Fi-Zilal-al-Quran - Yaseen : 49
مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَ هُمْ یَخِصِّمُوْنَ
مَا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار نہیں کر رہے ہیں اِلَّا : مگر صَيْحَةً : چنگھاڑ وَّاحِدَةً : ایک تَاْخُذُهُمْ : وہ انہیں آپکڑے گی وَهُمْ : اور وہ يَخِصِّمُوْنَ : باہم جھگڑ رہے ہوں گے
دراصل یہ جس چیز کی راہ تک رہے ہیں وہ بس ایک دھماکہ ہے جو یکایک انہیں اس حالت میں دھرلے گا جب یہ (اپنے دنیوی معاملات میں) جھگڑ رہے ہوں گے ،
ما ینظرون الا۔۔۔۔۔۔ جمیع لدینا محضرون (49 – 53) “۔ “۔ جھٹلانے والوں کا سوال یہ تھا۔ ویقولون متی ھذا۔۔۔۔۔ صدقین (36: 48) ” یہ قیامت کی دھمکی کب پوری ہوگی ؟ بتاؤ اگر تم سچے ہو “۔ لہٰذا ان کا جواب اس منظر کی شکل میں دیا گیا۔ ما ینظرون الا۔۔۔۔ الی اھلھم یرجعون (36: 49 – 50) ” دراصل یہ جس چیز کی راہ تک رہے ہیں وہ بس ایک دھماکہ ہے جو یکایک انہیں عین اس حالت میں دھرلے گا جب یہ جھگڑ رہے ہوں گے اور اس وقت یہ وصیت تک نہ کرسکیں گے اور نہ اپنے گھروں کو پلٹ سکیں گے “۔ قیامت اچانک لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لے گی ، اس وقت وہ اپنے دنیاوی جھگڑوں یا مذہبی مباحثوں میں مصروف ہوں گے اور ان کو وقوع قیامت کی امید ہی نہ ہوگی ۔ اور نہ وہ اسے کچھ اہمیت دیں گے۔ لیکن وہ اچانک واقع ہوجائے گی۔ ہر شخص اسی حال میں گرفتار ہوگا۔ جس پر وہ اس وقت ہوگا۔ کسی کو آنے والوں کے بارے میں نہ وصیت کے مواقع ہوں گے۔ اور نہ ان کو اس قدر مہلت ہوگی کہ وہ گھر تک چلا جائے اور گھر والوں کے بارے میں نہ وصیت کے مواقع ہوں گے۔ اور نہ ان کو اس قدر مہلت ہوگی کہ وہ گھر تک چلا جائے اور گھر والوں سے کچھ کہہ دے۔ اور وہ ہوں گے کہاں ؟ کیونکہ گھر والے بھی جہاں ہوں گے اسی قیامت کی گرفت میں ہوں گے۔ اور اس کے بعد صور پھونکا جائے گا۔ ہر شخص اپنی قبر سے اٹھے گا اور جلدی سے دوڑ پڑے گا۔ یہ انتہائی درجے میں ہیبت زدہ اور دہشت زدہ ہوگا۔ ہر شخص دوسرے سے پوچھے گا۔ من بعثنا من مرقدنا (36: 52) ” ارے یہ کس نے ہماری خوابگاہ سے ہمیں اٹھا کر کھڑا کیا ؟ قدرے وقفے کے بعد اب دہشت ختم ہوگی تو اصل حقیقت ان کو معلوم ہوجائے گی۔ ھذا ما وعد۔۔۔۔ المرسلون (36: 52) ” یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کی بات سچی تھی “ اور اب آخری آواز ہوگی۔ ایک پکار اور یہ تمام بکھرے ہوئے پریشان اور حیران لوگ اللہ کے حضور حاضر ہوں گے فاذاھم جمیع لدینا محضرون (36: 53) ” اچانک سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کر دئیے جائیں گے “۔ اور سب کے سب صفوں کی صورت میں منظم کر دئیے جائیں گے اور یہ پیشی چشم زدن میں ہوگی اور صدائے بازگشت کی طرح ہوگی اور اس وقفہ و محل پر اللہ کا یہ فیصلہ سنایا جائے گا اور اعلان ہوگا کہ جزاء و سزائیں کسی کے ساتھ کوئی بےانصافی نہ ہوگی۔
Top