Fi-Zilal-al-Quran - Yaseen : 39
وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ
وَالْقَمَرَ : اور چاند قَدَّرْنٰهُ : ہم نے مقرر کیں اس کو مَنَازِلَ : منزلیں حَتّٰى : یہاں تک کہ عَادَ : ہوجاتا ہے كَالْعُرْجُوْنِ : کھجور کی شاخ کی طرح الْقَدِيْمِ : پرانی
اور چاند ، اس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے۔
والقمر قدرنہ۔۔۔۔۔ القدیم (36: 39) ” چاند ، اس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کی مانند رہ جاتا ہے “۔ لوگ چاند کو تو اپنی ان منزلوں میں دیکھ سکتے ہیں ۔ وہ ہلال کی طرح نمودار ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ گول ہو کر بدر ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد گھٹنا شروع ہوتا ہے اور پھر وہ ہلال کی طرح ہوجاتا ہے اور یوں نظر آتا ہے جس طرح کھجور کی پرانی خشک شاخ۔ العرجون اس شاخ کو کہتے ہیں جس میں کھجور کی قسم ” بلح “ ہوتی ہے۔ جو لوگ چاند کو ہر رات دیکھتے ہیں وہ قرآن کریم کی اس انداز تعبیر کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ عاد کالعرجون القدیم (36: 39) ” یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے “۔ خصوصاً اس تعبیر میں لفظ قدیم معنی خیز ہے۔ چاند پہلی راتوں میں ہلال ہوتا ہے اور آخری راتوں میں بھی ہلال ہوتا ہے لیکن پہلی راتوں میں وہ شگفتہ اور نشوونما والا نظر آتا ہے۔ اور آخری راتوں میں پژ مردہ ، زوال پذیر اور خشکی اور سکڑنے کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہ سکڑ کر اس قدر خشک ہوجاتا ہے جس طرح خشک شاخ ۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ قرآن نے یہ انداز تعبیر اختیار کیا ہے بلکہ یہ بامقصد اور اصل صورت کا حقیقی اظہار ہے اور عجیب ہے۔ چاندنی راتوں میں مسلسل غور و فکر کرنے سے انسانی احساس کے پردوں پر شعور اور تخیلات کی عجیب و غریب اور تروتازہ کیفیات آتی ہیں اور انسان پر اس سوچ کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور وہ انسان جو اس چاند کا پورے ایک ماہ تک مشاہدہ کرتا ہے اور غور کرتا ہے وہ تاثرات لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بدیع المسوات اور خالق جلال و جمال کی قدرت کی شان کیا ہے جس نے اس قدر عظیم اجرام سماوی کی یہ خوبصورتی اور یہ تنظیم عطا کی ہے۔ ہر شخص اس منظر سے بقدر ہمت ہدایت لے سکتا ہے۔ چاہے وہ اس عظیم کائنات کے ان رازوں کو جانتا ہے یا نہیں ۔ میں کہتا ہوں صرف رات کے وقت چاند کا مشاہدہ ہی انسانی دل کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ اس سے شعور بیدار ہوتا ہے اور انسان کے اندر غوروفکر کی عادت پڑتی ہے۔
Top