Fi-Zilal-al-Quran - Yaseen : 41
وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمْ : ان کے لیے اَنَّا : کہ ہم حَمَلْنَا : ہم نے سوار کیا ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد فِي الْفُلْكِ : کشتی میں الْمَشْحُوْنِ : بھری ہوئی
” ان کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیا ،
وایۃ لھم انا۔۔۔۔۔ الی حین (41 – 44) ۔ یہاں سیاق کلام میں ایک نہایت ہی لطیف مناسبت ہے ۔ ستارے اور سیارے بلند فضائے کا ئناتی میں تیر رہے ہیں اور کشتی اولاد آدم سے بھری ہے اور وہ پانیوں میں تیررہی ہے ۔ ان دونوں مناظر کے اندر ظاہری نسبت بھی ہے ، رفتار کی مناسبت بھی ہے ، اور یہ ربط بھی ہے کہ ان دونوں کو اللہ نے مسخر کرلیا ہے ۔ اور اللہ نے آسمانوں اور زمینوں کے اندر اپنی قدرت سے ان کو تھام رکھا ہے ۔ یہ دونوں مناظر انسانوں کی نظروں کے سامنے ہیں لیکن انسان ان پر غور نہیں کرتے۔ اگر انسان اپنے قلب کو کھول دے اور اپنے دماغ کو وسعت دے تو ان اور امور و تدبر کرکے وہ بڑی سہولت سے اللہ کی نشانیوں کو پاسکتا ہے ۔ بھری ہوئی کشتی سے مراد شاید کشتی نوح ہو جس نے اولاد آدم کو اٹھایا اور اس کے بعد اللہ نے ان کے لیے ایسی ہی دوسری کشتیاں پیدا کیں جو انسانوں کو اٹھا کر چلتی ہیں اور ان دونوں کو اللہ کے ان قوانین قدرت نے چلایا جو اس نے اس کائنات میں ودیعت کیے کہ کشتی پانیوں کی سطح پر تیررہی ہے ۔ سیارے آسمانوں کی فضاؤں میں تیر رہے ہیں اور لکڑی ، پانی اور ہوا ، بخارات یا ایٹمی قوت پیدا کی جس کی وجہ سے یہ بڑے بڑے جہاز چلتے ہیں ۔ یہ سب امور تقدپر الہٰی کے مطابق ہیں ۔
Top