Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 171
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗ١ۚ اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ١٘ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ١۫ۚ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ١ؕ اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْ١ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ؕ سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ١ۘ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا۠ ۧ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ
: اے اہل کتاب
لَا تَغْلُوْا
: غلو نہ کرو
فِيْ دِيْنِكُمْ
: اپنے دین میں
وَ
: اور
لَا تَقُوْلُوْا
: نہ کہو
عَلَي اللّٰهِ
: پر (بارہ میں) اللہ
اِلَّا
: سوائے
الْحَقَّ
: حق
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
الْمَسِيْحُ
: مسیح
عِيْسَى
: عیسیٰ
ابْنُ مَرْيَمَ
: ابن مریم
رَسُوْلُ
: رسول
اللّٰهِ
: اللہ
وَكَلِمَتُهٗ
: اور اس کا کلمہ
اَلْقٰىهَآ
: اس کو ڈالا
اِلٰي
: طرف
مَرْيَمَ
: مریم
وَ
: اور
رُوْحٌ
: روح
مِّنْهُ
: اس سے
فَاٰمِنُوْا
: سو ایمان لاؤ
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَرُسُلِهٖ
: اور اس کے رسول
وَلَا
: اور نہ
تَقُوْلُوْا
: کہو
ثَلٰثَةٌ
: تین
اِنْتَھُوْا
: باز رہو
خَيْرًا
: بہتر
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
اللّٰهُ
: اللہ
اِلٰهٌ وَّاحِدٌ
: معبودِ واحد
سُبْحٰنَهٗٓ
: وہ پاک ہے
اَنْ
: کہ
يَّكُوْنَ
: ہو
لَهٗ
: اس کا
وَلَدٌ
: اولاد
لَهٗ
: اس کا
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
وَكَفٰي
: اور کافی ہے
بِاللّٰهِ
: اللہ
وَكِيْلًا
: کارساز
اے اہل کتاب ‘ اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ اور اللہ کی طرف حق کے سواء کوئی بات منسوب نہ کرو مسیح عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کی) پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ تین ہیں ۔ باز آجاؤ ‘ یہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے ۔ وہ پاک ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو ۔ زمین و آسمان کی ساری چیزین اس کی ملک ہیں ‘ اور ان کی کفالت وخبرگیری کیلئے بس وہی کافی ہے۔
(آیت) ” نمبر : 171۔ نصرانیوں کا عقیدہ تثلیث غلو فی الدین ‘ حدود سے تجاوز اور حق سے روگردانی ہے اس لئے اہل کتاب کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں وہی کچھ کہیں جو حق ہو ‘ مثلا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہے یا یہ کہ وہ تین میں سے ایک ہے ۔ ان کے ہاں نظریہ تثلیث مختلف ادوار کے اندر ان کی فکری اتار چڑھاؤ کے مطابق بدلتا رہا ہے ۔ لیکن اللہ کی طرف بیٹے کی نسبت کرکے انسان کی فطری ناپسندیدگی کی وجہ سے اور دور جدید کی عقلیت پسندی کی وجہ سے وہ اس ابنیت کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ اس بیٹے کی ولادت اس طرح نہیں ہوئی جس طرح عام بشر کی ولادت ہوتی ہے بلکہ اس کی حقیقت اس طرح ہے جس طرح باپ کو بیٹے سے محبت ہوتی ہے اور تین میں سے ایک کی تشریح وہ اس طرح کرتے ہیں جس طرح ایک کی تین صفات ہوتی ہیں ۔ اگرچہ آج تک وہ ان ناقابل فہم اور متضاد تصورات کو انسانی فہم وادراک کے اندر داخل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔ آخر کار انہوں نے یہ قرار دیا ہے کہ وہ غیبی معمے ہیں اور ان کی حقیقت کا ادراک اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کے رازوں سے پردہ اٹھائیں گے ۔ اللہ کی ذات شرکت اور مشابہت سے پاک ہے اور یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کی ذات اپنی مخلوق سے علیحدہ ذات ہو۔ خالق اور مخلوق کے درمیان جدائی اور مالک اور مملوک کے درمیان علیحدگی ایک قابل فہم تصور ہے جس کی طرف یہ آیت اشارہ کر رہی ہے ۔ (آیت) ” انما اللہ الہ واحد سبحنہ ان یکون لہ ولد لہ ما فی السموت والارض “۔ (4 : 171) (اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے ۔ وہ پاک ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو ۔ زمین و آسمان کی ساری چیزین اس کی ملک ہیں) اگر لوگوں کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بن باپ پیدا ہوجانا عجیب لگتا ہے اور وہ اس دنیا میں رات دن جو کچھ دیکھتے ہیں ‘ اس کے خلاف لگتا ہے تو یہ تعجب اس لئے ہوتا ہے کہ یہ واقعہ معروف اور متعاد طریقہ کار سے ذرا ہٹ کر ہے ۔ لیکن لوگ جس چیز کو روز دیکھتے ہیں وہ بھی پوری حقیقت نہیں ہے اور انکے سامنے یہ کائنات جن قوانین کے مطابق چل رہی ہے اللہ کی پوری سنت ان کے اندر محدود نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ تو ان سنتوں اور قوانین کا خالق ہے۔ وہ ان کو دہراتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے ان میں تصرف بھی کرسکتا ہے ۔ اس کی مشیت پر کوئی حد اور قید عائد نہیں ہے ۔ (آیت) ” انما المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ وکلمتہ القھا الی مریم وروح منہ (4 : 171) (مسیح عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کی) مختصرا یہ کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور انکی پوزیشن اور دوسرے رسولوں کی پوزیشن میں کچھ فرق و امتیاز نہیں ہے ۔ وہ وہی حیثیت رکھتے ہیں جو حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد ﷺ کی ہے اور وہ اسی برگزیدہ گروہ اور مختاران برائے منصب رسالت میں سے ایک ہیں جو انسانی تاریخ کے طویل ترین دور میں وقتا فوقتا مبعوث ہوتے رہے ۔ (آیت) ” وکلمتہ القھا الی مریم “۔ (4 : 171) (ایک فرمان تھا جو مریم کی طرف بھیجا “ قریب الفہم تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو براہ راست اپنے فرمان سے پیدا کیا ۔ اس تکوینی حکم اور فرمان کے لئے قرآن کن فیکون کے الفاظ استعمال کرتا ہے ۔ اللہ نے مریم کی طرف یہ حکم متوجہ کیا اور اس کے بطن میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تخلیق ہوگئی اور یہ کسی باپ کے نطفے کے بغیر ہوئی ۔ یعنی اس طرح نہ ہوئی جس طرح انسان کی عمومی زندگی کی روٹین میں ہوتا ہے اور اللہ کا یہ فرمان اور یہ کلمہ وہ ہے جو ہر چیز کو عدم سے وجود میں لایا ہے ۔ اس لئے یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بطن مریم میں اپنے حکم اور نفخ روح سے پیدا کردیں ۔ (آیت) ” وروح منہ) ” وہ اللہ کی طرف سے ایک روح تھی۔ “ تمام کتب سماوی کے ماننے والے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ نے آدم کو مٹی سے بنایا اور بنانے کے بعد اس میں روح پھونکی ۔ اس طرح وہ انسان کی شکل اختیار کر گئے ۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” اذ قال ربک للملئکۃ انی خالق بشرا من طین (71) فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی فقعوا لہ سجدین (72) (38 آیت 72۔ 