Fi-Zilal-al-Quran - Yaseen : 46
وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ
وَمَا : اور نہیں تَاْتِيْهِمْ : ان کے پاس آتی مِّنْ اٰيَةٍ : کوئی نشانی مِّنْ اٰيٰتِ : نشانیوں میں سے رَبِّهِمْ : ان کا رب اِلَّا : مگر كَانُوْا : وہ ہیں عَنْهَا : اس سے مُعْرِضِيْنَ : روگردانی کرتے
ان کے سامنے ان کے رب کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے ، یہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے
واذا قیل لھم۔۔۔۔ عنھا معرضین (36: 45 – 46) ” ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ بچو اس انجام سے جو تمہارے آگے آرہا ہے اور تمہارے پیچھے گزر چکا ہے ، شاید کہ تم پر رحم کیا جائے (تو یہ سنی ان سنی کر جاتے ہیں) ۔ ان کے سامنے ان کے رب کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے ، یہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے “۔ اور اگر ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنی دولت میں سے کچھ فقراء پر بھی خرچ کرو تو وہ مزاح کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ انطعم من ۔۔۔۔۔ ضلل مبین (36: 48) ” کیا ہم ان کو کھلائیں جنہیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلاتا ؟ تم تو بالکل ہی بہک گئے ہو “۔ مزاح کے علاوہ یہ لوگ ان لوگوں پر گمراہی کا الزام لگاتے جو ان کو دعوت انفاق دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے اس انداز گفتگو سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ انسانوں کی زندگی میں جاری وساری سنن الہیہ سے بالکل بےبہرہ ہیں۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ ہی سب کو کھلاتا ہے۔ اللہ ہی سب کا رازق ہے۔ زمین میں بندوں کے پاس جو دولت اور جو رزق ہے وہ اللہ ہی کا تخلیق کردہ ہے۔ انسانوں نے خود تو اپنے لیے کچھ پیدا کیا ہی نہیں ، اور نہ وہ کسی ایک چیز کی تخلیق پر قدرت رکھتے ہیں۔ لیکن اللہ کی مشیت یہ ہے کہ اس زمین کو انسان آباد کریں۔ اس لیے اللہ نے لوگوں کو ضروریات کا محتاج کیا۔ یہ ضروریات لوگوں کو صرف ان کی جہد اور سعی سے ۔۔ سکتی ہیں۔ زمین کے اندر زراعت کا انتظام صنعتوں کا انتظام پھر زمین کے خزانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا انتظام ۔ پھر ان اشیاء کی سپلائی اور خریدو فروخت مختلف زمانوں میں مختلف طریقوں سے۔ یہ سب انتظامات اللہ نے کیے۔ پھر لوگ اپنی قابلیت اور صلاحیت کے اعتبار سے مختلف اور متفاوت ہیں اور اللہ اپنی مشیت کے مطابق مختلف لوگوں کو مختلف صلاحیتیں دیں اور یہ اس لیے تاکہ انسان مل کر خلافت ارضی کے فرائض سر انجام دیں۔ انسان کی صلاحیتوں کے اندر تفاوت صرف مال اور دولت جمع کرنے ہی میں نہیں ہے۔ بلکہ بعض اوقات انسان دوسری ضروریات میں مصروف ہوتے ہیں اور یہ دوسرے میدان بھی خلاف ارضی کا تفاضا ہوتے ہیں۔ اس لیے بعض انسان مال دولت جمع کے کام کے لیے فارغ ہی نہیں ہوتے اور مالی لحاظ سے محتاج ہوتے ہیں۔ ایک طرف انسان کے منصب خلافت ارضی کے وسیع تقاضے ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صلاحیتیں ہوتی ہیں ۔ اور ان صلاحیتوں کے مطابق پھر انسانوں کے درمیان ضروریات اور منافع کا لین دین ہوتا ہے۔ لوگوں کے درمیان مقابلہ اور حصہ رسدی کا تعین ہوتا ہے۔ یہ ایک وسیع معاشی نظام ہے جس کی بیشمار کڑیاں ہیں اور ہر کڑی دوسری سے ملی ہوئی ہے بلکہ اس کا تعلق نسلوں سے بھی ہے۔ یعنی نسلا بعد نسل ایسے اسباب ہوتے ہیں جو لوگوں کی معاشی جدوجہد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ غرض معاشیات کے میدان میں مختلف اور متنوع اسباب کی بنا پر اللہ سے لوگوں کے درمیان دولت اور ان کے رزق میں تفاوت رکھی۔ یہ تفاوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے تو اس لیے رکھی گئی ہے کہ انسان خلافت ارضی کے منصب کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس زمین کی تعمیر و ترقی میں کوشاں رہے لیکن اس تفاوت کو حد اعتدال میں رکھنے کے لیے اسلام نے بعض انفرادی محرومیوں کا مداوا بھی کیا ہے۔ وہ یہ کہ اہل ثروت پر لازم ہے کہ وہ اپنی دولت کا ایک حصہ فقراء اور محرومین کے لیے نکالیں۔ اور معاشرے کے اندر کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے جو بنیادی معاشی ضروریات سے محروم ہو۔ ان انتظامات کی وجہ سے اغنیاء اور فقراء کی اخلاقی اور نفسیاتی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اس انفاق کے لیے اسلام زکوٰۃ لیتا ہے اور زکوٰۃ کے لغوی مفہوم میں طہارت کے معنی شامل ہیں۔ گویا یہ انفاق طہارت مال بھی ہے اور عبادت بھی۔ اور اس کے ذریعے اللہ نے فقراء اور اغنیاء کے درمیان محبت اور دوستی کا رشتہ بھی استوار کردیا ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کا جو حکمت خداوندی کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے : کہنا ، انطعم من لو شاء اللہ اطعمہ (36: 47) ” کیا ہم کو ان کو کھلائیں جنہیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا ؟ “ اور اس پر مزید پھر ان کی جانب سے انفاق کی دعوت دینے والوں پر یہ الزام ان انتم الا فی ضلل مبین (36: 47) ” تم تو بالکل ہی بہک گئے ہو “۔ دراصل حقیقی گمراہی ہے ۔ اور یہ لوگ اس کائنات میں جاری سنن الہیہ سے بیخبر ہیں۔ اور یہ لوگ اس جہاں میں زندگی کی حقیقی چلن اور اس کے متنوع معاشی اسباب سے بھی بیخبر ہیں۔ پھر اس جہاں میں اللہ نے جن مقاصد کی خاطر لوگوں کو متنوع صلاحیتیں دی ہیں اور جن کے نتیجے میں لوگ مختلف کام کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے پھر سامان زیست کا تبادلہ ہوتا ہے اور دنیا کا معاشی نظام چل رہا ہے۔ یہ لوگ اس سے بھی واقف نہیں ہیں۔ اسلام ایک ایسا نظام معیشت وضع کرتا ہے جس کے اندر تمام لوگوں کو کام کرنے کے آزادانہ مواقع حاصل ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد اسلامی نظام تمام لوگوں کے مختلف قسم کے کام کرنے کے آزادانہ مواقع فراہم بھی کرتا ہے۔ اور لوگ اس طرح پاک اور صاف زندگی بسر کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے عملی اقدامات سے معاشی ناہمواریوں کے حل کے لیے خصوصی اقدامات بھی کرتے ہیں۔ سب سے آخر میں بات ان کے اس خلجان پر ہوتی ہے۔ جو انہیں بعث بعد الموت کے سلسلے میں تھا۔ اور جس کی وجہ سے وہ اس قسم کا عقیدہ رکھنے والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔
Top