Fi-Zilal-al-Quran - Yaseen : 70
لِّیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ
لِّيُنْذِرَ : تاکہ ( آپ) ڈرائین مَنْ : جو كَانَ : ہو حَيًّا : زندہ وَّيَحِقَّ : اور ثابت ہوجائے الْقَوْلُ : بات (حجت) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : جمع کافر
تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پر حجت قائم ہو جائے
لینذر من ۔۔۔۔ الکفرین (36: 70) ” تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پر حجت تمام ہوجائے “۔ قرآن نے کفر اور حیات کو بالمقابل رکھا ہے۔ گویا کفر موت کے ہم معنی ہے۔ اور جس شخص کے دل میں ایمان کی استعداد ہو ، وہ زندہ ہے اور قرآن کا مقصد یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر اس لیے نازل ہوا ہے تاکہ آپ اس کے ذریعے ان لوگوں کو ڈرائیں جو زندہ ہوں ، جن لوگوں کے اندر زندگی کی رمق ہو ، وہ مر نہ گئے ہوں تاکہ ڈرانے کا انہیں فائدہ ہو۔ رہے کفار تو وہ مردے ہوتے ہیں۔ ان کو ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ نیز ڈرانے کا فیضہ اس لیے عائد کیا گیا ہے تاکہ وہ عذاب کے مستحق ہوجائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک کسی کو سزا نہیں دیتا جب تک اس تک اللہ کا پیغام پہنچ نہ جائے اور پھر وہ کفر نہ کر دے۔ اور پھر اگر اللہ انہیں ہلاک کر دے تو وہ بلا حجت اور بغیر سبب کے ہلاک نہ کیا جائے۔ یوں لوگوں کو معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن کے حوالے سے لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک فریق وہ ہے جو اسے قبول کرتا ہے تو وہ زندہ ہے اور ایک وہ ہے جو قبول نہیں کرتا تو وہ مردہ ہے۔ اور اس فریق کو معلوم ہوجائے کہ اس کے خلاف فیصلہ برحق ہوا اور وہ سزا کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اس سبق کے دوسرے ٹکڑے میں الوہیت اور وحدانیت کا مضمون بیان ہوا ہے۔ الوہیت اور وحدانیت کا یہ بیان لوگوں کے مشاہدات کے فریم ورک میں ہے کہ ذرا دیکھو کہ اللہ کے ان پر کس قدر انعامات ہیں جنہیں وہ استعمال کر رہے ہیں لیکن اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے۔
Top