Fi-Zilal-al-Quran - An-Noor : 44
یُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ
يُقَلِّبُ اللّٰهُ : بدلتا ہے اللہ الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَعِبْرَةً : عبرت ہے لِّاُولِي الْاَبْصَارِ : آنکھوں والے (عقلمند)
(الم تر ان اللہ۔۔۔۔۔۔۔ بالابصار) (43) ” کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے ‘ پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے ‘ پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے ‘ پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے ‘ ان پہاڑروں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں اولے برساتا ہے ‘ پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔ اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے “۔
یہ منظر نہایت ہی آرام سے اور طوالت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ دعوت دی جاتی ہے کہ اس منظر کے ہر جزء پر غور کرو۔ اس منظر کے اجزاء پھر جمع ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس پر گہرے مشاہدے اور غورو فکر کی وجہ سے انسانی احساس کو جگایا جائے اور اس گہری صنعت کاری کے اندر جو گہری بصیرت ہے اس کے بارے میں انسانی احساس کو تیز کیا جاتا ہے تاکہ انسان عبرت آموز نگاہوں سے اس منظر کو دیکھے۔ اللہ بادلوں کو چلاتے ہیں ‘ ایک علاقے سے دوسرے علاقے کیطرف۔ یہ بادل آسمان میں ٹکڑیوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ پھر یہ جمع ہوتے ہیں۔ اچانک ہم دیکھتے ہیں کہ تہوں کے اوپر تہیں جم جاتی ہیں۔ جب یہ اچھی طرح بوجھل ہوجاتے ہیں تو ان میں سے پانی نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ بارش کے موٹے موٹے قطرے تم گرتے دیکھتے ہو۔ یہ بادل بڑے بڑے پہاڑروں کی شکل میں آسمانوں میں نظر آتے ہیں۔ جب یہ بہت اوپر چلے جاتے ہیں تو ان میں برف جم جاتی ہے۔ یہ بادل پہاڑوں کی طرح خوب نظر آتے ہیں۔ جب طیارہ ان سے اوپر چلا جاتا ہے اس واقت فی الواقعہ یہ بادل پہاڑ نظر آتے ہیں۔ بڑے بڑے پہاڑ اور ان کے اندر بڑے بڑے نشیب و فراز ہوتے ہیں۔ یہ انداز تعبیر ایسا ہے کہ انسان نے اس کو اچھی طرح اس وقت سمجھا جب وہ طیارے پر سوار ہو کر بادلوں سے اوپر چلا گیا۔ بادلوں کے یہ پہاڑ ‘ اللہ کے احکام میں ‘ اللہ کے نظام میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ اس کے کائناتی ناموس کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اللہ جس کو چاہتا ہے ان کے ذریعے پانی دے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ‘ اس سے ان کا رخ پھیر دیتا ہے۔ اس منظر کا تکملہ یوں آتا ہے۔ یکاد سنا برقہ یذھب بالابصار (24 : 43) ” اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے “۔ یہ منظر اس لیے لایا گیا ہے کہ کائنات کے نور اعظم کے ساتھ بجلی کا نور ایک ہوجائے۔ یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ ہم جنس معانی کو ایک جگہ لاتا ہے کیونکہ یہ سورة ‘ سورة نور ہے۔ اب تیسرا کائناتی منظر گردش لیل و نہار کا منظر ہمارے سامنے ہے۔ یقلب اللہ الیل والنھار ان فی ذلک لعبرۃ لاولی الابصار ” رات اور دن کا الٹ پھیر وہی کررہا ہے۔ اس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے “۔ گردش لیل و نہار کے نظام پر غور و فکر قرآن مجید کا ایک اہم موضوع ہے۔ رات اور دن کے بدلنے کا یہ نظام مسلسل چل رہا ہے اور اس کے اندر ایک لمحے کا تغیر و تبدل نہیں ہے۔ اس سے وہ ناموس ‘ کائنات اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے جو اس کائنات میں متصرف ہے۔ اس ناموس پر غورفکر سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ نے کس باریکی کے ساتھ اس نظام کو چلارہا ہے۔ قرآن کریم اپنے مئوثر انداز بیان کے ساتھ ان مناظر کے ان اثرات کو تازہ کردیتا ہے جو بالعموم مانوس ہونے کی وجہ سے مٹ گئے ہوتے ہیں۔ انسان پھر ان مناظر کو ایک نئے احساس کیساتھ دیکھتا ہے اور ہر بار اس سے بالکل نیا تاثر لیتا ہے۔ یہ سوچنا یوں ہے کہ اگر انسان گردش لیل و نہار کے اس نظام کو پہلی مرتبہ دیکھے تو اس کا تاثر کیا ہو۔ اس نظام میں صدیاں گزر جانے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ تبدیلی اگر ہے تو صرف انسان کی نگاہ میں ہے۔ انسانی احساس اور ادراک گرش لیل و نہار کے مناظر کو دیکھتے بجھ سا گیا ہے جبکہ رات اور دن کے اس نظام نے اپنی خوبصورتی اور انوکھے پن میں سے کسی چیز میں کمی نہیں کی ہے۔ جب انسان اس کائنات پر سے غافلوں کی طرح گزر جاتا ہے تو وہ زندگی کی ایک بڑی مسرت کو گنوا دیتا ہے بلکہ اس کائنات کی حقیقی خوبصورتی اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ وہ مناظر جو انسان کے سامنے اگر از سر نو پیش ہوں تو بہت ہی اثر انگیز ہوں اور حسین نظر آئیں۔ قرآن کریم کا کمال یہ ہے کہ وہہماری بجھی ہوئی حس کو تازہ کردیتا ہے اور ہمارے چھپے ہوئے شعور اور خوابیدہ احساسات کو تجدید بخشتا ہے۔ ہمارا ٹھنڈا دل گرم ہوجاتا ہے اور ہمارا کندوجدان تیز ہوجاتا ہے۔ پھر ہم اس کائنات کو یوں دیکھنے لگتے ہیں کہ گویا ہم نے اس کائنات کو پہلی مرتبہ دیکھا ہو۔ ہم پھر اس کائنات کے مظاہر پر غور کرتے ہیں اور اس کے سربستہ اور پوشیدہ کمالات کو معلوم کرنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر ہمیں نظر آتا ہے کہ دست قدرت ہر جگہ کام کررہا ہے۔ ہمارے ماحول کی ہر چیز میں اس کی صنعت کاری ہے اور اس کائنات کی ہر چیز میں اس کے نشانات ہیں اور ہمارے لیے عبرتیں ہی عبرتیں ہیں۔ اللہ ہم پر احسان کرتا رہتا ہے کہ جب بھی ہم اس کائنات کے مناظر میں سے کسی منظر پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک حیات تازہ مل جاتی ہے۔ ہمیں اس کائنات کی ہر چیز کے بارے میں ایک نیا احساس ملتا ہے اور یوں مسرت ملتی ہے کہ گویا ہم اس منظر کو پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ گویا اس احساس کے ساتھ ہم اس کائنات کو کئی مرتبہ اور بیشمار مرتبہ دریافت کرتے ہیں اور خوشی پاتے ہیں۔ اگر حساس نگاہوں سے دیکھا جائے تو یہ کائنات بہت ہی خوبصورت ہے اور ہماری فطرت ‘ فطرت کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ ہماری فطرت اس سر چشمے سے پھوٹی ہوئی ہے جس سے اس کائنات نے وجود اور فطرت اور ناموس فطرت اخذ کیا ہے۔ جب ہم اس کائنات کی روح کے ساتھ پیوستہ ہوجاتے ہیں تو ہمیں ایک عجیب اطمینان و سکون مل جاتا ہے ‘ نہایت ہی گہرا رابطہ اور خوشی ملتی ہے۔ انس اور طمانیت ملتی ہے۔ یوں جس طرح ایک شخص اپنے محبوب کو بلا واسطہ مل جاتا ہے۔ اس کائنات کی گہری معرفت کے نتیجے میں اس میں ہمیں اللہ کا نور نظر آتا ہے اور یہ ہے مفہوم اللہ کے نور سماوات والارض کا ۔ جب ہم اپنے وجود ‘ اپنے نفس اور اس کائنات کا گہرا مشاہدہ کرتے ہیں تو اس میں اللہ کا نور نظر آتا ہے اور ہم اس وقت اصل حقیقت سے مل چکے ہوتے ہیں اور ہمیں نظر آتا ہے کہ تدبیر کائنات کی حقیقت کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم بار بار ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ ہم اس کائنات کے روز مرہ کے مناظر کو ذرا گہرے غور و فکر کے ساتھ دیکھیں۔ ہمارے احساس اور ہمارے تدبر کے لیے قرآن کریم بار بار اور مختلف قسم کے مناظر و مظاہر پیش کرتا ہے جو نہایت ہی خوبصورت ہوتے ہیں۔ قرآن دعوت دیتا ہے کہ ان مظاہرو مناظر پر سے غافل لوگوں کی طرح نہ گزر جائو ‘ آنکھیں بند کر کے کیونکہ اس دنیا میں تمہارا یہ سفر نہایت ہی با مقصد ہے۔ یہاں سے کچھ لے کر جائو لیکن انسان ہیں کہ خالی ہاتھ جارہے ہیں۔ مزید مشاہد قدرت پیش کئے جاتے ہیں اور ہمارے احساس کو مزید تیز کیا جاتا ہے کہ یہاں ایک ہی اصول پر یہ زندگی قائم ہے۔ اس کا ایک ہی مزاج ہے۔ اس کی ایک جیسی تخلیق کے بعد پھر زندگی کے بھی کئی مشاہد اور مظاہر ہیں اور اس میں تنوع ہے۔
Top