72) (جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا : ” میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں ‘ پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جاؤ) اور یہی بات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمائی ۔ (آیت) ” والتی احصنت فرجھا فنفخنا فیھا من روحنا “۔ (21 : 91) ” اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی ۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح سے پھونکا “۔ اس لئے قرآن مجید کے مطابق مریم کے اندر جو روح پھونکی گئی اور اس کی جو تعبیر قرآن نے کی ویسی ہی تعبیر حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں بھی کی ہے ۔ اور دونوں جگہ نفخ روح کا ذکر ہے اور اہل کتاب میں سے کوئی اس بات کا قائم نہیں ہے کہ حضرت آدم ابن اللہ ہیں حالانکہ وہ سب تخلیق آدم کی کہانی اور آدم میں نفخ روح کے قائل ہیں ۔ نہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ آدم اقانیم الہیہ میں سے کوئی اقنوم ہیں ۔ جس طرح وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں قائل ہیں ۔ حالانکہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تخلیق اور نفخ روح کے لحاظ سے مکمل مشابہت پائی جاتی ہے ۔ بلکہ آدم (علیہ السلام) بغیر باپ اور بغیر ماں کے پیدا ہوئے تھے جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے کیس میں بالاتفاق ماں تو موجود تھی۔ یہی حقیقت قرآن کریم دوسری جگہ پیش کرتا ہے ۔ (آیت) ” ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون “ (3 : 58) ” اللہ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہوجاؤ اور وہ گیا “۔ انسان اس بات پر متعجب ہوتا ہے کہ ذاتی خواہشات اور بت پرستی کے غلط افکار نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے نہایت ہی سادہ اور قابل فہم مسئلے کو کس قدر چیستان بنا دیا ہے ۔ جس نے صدیوں تک کئی نسلوں کے ذہن کو پریشان کئے رکھا ۔ لیکن جب قرآن آتا ہے تو وہ بڑی سادگی کے ساتھ ایک چٹکی سے اس مسئلے کو حل کردیتا ہے ۔ اور اصل حقیقت واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے ۔ جو ذات باری حضرت آدم (علیہ السلام) کو بغیر والدین کے پیدا کرکے اسے روح دے سکتی ہے اور اسے تمام مخلوقات میں سے ممتاز اور برتر بنا سکتی ہے تو وہی ذات ہے جس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بن باپ پیدا کردیا اور یہ تمہیں کیوں حیرت انگیز نظر آتا ہے ۔ یہ بھی زندگی ہے اور وہ بھی زندگی ہے ۔ اور اللہ کا یہ کلام نہایت ہی واضح اور سادہ اور قابل فہم ہے ۔ بہ نسبت ان چیستانوں کے جو عیسائیوں کے ہاں رائج ہوئے اور ان کی انتہا الوہیت مسیح کی قرار داد پر ہوئی ۔ اس نتیجے تک وہ محض اس لئے پہنچے کہ ان کا کوئی باپ نہ تھا ۔ اور اسی کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کے تین اقنوم کے قائل ہوئے حالانکہ وہ اس تصور سے پاک اور بلند تر ہے ۔ (آیت) ” فامنوا باللہ ورسلہ ولا تقولوا ثلثۃ انتھوا خیرالکم “۔ (4 : 171) ” پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ ” تین “ ہیں ۔ باز آجاؤ یہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ “ اللہ اور رسولوں پر ایمان لانے کی اسی دعوت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بحیثیت رسول اور حضرت محمد ﷺ خاتم النبین شامل ہیں اور اس میں یہ بھی شامل ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں تم جن اساطیر اور جھوٹے دعوؤں پر یقین رکھتے ہو ‘ ان سے باز آجاؤ ۔ اس کی تفصیلات بعد میں مناسب مقام پر آرہی ہیں ۔ (آیت) ” انما اللہ الہ واحد “ (4 : 171) (بےشک اللہ تو ایک ہی خدا ہے) اور اس کی وحدانیت پر اس کائنات کے اندر جاری وساری واحد ناموس گواہی دے رہا ہے ۔ اس پوری مخلوقات کی وحدت ‘ اس پوری کائنات کی فطرت کو ایک ہی نہج پر ڈال رہی ہیں ۔ اور یہ نہج یہ ہے کہ اللہ نے کن کہا اور پھر سب کچھ ہوگیا ۔ پھر انسانی عقل بھی واحد الہ پر گواہ ہے اس لئے کہ ایک واحد مدبر الہ کا وجود انسان کیلئے قابل فہم ہے ۔ عقل انسانی کسی ایسے خالق کا تصور نہیں کرسکتی جو مخلوقات جیسا ہو ‘ نہ وہ تین خالقیں کا تصور کرسکتی ہے اور یہ بات تو سمجھ میں آتی ہی نہیں کہ تین بھی ہوں اور ایک بھی ہو ۔ (آیت) ” سبحنہ ان یکون لہ ولد “ (4 : 171) (وہ اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو) بیٹا تو اس لئے ہوتا ہے کہ باپ فانی ہوتا ہے اور اس صورت میں نسل کا تسلسل مطلوب ہوتا ہے ۔ اللہ تو ابد الاباد تک باقی ہے ۔ اسے کیا ضرورت ہے کہ ایک فانی کو اپنا بیٹا بنائے جب تمام وہ چیزیں جو زمین میں ہیں یا آسمانوں میں ہیں وہ اللہ کی ملکیت میں ہیں ۔ (آیت) ” لہ ما فی السموت والارض “۔ (4 : 171) ” آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں اس کی ملک ہیں “۔ اور بندوں کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ سب کے سب اللہ کے ساتھ رابطہ بندگی قائم کریں ۔ وہ تو سب کانگہبان اور محافظ ہے ۔ اور سب کا پالنے والا ہے ۔ اس لئے اللہ کے ساتھ رشتہ نکالنے کی کیا ضرورت ہے ۔ اللہ اور بندوں کے درمیان یہ تعلق قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کا کفیل اور وکیل ہے ، (آیت) ”(وکفی باللہ وکیلا “۔ (4 : 171) ” بندوں کی کفالت اور خبر گیری کیلئے وہی کافی ہے۔ “ یوں قرآن مجید اس حقیقت کو اس حد تک اجاگر کردیتا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے عقیدے کے بارے میں فیصلہ کردیتا ہے ۔ ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ احساس اور یہ شعور بھی دلایا جاتا ہے کہ اللہ ان کا کفیل اور نگہبان بھی ہے ۔ اللہ ہر وقت ان کی دیکھ بھال کر رہا ہے ۔ ان کی ضروریات کا بھی وہ کفیل ہے ۔ ان کے مفادات کا بھی وہ بندوبست کرنے والا ہے ۔ تاکہ وہ اپنے تمام امور اطمینان کے ساتھ اس کے حوالے کردیں ۔ اب سیاق کلام میں بات ذرا آگے بڑھتی ہے ۔ اب ہم نہایت ہی عظیم اور اہم نظریاتی مسئلے کی طرف آتے ہیں ۔ وہ اعتقاد اور نظریہ جو ایک انسان کے دل و دماغ میں عقیدہ توحید کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے یعنی یہ کہ اللہ خالق اور مالک ہے ۔ اور اس کے جوا اب میں انسان مملوک اور بندہ ہے ۔ اس لئے دو حقائق عقیدہ یا دو اجزاء عقیدہ توحید کے لازمی حصے ہیں یہ کہ اللہ حاکم ہے اور لوگ محکوم اللہ الہ ہے اور معبود ہے اور لوگ عابد اور غلام ‘ اور یہ کہ بندگی اور غلامی اس کرہ ارض کی تمام موجودات کیلئے ہے اور موجودات کی تمام اقسام و انواع اس کی بندگی میں ہیں ۔ یہاں قرآن کریم نصاری کے اس عقیدے کی تصحیح کرتا ہے جس کے مطابق وہ فرشتوں کو بھی اللہ کے بیٹے اور اولاد تصور کرتے تھے یا ان کو خدا کے ساتھ خدائی میں شریک کرتے تھے ۔ جس طرح وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو الوہیت میں شریک کرتے تھے ۔
Top