Fi-Zilal-al-Quran - An-Noor : 45
وَ اللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى بَطْنِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى رِجْلَیْنِ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰۤى اَرْبَعٍ١ؕ یَخْلُقُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاللّٰهُ : اور اللہ خَلَقَ : پیدا کیا كُلَّ دَآبَّةٍ : ہر جاندار مِّنْ مَّآءٍ : پانی سے فَمِنْهُمْ : پس ان میں سے مَّنْ يَّمْشِيْ : جو (کوئی) چلتا ہے عَلٰي بَطْنِهٖ : اپنے پیٹ پر وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ يَّمْشِيْ : کوئی چلتا ہے عَلٰي رِجْلَيْنِ : دو پاؤں پر وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ يَّمْشِيْ : کوئی چلتا ہے عَلٰٓي : پر اَرْبَعٍ : چار يَخْلُقُ اللّٰهُ : اللہ پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا۔ کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر۔ جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ‘ وہ ہر چیز پر قادر ہے
(واللہ خلق۔۔۔۔۔۔۔۔ قدیر) (45) ” “۔ یہ ایک عظیم حقیقت ہے جس کو قرآن کریم نہایت ہی سادے الفاظ میں بیان کررہا ہے۔ یہ حقیقت کہ ہر زندہ مخلوق کو پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ حیات کے بنیادی عناصر ایک ہی ہیں اور یہ کہ زندگی کے قیام کا بنیادی عنصر پانی ہے۔ جدید سائنس بھی اس بات کی طرف جارہی ہے کہ زندگی کی اصل تخلیق پانی میں ہوئی۔ یعنی سمندر میں۔ یعنی ابتدائی حالت میں زندگی پانی میں تھی۔ اس کے بعد زندگی کے اندر رنگارنگی پیدا ہوئی۔ یہ تو ہے سائنس دانوں کی سوچ۔ ہماری سوچ مختلف ہے۔ ہم قرآنی حقائق کو سائنس کی خراوپر نہیں چڑھاتے۔ کیونکہ سائنس کے اصول اور معیار بدل جاتے ہیں جبکہ قرآن ناقابل تغیر اور آخری حقائق بتاتا ہے۔ ہم بس یہی کہتے ہیں کہ حیات کا اصل پانی ہے۔ اس لیے کہ قرآن یہ کہتا ہے۔ اگر چہ حیات کی شکلیں مختلف نظر آتی ہیں لیکن اس کا اصلی مادہ پانی ہی ہے۔ پانی ہی سے حیوان زمین پر چلنے لگا ہے۔ یخلق اللہ مایشآ ئ (24 : 45) ” اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے “۔ مختلف ہیئت اور مختلف شکل کے جانور پیدا کرتا ہے اور یہ اللہ کی مشیت ہے کہ وہ کیا پیدا کرتا ہے اور کس شکل میں پیدا کرتا ہے۔ ان اللہ علی کل شیء قدیر (24 : 45) ” بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے “۔ اگر ہم تمام زندہ چیزوں پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ حیات کی اصل تو ایک ہے لیکن اس ایک ہی مادے سے اللہ نے کیا کیا چیزیں ‘ کس کس شکل پر بنائی ہیں۔ مختلف حجم والی مختلف رنگوں والی ‘ مختلف شکل و صورت والی۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک خالق اور مدبر ہے جو یہ رنگارنگی پیدا کررہا ہے اور جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اس گہرے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کی کوئی چیز محض اتفاق سے بلا ارادہ اس طرح پیدا نہیں ہوگئی ہے بلکہ ایک تدبیر اور ارادے سے ایسا ہوا ہے۔ اگر تدبیر اور ارادہ خالق کو تسلیم نہ کیا جائے تو وہ کیا اتفاق ہے جس نے اسے پیدا کیا۔ پھر یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہر چیز کے اندر خود بخود ایک تدبیر اور تقدیر پیدا ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو اس کی تخلیق بخشی اور ہر چیز کو ہدایت ‘ وجدان اور شعور بخشا ہے کہ اس کا فرض منصبی کیا ہے۔
Top