Fi-Zilal-al-Quran - Yaseen : 26
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ١ؕ قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَۙ
قِيْلَ : ارشاد ہوا ادْخُلِ : تو داخل ہوجا الْجَنَّةَ ۭ : جنت قَالَ : اس نے کہا يٰلَيْتَ : اے کاش قَوْمِيْ : میری قوم يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتی
آخر کار ان لوگوں نے اسے قتل کردیا اور) اس شخص سے کہہ دیا گیا کہ ” داخل ہوجا جنت میں “۔ اس نے کہا ” کاش میری قوم کو یہ معلوم ہوتا
قیل ادخل الجنۃ۔۔۔۔۔ من المکرمین (26 – 27) ” “۔ یہاں دنیا کی زندگی کے ڈانڈے آخرت سے مل جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ موت اور شہادت نے اسے عالم فنا سے عالم بقا کی طرف منتقل کردیا ہے۔ یہ ایک جست ہوتی ہے جس کے ذریعے ایک مومن دنیا کی تنگیوں سے نکل کر جنت کی وسعتوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ باطل کی زیادتیوں سے رہائی پاکر سچائی کی مطمئن دنیا میں داخل ہوجاتا ہے اور تشدد کی دھمکیوں سے نکل کر ، امن و سلامتی کی نعمتوں میں پہنچ جاتا ہے اور جاہلیت کے اندھیروں سے یقین کی روشنی میں آجاتا ہے۔ اب ہم اس رجل مومن کو دیکھتے ہیں ۔ یہ ان انعامات و اکرامات کی اطلاع چشم زدن میں پاچکا ہے۔ لیکن وہاں سے بھی قوم کے نام اس کی ایک پکار آتی ہے ، اس کی اس پکار میں کوئی تلخی نہیں ہے اس کا نفس راضی ہے ، وہاں بھی وہ یہی تمنا کرتا ہے کہ اے کاش میری قوم جانتی کہ میں کہاں پہنچ چکا ہوں ، اللہ کے اکرام اور انعام کی کیا شان ہے تاکہ وہ بھی حق کو قبول کرلیں اور ان کو بھی یقین کی دلالت مل جائے۔ یہ تو ہے جزائے ایمان ، رہے نبیوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے والے ۔۔۔ تو ان کی حیثیت ہی کیا ان کو تو اللہ اپنے ملائکہ کے ذریعے ہلاک کرسکتا ہے۔ وہ تو بہت ہی ضعیف و حقیر ہیں۔
Top