Fi-Zilal-al-Quran - Yaseen : 43
وَ اِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِیْخَ لَهُمْ وَ لَا هُمْ یُنْقَذُوْنَۙ
وَاِنْ : اور اگر نَّشَاْ : ہم چاہیں نُغْرِقْهُمْ : ہم غرق کردیں انہیں فَلَا صَرِيْخَ : تو نہ فریاد رس لَهُمْ : ان کے لیے وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يُنْقَذُوْنَ : چھڑائے جائیں
ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں کوئی ان کی فریاد سننے والانہ ہو ، اور کسی طرح یہ نہ بچائے جاسکیں
وان نشا ۔۔۔۔۔ الٰی حین (36: 44) ” ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں ، کوئی ان کی فریاد سننے والانہ ہو ، اور کسی طرح یہ نہ بچائے جاسکیں۔ بس ہماری رحمت ہی ہے جو انہیں پار لگاتی اور ایک وقت خاص تک زندگی سے متمتع ہونے کا موقعہ دیتی ہے “۔ گہرے سمندروں میں کشتی کی حقیقت وہی ہوتی ہے جس طرح طوفان میں ایک پر کی ہوتی ہے ۔ جس قدر بھی کشتی بھاری اور بڑی ہو ، اور چاہے وہ بہت ہی اعلیٰ سائنسی اصولوں کے مطابق بنی ہو۔ اگر ان کشتیوں کے ساتھ اللہ کی رحمت اور شفقت نہ ہو تو وہ رات یا دن کے کسی بھی لمحے میں تباہ ہوجائیں ۔ وہ لوگ جنہوں نے سمندروں کا سفر چھوٹے بجرے میں ہواہویا بڑے بحری جہاز میں۔۔۔۔ وہ سمندر کی ہولناکی کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ سمندر کی طاقتور لہروں کے مقابلے میں انسانی بچاؤ کی تدابیر کس قدر معمولی ہوتی ہیں ۔ اس لیے ایسے لوگ اللہ کی رحمت کی اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس عظیم کائنات میں عالم طبیعت کے طوفانوں اور انقلابات کے مقابلے میں صرف اللہ کی رحمت ہے جس نے سرکش طبیعی قوتوں کی لگام تھام رکھی ہے ۔ زمین و آسمان میں اللہ کے دست قدرت کے سوا اور کوئی تمہیں ہے جس نے سب چیزوں کو تھام رکھا ہے ۔ یہاتک کہ قیام قیامت کا وقت آپہنچے جس طرح اللہ حکیم وخبیر نے اس کے لیے وقت مقرر کیا ہے ۔ ومتاعا الٰی حین (36: 44) ” پھر وقت خاص تک متمتع ہونے کا موقعہ دیتی ہے “۔ لیکن ان واضح ترین نشا نیوں کے باوجود لوگ غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے ہیں ۔ ان کی نظر ان نشانیوں پر نہیں پڑتی ۔ اور ان کے دل بیدار نہیں ہوتے اور وہ نگار اور تمسخرانہ انداز کو نہیں چھوڑتے ۔ اور بس انہوں نے یہی رٹ لگا رکھی ہے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو بس اسے لے ہی آؤ۔
Top