Fi-Zilal-al-Quran - An-Noor : 5
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا١ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ تَابُوْا : جن لوگوں نے توبہ کرلی مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ : اس کے بعد وَاَصْلَحُوْا : اور انہوں نے اصلاح کرلی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
سوائے ان لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہوجائیں اور اصلاح کرلیں تو اللہ ضرور ( ان کے حق میں) غفور ورحیم ہے
(الا الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غفوررحیم ) (5 فقہاء کے درمیان اس استثناء کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا اس کا تعلق صرف آخرت کی سزا سے ہے یعنی اس شخص سے صفت فسق دور ہوجائے گی اور شہادت کے لیے وہ بد ستور نااہل رہے گا یا یہ کہ اس کی شہادت بھی توبہ کے بعد قبول ہوگی۔ امام امحد ‘ امام شافعی اس طرف گئے ہیں کہ اگر تائب ہوجائے تو اس کی شہادت قبول ہوگی کیونکہ فسق کا حکم اٹھ چکا ہے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ یہ استثناء صرف آخری جملے میں ہے یعنی فسق اٹھ جائے گا لیکن یہ شخص بدستور شہادت کے لیے نااہل ہوگا شعبی اور ضحاک نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے کہ اس کی شہادت قبول نہ کی جائے گی اگر چہ توبہ کرے ‘ اس وقت تک جب تک وہ اپنے خلاف یہ اعتراف نہ کرلے کہ اس نے جھوٹ بولا تھا۔ اس کے بعد اس کی شہادت قبول ہوگی۔ میرے خیال میں ضحاک اور شعبی کا مذہب زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں جس شخص پر الزام لگایا گیا تھا وہ معاشرتی طور پر اس الزام سے براہ راست بری الذمہ قرار پائے گا۔ اس طرح قذف کے تمام آثار ختم ہوجائیں گے۔ پھر کوئی یہ نہ کہے گا کہ قاذف پر حد اس وجہ سے لگ گئی کہ اس نے شہادت پیش نہ کی اور نہ کسی کے دل میں یہ برا خیال آئے گا کہ ہو سکتا ہے الزام درست ہو لیکن قاذف کو شہادت دستیاب نہ ہوسکی۔ اس طرح مقذوف کی عزت بھی بحال ہوجائے گی اور قاذف کا معاشرتی اعتبار بھی بوجہ توبہ بحال ہوجائے گا۔ یوں اس سابقہ مقدمہ کے تمام آثار ختم ہوجائیں گے۔ اب اس بات کا کوئی جواز باقی نہ رہے گا کہ توبہ کے بعد بھی قاذف کی شہادت مقبول نہ ہو جبکہ اس نے بہتان طرازی کا اعتراف بھی کرلیا ہو اور توبہ کے ذریعہ اصلاح بھی کرلی ہو۔ یہ تو تھا عام الزام زنا کا معاملہ۔ رہا الزام مابین زوجین یعنی کوئی مرد اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا دے تو یہ الگ صورت ہوگی۔ اس مرد سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ چار گواہ لائے یہ بہت بڑی سختی ہوگی لہٰذا شریعت میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی پر جھوٹا الزام نہیں لگا سکتا۔ کیونکہ اس میں خود اس کی اپنی عزت اور اپنی شرافت خطرے میں ہوتی ہے۔ لہذا شریعت میں اس قسم کے الزام کے لیے ایک خاص قانون لعان تجویز کیا گیا ہے۔
Top