Fi-Zilal-al-Quran - Yaseen : 37
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الَّیْلُ١ۖۚ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمْ مُّظْلِمُوْنَۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الَّيْلُ ښ : رات نَسْلَخُ : ہم کھینچتے ہیں مِنْهُ : اس سے النَّهَارَ : دن فَاِذَا : تو اچانک هُمْ : وہ مُّظْلِمُوْنَ : اندھیرے میں رہ جاتے ہیں
ان کے لیے ایک اور نشانی رات ہے ، ہم اس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے
یہ تو تھی مردہ زمین جس سے زندگی پھوٹ رہی ہے ۔ اب زمین سے آگے بڑھ کر قرآن آسمان کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، آسمانی نطارے ہمارے سامنے پیش ہوتے ہیں اور یہ تمام نظارے دست قدرت کے عجوبے ہیں۔ وایۃ لھو الیل ۔۔۔۔۔۔ فی فلک یسبحون (37 – 40) ” “۔ رات کے آنے کا منظر ، روشنی ختم ہوجاتی ہے اور اندھیرا آہستہ آہستہ چھا جاتا ہے ۔ یہ وہ منظر ہے جسے تمام انسان 24 گھنٹوں میں دہرایا ہوا دیکھتے ہیں ، ماسوائے ان خطوں کے جہاں رات اور دن کا عمل چھ ماہ کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ یعنی ان علاقوں میں جو قطبین کے بہت قریب ہیں۔ یہ عمل اگرچہ رات اور دن میں بار بار دہرایا جاتا ہے لیکن اگر اس پر غور کیا جائے تو یہ اللہ کی قدرت کا ایک عجوبہ ہے اور اس قابل ہے کہ انسان اس پر غور و فکر کریں۔ یہاں اس مقام پر اس عجوبے کا انداز تعبیر بھی منفرد ہے۔ یہاں رات کو دن میں ملبوس تصور کیا گیا ہے اور جب دن کا لباس اتر جائے تو رات آجاتی ہے۔ اور لوگ اچانک اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔ اسی انداز تعبیر کا ادراک یوں ہو سکتا ہے اور یہ اس وقت پھر مجاز کے بجائے حقیقت نظر آتی ہے ، جب ہم زمین کی گردش محوری پر غور کریں۔ سورج کے سامنے اس کی اس گردش کے بدولت زمین کا ایک نقطہ سورج کے سامنے رہتا ہے اور وہاں دن ہوتا ہے اور جن زمین کا وہ حصہ غائب ہوتا ہے تو اچانک دن کا لباس اتار دیا جاتا ہے اور ماحول پر پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اور یہ منظر نہایت ہی تنظیم کے ساتھ یونہی چلتا رہتا ہے۔ ہر وقت دن کے لباس کو رات کے جسم سے کھینچا جاتا ہے اور رات ظاہر ہوتی رہتی ہے غرض یہ قرآنی تعبیر حقیقی بھی ہے اور نہایت ہی فصیح اور ادیبانہ بھی والشمس تجری لمستقرلھا (36: 38) ” اور سورج ، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے “۔ سورج بھی گردش محوری رکھتا ہے۔ بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اپنی جگہ ابستادہ ہے لیکن تازہ ترین سائنسی معلومات یہ ہیں کہ یہ سورج اپنی جگہ رکا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ بھی چل رہا ہے ، عملاً رواں ہے۔ یہ ایک ہی سمت میں جا رہا ہے۔ اس عظیم کائنات اور اس فضا اور خلا میں یہ ایک طرف جا رہا ہے۔ اور یہ 12 میل فی سیکنڈ کے حساب سے ایک ہی سمت میں جا رہا ہے۔ لیکن اس کی حرکت اور رفتار کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے جو خبیر وبصیر ہے اور اللہ صریح طور پر فرماتا ہے کہ اس کی ایک جائے فتراء ہے اور اس کے لیے دوب تابی سے چل رہا ہے۔ کس طرح اور کب وہاں پہنچتا ہے یہ قیامت ہے اور اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ جب ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ اس سورج کا حجم زمین سے ایک ملین گنا زیادہ ہے اور یہ سورج اپنی اس کہکشاں کے ساتھ (اور کہکشاں کس قدر عظیم ہے ، ذرا سوچ لیں) ایک فضائے لامتناہی میں اپنے مستقر کے لیے رواں ہے ، تو اس سے اللہ کے علم اور قدرت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ ہے مفہوم اس آیت کا۔ ذلک تقدیر العزیز العلیم (36: 38) ” یہ زبردست ، علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے ؛۔
Top