لیے واجب ہے کہ جو لوگ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اس معاملے میں اعانت کی جائے تاکہ وہ شادی کے قلبعے میں محفوظ ہو سکیں۔ فحاشی اور بدکاری میں مبتلا ہونے سے یہ عملی بچائو ہے اور صرف اس صورت میں معاشرے کو بعدعملیوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ اگر معاشرے کو بد عملی سے بچانا فرض ہے تو اس فرض کے لیے ضروری تدابیر اختیار کرنا بھی فرض ہوگا۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اسلام چونکہ ایک مکمل اور مربوط نظام زندگی ہے اس لیے وہ ایک ایسا اقتصادی نظام زندگی وضع کرتا ہے کہ اس میں ہر شخص کے لیے معاشی جدوجہد کرنے کے مساوی مواقع موجود ہوں تاکہ کسی شخص کو اپنی ضرورت کے لیے بیت المال کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ بعض استثنائی حالات میں بیت المال کو بھی امداد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسلامی اقتصادی نظام میں بیناید اصول تو یہ ہے کہ ہر شخص اپنے کسب سے کھائے۔ سوسائٹی پر جو فریضہ عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ سب کے لیے کام کے مواقع فراہم کرے۔ رہی یہ بات کہ لوگوں کو بیت المال سے امدادی جائے تو یہ محض استثنائی صورتوں میں ہوتا ہے۔ اگر لوگ اسلامی نظام کے مطابق سعی کرتے ہیں اور زندگی گزارتے ہیں اور پھر بھی ایسے حالات آجائیں کہ اسلامی معاشرے میں محض معاشی مجبوری کی وجہ سے مجرد نوجوان ‘ مرد اور عورتیں پائی جاتی ہوں تو پھر اسلامی سوسائٹی اور اسلامی حکومت پر فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو مالی امداد دے۔ یہی حکم غلام مردوں اور لونڈیوں کا بھی ہے کہ ان کے مالکان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کی شادی کا انتظام کریں اگر وہ ایسا کرسکتے ہوں۔ اسلامی سوسائٹی کا یہ بھی فرض ہے کہ دیکھے کہ اگر لوگ شادی کرنا چاہتے ہیں ‘ مرد ہوں یا عورتیں ہوں لیکن ان کی راہ میں غربت رکاوٹ بنی ہوئی ہے تو سوسائٹی ان رکاوٹوں کو دور کرے کیونکہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ ان کو غنی کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ مفت کا طریقہ اختیار کریں۔ (ان یکونوا۔۔۔۔۔۔ من فضلہ) (24 : 32) ” اگر وہ غریب ہیں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا “۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” تین افراد ایسے ہیں کہ اللہ پر ان کا حق ہے کہ اللہ ان کی مدد کرے۔ مجاہد فی سبیل اللہ کی اللہ مدد کرتا ہے۔ وہ غلام جو اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لیے مالی ادائیگی کا معاہدہ کرتا ہے اور وہ شادی کرنے والا جو اپنے آپ کو بری راہوں سے بچانے والا ہو “۔ (ترمذی و نسائی) اور جب تک مجرد لوگوں کے حالات درست نہیں ہوتے اور اسلامی سوسائٹی ان کے لیے کوئی انتظام نہیں کرتی ‘ اللہ ان کو حکم دیتا ہے کہ وہ عفت اور پاکیزگی کا دامن تھامے رکھیں۔ (ولیستعفف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ من فضلہ) (24 : 33) ” اور جو لوگ نکاح کا موقعہ نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے “۔ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص پر تنگی نہیں کرتا ‘ کیونکہ اللہ تو وسیع علم رکھتا ہے۔ واللہ واسع علیم ” اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے “۔ یوں اسلام اس مسئلے کا نہایت ہی عملی حل تلاش کرتا ہے۔ ہر شخص جو شادی کرسکتا ہے اس کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ شادی کرے۔ اگر چہ وہ مالی لحاظ سے کمزور ہو کیونکہ مالی مسئلہ حل کرنے والا اللہ ہے “۔ اس وقت اسلامی نظام میں مجبوراً غلامی کا ادارہ موجود تھا اور غلاموں کے اندر چونکہ اخلاقی قدریں کمزور ہوتی ہیں اس لیے اسلامی معاشرے کے اندر موجود غلام معاشرے کے اندر اعلیٰ اخلاقی معیار کے قیام میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ غلامی کا ادارہ اسلام نے ابتداء میں اس لیے قائم رکھا ہوا تھا کہ اہل کفر کے ہاں غلام موجود تھے اور جو مسلمان ان کے ہاتھ آجاتے تھے وہ بھی غلام بنا لیے جاتے تھے ۔ موجودہ پوزیشن کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام نے جنسی مسئلہ کو حل کرنے کی سعی کی یعنی یہ کہ غلاموں کی شادیاں کی جائیں۔ خود غلامی کو اپنے طور پر ختم کرنے کے لیے مکاتبت کا طریقہ نکالا یوں کہ اگر کوئی غلام مالی معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش کرے تو مالک پر اسے قبول کرنا لازم ہے۔ (والذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیرا) (24 : 33) ” اور تمہارے مملوکوں میں سے ہر مکاتبت کی درخواست کریں ‘ ان سے مکاتبت کرلو ‘ اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے “۔ اس کے بارے میں فقہاء کی آزاء مختلف ہیں کہ آیا یہ واجب ہے یا نہیں۔ یعنی اگر غلام پیشکش کرے تو مکاتبت کرنا لازم ہے یا مالک کے اختیار میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ واجب ہے کیونکہ وجوب کا قول ہی اسلام کی مجموعی پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اسلام انسان کو ایک مکرم مخلوق سمجھتا ہے اور غلام کا وجود شرافت انسانی کے خلاف ہے۔ معاہدہ کرنے کے بعد غلام جو کمائے گا وہ مالک کا ہوگا تاکہ معاوضہ معاہدہ کی رقم کی ادائیگی ہو سکے اور اسی طرح زکوۃ کی مد سے بھی ایسے غلام کی امداد ضروری ہوجاتی ہے تاکہ جلد از جلد یہ غلام آزادی حاصل کرسکے۔ (واتو۔۔۔۔۔ اتکم) (24 : 33) ” اور اس کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے “۔ اس شرط پر کہ مالک یہ سمجھے کہ اس میں بھلائی ہے۔ خیر سب سے پہلے اسلام ہے۔ اس کے بعد خیر یہ ہے کہ غلام کمان ی کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ نہ ہو کہ آزادی کے بعد وہ لوگوں سے بھیگ مانگتا پھرے۔ بعض اوقات وہ اخلاق سے گرے ہوئے ذرائع معیشت بھی اختیار کرسکتا ہے جن سے وہ صرف اس قدر کما سکتا ہو جس سے اس کی زندگی قائم رہ سکے۔ اسلام چونکہ ایک مکمل اور ہم آہنگ نظام ہے اس لیے وہ حقیقی صورت حال کو بھی پیش نظر رکھتا ہے اس کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ یہ شعور ہوجائے کہ ایک غلام آزاد ہوگیا۔ محض عنوان اور نام اسلام میں اہمیت نہیں رکھتا۔ اسلام حقیقت ۔۔۔۔۔۔ کو دیکھتا ہے کہ آیا فی الواقع یہ غلام آزادی کے بعد معاشرے کے اندر کوئی تعمیری کردار ادا کرسکے گا یا نہیں۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب یہ شخص کچھ کما سکے ۔ لوگوں پر بوجھ نہ بن جائے اور نہ گندے وسائل رزق اختیار کرے۔ وہ ایسی چیزیں فروخت کرنا شروع کردے جو آزادی سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ (مثلاً عصمت فروشی) جبکہ اسے آزاد اس لیے کیا جارہا ہے کہ اس سے معاشرہ پاک ہو نہ یہ کہ اس کے ذریعہ معاشرہ گندہ ہو اور اس کا یہ فعل معاشرے کے لیے زیادہ سخت مصیبت ہو۔ (دور جدید میں بین الاقوامی معاہدات کی وجہ سے چونکہ غلامی ختم ہوگئی ہے اس لیے اب عملاً اسلام میں بھی غلامی نہیں رہے گی) ۔ اسلامی معاشرے میں غلامی سے بھی خطرناک بیماری اس بات کو سمجھا جاتا ہے کہ غلاموں کو عصمت فروشی کے لیے استعمال کیا جائے۔ اہل جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ جس کی کوئی لونڈی ہوتی وہ اسے یہ پیشہ کرنے دیتا اور اس پر ٹیکس عائد کردیتا اور یہ پیشہ آج تک دنیا میں ذرائع ہے۔ اسلام نے چونکہ اسلامی سوسائٹی کو ہر قسم کے زنا سے پاک کرنے کا حکم دیا ھتا اس لیے ‘ اس قسم کے زنا کا ذکر قرآن نے خصوصیت کے ساتھ کیا۔ (ولا تکرھوا۔۔۔۔۔۔۔ غفور رحیم) (24 : 33) ” اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں۔ اور جو کوئی ان کو مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لیے غفور و رحیم ہے “۔ اس آیت کے ذریعے ان لوگوں کو منع کردیا گیا جو اپنی لونڈیوں کو اس پیشہ پر مجبور کرتے تھے اور ان کو تنبیہ کردی گئی کہ وہ اس قسم کے خبیث ذریعوں سے دنیا کی دولت جمع نہ کریں۔ جن لونڈیوں کو اس طرح مجبور کردیا گیا ہو ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ ان کے گناہ بخش دیئے جائیں گے کیونکہ اس صورت میں وہ مجبور تھیں۔ سعدی کہتے ہیں کہ یہ آیت عبد اللہ ابن ابی ابن السلول کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ منافقین کا رئیس تھا۔ اس کی ایک لونڈی تھی جس کا نام ” معاذہ “ تھا۔ اس کا قاعدہ یہ تھا کہ اس کا کوئی مہمان آتا تو یہ اس لونڈی کو اس کے پاس بھیج دیتا ‘ جس میں اس کے دو مطلب ہوتے۔ ایک یہ کہ وہ شخص کوئی انعام دے اور دوسرا یہ کہ اس طرح وہ مہمان کا اکرام کرتا تھا۔ یہ لونڈی حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئی اور اس نے اس بات کی شکایت کی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اس لونڈی کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اس پر عبد اللہ ابن ابی ابن السلول نے اپنی قوم کو پکارا کہ کون ہے جو ہمیں محمد ﷺ سے چھڑائے۔ اب اس نے ہماری مملوکات پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ اقدام کہ لونڈیوں کو بدکاری کے لیے استعمال نہ کیا جائے اسلامی نظام کے ان اقدامات میں سے ایک ہے ‘ جن کے ذریعے اسلامی عاشرے کو بدکاری سے پاک کیا گیا تھا اور جنسی تسکین کے تمام غیر فطری اور گندے راستوں کو بند کردیا گیا تھا اس لیے کہ بدکاری کا پیشہ اگر موجود ہو تو کئی لوگ اس کی سوہلت کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوگا تو لوگ پھر شادی کر کے پاک زندگی گزارنا چاہیں گے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس پیشے کی موجودگی شرفاء کے گھروں میں امن وامان کی ضمانت ہے۔ کیونکہ اگر نکاح مشکل ہوجائے تو پھر انسان اس گندے راہ ہی سے اپنی فطری ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ اگر یہ راستہ جائز نہ رکھا جائے تو پھر بھیڑیئے شریف لوگوں کی عزت سے کھیلنے لگیں گے۔ جو لوگ اس لائن پر سوچتے ہیں وہ دراصل سبب اور مسبب کے تعلق کو الٹ رہے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ لوگوں کے جنسی میلانات کو پاک رکھا جائے اور انہیں اس طرح منظم کیا جائے کہ وہ سلسلہ حیات کے تسلسل کا سبب بنیں۔ یہ فریضہ ہر سوسائٹی اکہو کہ وہ اپنے اندر ایسا معاشی نظام جاری کرے جس کے ذریعہ سے ہر شخص اس قابل ہو کہ وہ شادی کے بندھن میں باندھا جاسکے۔ اگر پھر بھی کسی کے لیے نکاح میں مشکلات ہوں تو ایسے واقعات کا خصوصی علاج کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کوئی بھی اس گندے پیشے پر مجبور نہ ہوگا اور صورت حال یہ نہ ہوگی کہ ہر جگہ گندگی پائی جائے ‘ گلی گندگی کا ایک ڈھیر ہو اور اس پر سے جو کوئی گزرے وہاں گندگی ڈال دے اور سوسائٹی اسے دیکھ رہی ہو۔ کسی ملک کا اقتصادی نظام ہی ایسی گندگیوں کو ختم کرسکتا ہے اس طرح کہ ایسی گندگی کسی جگہ جمع نہ وہ۔ یہ صورت نہ ہو کہ محض اقتصادی وجوہات سے اس گندگی کے لیے جواز فراہم ہو۔ انسانوں کے لیے غلاظت کے ڈھیر فراہم ہوں۔ یہ ہے وہ پالیسی جو اسلام معاشرے کی تطہیر کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے کسی بھی معاشرے میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ زیمن آسمان میں بدل جاتی ہے اور تمام انسانوں کی نظر بلند مقاصد کے لیے بلند افق پر ہوتی ے۔ وہ اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں اور اس سے ان کے آفاق روشن ہوتے ہیں۔
Top