Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 166
لٰكِنِ اللّٰهُ یَشْهَدُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ یَشْهَدُوْنَ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
لٰكِنِ : لیکن اللّٰهُ : اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے بِمَآ : اس پر جو اَنْزَلَ : اس نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف اَنْزَلَهٗ : وہ نازل ہوا بِعِلْمِهٖ : اپنے علم کے ساتھ وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے يَشْهَدُوْنَ : گواہی دیتے ہیں وَكَفٰي : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ اے نبی ﷺ جو کچھ اس نے تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے اور اس پر ملائکہ بھی گواہ ہیں ‘ اگرچہ اللہ کا گواہ ہونا بالکل کفایت کرتا ہے
(آیت) ” نمبر 166۔ اہل کتاب اس آخری رسالت کا انکار کرتے ہیں ‘ حالانکہ یہ رسالت اللہ کی سنت کے عین مطابق ہے کہ اللہ تعالیٰ خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے رسولوں کو بھیجتے رہتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو ہدایت دیں اور تاکہ لوگوں کے پاس قیامت کے دن کوئی حجت نہ رہے اور یہ کہ اہل کتاب حضرت محمد ﷺ سے قبل کے تمام رسل کو مانتے ہیں اور یہودی بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل کے تمام رسولوں کو مانتے ہیں اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ سے پہلے کے تمام رسولوں کو مانتے ہیں ۔ اگر باوجود ان حقائق کے یہ لوگ مان کر نہیں دیتے تو نہ سہی (مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ اے نبی جو کچھ اس نے تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے اور اس پر ملائکہ بھی گواہ ہیں اگرچہ اللہ کا گواہ ہونا بالکل کفایت کرتا ہے ۔ ) اس آیت میں قرآن کی سچائی پر اللہ کی گواہی ہے ‘ اللہ کے بعد فرشتوں کی گواہی ہے اور ان فرشتوں میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس قرآن کو رسول ﷺ کریم پر اتارا ۔ ان دو گواہیوں سے وہ دعوی ساقط ہوجاتا ہے جو اہل کتاب کرتے ہیں ۔ اگر اللہ گواہی دیتا ہے تو ان لوگوں کے انکار کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے ۔ اگر فرشتے گواہ ہیں تو انکا انکار چہ معنی دارد ۔ جبکہ اللہ کی شہادت ہی کفایت کرتی ہے ۔ اس شہادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو تسلی دیدی کیونکہ یہودی انکار حق کے ساتھ ساتھ رات دن سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں بھی مصروف تھے ۔ نیز اس شہادت کی وجہ سے اہل اسلام کو اطمینان دلانا بھی مطلوب ہے تاکہ وہ اپنے موقف پر اچھی طرح جم جائیں یہ یقین دہانی انہیں اس دور میں کی گئی جب وہ مدینہ میں نووارد تھے ۔ اس دور میں مدینہ کے یہودیوں نے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کا ایک طوفان برپا کر رکھا تھا اور وہ مختلف طریقوں ‘ مختلف اسالیب سے اسلام کو ختم کرنے کے درپے تھے اور قرآن کریم نے بھی اس دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں اس کا بھرپور جواب دیا ۔ یہاں آکر اب منکرین حق کو ایک تہدید آمیز دھمکی دی جاتی ہے ۔ اور اللہ اور فرشتوں کی شہادت کے بعد اب دھمکی ہی ان کے خلاف مناسب انداز ہے اس لئے کہ اس شہادت کے باوجود لوگ ہٹ دھرمی اور روگردانی میں مبتلا تھے ۔
Top